صحیح بخاری کی کچھ احادیث پہ منکرین حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
باب : ( بے ضرورت ) ننگا ہونے کی کراہیت نماز میں ہو ( یا اور کسی حال میں )
حدیث نمبر : 36
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انھوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نبوت سے پہلے ) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھ پر رکھ لیتے ( تا کہ تم پر آسانی ہو جائے ) حضرت جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )
تشریح : اللہ پاک نے آپ کو بچپن ہی سے بے شرمی اور جملہ برائیوں سے بچایاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اقدس میں کنواری عورتوں سے بھی زیادہ شرم تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سنا اور نقل کیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ اترا اور اس نے فوراً آپ کا تہبند باندھ دیا۔ ( ارشادالساری )
ایمان کے بعد سب سے بڑا فریضہ ستر پوشی کا ہے، جو نماز کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہوجانا امردیگرہے۔
اس حدیث میں بخاری شریف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرم و حیا کا بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف شرم و حیا کا پیکر تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں بھی کبھی اس طرح نہیں رہے۔اگر ایک بار ایسا ہوا بھی سہی جیسا کہ بچے بہت چھوٹی عمر میں ہوجاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرم و حیا نے یہ برداشت نہیں کیا بلکہ اللٰہ تعالٰی نے آسمان سے فرشتہ اتار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ تہبند بندھوا دیا۔یہ ہے اس حدیث کی مکمل تشریح جو بخاری نے پیش کی ہے لیکن منکرین حدیث نے اعتراض کے لیے صرف اس حدیث کا متن پیش کیا لیکن وہ تشریح نہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرم و حیا اور اللٰہ تعالٰی کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زات کی عزت کی حفاظت کا بیان تھا۔
حدیث نمبر : 1229:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے پہر کی دونمازوں ( ظہر یا عصر ) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میراغالب گمان یہ ہے کہ وہ عصرہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو ( جلد باز قسم کے ) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نمازکی رکعتیں کم ہو گئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذو الیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو پھر تکبیر کہی اور پھرتکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
حدیث نمبر : 275
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی زہری کے واسطے سے، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نماز کی تکبیر ہوئی اور صفیں برابر ہو گئیں، لوگ کھڑے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے ہماری طرف تشریف لائے۔ جب آپ مصلے پر کھڑے ہو چکے تو یاد آیا کہ آپ جنبی ہیں۔ پس آپ نے ہم سے فرمایا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور آپ واپس چلے گئے۔ پھر آپ نے غسل کیا اور واپس ہماری طرف تشریف لائے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ عثمان بن عمر سے اس روایت کی متابعت کی ہے عبدالاعلیٰ نے معمر سے اور وہ زہری سے۔ اور اوزاعی نے بھی زہری سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
عبدالاعلیٰ کی روایت کوامام احمد نے نکالا ہے اور اوزاعی کی روایت کو خود حضرت امام بخاری نے کتاب الاذان میں ذکر فرمایا ہے۔
26- بَابُ نِسْيَانِ الْقُرْآنِ وَهَلْ يَقُولُ نَسِيتُ آيَةَ كَذَا وَكَذَا:
باب: قرآن مجید کو بھلا دینا اور کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں فلاں فلاں آیتیں بھول گیا ہوں؟
حدیث نمبر: 5037
ہم سے ربیع بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے زائدہ بن جذامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس پر رحم کرے، اس نے مجھے فلاں سورت کی فلاں فلاں آیتیں یاد دلا دیں۔
اس حدیث پہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر عصر کی نماز میں چار کی جگہ دو رکعتیں پڑھا دیں اور اس طرح یہ بات کرکے بخاری نے نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔اس پہ میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان نہیں تھے؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول نہیں ہوسکتی تھی؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھول کا بیان جس کی اللٰہ تعالٰی نے ایک ذریعہ سے بعد میں اصلاح بھی کردی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہے۔اگر یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ہے تو پھرمنکرین حدیث نعوذ بااللہ قرآن پہ بھی اعتراض کریں گے جس میں اللٰہ تعالٰی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول جانے پہ اپنی ذات کو یاد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہتا ہے واذکرالربک اذا نسیت؟ قرآن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھول کا تذکرہ کر رہا ہے۔پھر کیا نعوذ بااللہ قرآن بھی قابل اعتراض ہوا؟
56- بَاب
ُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اللہ تعالیٰ تمہیں انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور تمہیں فحش، منکر اور بغاوت سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو“۔
حدیث نمبر: 6063
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے اتنے دنوں تک اس حال میں رہے کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ جیسے آپ اپنی بیوی کے پاس جا رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک دن فرمایا، عائشہ! میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک معاملہ میں سوال کیا تھا اور اس نے وہ بات مجھے بتلا دی، دو فرشتے میرے پاس آئے، ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا سر کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے اس سے کہا کہ جو میرے سر کے پاس تھا ان صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے۔ پوچھا، کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے، پوچھا، کس چیز میں کیا ہے، جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں، اس کے اندر کنگھی ہے اور کتان کے تار ہیں۔ اور یہ ذروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے دبا دیا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا تھا۔ اس کے باغ کے درختوں کے پتے سانپوں کے پھن جیسے ڈراؤنے معلوم ہوتے ہیں اور اس کا پانی مہندی کے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح سرخ تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ جادو نکالا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر کیوں نہیں، ان کی مراد یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو شہرت کیوں نہ دی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفاء دے دی ہے اور میں ان لوگوں میں خواہ مخواہ برائی کے پھیلانے کو پسند نہیں کرتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ لبید بن اعصم یہود کے حلیف بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا۔
اس حدیث پہ منکرین حدیث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ جادو کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ لگتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے پاس جا رہے ہیں۔ اس بات پہ اعتراض ہے کہ اس حدیث میں جادو کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی بیویوں کے پاس جانے کے خیال کا ذکر ہے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ہی بیویوں کے پاس عام حالت میں جانا یا جادو کے اثر سے اس کا خیال آنا قابل اعتراض ہے جب کہ یہ خیال اپنی ہی بیویوں کے بارے میں آیا اور کسی غیر عورت کے بارے میں نہیں آیا
حدیث نمبر 5068:
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
باب: بیک وقت کئی بیویاں رکھنے کے بارے میں
ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا ۔ کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے ، ا ن سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو بیویاں تھیں ۔ حضرت امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ ابن خیاط نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمسے پھر یہی حدیث بیان کی
تشریح: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو نو بیویاں آخری زندگی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں ( 1 ) حضرت حفصہ ( 2 ) حضرت ام حبیبہ ( 3 ) حضرت سودہ ( 4 ) حضرت ام سلمہ ( 5 ) حضرت صفیہ ( 6 ) حضرت میمونہ ( 7 ) حضرت ز ینب ( 8 ) حضرت جویریہ ( 9 ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھن۔ ان میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر کی تھی مگر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے بخوشی اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دی تھی۔ اس لئے ان کی باری ساقط ہوگئی تھی نو بیویاں ہونے کے باوجود آپ کے عادلانہ رویہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا گیا۔
اس حدیث پہکیا آپ کہ سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ جادو نہیں کیا گیا تھا جب کہ قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ جادو کیا گیا تھا؟ اعتراض ہے کہ ایک ہی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی نو بیویوں کے پاس جانے کا تذکرہ ہے۔منکرین حدیث نے اس حدیث کی شرح بھی پڑھی ہے یا محض ایسے ہی اعتراض داغ دیا؟ جب کہ اس حدیث کے بیان سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انصاف کا تذکرہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے مابین رکھا تھا۔جب اس حدیث کے بیان کا مراد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاف کا تذکرہ ہے تو پھر یہ حدیث کس طرح نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہوئ؟
حدیث نمبر 1925 - 1926:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ (بعض مرتبہ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمٰن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ (کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلا ف تھا) ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکرنے کہا کہ عبدالرحمٰن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (میں کیا کروں) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی (اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔
اس حدیث پہ منکرین حدیث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ ساری رات سے صبح تک جنبی رہتے تھے۔مجھے منکرین اس حدیث میں یہ لفظ دکھا دیں جس میں کہا گیا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جنبی رہتے تھے جب کہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنبی اٹھنے کا تذکرہ ہے اور جنبی اٹھنے کے لئے لازمی نہیں کہ بندہ ساری رات سے جنبی ہو۔اگر ایک شخص اپنی بیوی سے رات کے آخری پہر میں صحبت کرے تو صبح کو وہ جنبی ہی اٹھے گا جب کہ منکرین حدیث نے اپنی طرف سے اعتراض کے لیے یہ بات کہ دی کہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساری رات جنبی رہنے کا تذکرہ ہے۔یہ بات بددیانتی اور بہتان ہے اور کچھ نہیں۔حالت جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھ لینا اور بعد میں غسل کرنا جائز ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ فجر ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ساتھ صحبت کی وجہ سے جنبی ہوتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے ہیں اور آپ روزے سے ہوتے تھے۔
[بخاری: ۱۹۲۵، ۱۹۲۶۔ مسلم: ۱۱۰۹، ۱۱۱۰]
اس سے امت کو آسانی دی گئی کہ جنبی ر حالت میں روزہ رکھ کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی بات نہیں اعتراض والی۔
اس زمانے میں اج کی طرح موٹریں،بجلی اور پانی کو نظام نہیں ہوتا تھا۔لوگ دور دور سے پانی لاتے تھے۔اس لئے اجازت دی گئی کہ سہولت کے ساتھ صبح کو غسل کیا جا سکتا ہے اگر رات کو جنبی ہوں۔
حضور پر تهجد کی نماز بھی فرض تھی اگر وه فجر کے وقت جنبی هوتے تھے تو تهجد کب ادا کرتے تھے ؟
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو تمام نفل نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب نماز، صلاۃِ داؤد علیہ السلام ہے۔ وہ آدھی رات سوتے (پھر اٹھ کر) تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهی عن الصوم الدهر لمن تضرر به او فوت به حقاً لم يفطر العيدين، 2 : 816، رقم : 1159
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کو تہجد ادا کر چکے ہوتے پھر گھر والوں کے ساتھ تخلیہ فرماتے ۔اس لیے صبح کو جنبی اٹھنے کا ذکر ہے روایت میں۔لہذا منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ بخاری کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ ساری رات جنبی رہتے تھے،غلط ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔