Monday, 3 September 2018

کونسی شریعت ؟ الزامی جواب

کونسی شریعت-الزامی جواب

ذرا اپنی شریعت کی بابت بھی بتاؤ، یہ کہاں سے ثابت ہوتی ہے؟ تم جو روز ’جمہوریت‘ کی گردان لے کر بیٹھ جاتے ہو، کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کونسی جمہوریت؟ امریکہ کی جمہوریت؟ برطانیہ کی جمہوریت؟ فرانس کی جمہوریت (جو پیچاری مسلم خاتون کے سکارف کا بوجھ نہ سہار سکی)؟ حسنی مبارک کی جمہوریت؟ پرویز مشرف کی جمہوریت؟ چائنا کی جمہوریت؟
جیسا کیسا جمہوریت کا دعویٰ تو یہ بھی سارے ہی کرتے ہیں! یہاں تو کبھی تمہیں کسی کو الجھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ بھئی کونسی جمہوریت؟
ذرا دہرے معیار دیکھتے جائیے۔ نمیری اور ضیاءالحق کے اعمال کی ذمہ داری ’شریعت‘ کو اٹھوا دی جائیگی اور انکے اعمال کو جھٹ سے ’شریعت‘ کے خلاف دلیل بنا دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ شریعت کے ہر طلبگار کو چڑا کر پوچھا جائے گا کہ ارے صاحب کونسی شریعت، ضیاءالحق والی یا نمیری والی؟ البتہ حسنی مبارک اور پرویز مشرف کے اعمال کی ذمہ داری ’جمہوریت بی‘ کو نہیں اٹھوائی جائے گی۔ ظاہر ہے جمہوریت کا ڈھونگ حسنی مبارک نے بھی رچا کر رکھا ہے اور ہر بار ’ننانوے فیصد‘ کی اکثریت سے الیکشن جیت کر دکھایا ہے۔ اب الیکشن ’جمہوریت‘ ہی کے اندر تو ہوتے ہیں!
اِسی جمہوریت کا ڈھونگ پرویز مشرف نے بھی رچایا۔ الیکشن کروائے۔ اور پارلیمنٹ بٹھائی۔ لیکن ’جمہوریت‘ کیونکہ حق ہے اور ’آسمان سے اتری ہے‘، لہٰذا کسی کی بد اعمالیوں کی ذمہ داری اِس پر نہیں ڈالی جا سکتی؛ یہ منزہ مبراء ہی رہے گی۔ نہ صرف یہ کہ کسی کی بد اعمالیوں کی ذمہ داری ’جمہوریت‘ پر نہیں ڈالنے دی جائے گی بلکہ اُس ظالم شخص کو جمہوریت کا باقاعدہ مجرم گردانا جائے گا اور الٹا یہ رونے روئے جائیں گے کہ ’جمہوریت‘ کے ساتھ ظلم ہوا ہے!
سچ ہے….، جس بات پر آدمی کا ایمان ہو، اُسکے ساتھ وہ اِسی اخلاص کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جمہوریت پر تمہارا ایمان تھا، دیکھ لو، لوگوں کے سب برے کرتوتوں کے باوجود یہ کس طرح صاف کی صاف اور پاک کی پاک رہی! بلکہ اور بھی مقدس ہو گئی!!! اور اس کی حرمت کیلئے دہائی مچانا اور بھی ضروری ہو گیا! شریعتِ خداوندی تمہارے ایمان کا حصہ ہوتی، تو کسی کی بدعملی کی ایک بھی چھینٹ تم شریعت پر نہ پڑنے دیتے اور اسکی پاکی بیان کرنے میں تم کم از کم اتنا ہی زور صرف کرتے جتنا کہ جمہوریت کی پاکی بیان کرنے میں صرف کرتے ہو، بلکہ اُس سے زیادہ:
وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا ….!
جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں
یہاں تک کہ سیکولرزم ہی کی بابت، واقفانِ حال جانتے ہیں کہ خود اِسکے بہت سارے ورژن ہیں۔ کسی ملک میں ’مذہب‘ کو سوسائٹی میں زیادہ رسوخ رکھنے دیا جاتا ہے اور کہیں پر کم۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں معاملہ اور ہے اور فرانس میں اور۔
مارکسسٹوں نے اِس برادری۔ آزادی۔ مساوات کا اقتصادی معیار سامنے لانا چاہا؛ یہ معاشی حوالے سے دنیا کو ایک نرالا ماڈل دینے چل پڑے۔ لبرلسٹوں نے اس کا سیاسی معیار سامنے لانا چاہا اور یہ سیاسی آزادی کو باقی دونوں چیزوں پر فوقیت دینے چلے گئے۔ جبکہ چینیوں نے اِن ہردو کو غلط گردانا اور ایک ’جمہوریۂ نو‘ کا تصور پیش کیا، جیسا کہ ایشیائی وافریقی انقلابیوں نے اول الذکر ہر دو کے طریقے کو ٹھکراتے ہوئے ’اشتراکی جمہوریت‘ کی داغ بیل ڈالی۔ اِن سب گروپوں میں وہ رسہ کشی اور وہ کھینچا تانی رہی ہے __ افکار کی دنیا میں بھی اور عمل کی دنیا میں بھی، بلکہ عالمی سیاست کی بساط پر بھی __ کہ پوری انسانیت اس کے شکنجے میں کراہتی رہی ہے۔
اِن لوگوں کے پاس تو کوئی ایک معیار، اور انسانیت کو اکٹھا کرنے کیلئے کوئی واضح بنیاد ہے ہی نہیں۔ جس کا زور چلے وہ اپنا ایک نظریہ گھڑ لیتا ہے؛ چند عشروں کے بعد وہ نظریہ پٹخا جاتا ہے اور کسی نئے تجربے کا ڈول ڈالا جا رہا ہوتا ہے۔ کوئی بتائے، اِن کی قلابازیوں کا یہ عمل آج تک رکا کب ہے؟
مارکسزم ہی کو لے لیجئے، جوکہ ایک نہیں بے شمار شکلیں رکھتا ہے۔ اِس کے باوجود مارکسسٹوں کو کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ جب تک تم مارکسزم کی ایک متعین تفسیر پر متفق نہیں ہو لیتے تب تک تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ حالانکہ مارکسزم کی تحریکیں آپس میں اِس قدر متعارض رہی ہیں کہ ان میں بعد المشرقین پایا جاتا رہا ہے۔ فرانس کا ایک معروف مارکسسٹ رہ چکا مؤلف میکسم روڈنسنMaxime Rodinson لکھتا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم کوئی ایک نہیں بلکہ درجنوں سینکڑوں صورتیں رکھتا ہے۔ کارل مارکس کے ارشادات متعدد ہیں۔ یہ کچھ ایسا مشکل نہیں کہ اُس کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے کو بنیاد بنا کر مارکسزم کے نام پر کسی بھی نظریہ کو ثابت کر لیا جائے۔ سمجھو مارکس کی کتاب بھی مقدس بائبل ہی کی طرح ہے، جس کی نصوص میں سے شیطان بھی اپنی کسی گمراہی کا ثبوت پیش کرنے لگے تو کر سکتا ہے۔ (بحوالہ کتاب الاسلام والعالمانیۃ وجہا لوجہ۔ د۔ یوسف القرضاوی۔ 185)
یہی حال اشتراکیت اور انکی جمہوریت کا ہے۔۔ انہی سیکولرسٹوں کے بھی اپنے ہزاروں مذاہب ہیں، اور بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔
سب جانتے ہیں کمیونسٹوں نے جمہوریت پرستوں کے کیسے کیسے پرخچے اڑائے ہیں، اور جمہوریت پرستوں نے کمیونسٹوں کے کیسے کیسے لتے لئے ہیں، جبکہ یہ دونوں گروہ (یعنی کمیونسٹ اور جمہوریت پرست) انسان پرستی کے ٹھیکیدار رہے ہیں۔ ان میں ہر ایک گویا خلق خدا کے درد میں صبح شام لوٹتا رہا ہے…. یہ سب سرگرداں ظالم آج شریعتِ محمدی کو یہ طعنہ دینے چلے ہیں کہ یہ کسی واضح چیز پر کھڑی ہوئی نہیں ہے! دوہرے پیمانے اِس کے سوا اور کیا ہوتے ہیں۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔