Friday 7 September 2018

اسلام میں لونڈیوں کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لونڈیوں سے نکاح پر ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب


اسلام میں لونڈیوں کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لونڈیوں  سے نکاح پر ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب
بشکریہ محمد طلحہ

جنگ میں گرفتار ہونے والے سبایا (لونڈی غلاموں) کے حق میں اسلام نے جو قوانین وضع کیے تھے ان کو سمجھنے میں آج لوگوں کو اس لیے دقتیں پیش آ رہی ہیں کہ اس زمانے میں وہ حالات باقی نہیں رہے ہیں جن کے لیے یہ قوانین وضع کیے گئے ہیں مگر قدیم ترین زمانے سے اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز تک دنیا میں اسیران جنگ کو غلام بنا کر رکھنے اور انہیں خرید و فروخت کرنے کا طریقہ رائج تھا۔ اس زمانہ میں بہت ہی کم ایسا ہوتا تھا کہ دو محارب سلطنتیں صلح کے بعد اسیران جنگ کا مبادلہ کرتیں یا ان کو فدیہ دے کر چھڑاتیں۔ زیادہ تر قاعدہ یہی تھا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوتے وہ اسی سلطنت کے قبضہ میں رہتے جس کی فوج ان کو گرفتار کر کے لے جاتی۔ اس طرح آبادیوں کی آبادیاں قید ہو کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں چلی جاتی تھیں اور کسی سلطنت کے یے یہ ممکن نہ تھا کہ ان کثیر التعداد قیدیوں کو مقید رکھ کر ان کے کھانے کپڑے کا بار اٹھاتی۔ اس لیے سلطنتیں اپنی ضرورت کے مطابق قیدیوں کو اپنے قبضے میں رکھتی تھیں اور باقیوں کو فوج کے افراد میں تقسیم کر دیتی تھیں، جن کے پاس وہ لونڈی غلام بن کر رہتے تھے۔
یہ حالات تھے جن سے اسلام کو سابقہ درپیش تھا۔ اس نے ان حالات میں دنیا کے سامنے یہ اصول پیش کیا کہ جو لوگ جنگ میں قید ہوں ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دو یا اسیران جنگ سے مبادلہ کر لو یا بطریق احسن رہا کر دو۔ لیکن اس اصلاحی تعلیم کا نفاذ تنہا مسلمانوں کے عمل سے نہ ہوسکتا تھا بلکہ اس کے لیے ان غیر مسلم قوموں کا راضی ہونا بھی ضروری تھا جن سے مسلمانوں کو جنگ پیش آتی تھی اور وہ اس وقت اس اصلاح کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھیں نہ اس کے بعد بارہ صدیوں تک آمادہ ہوئیں۔ اس لیے اسلام نے بدرجۂ آخر اس کی اجازت دی کہ دشمن کے اسیرانِ جنگ کو اسی طرح غلام بنا کر رکھا جائے جس طرح دوسری قومیں مسلمانوں کے اسیران جنگ کو رکھتی ہیں۔
مگر اس اجازت سے یہ خطرہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کے اجتماعی نظام میں بھی ایک پست طبقہ(Depressed Class) پیدا نہ ہو جائے۔ جیسا کہ ہر اس قوم کے اجتماعی نظام میں ہوا ہے جس نے دوسری قوموں کو مغلوب کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اسیران جنگ کے ساتھ یہ معاملہ خلاف انسانیت تھا اس سے ان بہت سے اخلاقی و تمدنی مفاسد کے پیدا ہونے کا بھی اندیشہ تھا جو کسی نظامِ اجتماعی میں ایک ایسے طبقہ کی پیدائش کا لازمی نتیجہ ہیں۔ لہٰذا اسلام نے اسیران جنگ کو غلام بنا کر رکھنے کی اجازت تو ضرورت کی بنا پر دی مگر اس کے ساتھ ایسے قوانین بھی مقرر کیے جن کا منشاء یہ تھا کہ غلامی کی حالت میں بہتر سے بہتر سلوک جو ان کے ساتھ ممکن ہو وہ کیا جائے اور ایسے اسباب مہیا کیے جائیں جن سے وہ رفتہ رفتہ اسلامی سوسائٹی میں جذب ہو جائیں۔
یہی مقصد ہے جس کے لیے لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دی گئی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنے تصور کو اب سے چند سو برس پیچھے لیے جائیے۔ فرض کیجئے کہ ایک غیر قوم سے مسلمانوں کی جنگ ہوتی ہے۔ اس میں ہزاروں عورتیں ان کے ہاتھ آتی ہیں۔ ان میں بہت سی جوان اور خوبصورت عورتیں بھی ہیں۔فریق مخالف نہ ان کو فدیہ دے کر چھڑا تا ہے نہ ان مسلمان عورتوں سے ان کا تبادلہ کرتا ہے جو اس کے قبضہ میں چلی گئی ہیں۔ مسلمان ان عورتوں کو بطریق احسان بھی نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ اس طرح تو ان کی اپنی عورتوں کے چھوٹنے کی کوئ امید کی ہی نہیں جاسکتی۔ ناچار وہ ان کو اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ اب فرمائیے کہ اتنی کثیر تعداد میں جو عورتیں دار الاسلام میں آ گئی ہیں ان کو کیا کیا جائے۔ ان کو دائم الحبس کر دینا ظلم ہے۔ ان کو ملک میں آزاد چھوڑ دینا گویا فسق و فجور کے جراثیم پھیلا دینا ہے۔ ان کو جہاں جہاں بھی رکھا جائے گا، ان سے اخلاقی مفاسد پھیلیں گے۔ ایک طرف سوسائٹی خراب ہو گی اور دوسری طرف خود ان کی پیشانیوں پر ہمیشہ کے لیے ذلت کے داغ لگ جائیں گے۔ اسلام اس مسئلہ کو یوں حل کرتا ہے کہ انہیں افرادِ قوم میں تقسیم کر دیتا ہے اور ان افراد کو ہدایت کرتا ہے کہ خبردار ان کو رنڈیاں نہ بنا دینا کہ ان سے حرام کراؤ اور ان کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بناؤ، بلکہ یا تو خود ان کو اپنے تصرف میں لاؤ نہیں تو ان کے نکاح کر دو تاکہ یہ بد کاریاں اور آشنائیاں نہ کرتی پھریں۔ اس قانون کی مختلف دفعات قرآن میں مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں (1)۔ سورۂ نور کے چوتھے رکوع میں ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (النور ۳۳)
اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں (2)، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
اس مقام پر یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اسیران جنگ میں سے کوئ عورت کس شخص کی ملکیت میں صرف اسی وقت آتی ہے جبکہ وہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کے حوالے کی جائے اور اس کے بعد اس عورت کے ساتھ مباشرت کا حق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتا ہے۔ سرکاری طور پر تقسیم ہونے سے پہلے کسی عورت سے مباشرت کرنا زنا ہے۔ اور اس طرح تقسیم کے بعد ایک مالک کے سوا کسی اور آدمی کا اس کے ساتھ ایسا فعل کرنا زنا ہے۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں زنا ایک قانونی جرم ہے۔
عرب جاہلیت میں بہ کثرت لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنی لونڈیوں کے ذریعہ سے باقاعدہ قحبہ خانے کھول رکھے تھے۔ وہ ان کی کمائی کھاتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد کو پال کر اپنے خدم و حشم میں اضافہ کرتے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ہیں تو وہاں عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کا ایک قحبہ خانہ موجود تھا جس میں اس نے چھ لونڈیاں اسی غرض سے رکھ چھوڑی تھیں۔ اسی چیز کی ممانعت اس آیت میں کی گئی ہے۔
یہ اس قانون کی پہلی دفعہ ہے جس نے لونڈیوں کے ایک برے مصرف کا دروازہ قطعی بند کر دیا۔
مگر یہ ان کے لیے ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرنا چاہتی ہوں۔ رہیں وہ لونڈیاں جو آپ ہی بدکاری کی طرف مائل ہوں تو ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا:
وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (النساء ۲۵)
اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کر لے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آ جائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔
اس طرح ان لونڈیوں کے لیے بدکاری کاراستہ تو بالکل بند کر دیا گیا، خواہ مجبورانہ ہو یا رضاکارانہ۔ مگر نفس تو وہ بھی رکھتی ہیں اور ان کے داعیاتِ فطرت کی تکمیل بھی ضروری ہے ورنہ ظلم بھی ہو گا اور اخلاقی مفاسد کے چور دروازے بھی کھلیں گے۔ اس لیے ان کی نفسیاتی ضرورتوں کو با عزت طریقہ سے پورا کرنے کی دو صورتیں تجویز کی گئی ہیں:
1۔ ایک صورت یہ ہے کہ ان کے آقا ان کے نکاح کر دیں

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔ (النور ۳۲)

اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے با صلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے۔
اسی طرح جو نادار لوگ زیادہ مہر دے کر معزز خاندانوں میں شادیاں کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو بھی ترغیب دی گئی کہ تھوڑے مہر پر لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔

اور جو شخص تم میں اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو کہ شریف خاندانوں کی مومن عورتوں سے نکاح کرسکے تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرے (النساء25)
لونڈی کو جب اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر اس مالک کو اس لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنے کا حق باقی نہیں رہتا، کیونکہ کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا یہ حق مہر کے عوض دوسرے شخص کی طرف منتقل کر چکا ہے۔ اس بنا پر ایسی لونڈیاں بھی محصنات میں داخل ہو جاتی ہیں جن کو نصِ قرآنی نے شوہر کے سوا سب کے لیے حرام کر دیا ہے۔ چنانچہ آیت مذکورہ کے بعد اس کی تصریح کر دی گئی ہے:
پس ان کے مالکوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو اور دستور کے مطابق ان کے مہر ادا کر دو۔ وہ قید نکاح میں لائ جائیں نہ کہ کھلی اور چھپی بد کاریاں کریں۔ پھر جب وہ نکاح سے پابند ہو جائیں اور اس کے بعد بدکاری کریں تو ان پر اس سزا کا نصف ہے جو شریف خاندانی عورتوں کے لیے ہے (النساء25)
2۔     دوسری صورت یہ ہے کہ خود مالک ان سے تمتع کرے۔ اس کی تین شکلیں ہیں ایک یہ کہ محض ملک یمین ہی کو قید نکاح سمجھ کر تمتع کیا جائے۔ دوسری یہ کہ لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کیا جائے اور اس آزادی ہی کو اس کا مہر قرار دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اس کو آزاد کر کے جدید مہر کے ساتھ نکاح ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری اور تیسری شکل کو ترجیح دی ہے اور اس کی فضیلت میں متعدد احادیث آئی ہیں:
جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کو خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو اچھا ادب سکھائے پھر اس کو آزاد کر دے اور اس کے بعد خود اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا (بخاری، کتاب النکاح)
دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ “اس کو آزاد کر کے مہر دے کر اس کے ساتھ نکاح کرے” ابوداؤد الطیالسی نے ایک اور حدیث نقل کی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
جب کسی شخص نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا پھر اس کو جدید مہر دے کر اس سے نکاح کیا تو اس کے لیے دو اجر ہوں گے۔
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ کے ساتھ اسی طرح نکاح کیا ہے کہ پہلے ان کو آزاد کیا پھر قیدِ نکاح میں لائے۔ اس باب میں روایات مختلف ہیں کہ آپ نے جدید مہر ادا کیا تھا یا آزادی ہی کو مہر قرار دیا، لیکن اغلب یہ ہے کہ آپ نے جواز کی دونوں صورتیں ظاہر کرنے کے لیے دونوں طریقوں پر عمل فرمایا ہے۔ کسی کو جدید مہر دیا ہے اور کسی کی آزادی ہی کو مہر قرار دیا ہے۔
اس اجازت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بنی قریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہؓ ، غزوۂ بنی المصطلق کے سبایا میں سے حضرت جویریہؓ غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہؓ اور مقوقس مصر کی بھیجی ہوئ حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ ان میں سے مقدم الذکر تین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا لیکن حضرت ماریہ قبطیہؓ سے بربنائے ملک یمین تمتع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی حیات طیبہ کے اخیر زمانے میں تین لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا اصل مقصد اسلامی سوسائٹی میں لونڈیوں کے لیے عزت کی جگہ پیدا کرنا تھا۔ اور آپ خود اپنے عمل سے مسلمانوں کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ انسانی برادری کے اس بدقسمت گروہ کے ساتھ ان کو ایسا سلوک کرنا چاہیے۔ مگر دشمنان اسلام کی بدطینتی نے آپ کے اس انتہائ شریفانہ فعل کو بھی نفسانیت پر محمول کر کے چھوڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان عیب چینی پر اتر آئے تو دنیا کا کوئ نیک سے نیک فعل بھی ایسا نہیں جس میں وہ بدی کا پہلو نہ نکال سکتا ہو۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔