Monday 3 September 2018

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے وحی کی جگہ نعوذ بااللہ شیطانی الفاظ جاری ہوسکتے ہیں؟نعوذ بااللہ کیا وحی میں شیطانی الفاظ کی آمیزش کی گنجائش موجود تھی؟قرآن پاک پر ملحد سید امجد حسین اور ایاز نظامی کے ایک سنگین اعتراض کا جواب

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے وحی کی جگہ نعوذ بااللہ شیطانی الفاظ جاری ہوسکتے ہیں؟نعوذ بااللہ کیا وحی میں شیطانی الفاظ کی آمیزش کی گنجائش موجود تھی؟قرآن پاک پر ملحد سید امجد حسین اور ایاز نظامی کے ایک سنگین اعتراض کا جواب
(افسانہ غرانیق اور اس کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
(ترتیب و تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن)
(حصہ اول)
ملحد ایاز نظامی  اور سید امجد حسین لکھتے ہیں  کہ سلف محدثین، مؤرخین اور مفسرین نے شیطانی آیات والے واقعہ غرانیق کو 'صحیح'اسناد اور کئی طریقوں سے نقل کیا ہے۔اس کے لیے وہ تفسیر بغوی سے درج ذیل حوالہ نقل کرتا ہے
تفسیر البغوی، تفسیر سورۃ الحج آیت 52 :
حضرت عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ تمنا (عربی لفظ: 'تمنی') تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین  کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے ("کیا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا، اور تیسری اس دیوی منات کو") تو شیطان نے آپ صلعم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر  مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو محمد بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو محمد پر رحم آیا اور محمد کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے  الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔
غرانیق  بگلے نما اونچی گردن والے پرندوں کو کہتے ہیں ۔اس واقعہ کا اسلامی نام شیطانک ورسز نہیں ہے۔ یہ نام تو دراصل ایک مغربی پروفیسر، ولیم مویر نے اسے اسلام پر اپنی تحقیق کے نتیجے میں دیا۔  اس واقعہ کے بارے میں اسلامی علماء و محدثین میں تین رائے پائ جاتی ہیں۔
پہلی رائے کے مطابق یہ واقعہ حدیث کی کتاب صحیح بخاری میں مرقوم ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ جب سورہ النجم کی آیات کا نزول ہوا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسکی اپنی زبان اطہر سے تلاوت شروع کی تو نہایت پر اثر ماحول بن گیا۔ ان آیات میں خدا کی بڑائی اور قدرت کا ایسے حسین اثر انگیز انداز میں ذکر کیا گیا کہ سننے والے اس میں ڈوب گئے اور آیات کے آخر میں جب سجدہ کی بات آئی تو اسی اثر انگیزی میں مغلوب ہو کر مومن و مشرک سب ایک ساتھ سجدہ ریز ہوگئے۔اس میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر نعوذ بااللہ کوئ شیطانی کلام جاری ہوا۔
دوسری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر کوی شیطانی کلام جاری نہیں ہو لیکن شیطان نے مشرکین کے دل میں کچھ شیطانی الفاظ ڈال دیے  جس سے انہوں نے سسمجھا کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بتوں کی شفاعت تسلیم کر لی ہے اور وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدے میں گرنے گئے۔دوسری تفصیل امام طبری کی تفسیر اور کچھ اور کم مستند کتابوں میں آئی ہے۔ اس میں ایک روایت لکھی گئی ہے جسے ارواہ ابن زبیر نے روایت کیا ہے۔ارواہ ابن زبیر صحابی نہیں تھے۔
۔تیسری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر نعوذ بااللہ کوئ شیطانی کلام جاری ہوا جس میں مشرکین کے بتوں کی تائید کی گئ۔
دوسری اور تیسری تفصیل نہ تو صحیحین میں مذکور ہے، نہ ہی صحاح ستہ کی کتب میں مرقوم ہے ۔بعض جید بزرگ علماء نے انہیں مسترد کردیا ہے۔ ان میں علامہ ابن کثیر رح، ناصر البانی رح، امام رازی رح اور دیگر شامل ہیں۔ ابن خزیمہ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر دوسری اور تیسری تفصیل کو موضوع یعنی گھڑا ہوا قرار دیتے ہیں۔   دوسری رائے کو کئی ابن تیمیہ اور امام ابن حجر عسقلانی درست مانتے ہیں۔۔معروف ترین شرح یعنی 'فتح الباری'کے مصنف آپ ہی ہیں۔امام ابن حجر اس اس روایت کو جسے عیف حدیث کہا جاتا ہے اپنے ایک اصول کیوجہ سے قبول کیا۔ کہ اگر بہت سی ضعیف احادیث موجود ہوں تو وہ سب مل کر قوی ہوجاتی ہیں اور ضعف باقی نہیں رہتا۔ یہ دوسری تفصیل طبری کی اس تفسیر کے علاوہ بھی کم مستند کتابوں میں کچھ ردوبدل کے ساتھ موجود ہے۔ لہٰذا ابن حجر رح کے بقول ان ضعیف روایتوں کی کثرت نے ان کے ضعف کو ختم کردیا ہے۔ ان کی اس دلیل کے رد میں مشہور محدث امام ناصر الدین البانی رح نے علمی تنقید کی ہے۔ انہوں نے اسی شیطانک ورسز یا قصہ الغرانیق کے بیان میں اپنا ایک پورا کتابچہ تحریر کیا ہے جس میں ابن حجر رح کی دلیل کو فن حدیث سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے یہ سمجھایا ہے کہ کیوں قصہ الغرانیق کی ان احادیث پر علم حدیث کے اس اصول کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ، جس میں ضعیف حدیثوں کی کثرت ضعف کو ختم کردیتی ہے۔
تیسری تفصیل کا ذکر الواقدی اور دوسری کمزور کتب میں آیا ہے۔
واقعہ کی تحقیق:
صحاح ستہ میں بھی اس طرح کی روایات نھیں ھیں جن میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہو، لیکن ”تفسیر مراغی“ میں بیان ھوا ھے۔
یھی معنی ایک دوسری طرح تفسیر ”جواھر“ (مولفہ طنطاوی) میں بیان ھوئے ھیں: ”اس طرح کی احادیث صحاح ستہ ”صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطاٴ بن مالک، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن داؤد“ میں نھیں آئی ھیں۔ لہٰذا کتاب ”تیسیر الوصول لجامع الاصول“ جس میں صحاح ستہ کی تفسیری روایات کو جمع کیا گیا ھے، اس روایت کو سورہ نجم کی آیات میں بیان نھیں کیا ھے۔
علامہ فخر الدین رازی ان روایات کے جعلی ھونے کے سلسلہ میں اس طرح کہتے ھیں: صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم (ص)سے نقل ھوا کہ جس وقت سورہ نجم کی تلاوت فرمائی تو جن و انس ،مسلمان اور مشرکین نے سجدہ کیا، لیکن اس حدیث میں ”غرانیق“ کی کوئی بات نھیں ھے، اسی طرح یہ حدیث (جو صحیح بخاری سے نقل ھوئی ھے) دوسرے متعدد طریقوں سے نقل ھوئی ھے لیکن ان میں سے کسی میں بھی ”غرانیق“ کا لفظ نھیں آیا ھے نہ ہی شیطان کی طرف سے دل میں ڈالے جانے والی آیات کا بیان ہے(تفسیر فخر رازی ، جلد ۲۳، صفحہ ۵۰)
نہ صرف مذکورہ مفسرین بلکہ دیگر علماو مفسرین جیسے ”قرطبی“ نے اپنی تفسیر ”الجامع“ میں اور سید قطب نے ”فی ظلال“ وغیرہ میں  بھی اس طرح کی روایات کو خرافات قرار دیتے ھوئے جعلی مانا ھے اور ان کی نسبت دشمنان اسلام کی طرف دی ھے۔
بهت سے قرائن سے معلوم هو تا هے که یه ایک جعلی اور گھڑی هوئی حدیث هے جسے شیطان صفت افراد نے قرآن مجید اور پیغمبر خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی فرمائشات کو ناقابل اعتبار ثابت کر نے کے لئے جعل کیا هے، کیونکه:
اولاً : محقیقن کے کهنے کے مطابق ، اس حدیث کے راوی ضعیف اور غیر موثق افراد هیں اور اس کا ابن عباس سے بیان کیا جانا کسی صورت میں ثابت نهیں هے، اور "محمد بن اسحاق"کے کهنے کے مطابق اس حدیث کو زندیقیوں نے جعل کیا هے – اس نے اس سلسله میں ایک کتاب بهی تالیف کی هے(تفسیر کبیر فخررازی جلد ٢٣صفحه ٥٠)۔
ثانیاً : سوره نجم کے نازل هو نے اور اس کے بعد پیغمبر خدا صلی الله علیه وآله وسلم اور مسلمانوں کے سجده بجالانے کے بارے میں مختلف کتا بوں میں متعدد احادیث نقل کی گئی هیں ، لیکن ان میں سے کسی ایک حدیث میں افسانه غرانیق کا اشاره نهیں ملتا هے، اور اس سے معلوم هو تا هے که یه جمله بعد میں اضافه کیا گیا هے(تفسیر کبیر فخررازی جلد ٢٣صفحه ٥٠)
ثالثاً : سوره نجم کی ابتدائی آیات واضح طور پر ان خرافات کو جھٹلاتی هیں جهاں پر بیان هو تا هے :"پیغمبر نه گمراه هوا هے اور نه بهکا هے اور وه اپنی خواهش سے کلام بهی نهیں کر تا هے-"یه آیت مذکوره افسانه سے کهاں جوڑ کهاتی هے ؟
رابعاً : اس سوره میں ، بتوں کے نام ذکر کئے جانے کے بعد جو آیات بیان هوئی هیں ، وه سب بتوں کی مذ مت اور ان کی برائی اور پستی کے بیان میں هیں اور کهلم کهلا کهتی هیں : "یه سب وه نام هیں جو تم نے اور تمهارے باپ دادا نے طے کر لئے هیں ، خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نهیں کی هے در حقیقت یه لوگ صرف اپنے گمانوں کا اتباع کر رهے هیں اور جو کچھـ ان کا دل چاهتا هے اور یقیناً ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس هدایت آچکی هے(النجم ،٢٣، ان هی الا اسماء سمیتموها انتم واباٶکم ما انزل الله بها من سلطان ان یتیعون الا الظن وما تهوی الانفس ولقد جاءهم من ربهم الهدی)۔
ن سخت اور شدید مذ متوں کے باوجود کیسے ممکن هے که ، ان سے چند جمله پهلے بتوں کی ستائش کی گئی هو؟ اس کے علاوه قرآن مجید نے واضح الفاظ میں یاد دهانی کی هے که خدا وند متعال پو رے قرآن مجید کو تحریف اور تضعیف سے محفوظ رکهتا هے ، چنانچه هم آیه شریفه میں پڑھتے هیں که : "هم نے اس قرآن کو نازل کیا هے اور هم هی اس کی حفا ظت کر نے والے هیں"۔
اب جب اسی صورت کے اندر ہی اللٰہ تعالٰی نے فرما دیا کہ وہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ نہ بہک سکتے ہیں نہ گمراہ ہو سکتے ہیں اور قرآن کی حفاظت کا ذمہ بھی اللٰہ تعالٰی نے لے رکھا ہے تو پھر اس کے بعد کسی مسلمان کو شک میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
اسلام کے تمام محققین اسلام  نے اس حدیث کو سختی سے مسترد کر کے اسے جهٹلا دیا هے اور اسے حدیث جعلل کر نے والوں کی کارستانی بتائی هے(مجمع البیان ، تفسیر فخررازی ، قرطبی ، فی ظلال ، تفسیر صافی، روح المعانی والمیزان وتفسیر های دیگر ذیل آیات مورد بحث)۔
البته بعض مفسرین نے اس حدیث کے بارے میں ایک تو جیه اور تشریح کی هے جو صرف اصلی حدیث کے صحیح هونے کے فرض پر، قابل ذکر هے اور وه یه هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم قرآن مجید کی آیات کو آهسته و آرام سے پڑهتے تهے، اور کبھی تلاوت کے دوران چند لمحات رکتے تهے، تاکه لوگوں کے دلوں کو جذب کرسکیں ، جب آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم سوره نجم کی آیات کی تلاوت میں مشغول تهے ، اور اس آیت "افراء یتم اللات والعزی و مناۃ الثالثۃ الآخر"پر پهنچ گئے تو بعض شیطان صفت موقع پرستوں (مشرکین) نے فرصت سے استفاده کرتے هوئے جمله "تلک الغرانیق العلی وان شفا عتهن لترتجی"کو ایک خاص لهجے میں پڑھنا شروع کیا تاکه آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کا منه بنائیں اور لوگوں کے لئے شبهه ایجاد کریں،لیکن اس سوره کی بعد والی آیات نے ان کا بخوبی جواب دیا اور بت پرستی کی سختی سے مذمت کی(تفسیر "قرطبی"جلد ٧ص٤٤٧٤"مرحوم طبرسی ""مجمع البیان"میں بهی اس کو ایک احتمال کے عنوان سے نقل کیا گیا هے)۔بشکریہhttp://www.islamquest.net/ur/archive/question/fa1123
ملحد نے تفسیر بغوی کا حوالہ دیتے ہوئے درج ذیل جملہ لکھا ہے
"تفسیر البغوی، تفسیر سورۃ الحج آیت 52 (لنک):

حضرت عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے"۔
اور اس کے بعد ملحد  نے اس واقعے کو مکمل بیان کیا۔اب اگر  اس واقعے کی مکمل عربی تحریر بیان کی جائے جو حرف بحرف تفسیر بغوی میں روایت ہے وہ یہ ہے
قوله عز وجل : ( وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي إلا إذا تمنى ألقى الشيطان في أمنيته ) الآية . قال ابن عباس ومحمد بن كعب القرظي وغيرهما من المفسرين لما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم تولي قومه عنه وشق عليه ما رأى من مباعدتهم عما جاءهم به من الله تمنى في نفسه أن يأتيه من الله ما يقارب بينه وبين قومه لحرصه على إيمانهم ، فكان يوما في مجلس قريش فأنزل الله تعالى سورة "النجم "فقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بلغ قوله : ( أفرأيتم اللات والعزى ومناة الثالثة الأخرى ) ألقى الشيطان على لسانه بما كان يحدث به نفسه ويتمناه : "تلك الغرانيق العلى وإن شفاعتهن لترتجى "، فلما سمعت قريش ذلك فرحوا به ومضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في قراءته ، فقرأ السورة كلها وسجد في آخر السورة فسجد المسلمون بسجوده ، وسجد جميع من في المسجد من المشركين ، فلم يبق في المسجد مؤمن ولا كافر إلا سجد إلا الوليد بن المغيرة وأبو أحيحة سعيد بن العاص ، فإنهما أخذا حفنة من البطحاء ورفعاها إلى جبهتيهما وسجدا عليها ، لأنهما كانا شيخين كبيرين فلم يستطيعا السجود . وتفرقت قريش وقد سرهم ما سمعوا من ذكر آلهتهم ويقولون : قد ذكر محمد آلهتنا بأحسن الذكر ، وقالوا : قد عرفنا أن الله يحيي ويميت ويخلق ويرزق ولكن آلهتنا هذه تشفع لنا عنده ، فإذا جعل لها نصيبا فنحن معه ، فلما أمسى رسول الله صلى الله عليه وسلم أتاه جبريل فقال : يا محمد ماذا صنعت؟ لقد تلوت على الناس ما لم آتك به عن الله عز وجل! فحزن رسول الله صلى الله عليه وسلم حزنا شديدا وخاف من الله خوفا كثيرا فأنزل الله هذه الآية يعزيه ، وكان به رحيما ، وسمع بذلك من كان بأرض الحبشة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وبلغهم سجود قريش وقيل : أسلمت قريش وأهل مكة فرجع أكثرهم إلى عشائرهم ، وقالوا : هم أحب إلينا حتى إذا دنوا من مكة بلغهم أن الذي كانوا تحدثوا به من إسلام أهل مكة كان باطلا فلم يدخل أحد إلا بجوار أو مستخفيا ، فلما نزلت هذه الآية قالت قريش : ندم محمد على ما ذكر من منزلة آلهتنا عند الله فغير ذلك . وكان الحرفان اللذان ألقى الشيطان على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد وقعا في فم كل مشرك فازدادوا شرا إلى ما كانوا عليه ، وشدة على من أسلم.

قال الله تعالى : ( وما أرسلنا من قبلك من رسول ) وهو الذي يأتيه جبريل بالوحي عيانا ، ( ولا نبي ) وهو الذي تكون نبوته إلهاما أو مناما ، وكل رسول نبي ، وليس كل نبي رسولا ( إلا إذا تمنى ) قال بعضهم : أي : أحب شيئا واشتهاه وحدث به نفسه ما لم يؤمر به . ( ألقى الشيطان في أمنيته ) أي : مراده.

وعن ابن عباس قال : إذا حدث ألقى الشيطان في حديثه ووجد إليه سبيلا وما من نبي إلا تمنى [ ص: 394 ] أن يؤمن به قومه ولم يتمن ذلك نبي إلا ألقى الشيطان عليه ما يرضى به قومه ، فينسخ الله ما يلقي الشيطان.

وأكثر المفسرين قالوا : معنى قوله : ( تمنى ) أي : تلا وقرأ كتاب الله تعالى . "ألقى الشيطان في أمنيته "أي : في تلاوته ، قال الشاعر في عثمان حين قتل:
تمنى كتاب الله أول ليلة وآخرها لاقى حمام المقادر

واختلفوا في أنه كان يقرأ في الصلاة أو في غير الصلاة؟ فقال قوم : كان يقرأ في الصلاة . وقال قوم : كان يقرأ في غير الصلاة . فإن قيل كيف يجوز الغلط في التلاوة على النبي صلى الله عليه وسلم وكان معصوما من الغلط في أصل الدين ، وقال جل ذكره في القرآن : ( لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه ) ( فصلت : 42 ) يعني إبليس؟

قيل : قد اختلف الناس في الجواب عنه ، فقال بعضهم : إن الرسول صلى الله عليه وسلم لم يقرأ ، ولكن الشيطان ذكر ذلك بين قراءته ، فظن المشركون أن الرسول قرأه.

وقال قتادة : أغفى النبي صلى الله عليه وسلم إغفاءة فجرى ذلك على لسانه بإلقاء الشيطان ولم يكن له خبر.

والأكثرون قالوا : جرى ذلك على لسانه بإلقاء الشيطان على سبيل السهو والنسيان ولم يلبث أن نبهه الله عليه.

وقيل : إن شيطانا يقال له أبيض عمل هذا العمل ، وكان ذلك فتنة ومحنة من الله تعالى يمتحن عباده بما يشاء.
اس عربی تحریر میں حقیقت میں بغوی اس ساری روایت کی سند بیان کیے بغیر لکھ رہے ہیں کہ مفسرین نے حضرت ابن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت کیا ہے۔جملے پر غور کیجیے۔خود بغوی اس کا کوئ مستند حوالہ دیے بغیر محض دوسرے مفسرین سے روایت کر رہے ہیں جب کہ ملحد نے اس میں یہ نہیں لکھا کہ بغوی نے خود یہ واقعہ اس کی بغیر کوئ پوری سند بیان کیے مفسرین سے نقل کیا ہے۔کون سے مفسرین۔یہ بغوی نے بیان نہیں کیا۔اس طرح بغیر کسی مستند سند کے محض ابن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت کا بیان غیر مستند ہے۔ایک تو بغوی نے اس کی پوری سند بیان نہیں کی۔اور دوسری بات یہ کہ خود بغوی اس بات پر مکمل یقین نہیں۔آگے وہ خود کہتے ہیں کہ جب پیغمبر کی حفاظت اللٰہ تعالٰی خود کرتا ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر شیطانی الفاظ جاری ہوں(جب کہ قرآن پاک کی اسی سورت میں کچھ آیات پہلے ہی مذکور ہے کہ
وما ضل صاحبکم و ماغوٰی
یعنی نہ وہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گمراہ ہوگئے نہ بہکے۔
اب جب قرآن خود کہ رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہی گمراہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی شیطان ان کو بہکا  سکتا ہے تو اب ایک مسلمان کے لیے مزید کیا گنجائش رہ گئ ہے کہ وہ اس روایت پر یقین کر کے ملحدین کے ایک اعتراض پر شک میں مبتلا ہو)۔خود بغوی نے اس کی ایک اور ممکنہ وضاحت بھی دی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ نہ کہے ہوں بلکہ شیطان نے لوگوں کے کانوں میں اپنی طرف سے ڈال دیے ہوں اور لوگوں نے سمجھا ہو کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے بتوں کو مان لیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحاح ستہ میں یہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ نجم کی آیات تلاوت کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہاں موجود کفار بھی سجدے میں گر گئے۔لیکن ان روایات میں کہیں یہ بیان نہیں ہے  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر کوئ شیطانی کلام جاری ہوگیا تھا نعوذ بااللہ۔صرف قرآن کی تلاوت کے ساتھ کفار کے سجدے میں جانے کا ذکر ہے۔اور یہ قرآن پاک کی تاثیر کی وجہ سے تھا۔ بخاری کی درج ذیل روایات ملاحظہ کیجیے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَجَدَ بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ مَعَهُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْجِنُّ وَالإِنْسُ‏.‏ وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ‏.‏
(صحیح بخاری حدیث نمبر 1071)
حدثنا نصر بن علي أخبرني أبو أحمد حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن الأسود بن يزيد عن عبد الله رضي الله عنه قال أول سورة أنزلت فيها سجدة والنجم قال فسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم وسجد من خلفه إلا رجلا رأيته أخذ كفا من تراب فسجد عليه فرأيته بعد ذلك قتل كافرا وهو أمية بن خلف
ترجمہ۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں ، مشرکوں اور جن و انس سب نے رسول کے ساتھ سجدہ کیا ۔ اس حدیث کی روایت ابراہیم بن طہمان نے بھی ایوب سختیانی سے کی ہے ۔
اس روایت میں بھی صرف یہ مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ نجم کی آیات تلاوت کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہاں موجود سب مسلمانوں،مشرکوں اور جن و انس نے سجدہ کیا۔اس پوری روایت میں کہیں بھی مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر نعوذ بااللہ کوئ شیطانی کلام جاری ہوا تھا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 1071کا ترجمہ اور سند کچھ اس طرح ہے
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ النجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ اس حدیث کی روایت ابراہیم بن طہمان نے بھی ایوب سختیانی سے کی ہے۔
اور ملحد نے جو صحیح بخاری کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کی ہے وہ اس طرح ہے
حدثنا نصر بن علي أخبرني أبو أحمد حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن الأسود بن يزيد عن عبد الله رضي الله عنه قال أول سورة أنزلت فيها سجدة والنجم قال فسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم وسجد من خلفه إلا رجلا رأيته أخذ كفا من تراب فسجد عليه فرأيته بعد ذلك قتل كافرا وهو أمية بن خلف
الحاشية رقم: 1
قوله : ( عن عبد الله ) هو ابن مسعود ، وأبو أحمد المذكور في إسناده هو محمد بن عبد الله بن الزبير الزبيري.

قوله : ( أول سورة أنزلت فيها سجدة : والنجم ، قال : فسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم ) أي لما فرغ من قراءتها ، وقد قدمت في تفسير الحج من حديث ابن عباس بيان ذلك والسبب فيه . ووقع في رواية زكريا عن أبي إسحاق في أول هذا الحديث "أن أول سورة استعلن بها رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقرأ على الناس النجم "وله من رواية زهير بن معاوية "أول سورة قرأها على الناس : النجم" .

قوله : ( إلا رجلا ) في رواية شعبة في سجود القرآن "فما بقي أحد من القوم إلا سجد ، فأخذ رجل من القوم كفا من حصى "وهذا ظاهره تعميم سجودهم ، لكن روى النسائي بإسناد صحيح عن المطلب بن أبي وداعة قال : "قرأ النبي - صلى الله عليه وسلم - بمكة : "والنجم "فسجد وسجد من عنده ، وأبيت أن أسجد "ولم يكن يومئذ أسلم "قال المطلب : فلا أدع السجود فيها أبدا "فيحمل تعميم ابن مسعود على أنه بالنسبة إلى من اطلع عليه.

قوله : ( كفا من تراب ) في رواية شعبة "كفا من حصى أو تراب" .

قوله : ( فسجد عليه ) في رواية شعبة "فرفعه إلى وجهه فقال : يكفيني هذا" .

قوله : ( فرأيته بعد ذلك قتل كافرا ) في رواية شعبة "قال عبد الله بن مسعود : فلقد رأيته بعد قتل كافرا" .

قوله : ( وهو أمية بن خلف ) لم يقع ذلك في رواية شعبة ، وقد وافق إسرائيل على تسميته زكريا بن أبي زائدة عن أبي إسحاق عند الإسماعيلي وهذا هو المعتمد ، وعند ابن سعد أن الذي لم يسجد هو الوليد بن المغيرة قال : وقيل سعيد بن العاص بن أمية ، قال : وقال : بعضهم كلاهما جميعا ، وجزم ابن بطال في "باب سجود القرآن "بأنه الوليد ، وهو عجيب منه مع وجود التصريح بأنه أمية بن خلف ولم يقتل ببدر كافرا من الذين سموا عنده غيره . ووقع في تفسير ابن حبان أنه أبو لهب ، وفي "شرح الأحكام لابن بزيزة "أنه منافق ، ورد بأن القصة وقعت بمكة بلا خلاف ولم يكن النفاق ظهر بعد ، وقد جزم الواقدي بأنها كانت في رمضان سنة خمس ، وكانت المهاجرة [ ص: 482 ] الأولى إلى الحبشة خرجت في شهر رجب فلما بلغهم ذلك رجعوا فوجدوهم على حالهم من الكفر فهاجروا الثانية ، ويحتمل أن يكون الأربعة لم يسجدوا ، والتعميم في كلام ابن مسعود بالنسبة إلى ما اطلع عليه كما قلته في المطلب ، لكن لا يفسر الذي في حديث ابن مسعود إلا بأمية لما ذكرته ، والله أعلم.

54 - سورة اقتربت الساعة قال مجاهد : مستمر : ذاهب مزدجر : متناه . وازدجر : ( فاستطير جنونا : دسر : أضلاع السفينة . لمن كان كفر يقول : كفر له جزاء من الله . محتضر : يحضرون الماء . وقال ابن جبير : مهطعين : النسلان الخبب ( السراع . وقال غيره فتعاطى : فعاطى بيده فعقرها . المحتظر : كحظار من الشجر محترق . وازدجر : افتعل من زجرت . كفر : فعلنا به وبهم ما فعلنا جزاء لما صنع بنوح وأصحابه . مستقر : عذاب حق . يقال : الأشر : المرح والتجبر.
اس ساری روایت اور اس کی تشریح میں بخاری نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے کہیں نہیں لکھا کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر شیطانی الفاظ جاری ہوئے تھے۔لیکن ملحد نے مشرکین کے سجدہ کرنے والی بات تو بیان کردی لیکن یہ بات سرے سے ہی بیان نہیں کی کہ بخاری کی ان دونوں روایات میں کہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر نعوذ بااللہ  شیطانی الفاظ کے جاری ہونے کا ذکر نہیں۔لیکن ملحد ایاز نظامی نے بخاری سے اپنی مرضی کا مطلب لینے کی کوشش کی ہے۔
اس کے علاوہ ملحد نے ابن جریر طبری کے حوالے سے درج ذیل روایت لکھی ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی کہتے ہیں کہ ابن جریر طبری نے 'صحیح'سند کے ساتھ ابن عباس کا یہ پورا واقعہ نقل کیا ہے۔:

وأخرج ابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن مردويه بسند صحيح، عن سعيد بن جبير قال: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة النجم، فلما بلغ هذا الموضع { أفرأيتم اللات والعزى ومناة الثالثة الأخرى } ألقى الشيطان على لسانه تلك الغرانيق العلى وإن شفاعتهن لترتجى. قالوا: ما ذكر آلهتنا بخير قبل اليوم، فسجد وسجدوا، ثم جاءه جبريل بعد ذلك قال: اعرض عليَّ ما جئتك به. فلما بلغ: تلك الغرانيق العلى وإن شفاعتهن لترتجى. قال له جبريل: لم آتك بهذا؛ هذا من الشيطان فأنزل الله { وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي }.
ترجمہ:
امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے مکہ میں سورۃ النجم تلاوت کی۔ جب وہ آیت (کیا تم نے لات و عزی کو دیکھا ہے) پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دیے ( یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی) مشرکین نے کہا اس سے پہلے تو کبھی آپ نے ہمارے بتوں کا خیر کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ رسول اللہ نے سجدہ کیا اور مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ بعد میں جبرئیل آئے اور کہا جو میں لے کر آیا تھا وہ مجھ پر پڑھو۔ جب آپ (یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں ۔۔) پر پہنچے تو جبرئیل نے کہا یہ تو میں نہیں لایا تھا۔ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ پس اللہ نے آیت نازل فرمائی (اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر  جب وہ کوئی تمنا (عربی لفظ: تَمَنَّىٰ) کرتا تھا تو شیطان اس کی تمنا میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا۔۔۔)۔
اب اگر اس روایت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ابن جریر طبری ایک طرف حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل کرنے کا کہ رہے ہیں جب کہ دوسری طرف یہ روایت  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے صحیح بخاری میں بھی آئ ہے لیکن اس میں کہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نہیں کہتے کہ شیطان نے نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر شیطانی الفاظ جاری کر دیے تھے۔شیطانی الفاظ کا ذکر جلال الدین سیوطی ابن جریر کے حوالے سے کر رہے ہیں اور ابن جریر کی اس روایت کے بارے میں ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے۔
ساتھ میں جب ابن کثیر کہ رہے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے۔اور دوسری بات یاد رہے کہ تاریخ طبری  حدیث کی کتاب نہیں ہے،  اسکی صداقت کا معیار کسی بھی حدیث کی کتاب سے کہیں نیچے ہے۔اس صورت میں اس سے زیادہ مستند کتاب یعنی صحیح بخاری کو ترجیح دی جائے گی۔ درحقیقت تاریخ طبری  ان اوائل کتب میں سے ایک ہے جو رسولِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق خام معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس میں  موجود سب کا سب لازم نہیں سچ ہی ہو۔ امام طبری نے خود اسکے مقدمہ میں اس بات کو قلم بند کیا ہے۔
“میں نے اس کتاب میں جو کچھ ذکر کیا ہے ا س میں میرا اعتماد اپنی اطلاعات اور راویوں کے بیان پر رہا ہے نہ کہ عقل و فکر کے نتائج پر ، کسی پڑھنے والے کو اگر میری جمع کردوں خبروں اور روایتوں میں کوئی چیز اس وجہ سے ناقابل فہم اور ناقابل قبول نظر آئے کہ نہ کوئی اسکی تک بیٹھتی ہے اور نہ کوئی معنی  بنتے ہیں تو اسے جاننا چاہیے کہ میں  نے  یہ  سب اپنی  طرف سے نہیں لکھا ہے بلکہ اگلوں سے جو بات مجھے  جس طرح پہنچی ہے  میں نے  اسی طرح آگے نقل کردی ہے”۔
(تاریخ الطبری، جلد اول، صفحہ 17)۔
تیسری بات یہ کہ ابن جریر طبری نے  وأخرج ابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن مردويه بسند صحيح، عن سعيد بن جبير کا جملہ استعمال کیا ہے جس کا اردو ترجمہ امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے روایت کی ہے،بنتا ہے۔اب اگر ہم غور کریں تو خود طبری نے اس واقعے کی ساری
سند بیان نہیں کی۔محض یہ لکھ دیا ہے کہ ابن جریر،ابن المنذر،ابن ابی حاتم اور ابن ابی مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے اور یہ بات یاد رہے کہ حضرت سعید بن جبیر  رحمۃ اللہ علیہ ایک تابعی ہیں۔وہ صحابی نہیں۔لہذا اس صورت میں ایک روایت ایک تابعی یعنی حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے بغیر کسی صحابہ کے حوالے کے نقل کی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ ساری روایت مرسل اور ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے بخاری کی دونوں روایات میں شیطانی الفاظ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہونے کا کوئ ذکر نہیں۔محض مسلمانوں اور مشرکوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرنے کا ذکر ہے۔اس طرح ابن جریر طبری کی ساری روایت ناقابل اعتماد ہوجاتی ہے۔اور مرسل حدیث میں تابعی صحابی کے واسطے کے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے تو وہ حدیث مرسل کہلاتی ہے.لہذا چونکہ درمیان میں صحابہ کا حوالہ موجود نہیں۔اس طرح بھی  یہ واقعہ بھی ناقابل اعتماد ہے۔
ابن کثیر کا اس روایت کو مرسل قرار دینے کا دعوی ہمیں ابن جریر طبری کی  روایت کے سارے تجزیے کے بعد درست معلوم ہورہا ہے۔ابن کثیر کا یہ دعوی تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمہ جلد سوم میں سورہ حج آیت 52کی تفسیر میں مذکور ہے۔
اور اگرہم مزید گہرائی میں جا کر ابن ابی حاتم کی تفسیر سورہ حج آیت 52کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ خود ابن ابی حاتم نے اس روایت کو کئ سے ذرائع سے نقل کیا وہ سب مرسل ہیں اور جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ مرسل حدیث میں تابعی صحابی کے واسطے کے بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے تو وہ حدیث مرسل کہلاتی ہے.لہذا چونکہ درمیان میں صحابہ کا حوالہ موجود نہیں۔اس طرح بھی  یہ روایات بھی بھی ناقابل اعتماد ہے.ایک روایت میں ابن ابی حاتم نے اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا لیکن اس کی بھی سند بیان نہیں کی۔جس سےیہ روایت منقطع ہوجاتی ہے اب سوال یہ ہے کہ  منقطع روایت سے کیا مراد ہے۔اس کی تعریف پڑھیں
"منقطع حدیث"کی تعریف
لغوی اعتبار سے یہ انقطاع کا اسم فاعل ہے جو کہ اتصال کا متضاد ہے یعنی کاٹنے والی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں منقطع ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند کسی بھی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہو۔
مقطع کا مطلبہے ایسی حدیث جس کے سند میں کوئی راوی موجود نہ ہو.  یعنی کہیں سے راوی کا ذکرنہ ہو۔
مثال کے طور میں انیس جنوری دو ہزار دو کو پیدہ ہوا اور میرے دادا میرے پیدہ ہونے کے دن ہی فوت ہوگئے. اب کسی کو یہ بات معلوم ہے.  اب میں نے ایک روایت اپنے ابو سے کی ہے.  میں ابو سے ایک بات سنتا ہوں. اب میں اگر کہوں کہ مین مے ابو سے سنا اور ابو نے دادا سے سنا. اب اگر میں دادا سے ہی روایت کرنے لگ جاؤں اور ابو کا ذکر نہ کروں تو یہ درمیان میں راوی جو ابوتھے وہ نہ ہوئے۔
اس طرح اس واقعے کی پوری روایت اور سند غلط ہے اور یہ واقعہ سو فیصد ناقابل اعتبار ہے۔
اب اگر مزید گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو ابن جریر طبری کے باقی حوالے یعنی ابن المنذر، مردویہ بھی صحیح سند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے روایت کر رہے ہیں لیکن حضرت سعید بن جبیر کے بعد کسی بھی صحابہ کا ذکر نہیں آرہا روایت میں اس طرح یہ سب روایات مرسل اور ناقابل اعتبار ہو جاتی ہیں۔
اس طرح ملحد کا یہ دعوی غلط ثابت ہوتا ہے کہ وحی کے معاملے میں شیطان نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورغلانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
جہاں تک ابن تیمیہ کی بات ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا یہ خیال  مرسل و منقطع روایات پر مبنی ہے جن روایات کی صحت کا ناقابل اعتماد ہونا ہم اوپر بیان کر چکے ہیں
ملحد مزید لکھتا ہے کہ  اس کے علاوہ یہ روایات دو اور طریقوں سے نقل ہوئی ہے اور یہ دو روایات امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق (صحیح) ہیں۔ پہلی روایت وہ ہے جو کہ طبری نے نقل کی ہے یونس بن یزید سے، اس نے ابن شھاب سے کہ  ابو بکر ابن اعبدالرحمن بن حارث نے مجھے بیان کیا۔۔۔اور دوسری وہ جو طبری نے ہی معتمر بن سلیمان اور حماد بن سلمه اور انہوں نے داؤد ابن ابی ھند اور انہوں نے ابو العالیہ سے نقل کی ہے۔۔۔ اور ابن عربی اور قاضی عیاض کہتے ہیں کہ قصہ کی کوئی اصل نہیں۔لہذا سعید بن جبیر سمیت طبری کی یہ سب روایات مرسل ہیں اور اس طرح ابن کثیر کا یہ دعوی سچ ثابت ہوتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کی تمام روایات مرسل و منقطع ہیں
ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ روایت کسی بھی صحیح سند سے مروی نہیں۔اس پر انہوں نے سورہ حج آیت 52کی تفسیر کے ذیل میں ایک باب لگایا یے جس کا نام وحی الٰہی میں باطل کی ملاوٹ نہیں ہوسکتی ہے۔
شوكاني لکھتے ہیں کہ؛ ’اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں ہے اور کوئی بھی اسکے روابط ثابت نہیں ہوتے۔‘(فتح القدیر ٥\١٢٨)
ابنِ جوزی لکھتے ہیں؛ ’یہ درست نہیں ہے۔‘( ذاد المیسر ٤\٣٩١)
جب خزیمه سے اسکے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ”یہ کہانی زنداقہ نے گھڑی ہے۔“(تفسیرالرازی ١١\١٣٤)
البيهقي کہتے ہیں؛ ”یہ کہانی قواعد التقارير سے ثابت نہیں ہے۔“(تفسیر الرازی ١١\١٣٥)
قاضي عياض کہتے ہیں؛ ”یہی حقیقت کہ یہ روایت نہ ہی مستند احادیث میں جمع کی گئی اور نہ ہی کسی مستند طریقے سے مستند راوی رکھتی ہے، اسکے ضعیف ہونے کیلئے کافی ہے۔“(الشفا ٢\١٢٥)
انکے علاوہ، امام راضی (انکی تفسیر ١١/١٣٥)، قاضی ابوبکر ابن العربی (الشفاء ٢/١٢٦)، الوسی (اپنی تفسیر ١٣/٩٩) میں سرے سے ہی اس کہانی کی تردید کرچکے ہیں
اس واقعے کے دوسرے عینی شاہد حضرت مطلب بن ابی وداعہ ہیں جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ نسائی اور مسند احمد میں ان کا اپنا بیان یہ نقل ہوا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورہ نجم پڑھ کر سجدہ فرمایا اور سب حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے تو میں نے سجدہ نہ کیا، اور اسی کی تلافی اب میں اس طرح کرتا ہوں کہ اس سورت کی تلاوت کے وقت سجدہ کبھی نہیں چھوڑتا۔وہ ایسا کوئ واقعہ نقل نہیں کرتے کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر شیطانی الفاظ جاری ہوئے۔
حافظ جلال الدین سیوطی کہتے ہیں کہ ابن جریر طبری نے 'صحیح'سند کے ساتھ ابن عباس کا یہ پورا واقعہ نقل کیا ہے۔ (لنک):

وأخرج ابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن مردويه بسند صحيح، عن سعيد بن جبير قال: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة النجم، فلما بلغ هذا الموضع { أفرأيتم اللات والعزى ومناة الثالثة الأخرى } ألقى الشيطان على لسانه تلك الغرانيق العلى وإن شفاعتهن لترتجى. قالوا: ما ذكر آلهتنا بخير قبل اليوم، فسجد وسجدوا، ثم جاءه جبريل بعد ذلك قال: اعرض عليَّ ما جئتك به. فلما بلغ: تلك الغرانيق العلى وإن شفاعتهن لترتجى. قال له جبريل: لم آتك بهذا؛ هذا من الشيطان فأنزل الله { وما أرسلنا من قبلك من رسول ولا نبي }.
ترجمہ:
امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے مکہ میں سورۃ النجم تلاوت کی۔ جب وہ آیت (کیا تم نے لات و عزی کو دیکھا ہے) پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دیے ( یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی) مشرکین نے کہا اس سے پہلے تو کبھی آپ نے ہمارے بتوں کا خیر کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ رسول اللہ نے سجدہ کیا اور مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ بعد میں جبرئیل آئے اور کہا جو میں لے کر آیا تھا وہ مجھ پر پڑھو۔ جب آپ (یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں ۔۔) پر پہنچے تو جبرئیل نے کہا یہ تو میں نہیں لایا تھا۔ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ پس اللہ نے آیت نازل فرمائی (اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر  جب وہ کوئی تمنا (عربی لفظ: تَمَنَّىٰ) کرتا تھا تو شیطان اس کی تمنا میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا۔۔۔)
اب ذرا غور کیا جائے تو ابن جریر،ابن   المنذر،ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ سب کی بیان کردہ روایت حضرت سعید بن جبیر کے بعد کسی صحابہ کا ذکر نہیں کرتی کہ خود سعید بن جبیر نے یہ روایت کس صحابی یا تابعی  سے سنی۔اس طرح ان سب کی روایات مرسل اور ناقابل اعتبار ہو جاتی ہیں
یہ واقعہ واقدی نے بھی نقل کیا ہے لیکن تاریخ میں الواقدی کے کام کے سبھی معترف ہیں مگر محدثین نے الواقدی کو محدث تسلیم نہیں کیا، علم الحدیث کے علوم و فنون کی رو میں اُنہیں ضعیف، کمزور، غیر ثقہ یہاں تک کہ موضوع احادیث کا خالق کہا گیا۔ خطیب بغدادی نے امام بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ : "محمد بن عمر الواقدی قاضی بغداد، متروک الحدیث"یعنی الواقدی کو متروک الحدیث کہا۔ جن محدثین نے الواقدی کو علم الحدیث میں ضعیف یا غیر ثقہ کہا ہے وہ یہ ہیں:
امام شافعی متوفی 204ھ۔
امام یحییٰ بن معین متوفی 233ھ۔
امام اسحاق ابن راہویہ متوفی 238ھ۔
امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ۔
امام علی بن المدینی متوفی 241ھ۔
امام ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری متوفی 256ھ۔
امام ابو زُرعہ الرازی متوفی 264ھ۔
امام ابوداود السجستانی متوفی 275ھ۔
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی متوفی 277ھ۔
امام نسائی متوفی 303ھ۔
امام ابن عدی متوفی 365ھ۔
امام دارقطنی متوفی 385ھ۔
امام ابو زکریا شرف الدین النووی متوفی 676ھ۔
امام شمس الدین الذھبی متوفی 748ھ۔
امام العلامہ ابن حجر العسقلانی متوفی 852ھ۔
ابن حجر عسقلانی  کے حوالے سے ملحد ایاز نظامی لکھتا ہے
ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں اسکے متعلق لکھتے ہیں:

وكلها سوى طريق سعيد بن جبير إما ضعيف وإلا منقطع ، لكن كثرة الطرق تدل على أن للقصة أصلا ، مع أن لها طريقين آخرين مرسلين رجالهما على شرط الصحيحين أحدهما ما أخرجه الطبري من طريق يونس بن يزيد عن ابن شهاب حدثني أبو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام فذكر نحوه، والثاني ما أخرجه أيضا من طريق المعتمر بن سليمان وحماد بن سلمة فرقهما عن داود بن أبي هند عن أبي العالية ۔۔۔ ثم نقل تضعيف ابن العربي والقاضي عياض القصة ثم قال - : ۔۔۔ فإن الطرق إذا كثرت وتباينت مخارجها دل ذلك على أن لها أصلا ، وقد ذكرت أن ثلاثة أسانيد منها على شرط الصحيح ، وهي مراسيل يَحتجُّ بمثلها مَن يحتجُّ بالمرسل ، وكذا من لا يحتج به ، لاعتضاد بعضها ببعض ۔۔
ترجمہ:
اس روایت کے تمام طریقے ضعیف یا منقطع ہیں سوائے سعید ابن جبیر والی روایت کے (یعنی یہ روایت صحیح ہے)۔ اور جب ایک بات کثیر طریقوں سے نقل ہو تو اسکا مطلب ہے کہ قصہ کی کوئی اصل ہے۔ اسکے علاوہ یہ روایات دو اور (صحیح، مگر مرسل) طریقوں سے نقل ہوئی ہے اور یہ دو روایات امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق (صحیح) ہیں۔ پہلی روایت وہ ہے جو کہ طبری نے نقل کی ہے یونس بن یزید سے، اس نے ابن شھاب سے کہ  ابو بکر ابن اعبدالرحمن بن حارث نے مجھے بیان کیا۔۔۔اور دوسری وہ جو طبری نے ہی معتمر بن سلیمان اور حماد بن سلمه اور انہوں نے داؤد ابن ابی ھند اور انہوں نے ابو العالیہ سے نقل کی ہے۔۔۔ اور ابن عربی اور قاضی عیاض کہتے ہیں کہ قصہ کی کوئی اصل نہیں۔ مگر اسکے برعکس جب کوئی روایت کئی مختلف طریقوں سے نقل ہو، تو اسکا مطلب ہے کہ اسکی کوئی اصل ہے ۔۔۔ (کثرتِ طرق کے علاوہ) اس قصے کی تین 'صحیح'رویات ہیں جن میں سے دومرسل روایات بھی ہیں جو کہ شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے مطابق ہیں۔ اس میں مرسل سے احتجاج کرنے والوں اور نہ کرنے والوں دونوں کے لیے ثبوت ہے۔۔۔
اب اگر ابن حجر عسقلانی کی بات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بذات خود ان روایات کو مکمل درست نہیں مانتے اور یہ کہتے ہیں کہ اس ساری بحث میں ان روایات کو غیر مرسل یا مستند اور مرسل یا غیر مستند ماننے والے،دونوں فریقین کے لیے ثبوت ہے۔یعنی ان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ بات ثابت ہی نہیں ہوتی کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر شیطانی الفاظ جاری ہوئے۔اب جب یہ بات خود ان روایات کو  کئ غیر مرسل ذرایع سے روایت ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد ماننے والے ابن حجر عسقلانی کہ رہے ہیں کہ اس صورت میں دونوں فریقوں کے پاس ثبوت ہے تو یہ بات واضح یہی پیغام دے رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر نعوذ بااللہ کوئ شیطانی کلام جاری ہونے کی بات ثابت ہی نہیں ہے۔پھر کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر شیطانی الفاظ جاری ہوئے۔
اور خود ابن حجر عسقلانی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ شیطانی الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری نہیں ہوئے بلکہ یہ شیطان نے مشرکین کے کانوں میں ڈالے۔
مراغی اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ یہ روایات بلاشبہ زنداقہ اور بیرونی ہاتھ کی سازش اور من گھڑت ہیں اور کسی بھی مستند کتاب میں نہیں پائ گئیں(تفسیر مراغی جلد 17،صفحہ 130)
تفسیر جواہر الطنطاوی میں طنطاوی لکھتے ہیں کہ یہ روایت(شیطانی الفاظ کے واقعے کے ساتھ) حدیث کی کسی بھی مستند کتاب  یعنی صحاح ستہ اور موطا امام مالک میں نہیں آئ اور یہی وجہ ہے کہ کتاب تفسیر الوصول للجامع الاصول جو کہ صحاح ستہ کی تشریحی  تصنیف ہے،وہ بھی ان شیطانی الفاظ کے افسانے کو نقل نہیں کرتی۔لہذا اس بات کو ایمیت دینا اور اس پر بحث کرنا دونوں غلط ہیں(تفسیر جواہر،جلد 6،صفحہ 46)۔
فخر الدین رازی کے مطابق بخاری میں یہ روایت کئ راویوں سے نقل کی گئ ہے اور اس میں کہیں بھی شیطانی الفاظ کے افسانے کا ذکر نہیں(تفسیر فخر رازی،جلد 23،صفحہ 50)۔
قرطبی نے بھی اس واقعے کو من گھڑت قرار دیا ہے۔
https://www.al-islam.org/180-questions-about-islam-vol-2-various-issues-makarim-shirazi/43-what-is-myth-gharaniq#fref_02acfabc
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے وحی کی جگہ نعوذ بااللہ شیطانی الفاظ جاری ہوسکتے ہیں؟نعوذ بااللہ کیا وحی میں شیطانی الفاظ کی آمیزش کی گنجائش موجود تھی؟قرآن پاک پر ملحد سید امجد حسین اور ایاز نظامی کے ایک سنگین اعتراض کا جواب
(افسانہ غرانیق اور اس کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
(ترتیب و تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن)
(حصہ دوم،آخری حصہ)
اس واقعے کے دوسرے
عینی شاہد حضرت مطلب بن ابی وداعہ ہیں جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے۔ نسائی اور مسند احمد میں ان کا اپنا بیان یہ نقل ہوا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورہ نجم پڑھ کر سجدہ فرمایا اور سب حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے تو میں نے سجدہ نہ کیا، اور اسی کی تلافی اب میں اس طرح کرتا ہوں کہ اس سورت کی تلاوت کے وقت سجدہ کبھی نہیں چھوڑتا۔وہ ایسا کوئ واقعہ نقل نہیں کرتے
الشامی ابوبکر الجزری کے حوالے سے ان شیطانی الفاظ کے افسانے کو بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ یہ یہ وہ آدمی ہے جو حرم مدینہ میں اولیاء اور صوفی بزرگوں پر حملے کرتا تھا اور جس نے لکھا کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ اور والد جہنم میں ہیں۔مزید برآں الطبری  اور ابن اسحاق ان روایات کے  بہت مشکوک ذرائع ہیں جن کی صحت پر اکثر مسلم اہل علم کو اعتراض ہے۔امام احمد بن حنبل نے اکیلے ابن اسحاق کی بیان کردہ روایات کو مستند ماننے سے انکار کر دیا تھا۔نسائ اور یحییٰ بن کتان بھی ابن اسحاق کو مستند نہیں مانتے۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر یہ واقعہ وقوع پذیر ہوا تھا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ مکہ کے مشرک  اور مدینہ کے منافق اس واقعے پر چپ بیٹھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام نہ کرتے۔اس واقعے پر   پندرہ روایات ہیں اور سب یہ نہین کہتی کہ یہ شیطانی الفاظ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوئے بلکہ بعض روایات تو یہ کہتی ہیں کہ یہ مشرک تھے جنہوں نے آیات میں اپنے بتوں کے نام سن کر یہ شیطانی الفاظ خود بولے تھے۔مزید برآں غرانیق کا لفظ کبھی بھی کسی بت یا خدائ چیز کے بیان کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا اور اس لفظ کو بتوں پر مراد لینا درست نہیں۔صرف ولیم موئر قرآن پر اعتراض کرتے ہوئے اس کا ترجمہ مادہ س کرتا ہے اور یہ بات بھی ہمارے دعوے کو تقویت دے رہی ہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے۔
خود کئ مغربی سکالر جیسا کہ برٹن کہتے ہیں کہ یہ کہانی من گھڑت ہے۔
اب ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کی ساری سندیں مرسل ہیں،اس واقعے کے ایک عینی شاہد نے شیطانی الفاظ کی کہانی بیان نہیں کی،اگر یہ واقعہ ہوا تھا تو مکہ کے مشرک اور مدینہ کے منافق بھی چپ نہیں بیٹھ سکتے تھے،حدیث کی چھ مستند ترین کتابوں میں سے کسی بھی ایک میں اس روایت کے ساتھ شیطانی الفاظ کا واقعہ منقول  نہیں،روایت میں طبری،ابن اسحاق اور واقدی جیسے ناقابل اعتماد ذرائع شامل ہیں اور دوسری طرف خود برٹن جیسے یورپی اور غیر جانبدار لوگ بھی کہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے تو پھر کس طرح ان روایات پر یقین کرکے نعوذ بااللہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر شیطانی الفاظ جاری ہوئے اور قرآن نعوذ بااللہ شیطانی اثر سے محفوظ نہیں۔اس ساری بحث اور تحقیق کے بعد ملحد سید امجد حسین اور ایاز نظامی کا قرآن پر یہ الزام جھوٹ،دجل،فریب اور مکاری کے زمرے میں آتا ہے۔
اللٰہ تعالٰی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔آمین۔الحمد للٰہ رب العالمین۔
ہذا ماعندی۔و اللہ اعلم بالصواب(حصہ اول کا لنکhttps://m.facebook.com/groups/186560831534965?view=permalink&id=638047306386313)
حوالہ جات:
http://ilhaad.com/2016/10/the-incident-graniq-critical-analysis/
http://mukaalma.com/article/AzeemUsmani/879
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/الواقدی
https://www.al-islam.org/180-questions-about-islam-vol-2-various-issues-makarim-shirazi/43-what-is-myth-gharaniq#fref_02acfabc_14
http://www.islamquest.net/ur/archive/question/fa1123
https://www.al-islam.org/180-questions-about-islam-vol-2-various-issues-makarim-shirazi/43-what-is-myth-gharaniq
https://www.al-islam.org/the-message-ayatullah-jafar-subhani/chapter-19-fiction-gharaniq
http://sunnah.org/wp/2014/01/20/z/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔