Friday 7 September 2018

کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟جب کہ زمین پر صرف ایک مشرق و مغرب ہے؟

کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟جب کہ زمین پر صرف ایک مشرق و مغرب ہے؟

پھر قرآن کیوں کہتا ہے کہ مشرقین و مغربین؟ایک ملحد کا قرآن پر سائنسی اعتراض اور اس کا جواب

(ارشد خان آستک ؛ شاعر و تجزیہ کار)
"
قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ کہا گیا کہ اللہ دو مشرقوں اور مغربوں کا آقا و مالک ہے ۔ آپ کے نزدیک اس آیتِ قرآنی کی سائنسی تعبیر کیا ہے؟"

قرآن کہتا ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے، قرآن کریم کی وہ آیت جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے:

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (١٧)

"( وہی) مشرقین ( دو مشرق ) اور مغربین ( دو مغرب ) کا رب ہے۔"

( سورۃ الرحمن 55آیت 17)

عربی متن میں مشرق و مغرب کے الفاظ تثنیہ کی شکل میں استعمال کیئ گئے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے۔

مشرق و مغرب کی انتہا:

جغرافیے کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور لیکن اس کے طلوع ہونے کا مقام سارا سال تبدیل ہوتا رہتاہے۔ سال میں دو دن، 21مارچ اور 23ستمبر ، جو اعتدال ربیعی و خریفی(Equinox) کے نام سے معروف ہیں، ایسے ہیں جب سورج عین مشرق سے طلوع ہوتا ہے، یعنی خط استوا پر سفر کرتا ہے، باقی تمام دنوں میں عین مشرق سے قدرے شامل یا قدرے جنوب کی طرف ہٹ کر طلوع ہوتا ہے۔ موسم گرما کے دوران میں 22جون کو سورج مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے ( خط سرطان پرسفر کرتا ہے ) تو موسم سرما میں بھی ایک خاص دن، یعنی 22دسمبر کو سورج مشرق کی دوسری انتہا سے نکلتا ہے۔ ( خط جدی پر سفر کرتا ہے )۔ اس طرح سورج موسم گرما میں ( 22جون ) اور موسم سرما میں ( 22دسمبر ) کو مغرب میں دو مختلف انتہاؤں پر غروب ہوتا ہے۔

حاشیہ:

زمین خط استوا کا عرض بلد صفر ہے جو زمین کو دو برابر نسٖ کروں میں تقسیم کرتا ہے۔ خط استوا کے شمال میں خط سرطان کا عرض بلد 23.5درجے شمالی ہے اور خط استوا کے جنوب میں خط جدی کا عرض بلد 23.5درجے جنوبی ہے، سورج بظاہر انہی دو عرض بلاد کے درمیان نظر آتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمین کی محوری گردش ( لٹو کی طرح مغرب سے مشرق کو گھومنے) کے دوران میں سال کے مختلف اوقات میں اس مختلف مقامات سورج کے براہ راست سامنے آتے ہیں۔ سال میں دو بار 21مارچ اور 23ستمبر کو سورج خط استوا پر عموداً جمکتا ہے ( بظاہر خط استوا پر سفر کرتا نظر آتا ہے ) جبکہ 22جون کو سورج کی شعاعیں خط سرطان پر عموداً پڑتی ہیں اور 22دسمبر کو سورج خط جدی پر عموداً چمکتا ہے ( محسن فارانی))۔ فطرت کا یہ مظاہرہ کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگ بآسانی دیکھ سکتے ہیں یا کسی بلند و بالا عمارت سے سورج کے اس طلوع و غروب کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظارہ کرنے والے لوگ دیکھیں گے کہ سورج گرمیوں میں 22جون کو مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے تو سردوں میں 22دسمبر کو ایک دوسری انتہا سے ، مختصر یہ کہ سارا سال سورج مشرق کے مختلف مقامات سے نکلتا ہے اور مغرب کے مختلف مقامات پر غروب ہوتا رہتا ہے۔

لہذا جب قرآن اللہ کا ذکر دو مشرقوں اور دو مغربوں کے رب کے طور پر کرتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مشرق و مغرب دوں کی دونوں انتہاؤں کا رب اور مالک ہے۔

تمام نقاطِ و مقامات کا مالک اللہ ہے:

اللہ تعالی مشرق و مٖغرب کے تمام نقاطِ و مقامات کا مالک ہے، عربی میں جمع کے صیغے کی دو اقسام ہیں۔ ایک جمع تثنیہ ہے، یعنی دو کی جمع اور دوسری قسم وہ ہے جس میں دو سے زیادہ کی جمع مراد ہوتی ہے۔ سورۃ رحمن کی 17ویں آیت میں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں جن کا صیغہ جمع تثنیہ ہے اور ان سے مراد دو مشرق اور مغرب ہیں۔ قرآن کریم کی حسب ذیل آیت دیکھیئے۔

فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (٤٠)

"پس میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی"

(سورۃ المعارج 70آیت 40)

اس میں مشرق اور مغرب کی جمع کے لیئے مشارق اور مغارب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو کہ جمع کے صیغے ہیں اور دو سے زیادہ کی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قرآن کیرم میں اللہ تعالی کا ذکر مشرق اور مغرب کے تمام مقامات کا مالک ہونے کے علاوہ مشرق و مغرب کے دو انتہائی مقامات کے رب اور مالک کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔