Saturday, 22 September 2018

کیا وحی کی اخلاقیاتی تعلیمات جیسا کہ راستے سے پتھر ہٹانا،سقراط سے لی گئ ہیں؟کیا حضرت موسٰی علیہ السلام ایک حقیقی شخصیت کی بجائے محض ایک افسانوی شخصیت ہیں ؟اسلام پر ملحدین کا سنگین اعتراض اور اس کا جواب

کیا وحی کی اخلاقیاتی تعلیمات جیسا کہ راستے سے پتھر ہٹانا،سقراط سے لی گئ ہیں؟کیا حضرت موسٰی علیہ السلام ایک حقیقی شخصیت کی بجائے محض ایک افسانوی شخصیت ہیں ؟اسلام پر ملحدین کا سنگین اعتراض اور اس کا جواب

تحریر۔۔۔احید حسن
************************************************
راستے سے پتھر ہٹانا تمام انسانیت کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے۔کل کو اگر کوئ مسلم کسی سے اچھی طرح بولنے کی تائید کرے تو کیا وہ بھی کسی اور مذہب سے اخذ شدہ ہوگا؟سقراط کی وفات 399 قبل مسیح کی ہے اور اس کا تعلق یونان سے تھا اور یونان براہ راست بابل کی تعلیمات سے متاثر ہوا ہوگاکیونکہ یونان کی سائنس اور فلسفہ قدیم میسوپوٹیمیا اور بابل سے متاثر ہوکر شروع ہوا، جو کہ قدیم عراق اور کئ مبارک انبیاء جیسا کہ نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ وسلم کی سرزمین رہا۔پھر کیا کہا جائے کہ یونانی حکماء و فلاسفر نے یہ اخلاقیاتی تعلیمات انبیاء سے حاصل کی یا کچھ اور۔یہ تاریخی تناظر دیکھا جائے تو نتیجہ الٹ نکلتا ہے کہ خود سقراط اور یونان وحی کی تعلیمات سے متاثر ہوا ہوگا.
یونانی فلاسفرز میں سقراط  کو خدا پرست کہا جاتا ہے۔اخلاقیات سقراط کا ایک اہم عنوان تھا اور سقراط ایک فلسفی تھا اور فلسفے کی تاریخ محض زیادہ سے زیادہ تین ہزار سال پرانی ہے اور فلسفے کا لفظ پہلی بار فیثا غورث  نے 570 قبل مسیح میں استعمال کیا جب کہ اخلاقیات کی پیغمبرانہ تعلیم اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔اب فلسفیانہ اخلاقیات وحی سے لیے گئے  ہاں گےیا وحی اخلاقیات سے؟خود فیصلہ فرمائے یہ سب تاریخی حقائق مدنظر رکھ کر
اور کوئ ملحد ثابت کر سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سقراط یا باقی یونانی فلاسفر کی تعلیمات کے عربی تراجم مکہ مکرمہ میں میسر تھے کہ جن سے نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثر لیا ہو؟ چلو عربی نہیں یونانی ہی ثابت کردو
یں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تمام مشہور یونانی فلاسفر کی تعلیمات کے عربی تراجم 750ء کے بعد بنو عباس کے دور میں شروع ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جون 632ء میں وفات پا چکے تھے۔کیا ان سب تاریخی حقائق کے بعد کوئ کہ سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تعلیمات نعوذ بااللہ یونان سے اخذ کی.
پومپی  روم کا قدیم شہر تھا جو ہم جنس پرستی کی وجہ سے 94ء میں آتش فشاں کے پھٹنے سے خدائ عذاب کا شکار ہوا۔اس کے آثار قدیمہ میں دیواروں پر ایسی پینٹنگ دریافت کی گئ ہیں جن میں حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مشیروں کے ساتھ ایک کرسی پر موجود ہیں اور اس بات کی گواہی موجود ہے جس کے مطابق یہودی قدیم روم اور یونان میں آباد تھے۔تورات کا 270 قبل مسیح میں یونانی میں ترجمہ ہوچکا تھا۔اب خود فیصلہ کیجیے کہ وحی کی اخلاقیاتی  اور دوسری تعلیمات سے روم و یونان متاثر ہوئے یا وحی یونان سے۔تاریخی حقائق اصل کہانی بیان کر رہے ہیں کہ حقیقت میں روم و یونان وحی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے نہ کی وحی روم و یونان سے۔
یہودی اہل کتاب ہیں۔ان کی تعلیمات میں یہ باتیں موجود تھیں۔تاریخ کے مطابق یہود چوتھی صدی قبل مسیح کے زمانے میں بھی یونان میں آباد تھے جن کو Romaniotes کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہود کا ایک اور گروہ قدیم یونان میں موجود تھا جسے Sephardi Jews کہا جاتا ہے۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وحی کی تعلیمات قدیم یونان میں یہود کے ذریعے پہنچ چکی تھی۔یہی وجہ ہے کہ سقراط جیسے خدا کی وحدانیت پرست فلاسفرز کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ تعلیمات یہود سے حاصل کی اور حالات و تاریخ کو دیکھ کر یہ امکان کسیہے طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہود موسٰی علیہ السلام کی شریعت کے پیروکار تھے اور موسٰی علیہ السلام کا زمانہ آج سے 1200 قبل مسیح میں بیان کیا گیا ہے دنیا کے اکثر مورخین کی طرف سے۔یہ اخلاقیاتی تعلیمات موسٰی علیہ السلام کی شریعت میں یہود کو دی جا چکی تھی اور بعد میں جب 598 قبل مسیح میں یروشلم کی بخت نصر کی طرف سے تباہی کے بعد دنیا کے مختلف علاقوں میں گئے ان میں یونان بھی شامل تھا۔اور ان کی تعلیمات کا وہاں کے معاشرے پر بھی اثر پڑا۔اس طرح عین ممکن ہے کہ خود سقراط نے یہ تعلیمات یہود سے اخذ کی جو وہاں آباد تھے۔
سقراط کی لکھی ہوئ کوئ بھی تصنیف موجود نہیں ہے۔اس کے بارے میں موجود تمام معلومات اور اس کا فلسفہ اور وہ اخلاقیاتی تعلیم جس سے ملحدین  وحی کو چوری کا الزام دے رہے ہیں،ثانوی ذرائع سے آئی ہے۔تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ سقراط نام کی کسی شخصیت کا حقیقی طور پر کوئ وجود نہیں تھا۔بذات خود جو فلسفہ اور تعلیم اس سے منسوب کی جاتی ہے اس میں بہت زیادہ تضادات ہیں جس کو مسئلہ سقراط یا Socrates problemکہا جاتا ہے۔اس کی زندگی کی تو حقیقی تاریخ کا بھی نہیں پتہ نہ ہی اس کے وقت اور جگہ کے بارے میں ٹھیک معلومات میسر ہیں۔یہاں تک کہ وہ ذرائع بھی جو سقراط کا بیان کرتے ہیں وہ بھی لازمی طور پر اس کے بارے میں کچھ مستند جاننے کا دعوی نہیں کرتے۔پھر بھی ملحدین کا خیال ہے کہ سقراط ایک حقیقی شخصیت جب کہ موسٰی علیہ السلام ایک فرضی شخصیت ہیں۔جس شخص کی تعلیمات تک کا نہیں پتہ،اس کے زمانے اور وقت تک کا ٹھیک سے نہیں پتہ،اس کے بارے میں ملحدین یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات اس سے لی گئ؟جس کے بارے میں کچھ ٹھیک نہیں پتہ اس کی شخصیت حقیقی ہے جب کہ موسٰی علیہ السلام کی شخصیت فرضی ہے۔؟سبحان اللٰہ۔پہلے ملحدین  اپنے حوالہ جات مستند کر لیں پھر اسلام پر الزام لگائیں۔
سقراط کے مقابلے میں موسٰی علیہ السلام کا تعلق جس قوم یعنی بنی اسرائیل سے ہے وہ اپنی ایک ایک تاریخ محفوظ رکھنے والی ہے،نسلی طور پر وہ اپنے اجداد اور اپنے مذہب پر بہت پختہ ہے۔ملحدین  کا کیا خیال ہے کہ اس نسل نے اپنے جد امجد یعنی موسٰی علیہ السلام کی زندگی کی تاریخ محفوظ نہیں کی؟ جب کہ اس قوم کے پاس اپنے قبیلے اور اپنے انبیاء کی اس سے کئ گنا زیادہ مستند تاریخ محفوظ ہے جتنی ملحدین  کے پاس سقراط کی۔پھر بھی ملحدین کا دعوی ہے کہ سقراط ایک حقیقی شخصیت ہے اور موسٰی علیہ السلام ایک فرضی شخصیت؟تورات کو اس وقت چھوڑ دیجیے۔صرف Book of exodus لیجئے جس کی تاریخ کے بارے میں خود مورخین کہتے ہیں کہ اس کی تدوین 600 قبل مسیح میں شروع ہوچکی تھی یعنی سقراط سے بہت پہلے اور اس میں موسٰی علیہ السلام کا واضح ذکر ہے۔سقراط کی تعلیمات اور زندگی کی کوئ مستند تاریخ میسر نہیں پھر بھی ملحدین کا کہنا ہے کہ موسٰی علیہ السلام ایک فرضی شخصیت ہیں اور سقراط حقیقی۔آپ کی تاریخ سے واقفیت اور سمجھ کو سلام۔سبحان اللٰہ.
ولیم جی ڈیور لکھتے ہیں
 scholarly consensus sees Moses as a legendary figure and not a historical person,yet we allow for the existence of a historical "Moses-like" figure
اس میں بالکل واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ ولیم اجازت دیتا ہے کہ موسٰی علیہ السلام جیسی ایک تاریخی شخصیت کو حقیقی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے پر دوسرے یہودی  مورخین کا ذکر ہے جو موسٰی علیہ السلام کی شخصیت کا وجود نہ صرف مانتے ہیں بلکہ ان کا زمانہ بھی بتاتے ہیں۔یہ پڑھیں

some scholars still discuss the possibility of a genuine historical figure of "Moses" in some form۔ Rabbinical Judaism calculated a lifespan of Moses corresponding to 1391–1271 BCE; Jerome gives 1592 BCE,and James Ussher 1571 BCE as his birth year.

آگے کے یہ حوالے واضح طور پر موسٰی علیہ السلام کی شخصیت کو حقیقی تسلیم کر رہے ہیں۔
ملحدین کا کیا خیال ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا بھی تاریخی طور پر کوئ وجود نہیں تھا؟William F. Albright اور Albrecht Alt جیسے ماہرین آثار قدیمہ حضرات ابراہیم علیہ السلام جیسی شخصیات کے وجود کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ حقیقی ہوسکتے ہیں یا فرضی۔لیکن بعد کے ماہرین آثار قدیمہ Thomas L. Thompson کی The Historicity of the Patriarchal Narratives،John Van Seters کی Abraham in History and Tradition کے مطابق ابراہیم علیہ السلام اور ان جیسے دیگر شخصیات حقیقی نہیں ہیں لیکن بعد کی لیکن اب خود William G. Dever نے ابراہیم علیہ السلام کا انکار کیا لیکن ستمبر 2016 کی دریافت کے مطابق ان کے وجود کے حقیقی ہونے کے بھی شواہد مل چکے ہیں۔اب ملحدین  کا کیا خیال ہے پیغمبروں کی تعلیمات میں اخلاقیات کی تعلیم نہیں ہوتی تھی،ارتقا کی تعلیم ہوتی تھی؟
حضرات ابراہیم علیہ السلام اور موسٰی علیہ السلام کے بارے میں اب ماہرین حقائق تسلیم کرنے لگے ہیں۔یہودکے بارے میں میں نے تاریخی حوالہ دیا جس کے مطابق یہود چوتھی صدی قبل مسیح میں قدیم یونان میں موجود تھے اور لازما ان کی تو رات میں موجود پیغمبرانہ تعلیمات کا وہاں کے معاشرے پر اثر پڑا ہوگا۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔یہ وہی وقت ہے جب سقراط بھی زندہ تھا۔
اور ذرا تاریخ کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک  Antiquity of jews بھی پڑھ لیجئے جو فلیویس جوزیفس کی تصنیف ہے۔اس میں واضح طور پر موسٰی علیہ السلام کی تاریخ بیان کی گئ ہے۔یہ وہ کتاب ہے جس کے حوالے ملحدین اسلام پر اعتراضات کے لیے پیش کرتے ہیں۔اب یہ کتاب خود موسٰی علیہ السلام کی شخصیت کو حقیقی تسلیم کر رہی ہے۔جب اسلام پہ اعتراض کرنا ہو تو یہ کتاب قابل اعتبار ہے ورنہ نہیں۔کیوں؟
 سقراط کی طرح موسٰی علیہ السلام پر بھی کئ مورخین کی طرف سے لکھا گیا ہے۔ ملحد مورخین نہ مانیں تو کیا اعتماد۔اگر سقراط کی پہچان اس کے شاگردوں کی تصنیف ہے تو موسٰی علیہ السلام کے وجود کی وضاحت تورات کی Book of exodus,book of number and Deuteronomy سے ہے جس کے قدیم نسخوں کا اندازہ آرکیالوجی سے ساتویں صدی قبل مسیح کا لگایا گیا ہے یعنی سقراط سے بھی پہلے۔پھر بھی سقراط اپنی تعلیمات سے ثابت یے لکن موسٰی نہیں۔ یہ دوغلا معیار کیوں۔اصل بات یہنہیں پے کہ خدا کے منکر ملحد مورخین وحی پر ایمان نہینلانے رکھتے اور ان شخصیات کے وجود کے لیے دوسرے ذرائع پر ایمان رکھتے ہیں جب کہ اب دوسرے ذرائع بھی موسٰی علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے وجود کو تسلیم کر چکے ہیں۔
تاریخی حقائق پڑھ لیجیے۔ ملحدو!تاریخ کی اندھی تقلید نہ کیجیے ورنہ گمراہ ہی رہیں گے۔تاریخ کہتی ہے کہ قدیم یونان میں یہودی چوتھی صدی قبل مسیح میں موجود تھے اور یہی وہ زمانہ ہے جب سقراط پیدا ہوا۔پھر کس طرح ہم اس امکان کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ یہ تعلیمات یہود سے اخذ شدہ ہوسکتی ہیں یا سیدھا انکار کردیں کہ یہود سقراط کے وقت میں یونان میں تھے ہی نہیں۔پھر ہم  اس کا بھی حوالہ پیش کر کےبتا دیں گے ان شاء اللہ.
باقی یونانی فلاسفرز کے برعکس سقراط خدا کے وجود کا نہ صرف قائل تھا بلکہ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کا قائل تھا بلکہ بعض اوقات تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ پیغمبر تھا جب کہ اسلام کے مطابق ایسی کوئ حوالہ نہیں۔اب ایک ایسا بندہ جو خدا کی ذات کا اتنا بڑا قائل ہو اس کے بارے میں ملحدین کہتے ہیں کہ سقراط نے مذہب کے خلاف بغاوت کی۔سبحان اللٰہ۔اصل بات یہ تھی کہ اس نے یونان کے باقی سب خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کی تعلیم دی جسے وہ God of Delphi کہتا ہے۔یہی اس کا قصور تھا کہ اس نے وحدانیت کی تعلیم دی۔جو کہ وحی کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔حوالہ ملاحظہ کریں
https://www.megaessays.com/viewpaper/59693.html
یہ محض ایک حوالہ تھا۔ایسے کئ حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں۔
سقراط کی اخلاقیاتی تعلیم جدلیاتی ہو یا دوسری اس پر یونان میں موجود باقی یہود کے اثرات کے امکان  کا انکار ملحدین کیسے کر سکتے ہیں۔یا  سیدھا کہ دیں کہ اس زمانے میں یونان میں یہود تھے ہی نہیں۔
یہ سارے تاریخی حقائق دیکھنے کے بعد ملحدین کا وحی پر اخلاقیاتی تعلیمات سقراط سے چوری کرنے اور موسٰی علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو فرضی وجود قرار دینے کا الزام سو فیصد غلط ہے۔اس پر مزید تحقیق کر چکا ہوں۔تفصیلی مضمون ان شاء اللہ کبھی بعد میں۔


کیا سپین کا فقہ مالکی کا مشہور سپینی فلسفی ابن رشد ملحد تھا؟کیا ابن رشد کی کتابوں کو مولویوں نے آگ لگادی تھی؟
ابن رشد کے فلسفے اور اس حوالے سے اسلام پر سیکیولر اور ملحدین طبقے کے اعتراضات اور ان کا تاریخی دلائل سے جواب
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن رشد خالص عقلیت پسند تھا ۔اس کا نقطہ نظریہ تھا کہ صرف چند الہامی عقائد کو چھوڑ کر ہر ایک شے کو عقل اور دلیل سے پرکھنا چاہیے۔اس طرح وہ فلسفے کی روسے مذہب کا منکر نہیں تھا۔
اس نے  اپنا نظریہ ’’حقیقت دوگونہ‘‘پیش کیا جس کے مطابق حقیقت کے دو رخ ہیں ایک مذہبی دوسرا فلسفیانہ یا عقلی۔ لہذا مذہبی عقائد میں فلسفے کو دخل نہ دینا چاہیے اور عقل و فلسفے کے مسلمات کو عقائد کی روشنی میں جانچنا چاہیے۔
اس طرح وہ فلسفے کی رو سے مذہب کا منکر نہیں تھا بلکہ مذہب کی الگ اور فلسفے کی الگ تشریح چاہتا تھا۔
لیکن اس کے حاسدین نے اس کے اس نظریے کو الحاد کے نام سے مشہور کر کے خلیفہ کو اس کے خلاف کر دیا۔
بعد میں جب حقیقت کھلی تو خلیفہ شرمندہ ہوا اور ابن رشد کو دوبارہ دربار میں جگہ دے دی۔
یہ ایک انتہائ اہم نقطہ ہے جس پر سیکولر اور مذہبی طبقے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ابن رشد کے فلسفے اور مذہب کے بارے میں نظریات ملاحظہ فرمائیں
فلسفہ اور مذہب کے بارے میں ابن رشد کا خیال یہ ہے کہ دراصل ان میں کوئی اختلاف یا تعارض نہیں بلکہ فلسفہ مذہب کے متوافق ہے اور مذہب فلسفہ کا موید ہے۔ مذہب وحی رس ہونے کی وجہ سے حق ہے اور فلسفہ عقل انسانی کی تحقیق ہونے کی بنا پر لہٰذا دونوں صداقتوں میں جبکہ وہ برابر درجہ کی صداقتیں ہیں کوئی واقعی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ قرآن خود بار بار غوروفکر کرنے یا عقل کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے لیکن عقل کو استعمال کرنے کے لیے یا فکر کو صحیح نتائج تک پہنچانے کے لیے کچھ قوانین ضروری ہیں اور ان قوانین کو فلاسفہ نے معلوم کیا ہے لہذا فلسفہ اور اسکی کتابوں کا پڑھنا ضروری ہے۔
ابن رشد کے نزدیک مذہب یا قرآن کی دو حیثیتیں ہیں:
(1) اسکے لفظی و ظاہری معنی
(2)اسکی تفسیر اور تاویل
قرآن میں کوئی بات بظاہر فلسفہ کے خلاف ہو تو یقیناً اسکی تہہ میں کوئی اور معنی و مطلب ضرور ہیں لہذا ان ظاہری معنی کی تاویل کر کے اسکو فلسفہ کے مطابق کر دینا چاہیے۔ لفظی و ظاہری معنی محض عوام الناس کے لیے ہیں اور تاویل خاص علما کے لیے۔فلاسفہ کو قرآن میں تاویل و توجیہہ کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ علما کو یہ قید لگانے کا حق حاصل نہیں کہ کہاں تاویل ہو اور کہاں نہ ہو۔ البتہ جو لوگ حقائق کا علم رکھتے ہیں انکو ان فلسفیانہ تاویلات کو عوام پر ظاہر نہ کرنا چاہیے۔ ہر طبقہ کے افراد سے انکی عقل کے مطابق گفتگو کرنی چاہیے۔ فلسفہ کی کتابوں کو عام لوگوں کے ہاتھ نہ پہنچنا چاہیے بلکہ انکو قانوناً روک دینا چاہیے۔
ابن رشد کے نزدیک عام لوگوں کے قرآن کے صرف ظاہری معنی کا عقیدہ رکھنا چاہیے اور اس سے زیادہ گہرے تعلق صرف خواس یا فلاسفہ کے لیے محدود رہنے چاہئیں اور ان فلاسفہ کے لیے قرآن میں تاویل کرنا جائز ہے تا کہ وہ اعلی صداقت کی روشنی میں اسکے مطلب کو سمجھ سکیں۔ مذہب اور فلسفہ میں علم و عمل کا تعلق ہے۔ فلسفہ صداقت کی اعلی ترین صورت کا نام ہے اور مذہب کا مدعا عمل ہے۔
بعض ناقدین کے نزدیک ابن رشد کے تین خیالات ایسے ہیں جو اسکو مذہب سے دور کرتے ہیں۔ حالانکہ خود اسکی رائے میں یہ نظریے مذہب کے حکیمانہ تعبیر کے منافی نہیں تھے:
(1)عالم مادی کا قدیم ماننا اور اسکو حرکت دینے والی عقول کو قدیم ماننا۔
(2)سلسلہ علل و معلولات کا واجب جاننا جس کی بنا پر معجزات یا خدا کی وحدت مطلقہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
(3) انفرادی وجود یا روح کی فنائیت کا قائل ہونا جسکی بنا پر انفرادی بقا کا مذہبی دعوی صحیح نہیں رہتا۔
ابن رشد کو نشانہ بنایا جانا محض مذہب کی وجہ سے نہیں تھا۔اس میں حاسدین کا عنصر شامل تھا جو ابن رشد کی تحقیقات سے حسد کرتے تھے۔اور ان لوگوں نے ابن رشد کے خلاف مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔وہ لوگ کوئ دیندار طبقہ یا علماء نہیں تھے بلکہ ابن رشد کے حاسدین تھے جو اس سے جلتے تھے اور خلیفہ بھی ان کی باتوں میں آگیا لیکن جب خلیفہ کو پتہ چلا کہ یہ سب محض حسد کی وجہ سے کیا گیا ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوا اور ابن رشد سے راضی ہوگیا اور اسے دوبارہ اپنے دربار میں جگہ دی۔ان حاسدین کے حسد کا الزام اسلام پسند طبقے کو دینا بالکل غلط ہے کیونکہ اسلام خود حسد کی مذمت کرتا ہے اور حسد کو نیکیوں کا قاتل قرار دیتا ہے۔
یہ تفصیل ملاحظہ کیجیے کہ یہ حاسدین کی کارستانی تھی۔یہ پڑھیں

"ابن رشد نے اشبیلیہ میں قاضی کا منصب سنبھالا اور خلیفہ الموحدی ابی یعقوب یوسف کے کہنے پر ارسطو کے آثار کی تفسیر لکھنی شروع کی، وہ خلیفہ کی خدمت میں مشہور فلسفی ابن طفیل کے ذریعے سے آئے تھے، پھر وہ قرطبہ چلے گئے اور قاضی القضاہ کا منصب سنبھالا، اس سے دس سال بعد مراکش میں خلیفہ کے خاص طبیب کی حیثیت سے متعین ہوئے۔

مگر سیاست اور نئے خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور (1184-1198) کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے خلیفہ کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے قاضی القضاہ اور طبیبِ خاص پر کفر کا الزام لگا کر اسے الیسانہ (قرطبہ کے پاس ایک چھوٹا سا شہر جس میں زیادہ تر یہودی رہتے ہیں) ملک بدر کردے، خلیفہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگادی اور طب، فلک اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عائد کردی۔

آگ نے حاقدین کے الزامات کی بیچ کہ یہ فلسفی حق وہدایت کے راستہ سے بہک گیا ہے ایک عظیم دماغ کے نچوڑ اور برسا برس کی محنت کو جلاکر خاکستر کردیا.. بعد میں خلیفہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ ابی الولید سے راضی ہوگئے اور انہیں اپنے دربار میں پھر سے شامل کرلیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور زندگی کے چار دن دونوں ہی کے پورے ہوچکے تھے.. ابن رشد اور خلیفہ المنصور دونوں ہی اسی سال یعنی 1198ء عیسوی کو مراکش میں انتقال کرگئے۔"
لہذا اسلام پسند طبقے پر یہ اعتراض کہ انہوں نے ابن رشد کو زلیل کیا،غلط ہے۔یہ ساری کارستانی اس کے حاسدین کی تھی۔
ابن رشد کے فلسفے کی کتابوں کے جلائے جانے کا الزام قرطبہ کے مولوی طبقے کو دیا جاتا ہے جب کہ اس میں مولوی طبقے کا ہاتھ ہی نہیں تھا۔سبط حسن جیسے جاہل ملحد و لبرل اسے مولوی طبقے کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی پوری حقیقت حوالے کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں

Abdelwahid al-Marrakushi writing in 1224, reported that there were secret and public reasons for his falling out of favor with Yaqub al-Mansour

And in his days [Yaqub al-Mansur], Abu al-Walid Ibn Rushd faced his severe ordeal and there were two causes for this; one is known and the other is secret. The secret cause, which was the major reason, is that Abu al-Walid —may God have mercy on his soul— when summarizing, commenting and expending upon Aristotle's book "History of Animals" wrote: "And I saw the Giraffe at the garden of the king of the Berbers".
And that is the same way he would mention another king of some other people or land, as it is frequently done by writers, but he omitted that those working for the service of the king should glorify him and observe the usual protocol. This was why they held a grudge against him but initially, they did not show it and in reality, Abu al-Walid wrote that inadvertently...Then a number of his enemies in Cordoba, who were jealous of him and were competing with him both in knowledge and nobility, went to Yaqub al-Mansur with excerpts of Abu Walid's work on some old philosophers which were in his own handwriting. They took one phrase out of context that said: "and it was shown that Venus is one of the Gods" and presented it to the king who then summoned the chiefs and noblemen of Córdoba and said to Abu al-Walid in front of them "Is this your handwriting?". Abu al-Walid then denied and the king said "May God curse the one who wrote this" and ordered that Abu al-Walid be exiled and all the philosophy books to be gathered and burned...And I saw, when I was in Fes, these books being carried on horses in great quantities and burned

حوالہ۔۔۔

Abdelwahid al-Marrakushi, al-Mojib fi Talkhis Akhbar al-Maghrib [The Pleasant Book in Summarizing the History of the Maghreb], pp. 150–151 (1224), King Saud
اس وقت کے ایک عینی شاہد کا یہ حوالہ ظاہر کر رہا ہے کہ کس طرح اصل واقعے اور حقیقت کو بگاڑ کر اس سارے واقعے کا الزام سپین کے مولوی طبقے کو دیا گیا اور ساتھ ہی مالکی فقہ کے مقلد اس فلسفہ کو یورپی مستشرقین و ملحدین نے ملحد ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی۔
تاریخ کا وہ منظر یاد کیجئے جب منگولوں نے بغداد پر یلغارکی تو علم کے پیش بہا خزانے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو مسمار کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ الکندی کے ذاتی کتب خانے کو ضبط کرنے کے بعد سرِ عام پچاس کوڑوں کی سزا دی گئی۔ الرازی کو سزا کے طور پر اس کے سر پر اس کی اپنی کتاب اس زور سے ماری گئی کہ اس کی بینائی چلی گئی۔ ابن سینا کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے۔ ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا گیا، اس کی قبر کھود کر مسمار کرنے اور اس کی کتابیں جلادینے کی تجویز پیش کی گئی۔ ابن رشد کو جلا وطن کیا گیا اور ان کی کتب قرطبہ چوک میں نذر آتش کی گئیں۔۔۔۔ اسی طرح سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ ارشمیدس کو رومن سپاہی نے قتل کر دیا۔ رومن کیتھولک کلیسا نے سائنسدانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ گلیلیو کو زندان میں پھینک دیا گیا۔ جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر ماردیا گیا۔
یہ سب ہر طبقے و معاشرے میں اہل علم حضرات کے ساتھ ہوا ہے لیکن سیکولر حضرات باقی مذاہب اور خود یورپ میں ہونے والے اہل علم حضرات کے ساتھ سلوک کو بھول جاتے ہیں اور اپنا نشانہ اسلام اور مولوی طبقے کو دیکھتے ہیں۔
اس پر میں نے بہت پڑھا اور دو نتیجے اخذ کیے۔
ایک یہ کہ ابن رشد فلسفے کی رو سے مذہب کا منکر نہیں تھا
دوسرا یہ کہ حاسدین کی طرف سے اس کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کا الزام قرطبہ کے مولوی طبقے کو دینا غلط ہے۔
ان سرگرمیوں کی وجہ مذہبی نہیں تھی بلکہ حسد تھا جس کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے اس کے فلسفے کو مذہب کے خلاف بیان کر کے خلیفہ کو بھڑکا دیا جب کہ وجہ مذہبی سے زیادہ ذاتی تھی۔
اس سے صرف مسلمانوں کی نہین یورپ کی تاریخ بھی بھری پڑی ہے لیکن ان کو میڈیا بدنام نہیں کرتا جیسا ہمیں بدنام کہا جاتا ہے۔
یورپ میں جو ہوا اہل علم حضرات کے ساتھ اس کی تفصیل کبھی آپ کو بتاؤں گا ان شاء اللہ۔
حوالہ جات۔۔۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/ابن_رشد_(فلسفی)
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Averroes
https://sabzkhazaan.wordpress.com/tag/pakistan/
http://niazamana.com/2015/11/arshad-latif-khan-muslim-knowledge/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔