Saturday 22 September 2018

ملائیت کے نام پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی

ملائیت کے نام پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی

تحریر:محمد عطاء اللہ صدیقی
سوویت یونین کے انہدام کے باوجود پاکستان کے اشتراکی ’’دانشور‘‘ سرخ جنت کی رومانوی فضا سے باہر نہیں آسکے۔ اشتراکیت کے زوال کے صدمہ نے معلوم ہوتا ہے ،انہیں اعصاب زدگی میں مبتلا کردیا ہے۔ حقائق کو ٹھنڈے دل سے قبول کرنے کی بجائے وہ کارل مارکس اور اس کے حواریوں کے ہفواتی مفروضات کو ہی ’’اصل حقیقت‘‘ سمجھنے کی غلطی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں اشتراکیت کے حق میں جو پراپیگنڈہ کیا گیا تھا، اس کے متاثرین 1990 ء کی دھائی میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ مغرب میں ’’مذہب کی واپسی‘‘ کی بات کی جا رہی ہے۔ اب وہاں مذہب کے متعلق مخالفت میں وہ شدت باقی نہیں رہی جس کا اظہار ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ مزید برآں کارل مارکس نے مذہب کی مذمت میں جو دلائل دیئے تھے، وہ قرونِ وسطیٰ میں کلیسا کے منفی کردار کو سامنے رکھ کرپیش کئے تھے۔ جیسا کہ بعد میں مولانا عبید اللہ سندھی اور لینن کے درمیان ملاقات میں بعد الذکر نے اسلام کے متعلق خوشگوار حیرت کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ہمارے بدیسی اشتراکی اپنے انقلابی جنون کے زیر اثر اسلام اور عیسائیت کے درمیان کسی قسم کا فرقِ مراتب قائم رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں کہیں مذہب یا الہامی تعلیمات کا ذکر ان کے کانوں میں پڑتا ہے ان کی رگ ِانقلاب فوراً پھڑک اٹھتی ہے۔ مذہب کی ہر صورت میں مخالفت ان کے خیال میں انقلابیت کا درسِ اوّل ہے۔ بعض اشتراکی مصنّفین نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں مغربی سامراجیت کے خلاف تحریک برپا کرنے میں اسلام نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستانی اشتراکی اپنے ذہن میںجو مفروضات قائم کر چکے ہیں، اس سے معمولی سی مراجعت کو بھی غیر انقلابی اقدام سے تعبیر کرتے ہیں۔
ملائیت کے پردے میں سوشلسٹ،لبرل اور سیکولر طبقے  کی مذہب اور اسلام سے نفرت کا کھلا اظہار ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ یہ لوگ ہر عالم دین ، مفکر ِاسلام اور دین پسند کو اپنے اس خود ساختہ ومزعومہ ، دائرہ ’’ملائیت‘‘ میں داخل سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کے استثناء کے قائل نہیں۔  اشتراکیت کی سرانڈ اور جمود سے ان کے اذہان وقلوب بند ہوچکے ہیں۔
اشتراکی ظلمت کدے کے گمراہ چوہوں کے نزدیک روشن خیالی محض یہی ہے کہ مذہب اور الہامی تعلیمات کو ’’ملائیت‘‘ کہہ کر رد کردیا جائے۔ اگر ملائیت سے ان کی مراد ’’کٹ حجتی، ضدی پن ، دقیانوسی اور تنگ نظری‘‘ ہے تو اپنے طرز ِعمل کے اعتبار سے ان اشتراکی بالشیتوں سے بڑھ کر ’’ملا‘‘ کوئی اور نہیں ہے۔ اشتراکی انقلاب کے بعد سوویت یونین میں بالشویکوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کی مساجد کو منہدم کردیا، اور ان کی نسلوں کو تباہ کیا، اس سے بڑھ کر آمرانہ بہیمیت کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اشتراکی ہر خیال اور ہر نظریہ کو لادین، مادی اشتراکیت کی کسوٹی پر پرکھنے کے عادی ہیں، جو خیال اشتراکی تعلیمات سے ذرہ برابر بھی متصادم ہو ،وہ اِسے بلا چوں وچرا رجعت پسندی قرار دے کر مسترد کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اس کے باوجود انہیں یہ دعویٰ ہے کہ ان سے بڑھ کر وسیع النظر اور روشن خیال کوئی اور نہیں ہے۔ سابقہ سوویت یونین اور اشتراکی چین میں جس طرح آزادانہ فکر کو پابہ زنجیر کیا گیاہے، عملًا وہاں ہر فرد کے سر پر فولادی خود چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کسی بھی دور ِحکومت میں افراد کے ذہنوں کو اس طرح کی جکڑ بندیوں میں کسنے کی مثال نہیں ملتی۔
 اسلام کے سیاسی نظام، کلچر اور تاریخ کے متعلق معمولی سی آگاہی رکھنے والا ہر شخص بخوبی سمجھتا ہے کہ ’’تھیا کریسی‘‘ یا ملائیت اسلامی دور میں کبھی بھی مسئلہ نہیں رہی۔ یہ اصطلاح خود مغرب میں کلیسا اور سیکولرزم کے درمیان فکری تصادم کے نتیجے میں سیاسی فلسلفہ کا حصہ بنی، مذہب بیزار سیکولر دانشوروں نے ریاستی معاملات سے چرچ کو بے دخل کرنے کے لئے طنزاً ’’تھیوکریسی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ قرونِ اولیٰ میں کلیسا کو ریاست کے نظم ونسق میں جو جابرانہ تسلط حاصل رہا، اسلامی ریاست میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ ’’ملائیت‘‘ کاجو بھیانک تصور راجہ فتح خان کے ذہن میں ہے، وہ محض ان کے پراگندہ ذہن کی پیداوار ہے، حقیقت سے اس کو قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کے حقائق نا آشنا سیکولر اور اشتراکی مصنّفین پاکستانی عوام کو اپنے خود ساختہ ملائیت کے خوف سے ڈرانے کیلئے کلیسا کی طرف سے گلیلو اور دیگر سائنس دانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور Bruno کو زندہ آگ میں جلانے کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ راجہ فتح خان نے بھی یہ فرسودہ اور پیش یا آفتادہ ہتھکنڈہ استعمال کیاہے اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ میں اس طرح کا قابل موازنہ ایک بھی واقعہ نہیں ہے۔ دور ِجدید میں ایران اور افغانستان میں بھی کسی سائنس دان کو زندہ آگ میں جلانے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ میں ہزاروں سال پہلے کلیسا کے مظالم کو بنیاد بنا کر اسلام کو مطعون کرنا ایک ایسی قبیح حرکت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے ،کم ہے ۔پاکستان کے نفسیاتی امراض میں مبتلا بدیسی اشتراکیوں پر محض اسلام کا نام سن کر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ اشتراکی ریاستوں میں مذہب پسندوں پر کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کا احساسِ جرم دراصل ان میں یہ شدید رد عمل پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔
اسلام اور پاکستان کا ناقابل انفکاک ہیں، ان کے درمیان جسم اور روح کا رشتہ پایا جاتاہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ اسلام ریاست اور مذہب کی تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اسلامی ریاست میں عوامی نمائندے الہامی تعلیمات کی روشنی میں قانون سازی کرنے کے پابند ہیں ، یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ جو تفصیلی دلائل کی محتاج نہیں۔ اسی لئے پاکستان کو ’’سیکولر‘‘ ریاست بنانے کا مطلب اسے اپنے فکری وجود سے محروم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک سیکولر اور اشتراکی طبقہ پاکستان کو اپنے وجود سے محروم کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہا ہے۔ سیکولرازم کی جو چاہے یہ تعبیر پیش کریں، اس کا لغوی واصطلاحی مفہوم سوائے مذہب دشمنی کے اور کچھ نہیں ہے۔ سیکولر ازم سے مراد یہ ’’برداشت‘‘ بتلاتے ہیں۔ کیا یہ اسی برداشت کا ہمیں درس دے رہے ہیں جس کا مصطفی کمال پاشا اور ان کی فکری اولاد اب تک مظاہرہ کر رہی ہے۔ ترکی میں اسلام پسندوں کے ساتھ جو برتائو کیا جا رہا ہے، کیا وہ کلیسا کے اس برتائو سے مماثلت نہیں رکھتا جو اس نے روشن خیال مفکرین کے ساتھ کیا تھا؟ …سیکولر ازم، کی منافقانہ شکل انڈیا میں بھی نظر آتی ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے عقیدہ کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لبرل،سیکولر اوراشتراکیوں کو سوویت یونین میں سٹالن اور چین میں مائوزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کے دوران کروڑوں مذہب پسندوں پر کئے جانے والے مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ اس کو وہ عین روشن خیالی سمجھتے ہیں لیکن اس ’’ملائیت‘‘ کے مزعومہ مظالم کی طویل داستان رقم کرتے وہ کبھی نہیں تھکتے جس کا وجود بھی نہیں رہا۔
  اسلامی ریاست اقلیتوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی بھی اسی طرح محافظ ہوتی ہے جس طرح کہ مسلمانوں کے حقوق کی 11 ؍اگست 1947 کی قائد اعظم کی تقریر کو اس کے سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ مفہوم اَخذ کرنا کہ قائد اعظم ایک مذہب دشمن سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، حد درجہ علمی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔قائد اعظم اشتراکیوں کی فتنہ سامانیوں اور چیرہ دستیوں سے بھی بخوبی واقف تھے اسی لئے انہوں نے اشتراکیوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مسلمان طلباکی صفوں سے دور رہیں اور انہیں گمراہ نہ کریں۔ آج یہی اشتراکی قائد اعظم کے نام کا استحصال کرکے اپنے مذموم مقاصد کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور اپنے آپ کو قائد اعظم کی فکر کا سچا علمبردار بنا کر پیش کرتے ہیں۔شرم تم کو مگر نہیں آتی
 پاکستان کے سیکولر اور اشتراکی دانشوروں کو آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں سے ’خاص ہمدردی‘‘ رہی ہے۔ ان کے دل میں مرزا آنجہانی کیلئے خاص نرم گوشہ موجود ہے۔ پاکستان میں نفاذ ِاسلام کا ذکر کسی بھی حوالہ سے ہو، وہ مظلوم قادیانیوں کا ذکر درمیان میں ضرور لے آتے ہیں۔ مرزا قادیانی بھی بنیادی طور پر ایک ’’ملا‘‘ ہی تھا لیکن راجہ فتح خان جیسے کاٹھے اشتراکی بھی اسے ’’ ملائیت‘‘ میں شامل نہیں سمجھتے۔ اسلام دشمنی کے علاوہ نجانے کونسی روشن خیالی مرزا قادیانی میں ان کو دکھائی دیتی ہے۔ جس کی بنا پر وہ ان کا ممدوح اور باقی علماء معتوب ٹھہرتے ہیں۔ مرزا قادیانی اپنے آپ کو انگریزوں کا ’’کاشت کیاہوا پودا‘‘ کہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ وہ انگریز کے نہایت غالی حامیوں میں سے ایک تھا۔ وہ انڈیا میں انگریز سرکار کو باعث ِرحمت سمجھتا تھا۔ اس کی اس جاپلوسانہ ذہنیت کے باوجود انقلابی اشتراکی اگر اس کی تعریف میں رطب ُاللسان رہتے ہیں تو اس سے کئی شبہات جنم لیتے ہیں۔ اشتراکیت پسندوں اور قادیانیوں میں ’’اسلام دشمنی ‘‘ قدر ِمشترک ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اس طرز عمل کی کوئی اور توجیہ پیش کرنا خاصا مشکل امر ہے۔
سیکولر ولبرل اس رام کہانی، کو دیدہ دانستہ بیچ میں لے آئے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مولانا مودودیؒ، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق اور میاں نواز شریف میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا، ان کے بقول مولانا مودودی ؒکا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی ’’اسلامی ریاست‘‘ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں‘‘ …اگر یہ ’’جرم‘‘ تھا تو اس کا ارتکاب ہندوستان بلکہ عالم اسلام کے تمام قابل ذکر علماء پہلے ہی کر چکے تھے۔ مرزا قادیانی نے ان تمام اربوں ’’مسلمانوں ‘‘ کو غیر مسلم اور ولد ُالزنا قرار دیا جو اس کی جھوٹی نبوت پر ایمان نہیں لائے۔ راجہ فتح خان جیسے ’’روشن خیال‘‘ مرزا غلام احمد کی اس ہفواتی جسارت کو قابل فروگذاشت سمجھتے ہیں۔ وہ مرزا قادیانی کی اس نا معقول اور حد درجہ توہین آمیز فتویٰ بازی کو ’’حریت ِفکر‘‘ کا لائسنس دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن اس حریت ِفکر کا استعمال جب مرزا کے مخالفین کی طرف سے کیاجاتا ہے تو اسے وہ تنگ نظری پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے دیگر تمام مسلمانوں کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دے کر درحقیقت اپنے غیر مسلم ہونے کا خود اقرار کیا تھا کیونکہ کیونکہ کوئی بھی صاحب ِعقل چودہ سو سال سے ایک ہی عقیدہ پر قائم اَربوں مسلمانوں کو ’’غیر مسلم‘‘ اور صرف مرزا قادیانی جیسے جھوٹی نبوت کے دعویدار کو ’’مسلم‘‘ سمجھ کر اپنی دیوانگی اور پاگل پن کا اظہار نہیں کرے گا۔ راجہ فتح خان اگر قادیانی نہیں ہیں تو مرزا غلام احمد کے فتویٰ کی روشنی میں وہ ’’غیر مسلم‘‘ ہیں۔ لیکن اگر وہ قادیانی ہیں یا قادیانیت نواز ہیں تو انہیں مسلمان علماء کی آراء کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔
قادیانیت کے دفاع میں دو فرزندان ِقادیانیت کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے یعنی سر ظفر اللہ چوہدری اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام۔ یہ دونوں افراد اپنی تمام تر بیدار مغزی ، علم وتدبیر اور ذہانت وفطانت کے باوجود وراثت میں ملنے والی قادیانی تنگ نظری کے خول سے کبھی باہر نہ نکل سکے۔ راجہ فتح خان نے ظفر اللہ چودھری کی شان میں لکھاہے ، آپ قائد اعظم کی پہلی کابینہ پر نظر ڈالیں تو آپ کو جو گندر ناتھ منڈل وزیر قانون اور وزیر خارجہ قادیانی سر ظفر اللہ خان نظر آئیں گے( موصوف کواِن کا اصل نام تک معلوم نہیں)۔ یہی قادیانی وزیر خارجہ قائد اعظم کی میت کے ساتھ جاتا ہے، تدفین میں بھی شامل ہوتا ہے مگر جنازہ نہیں پڑھتا۔ صحافیوں کے پوچھنے پر جواب دیتا ہے کہ چونکہ دوسرے مسلمان احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے اس لئے ہم احمدی بھی ان کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ یہی وزیر خارجہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کا اقوامِ متحدہ میں مقدمہ لڑتا ہے… لیکن یہی ملائیت گلا پھاڑ پھاڑ کر ظفر ُاللہ خان پر الزام لگاتی ہے کہ ’’بائونڈری کمیشن نے اس کی سازش سے گورداسپور بھارت کو دے دیا تاکہ وہ کشمیر پر قبضہ رکھ سکے‘‘
قائد اعظم کی تدفین میں شمولیت کے باوجود سر ظفر اللہ قادیانی کا ان کی نماز جنازہ میں شامل نہ ہونا اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ وہ قائد اعظم کو اپنی دانست میں مسلمان نہیں سمجھتا تھا۔ قائد اعظیم ایک وسیع المشرب انسان تھے ۔انہوں نے ظفر اللہ چوہدری کے قادیانی ہونے کے باوجود اس کی ذہانت سے متاثر ہوکر اسے وزارت ِخارجہ کا منصب عطا کیا۔ ظفر اللہ چوہدری نے قائد اعظم کے جنازے میں شرکت نہ کرکے جہاں اسلام اور قادیانیت کے دو الگ الگ مذاہب ہونے کا اظہار کیا، وہاں حد درجہ احسان فراموشی کا ثبوت بھی دیا۔ قائد اعظم جیسے روشن خیال، لبرل اور معتدل مسلم قائد کے متعلق قادیانیوں کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے، عام مسلمانوں کے بارے میں ان کے جذبات کا جو عالم ہوگا وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ سر ظفر اللہ قادیانی کی بعد کی حرکتوں کے پیش نظر قائد اعظم نے اسے وزارت ِخارجہ کے منصب سے معزول کرنے پر ضرور غور کرتے، ہندو وزیر جو گندر ناتھ منڈل نے بھی قائد اعظم کی عزت افزائی کا جواب حد درجہ احسان فراموشی کی صورت میں دیا۔ وہ انڈیا بھاگ گیا اور وہاں ہندوؤں سے مل کر قائد اعظم کے خلاف توہین آمیز بیانات دیتا رہا۔ قادیانی کشمیر کو ’’قادیانی ریاست‘‘ بنانے میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے، اس کے بارے میں دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ 
کون نہیں جانتا کہ ڈاکٹر عبدالسلام سائنس دان ہونے کے باوجود کٹر قادیانی بھی تھا۔ وہ سائنس کو قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال کرتا رہا۔
جب پاکستان میں قادیانیوں کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دیا گیا تو وہ احتجاجاً پاکستان چھوڑ کر یورپ میں رہائش پذیر ہوگیا۔ اپنے انتقال سے پہلے اس نے وصیت کی تھی کہ اس کا جسد ِخاکی پاکستان میں قادیانی قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی مخالفت اس کے سائنس دان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کٹر قادیانی ہونے کی کی بنا پر کی جاتی رہی ہے۔ اگر  ملائیت سائنس دانوں کے خلاف ہوتی تو پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ڈاکٹر ثمر مبارک اور دیگر یٹمی سائنس دانوں کو جو احترام ملا ہے،وہ ہرگز نہ ملتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبل انعام کا فائدہ پاکستان کو کیا ہوا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی ذہانت کا لوہا دنیا مانتی ہے، وہ ’’یونیفائیڈ تھیوری‘‘ پیش کرکے نوبل انعام کے مستحق ٹھہرے۔ کائنات کے اہم راز سے پردہ اٹھانیوالا سائنس دان مرزا غلام احمد کی فکری ضلالتوں اور باطل دعوؤں کا ادراک نہ کر سکا ، یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جس کو سائنس بھی نہیں سلجھاسکتی۔ ہدایت بلاشبہ عطیہ ٔخداوندی ہے۔
اشتراکیت اور سیکولرازم اپنے مزاج اور نظریہ کے اعتبار سے الحاد اور مریضانہ مادہ پرستی پر مبنی نظامِ فکر ہیں۔ ان نظام ہائے فکر کے ماننے والوں کا مذہب سے نفرت اور حقارت کا رویہ ایک فطری نتیجہ ہے۔ اشتراکی بازی گر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ تو ایک محض معاشی نظام ہے جو انسانوں کی معاشی مساوات کا قائل ہے لیکن وہ ان اُمور پر اپنی رائے دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں جن کا معاشیات سے مطلق طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہب، کائنات کی تخلیق اور ما بعد الطبیات خالصتا ًفلسفہ اور مذہب کے موضوعات ہیں۔اصولاً اشتراکیوں کواس پر رائے زنی نہیں کرنی چاہئے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت محض معاشی فلسفہ نہیں ہے، یہ زندگی کے تمام موضوعات کے متعلق مادہ پرستانہ تعبیر کا قائل ہے۔پاکستان میں اشتراکیت مخالف دانشور ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ اشتراکیت ایک ملحدانہ نظامِ فکر ہے، اس پر اعتقاد رکھنے والا بالآخر اپنی مسلمانی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ خیالات اشتراکی مکتبہ ٔفکر کے صحیح طور پر ترجمان ہیں۔ ان کے نظریات کی بنیاد کارل مارکس کی جدلیاتی مادیت اور تاریخ کی مادہ پرستانہ تعبیر پر ہے۔ اور یہ نظریات خدا پرستی، توحید اور مذہب کی بنیادی تعلیمات سے براہ ِراست متصادم ہیں۔  گزشتہ 13 سو سالوں میں اسلامی معاشرہ میں کسی کو بھی ارتداد کی سزا سے نہیں گزرنا پڑا۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کے روزنامہ ’’قومی آواز‘‘نے خبر دی ہے کہ افغانستان میں ایک لاکھ مسلمانوں نے عیسائیت قبول کرلی ہے اور ان کی اکثریت ’’خلق‘‘ اور ’’پرچم پارٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے اشتراکیوں کی ہے جو طالبان کے خوف سے مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عیسائی بن گئے ہیں۔ طالبان نے ان کی گردنیں نہیں ماریں، تو پاکستان میں انہیں کس کا خوف ہے۔لیکن انہیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ٔ پاکستان میں انہیں کھلی چھٹی نہیں دے دی جائے گی۔
پاکستان کے عوام اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں وہ ایسے مبلغین الحاد کا تعاقب بھی اپنا دینی اور ملی فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہ مٹھی بھر ملحد اشتراکیوں کی اسلام دشمن ریشہ دوانیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کریں گے۔ اس کا تحفظ اور دفاع محض کسی ’’ملا‘‘ کی ذمہ داری نہیں ہے، ہر کلمہ گو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق دین ِ حق کا دفاع کرے۔
ممکن ہے کچھ علماء اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہوں، لیکن بحیثیت ِمجموعی علم کے فروغ اور قرآن وسنت کے احیا کے متعلق علماء کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں حریت ِپسند علما کو فرنگی سامراج کے ہاتھوں قید وبند کی صعوبتوں سے جس طرح گزرنا پڑا، وہ ہماری آزادی کی جدوجہد کا ایک زریں باب ہے۔ جزائر انڈیمان اور مالٹا آج بھی ان کی جرأتوں کی شہادت دیں گے۔ افغانستان سے جارح سرخ ریچھ کو پسپا کرنے میں وہاں کے علما نے جس جہادی جذبہ کا اظہار کیا اور ایک سپر پاور کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، دور حاضرمیں ایسی دلیرانہ جدوجہد کی مثال نہیں ملتی۔ مادہ پرستی کی یلغار کے سامنے وہ آج کے دور میں قران وسنت کا علم تھامے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں آج اگر اشتراکیت اور سیکولر ازم شکست خورہ ہے تو اس کے پس پشت علما کی کوششوں کو بہت دخل ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ایک محدود طبقہ فرقہ وارانہ تشدد میں مبتلا ہے۔ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں 25 ہزار سے زیادہ دینی مدارس ہیں جو قرآن وسنت کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں، ان کا ایک مخصوص گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ دینی مدارس شدید مالی مشکلات کے باوجودا پنا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ تمام علماء کو ملائیت میں شامل سمجھ کر ان کے خلاف دریدہ دہنی محض مریضانہ مذہب بیزاری کا شاخسانہ ہے۔ لبرل ازم ، نیشنلزم،فیمنزم اور سوشلزم غرضیکہ جدید یورپ سے اٹھنے والی تمام تحریکیں ’’نفرت‘‘ کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔ ان تحریکوں نے ہمیشہ کسی نہ کسی طبقے کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا۔ لبرل ازم نے مذہب اور کلیسا کو، نیشنلزم نے دوسری اقوام کو، تحریک آزادی ٔنسواں نے مردوں اور اشتراکیت نے جاگیرداروں اور صنعت کاروں اور مذہب پسندوں کو اپنی آتشین نفرت کا تختۂ مشق بنایا، پاکستان کے بدیسی اشتراکیوں نے ’’علماء‘‘ کو اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر اپنی انقلابیت کی تسکین کا سامان تلاش کیا ہے۔ یہ نفرت کے پجاری اپنے آپ کو ’’انسان دوست‘‘ کہتے ہیں لیکن ان کی انسان دوستی کی تعریف میں مذہب کی حقانیت پر یقین رکھنے والے پورے نہیں اترتے۔ ان کے نزدیک سچا انسان وہی ہے جو ملحد اور مذہب بیزار ہو۔ پاکستان کے شکست خوردہ اشتراکی عناصر نے ’’پونم‘‘ کے نام پر ملکی یکجہتی کو تاراج کرنے کا نیا منصوبہ بنایاہے۔ جی ایم سید، باچا خان، اور اچکزئی کی فکری اولاد کو سیاسی سطح پر پاکستان میں کبھی بھی عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن وہ خود ساختہ ’’مظلوم اقوام‘‘ کے نمائندے اور ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
آخر میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ اسلام اپنی حرکی توانائی، اجتہادی خصوصیات، روشن خیالی اور ایک جامع نظامِ ہدایت ہونے کے ناطے انسانیت کی بھلائی کا واحد نظام ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کی زخم خوردہ انسانیت بالآخر اسلام کے دامن میں فلاح پائے گی۔ ملائیت یا کسی اور نام سے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کے مذموم ہتھکنڈے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اکیسویں صدی بلاشبہ اسلام کے فکری احیاء کی صدی ہوگی ۔ ان شاء اللہ!

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔