Wednesday 5 September 2018

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح مکہ اور دیگر مواقع پر ملحدین و مستشرقین کا قیدی کفار مرد اور عورتیں قتل کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح مکہ اور دیگر مواقع پر ملحدین و مستشرقین کا قیدی کفار مرد اور عورتیں قتل کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے عہد مبارک میں کسی اسیر کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ کچھ ایسے اسیر تاریخ میں ذکر ہوئے ہیں، جن کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے تہ تیغ کیا گیا۔ لیکن وہ اسیر تھے جن کو کسی مصلحت کی بنا پر قتل کیا گیا تھا، یا وہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانا چاہتے تھے یا پھر قتل و غارت کا بازار گرم رکھنے کیلئے دوسروں کو تشویق کرتے تھے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انکو قتل کرنے کا حکم فرمایا، تاکہ فتنہ و فساد اور قتل و غارت کو روکا جاسکے، ان مقتولین کے حالات کا بخوبی مطالعہ کرنے سے کاملاً واضح ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   کا حکم قتل عمومی نہیں تھا بلکہ ایک خصوصی اور مصلحت آمیز حکم تھا۔
چند وہ اسیر جو رسول خدا کے حکم  سے یا اسیر ہونے کے بعد قتل کئے گئے:
غزوہ بدر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے مندرجہ ذیل دو اسیروں کو اعدام کیا گیا۔
1۔ عقبۃ بن ابان بن ذکوان بن امیۃ بن عبد شمس، جس کی کنیت "ابوالولید"تھی، اسکے باپ کی کنیت "ابو محیط"تھی۔ جب مکہ مکرمہ میں اللہ تعالٰے کی طرف سے دعوت اسلام کو آشکار کرنے کا حکم آیا تو یہ وہ شخص تھا جو مسلمانوں کو بہت زیادہ اذیّت دیا کرتا تھا۔ (کان شدیدا الاذی للمسلمین) بدر میں اسیر ہوا پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے قتل کیا گیا۔
2۔ نصر بن حارث بن علقمۃ بن کلدۃ بن عبد مناف، یہ شخص "بنی عبدالدار"میں سے تھا، بدر میں مشرکین کے علمداروں میں سے تھا۔ بدر سے واپسی پر "الاثیل"کے مقام پر (جو کہ مدینہ کے قریب ہے) قتل کیا گیا، یہ وہ ملعون تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیّت کرتا تھا۔
غزوہ احد میں ایک شخص کو اہدام کیا گیا۔
1۔ عمروبن عثمان الجمعی، یہ وہ شخص تھا جو بدر میں بھی اسیر ہوا تھا، پھر اس کو آزاد کر دیا گیا تھا، مکہ کے شعراء میں سے تھا، شعر کہہ کہہ کر مشرکین کو مسلمانوں سے لڑنے اور بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے کیلئے تشویق کرتا تھا، احد میں دوبارہ اسیر ہوا اور عاصم بن ثابت نے اس کو قتل کیا۔
فتح مکہ کے موقع پر تین اشخاص کو تہ تیغ کرنے کا حکم فرمایا گیا۔
ویسے تو فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا تھا، لیکن ھلال بن حظل، مقیس بن صبابۃ، اور عبداللہ بن ابی سرح کے متعلق فرمایا تھا، اگر یہ لوگ غلاف کعبہ میں بھی چھپے ہوں، امان نہ دو اور قتل کر ڈالو۔ (آثار الحرب)
http://islamtimes.org/ur/doc/article/437803/
فتح مکہ کے روز، جبکہ آپؐ نے تمام دشمنون کو معاف کردیاتھا، جن دس افراد کو معافی سے مستثنیٰ قرار دیا تھا، ان میں چار عورتیں تھیں  ان میں دو ابن خطل کی لونڈیاں تھیں، ایک نام قریبہ اور دوسری کا نام فرتنیٰ تھا۔ ایک ابولہب کی لونڈی سارہ تھی۔ سارہ ،نبی اکرم ﷺ کےساتھ بدکلامی کیا کرتی تھی اور آپؐ کی ہجو گا کر قریش کو سنایا کرتی تھی۔ فتح مکہ کے روز اسے قتل کردیا گیا۔ اسی طرح قریبہ کوبھی قتل کردیا گیا۔ فرتنیٰ نے آپؐ سے امان کی درخواست کی آپؐ نے اس کو معاف کردیا۔ اس نے حضرت عثمان ؓ کے عہد میں وفات پائی۔ یہ عورتیں اصولی طور پر محاربت و قتال میں بھی قتل کی مستحق نہ تھیں مگرانہوں نے رسول اللہ ؐ کی ذات کےبارے میں بدزبانی کرکے اپنے آپ کو قتل کا مستحق ٹھہرا لیا۔ ان کی بدزبانی کی پاداش میں رسول اللہ ﷺ نے ان کا خون مباح ٹھہرا دیا۔
حویرث بن نقید بھی رسول اللہ ﷺ کی شان میں بدزبانی کیا کرتا تھا۔ فتح مکہ کے روز اس کا خون بھی رسول اللہ ﷺ نے مباح ٹھہرا دیا۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے اس کو قتل کردیا۔
ابن خطل کا جرم یہ تھا کہ اس نے اسلام قبول کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کو تحصیل زکوٰة پرمامور فرما دیا او را س کے ساتھ ایک او رمسلمان کو روانہ کیا۔اس نے اس مسلمان کو قتل کردیا اور پھرقریش کہ کے ساتھ مل گیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی ہجو کہا کرتا تھا اور اس کی دو لونڈیاں یہ ہجو گایاکرتی تھیں۔ فتح مکہ کے روز یہ بیت اللہ کے پردوں میں چھپا ہوا پایا گیا چنانچہ اس کو سعید بن حریث مخزومی او رابوبرزہ اسلمی نے قتل کردیا۔
نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط جنگ بدر کے قیدیوں میں شامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے رحم کھاکر تمام قیدیوں کو فدیہ وغیرہ لے کر رہا کردیا، مگر آپؐ کی بے پایاں رحمت کے باوجود آپؐ نے ان دونوں کو قتل کروا دیا۔ یہ دونوں آپؐ کے ساتھ بدزبانی کرکے آپؐ کو ایذا پہنچایا کرتے تھے۔
فتح مکہ کے بعد آپؐ نے ان تمام شعراء کے قتل کا حکم صادر فرما دیا جو آپؐ کی ہجو کہا کرتے تھے۔چنانچہ معلقات کے مشہور شاعر زہیر بن ابی سلمیٰ کا بیٹا کعب بن زہیر بھی انہی شعراء میں شامل تھا۔ کعب کا بھائی بجیر اس وقت مسلمان ہوچکا تھا۔ اس نے اپنےبھائی کورسول اللہ ﷺ کے اس حکم سے آگاہ کیا۔اس پرکعب نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی مانگ لی۔ چنانچہ اپؐ نے اسے معاف فرما دیا۔
علامہ ابن تیمیہ، ابواسحاق فزاریؓک ےحوالے سے لکھتے ہین کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا، اس لشکر میں عبداللہ بن رواحہ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے۔جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوئے تو ایک کافر نے اپنے لشکر سےباہر آکر حضورؐ کی شان میں بدزبانی شروع کردی۔ مسلمان لشکر میں سے ایک شخص نےباہر نکل کر کہا:
''دیکھو میں فلاں ابن فلاں ہوں او رمیری ماں فلاں ہے، تم مجھے گالی دے لو۔مگر رسول اللہ ﷺ کی شان میں بدزبانی کرنے سے باز اجاؤ''

اس پر وہ کافر او ر زیادہ بدزبانی کرنے لگا۔ اس مسلمان نے اسے پھر سمجھایا، وہ پھر بھی باز نہ آیا۔ آخر اس مسلمان نے اس پر حملہ کردیا او رکفار کےلشکرمیں گھس کر اسے زخمی کردیا۔ کفار نے اسے گھیر لیا اور اسے بھی شہید کردیا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپؐ نے فرمایا:
''کیا تمہیں اس شخص پر تعجب ہے جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مدد کی؟''
ابورافع بن ابی الحیق یہودی، رسول اللہ ﷺ کی شان میں بدزبانی کیا کرتا اور آپؐ کے خلاف بدزبانی کرنے والوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ آپؐ نے انصار کے چند آدمی بھیجے ، جن کے سربراہ عبداللہ بن عتیکؓ تھے۔ عبداللہ بن عتیکؓ نے رات کے وقت ابن ابی الحقیق کے قلعے میں داخل ہوکر اس کو قتل کردیا۔
کعب بن اشرف مشہور یہودی قبیلہ بن نضیر سے تعلق رکھتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس نے قریش کے مقتولوں کا مرثیہ کہا تھا۔وہ اپنی بدزبانی سے رسول اللہ ﷺ کو ایذا پہنچایا کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''کعب بن اشرف کوکون قتل کرے گا اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کو ایذا پہنچائی ہے؟''
محمد بن مسلمہ انصاریؓ نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا اور رات کے وقت اپنے ساتھیوں کی معیت میں دھوکے کے ساتھ اس کو قتل کردیا۔'
[ السیرة النبویہ جلد2ص411، جوامع السیرة ص233
15. ایضاً
16. السیرة النبویہ جلد2ص410، جوامع السیرة صفحہ 232، الصارم المسلول صفحہ 128
17. جوامع السیرة صفحہ 147،148، الشفاء صفحہ2؍195، الصارم المسلول صفحہ 128
18. الصارم المسلول صفحہ 145، تاریخ ادب عربی۔ احمد حسن زیات (اردو ترجمہ) صفحہ 255
19. الصارم المسلول صفحہ 149
20. صحیح البخاری ص3؍13
21. صحیح البخاری ص3؍12۔13، الفا ء ص2؍194، الصارم المسلول ص70
باوجوداس کے کہ حق ان پر مکمل طور پر واضح ہو چکا تھا، یہ لوگ نہ صرف پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کا انکار کرنے کے مجرم تھے، بلکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم)کے خلاف مسموم اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو حق قبول کرنے سے روکنے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسانے کے بھی مجرم تھے۔ ان کی اشتعال انگیزیاں اس طرح جنگوں اور زندگیوں کے ضیاع کا باعث بنیں کہ مسلسل جنگیں شروع ہو گئیں۔ ان لوگوں کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جس سے ان پر اپنے پیغمبروں کے منکرین کے سرداروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ایک خاص قانون جاری ہو گیا.
مزید براں، بعض تاریخی واقعات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ مسلمانوں کے خلاف بعض دیگر جرائم کے بھی مرتکب تھے۔ مثلاً:
مقیس بن صبابہ کو ایک مسلمان کو دھوکے سے قتل کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ وہ مدینہ گیا اور ظاہر کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اپنے بھائی کے قتل کے عوض خوں بہا کی درخواست کی۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے خوں بہا ادا کر دیا۔ خوں بہا لینے کے بعد مقیس بن صبابہ پہلی ہی فرصت میں اس آدمی کو قتل کرنے کے لیے لپکا جو اسے پہلے ہی خوں بہا ادا کر چکا تھا۔ اس کے بعد وہ مکہ کی طرف لوٹ آیا۔
الحارث بن نفیل یا الحویرث بن نفیذ ایک بین الاقوامی معاہدے کو توڑنے کا مجرم تھا۔ اس نے اس قافلہ پر حملہ کیا جو حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کو مدینہ لے کر جا رہا تھا.کیونکہ سب بین الاقوامی قوانین میں غیر متحارب عورتوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
عبداللہ بن خطل ایک مسلمان غلام کو دوران سفر قتل کرنے کا مجرم تھا۔اس نے اسے صرف اس وجہ سے قتل کر دیا کہ اس نے وقت پر اس کے لیے کھانا تیار نہیں کیا تھا۔
الحارث کی طرح ہبار بن الاسود بھی ایک بین الاقوامی معاہدے کو توڑنے کا مجرم تھا۔ اس نے اس قافلے پر حملہ کر دیا جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) کو مدینہ لے کر جا رہا تھا۔ حملے کے نتیجے میں حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) کجاوے سے گر پڑیں اور ایک پتھر سے جا ٹکرائیں اور نتیجۃً اپنے ہونے والے بچے کو کھو بیٹھیں۔یہ بھی ایک غیر متحارب عورت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی پر حملہ کرنے کا مرتکب تھا جس سے ان کا حمل ضائع ہوگیا۔اس کے قصاص میں اسے قتل کر دیا گیا۔
http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/baaz-munkirin-ko-mohlat-na-denay-kay-mutaliq
[ابن الخطل کا مزید تفصیلی واقعہ فتح الباری میں آیا ہے۔ فتح الباری میں مذکور ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ چار آدمی جہاں ملیں'انہیں قتل کردیا جائے'اگرچہ کعبہ کے پردہ کے نیچے ہوں'ان میں سے ایک عبداللہ ابن خطل اور دوسرا حویرث ابن نقید۔''عبداللہ ابن خطل کے قتل کا حکم اس لئے فرمایا کہ پہلے یہ شخص مسلمان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے روانہ کیا۔ اس کیساتھ ایک انصاری صحابی اور اس کا ایک مسلمان غلام بھی تھا جو ابن خطل کی خدمت کیا کرتا تھا۔ رات کو کسی جگہ ٹھہرے تو ابن خطل نے اپنے خادم غلام کو حکم دیا کہ وہ اس کیلئے بکرا ذبح کرکے کھانا تیار کرے اور خود سوگیا۔جب جاگا تو دیکھاکہ غلام نے کوئی چیزتیار کرکے نہیں رکھی۔ غصہ میں اس نے غلام کو قتل کردیا اور مرتد ہوکر مشرکین مکہ سے جا ملا ۔ وہاں پہنچ کر ابن خطل نے دو باندیاں خریدیں جو گانا گاکر نعوذباللہ آپ کی ہجو کرتی تھیں اور یہ اس سے لطف اندوز ہوتا تھا'اس لئے حضرت زبیر ابن العوام رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا جبکہ وہ خانہ کعبہ کے پردہ سے لٹکا ہوا تھا اور اس کی ایک باندھی بھی فتح مکہ کے موقع پر قتل کی گئی جبکہ دوسری باندی فرار ہوگئی جو بعد میں مسلمان ہوگئی،اور حویرث بن نقید مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید ایذا پہنچایا کرتا تھا'اس لئے یہ بھی قتل کیا گیا'اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدگوئی کرنے والوں کے یہ واقعات وہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آئے'لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی جرم میں انہیں معاف نہیں کیا گیا'بلکہ کیفر کردار تک پہنچایا گیا
http://m.dailyhunt.in/news/india/urdu/baseerat-online-epaper-baonline/توہین-رسالت-کا-بدترین-انجام-newsid-46952620
یاد رہے کہ اسلام میں دشمن کو معافی ہوسکتی ہے لیکن غدار ،گستاخ اور جنگی جرائم کے مرتکب کو نہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار فرمایا لیکن ان کی جان بخشی نہیں کی جو غدار،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ یا جنگی جرائم کے مرتکب تھے۔یہی قانون آج بھی غیر مسلم ممالک میں رائج ہے کہ غدار اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو اپنے بندوں کے قتل کے بدلے میں قتل کر دیا جاتا ھے۔اگر ملحدین کو پھر بھی اعتراض ہے تو پہلے اپنے والد محترم یعنی یورپ کے قانون پر بات کریں پھر اسلام پر تنقید کریں۔
جزاک اللہ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔