Wednesday, 5 September 2018

شی میلز کا بڑھتا ہوا رجحان اور ہماری ذمہ داریاں

شی میلز کا بڑھتا ہوا رجحان اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر اسرار احمد صدیقی

اذا لم تستحی فاصنع ما شئت
{جب تم میں حیاء نہ رہے تو جو دل چاہے کرو۔  مفہوم حدیث}

اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو
فاتح قبلہ اول مجاھد اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی رح

انہیں باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دشمنان اسلام کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں میں فحاشی کو عام کردیا جائے جسکے لئے اسلام دشمنوں نے ایک نیا ہتھکنڈا شی میلز کی صورت میں اپنایا ہے {جیسا کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں مشہور و معروف شخصیت بوبی}

شی میلز یعنی ہیجڑے، ایک تو ہوتے ہیں پیدائشی ہیجڑے جنکی تعداد انتہائی کم ہے دوسری قسم ہے سرجری کے ذریعے بننے والے ہیجڑے یعنی جن کے لئے ماں باپ لڑکی ڈھونڈ کر اپنی بہو گھر لانے کی کوشش میں ہوتے ہیں اور یہ الو کا پٹھا انکے لئے داماد گھر لے آتا ہے

مستند ذرائع کے مطابق شی میل بننے کے لئے ایک سرجری کا خرچہ 10 لاکھ روپے ہے اور انہی ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان میں کم از کم 2300 شی میلز موجود ہیں یعںی ان 2300 افراد کی سرجری پر 2 ارب 30 کروڑ کا خرچہ آیا اتنی بڑی رقم انکے پاس آئی کہاں سے؟ کن لوگوں نے انہیں یہ رقم فراہم کی؟ اور اسکے پیچھے ان افراد کا مقصد کیا تھا؟ {تحقیق ضرور ہے}

کراچی میں رہنے والے افراد کو یاد ہوگا کے سڑکوں کے درمیان فٹ پاتھ پر جب درخت انتہائی گھنے ہوگئے تھے تو اچانک ہی انہیں کاٹنا پڑا، شاید اسکی وجہ ہر کسی کے علم میں نہ ہوں چلیں میں آپ کو بتاتا ہوں اسکی وجہ یہی تھی کے ان درختوں کے جھنڈ کے بیچ فحاشی کا اڈہ چل رہا تھا جہاں سڑکوں چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پر  بھیک مانگنے والے نام نہاد ہیجڑے رات گئے جسم فرشی کا مکروہ دھندہ کرتے  تھے

اسہی طرح شہروں میں اچانک فحاشی و عریانی اور بے حیاء لباس کی بنیاد بھی انہیں شی میلز نے رکھا، جس دور میں اچھے خاصے لبرل گھرانے کی لڑکیاں بھی کھلے گلے اور کھلی چاک کے کپڑے پہننے میں شرم محسوس کرتی تھی اس وقت انہی شی میلز نام نہاد ہیجڑوں نے اس فیشن کی بنیاد رکھی، جگہ جگہ پبلک پلیسز اور سگنلز پر یہ دل لبھانے والےاسٹائل میں فحش لباس پر بھیک مانگے کے بہانے آکر لڑکیوں کو اس بات پر ابھارتی تھی کہ جب ہم ایسے لباس پہن کر گھوم سکتے ہیں اور عوامی مقامات پر آسکتے ہیں تو تم کیوں نہیں؟ ان شی میلز سے متاثر ہوکر اب اچھی خاصی مسلمان لڑکی بھی ایسا لباس پہنتی ہے کہ دل چاہتا ہے جاکر بندہ کہدے بہن جی کپڑے پہننے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

انہی ذرائع کے مطابق ان شی میل کے ذریعے ایڈز کی بیماری بھی پھیلائی جارہی ہے کم از کم سینکڑوں ایسی شی میلز کارکن ہیں جنہیں ایڈز کی بیماری ہے اس طرح ہمارے نوجوانوں میں یہ بیماری پھیل رہی ہے

اب آتے ہیں اسکے مسئلے کے حل کی جانب تاکہ ہمارے معاشرے اس بیحائی کا کلچر ختم ہوسکے اسکے لئے صرف فیسبک یا کسی بھی سوشل میڈیا پر ہی کمپین نہیں چلانا بلکہ عملی زندگی میں بھِ کچھ کرنا ہوگا
1} جہاں بھی ان شی میلز کو دیکھیں انکی حوصلہ شکنی کریں، انکی مذمت کریں اور انکو شرم و غیرت دلائیں
2} ایسے ہسپتال کو پوائنٹ اوٹ کریں اور انکے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں جو ہمارے سخت لونڈوں کو لونڈیاں بناکر بازار کی زینت بنارہے ہیں
3} ایسی شیل میلز کی ایکٹیویٹی پر نظر رکھیں اور جہاں جہاں یہ فحاشی پھیلا رہے ہیں انکے خلاف قانونی کاروائی کریں
4} لائیو چیٹ کے متعدد ایپ، فیسبک گروپس وغیرہ میں فحش ویڈیوززیادہ تر انہی کی ہوتی ہیں ان اکاونٹس کو رپورٹ کریں اور سائبر کرائم کو رپورٹ کریں ای میل پر بھی اور گلستان جوہر دارالصحت ہسپتال کے ساتھ موجود سائبر کرام آفس جاکر ان اکاونٹس کی رپورٹ درج کرواکر انکے اکاونٹس اور گروپس کو بند کروائیں

{کچھ لنک جن کے ذریعے انکی اصلیت دیکھی جاسکتی ہے کہ یہ کس طرح فحاشی و عریانی پھیلانے کے عالمی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں

http://spileorat.com/team-pukar-caught-fake-shemales-gang-pukar-24-august-2017-neo-news/

https://dailypakistan.com.pk/23-Jan-2017/513911

https://www.youtube.com/watch?v=eSRnoE4XJBA

https://dailypakistan.com.pk/03-Jun-2018/791849

https://www.samaa.tv/urdu/life-style/2016/11/600692/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔