Saturday, 22 September 2018

نظریہ ارتقاء۔۔۔ایک دھوکہ-قسط نمبر سوم

نظریہ ارتقاء۔۔۔ایک دھوکہ
قسط نمبر سوم
تحریر۔۔۔ہارون یحیٰی copied from sir Zeeshan Ahmad
======================================
دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کو یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ سائنسدانوں کے بھی الگ فلسفے اور فکریاتی تعصب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقائی سائنسدان دراصل اپنے ذاتی فلسفے اور تعصبات عام لوگوں کے اوپر سائنس کے نام پر مسلط کرتے ہیں۔ مثلاً ان سائنسدانوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ارتقائی حالات بدنظمی اور پریشانی کے علاوہ اور کچھ پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ضد کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود جانداروں کا زبردست نظام، نقشہ اور منصوبہ محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ارتقائی نوعیت کے ماہرِ حیاتیات کے لئے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی جاندار کی بنیادی نامیاتی اکائیوں میں اس قدر حیران کن نظم ہے کہ ان کے محض اتفاق سے وجود میں آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود یہ سائنسدان پھر بھی ٹھوس دعوے کرتا ہے کہ یہ نامیاتی اکائیاں زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات کے زیر اثر اتفاق سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آئیں۔ یہ مزید کسی شک و شبہ کے یہ بھی دعویٰ کرتاہے کہ یہ اکائیاں پھر حیرت انگیز طور پر آپس میں باہمی تعلق کے ذریعے پہلے خلیئے میں تبدیل ہوگئیں۔ اپنے ان دعوﺅں کی وہ ہٹ دھرمی اور اندھی ضد سے حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک ارتقائی سائنسدان کی مثال ہے جوکہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اپنے ذاتی فلسفے کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔ سائنسدان چونکہ لوگوں پر ایک عقلمند فرقہ ہونے کا تاثر چھوڑتے ہیں اس لئے یہ سائنسدان اپنے پیشے کے اس تاثر کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر یہی سائنسدان سڑک پر تین ایک کے اوپر ایک رکھی ہوئی اینٹوں کو دیکھیں وہ کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ یہ اینٹیں اتفاقاً اس طرح ہوگئیں۔ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا پاگل قراردیا جائے گا۔ اسی لئے یہ صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہی لوگ جو عام حالات میں عام واقعات کے منطق کو تو سمجھ لیتے ہیں پر اپنے وجود کے متعلق ایسی ہی منطق کو سمجھنے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ یہ رویہ سائنسی ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ سائنس کا قانون ہر واقعہ کے دونوں پہلو پرکھنے پر زوردیتا ہے اس سے پہلے کہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ اگر ایک پہلو کا امکان ۱ فیصد ہو اور دوسرے کا امکان 99فیصد ہو تو پھر زیادہ امکان والا پہلو ہی نتیجہ قراردیا جاتا ہے۔
اگر اکائیوں کی حیاتیات کا سائنسی تحقیق کی روشنی میں غیر جانبدارانہ معائنہ کیا جائے تو عقل اس بات کو تسلیم کرہی نہیں سکتی کہ جانداروں کے جسم کا واحد خلیہ اور اس خلیئے میں موجود لاکھوں نامیات کسی ایسے اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جس کا دعویٰ ارتقاءپسندوں کو ہے۔ آنے والے بابوں میں اس بات کا ممکنہ توجیحات کی شماریات کے ساتھ مزید معائنہ کیا جائے گا کہ ارتقائی نظریئے کا درست ہونے کا دراصل ایک فیصد امکان بھی نہیں ہے۔ 
ترکی کے ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات کی لکھی ہوئی کچھ باتیں ارتقاءسے متعلق غیر منظم فیصلوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ سائنسدان زندگی کے اہم ترین لحمیہ سائٹوکروم۔ سی کے اتفاقاً وجود میں آنے کے بارے میں ممکنہ توجیح پیش کرتا ہے۔
”سائٹو کروم۔ سی کے سلسلے کا اتفاقاً وجود میں آجانے کا امکان صفر ہے۔ اگر زندگی کو کسی ایسے حیاتیاتی سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پوری کائنات میں صرف ایک دفعہ ہی وجود میں آسکتا ہے۔ اس کی تخلیق میں کسی ایسے مابعدالطبعیاتی طاقت کا ہاتھ ہے جو کہ ہماری سمجھسے بالا ترہے۔ چونکہ سائنس اس دوسری صورتحال کو قبول نہیں کرتی اس لئے ہمیں پہلے مفروضے کو منظور کرنا پڑتا ہے.“
یہ اسی مادہ پرست نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ سائنسی حلقوں کے بڑے بڑے نام دہریہ ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو اس اسرار سے آزاد کرلیتے ہیں اور کھلے دماغ سے سوچتے ہیں وہ اپنے خالق کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ امریکن ماہرِ حیاتیاتی کیمیا ڈاکٹر مائیکل بیہی کا نام تخلیق کی حقیقت کے حامیوں میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر بےہی نے ان مادہ پرست سائنسدانوں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
”پچھلی چار صدیوں میں جدید حیاتیاتی کیمیا کی تحقیق کے ذریعے خلیوں کے تمام راز آشکار ہوچکے ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال اس محنت طلب کام میں وقف کردیئے ہیں۔ لحمیاتی سطح پر زندگی کی تحقیق کا نتیجہ ایک زوردار ’ تخلیق !‘کے نعرے کی صورت میں موصول ہوا ہے۔ یہ نتیجہ اس قدر غیر مبہم اور اہم ہے کہ اس کو سائنس کی تاریخ کی سب سے زبردست کامیابی قرردیا جاسکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر سائنسی حلقوں نے اس کامیابی کا جشن ایک غیر معمولی اور شرمندہ خاموشی سے منایا ہے۔ سائنسی حلقے اس حیران کن دریافت کو نویدگی سےکیوں نہیں پرھتے؟ اس عظیم نقشے کو شعور اور عقل و فہم سے کیوں جانچا جارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں اس موضوع کا ایک پہلو دانشمند نقشہ ہے وہیں اس کا دوسرا پہلو نتیجتاً اور لازماً خدا ہے۔“
یکن یہ تمام سائنسدان ان مادی عقیدوں کی تعلیم کو جذب کرنے کی وجہ سے اسقدر بے حس اور اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے انکار پر مستقل قائم ہیں کےونکہ جو لوگ اپنے تخلیق کار کے ثبوت اور شواہد کی نفی کرتے ہیں وہ بے حس ہوجاتے ہیں۔ یہ بے حسی ان کے اندر ایک جاہلانہ خود اعتمادی پیدا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک مکمل خرافات کو ایک اخلاقی بلندی اور وصف تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نامور ارتقاءدان رچرڈ ڈاکنز کی یہ بات ہے جو اس نے عیسائیوں سے کہی کہ اگر بی بی مریم کا بت بھی تمہیں ہاتھ ہلائے تو یہ ہرگز مت سمجھنا کہ تم نے کوئی معجزہ دیکھا ہے۔ڈاکنز کے الفاظ میں:
﴿ ”شاید اس بت کے بازوﺅں کے ذرے یا خلیے اتفاقاً ہی ایک سمت میں ہلنا شروع ہوگئے۔ اگرچہ ایسا ہونے کی ممکنہ توجیہ بے انتہا کم ہے پھر بھی یہ ممکن تو ہے۔“ بے دین لوگوں کی نفسیات تاریخ میں ایک سی ہی رہی ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر سورةالانعام کی آیت نمبر 111میں آتا ہے۔ ﴾
’اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے اٹھا لاتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں بہت نرے جاہل ہیں‘۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ارتقاءپسندوں کی یہ کٹر طرزِ سوچ ہمیشہ سے ان کا خاصہ رہی ہے اوراس میں کوئی نےا یا قابل حیرت عنصر نہیں ہے ۔بلکہ ارتقائی سائنسدانوں کی یہ طرزِ فکر اور سوچ کوئی جدید سائنسی رجحان بھی نہیں بلکہ قدیم ترین دہریہ تہذیبوں کا عام نقطہ نظر تھا۔ قرآن میں اس نفسیات کے اوپر آیا ہے کہ:
﴿ اور اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں کہ دن کو اس میں چڑھتے ﴾ (سورة الحجر آیت نمبر41)
﴿ جب بھی یہی کہتے کہ ہماری نگاہ باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو ہوا ہے۔ ﴾ (سورة الحجر آیت نمبر 51)
جاری ہے۔۔۔
حوالہ جات:

Ali Demirsoy, Kalıtım ve Evrim (Inheritance and Evolution), Ankara: Meteksan Publishing Co., 1984, p. 61.
 Michael J. Behe, Darwin's Black Box, New York: Free Press, 1996, pp. 232-233.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔