Saturday 28 October 2017

کیا زندگی گرم سمندروں میں خود بخود شروع ہوئ؟ مالیکیولر بیالوجی کس طرح نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرتی ہے؟ نظریہ ارتقا کی سالمیاتی(مالیکیولر) بنیاد اور اس میں پائے جانے والے سائنسی جھوٹ قسط 1

کیا زندگی گرم سمندروں میں خود بخود شروع ہوئ؟ مالیکیولر بیالوجی کس طرح نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرتی ہے؟
نظریہ ارتقا کی سالمیاتی(مالیکیولر) بنیاد اور اس میں پائے جانے والے سائنسی جھوٹ
قسط 1
اقتباس:نظریہ ارتقا ،ایک فریب
مصنف:ترک سکالر ہارون یحیی
تلخیص و تزئین:احید حسن
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
وہ موضوع جو کہ نظریہ ارتقا کو شروع سے ہی بے معنی بنادیتا ہے وہ زندگی کا زمین پر نموداری کا سوال ہے۔
اس سوال کے جواب میں نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ زندگی ایک واحد خلئے(Single Cell) سے شروع ہوئی جو کہ اتفاقاً وجود میں آگیا تھا۔اس منظر نامے کے حساب سے چار کروڑ سال پہلے کئی بے جان کیمیائی مرکبوں(Chemical Compounds) کے درمیان زمین کے قدیمی ماحول میں رد عمل پیش آیا جس کی وجہ سے گرج چمک اور ماحولیاتی دباﺅ کے سبب سے پہلا جاندار خلیہ(Unicellular Organism) وجود میں آگیا۔ یہاں پر پہلی وضاحت تو یہ کرنا لازمی ہے کہ محض یہ دعویٰ کہ بے جان چیزیں آپس میں مل کر جاندار چیز پیدا کرسکتی ہیں دراصل ایک ایسا غیر سائنسی دعویٰ ہے جس کی تصدیق کوئی تجربہ یا مشاہدہ آج تک نہیں کرسکا۔ زندگی صرف زندگی سے وجود میں آتی ہے۔ ہر جاندار خلیہ کسی دوسرے جاندار خلئے کی نقل ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی آج تک غیر جاندار اشیاءکو آپس میں ملاکر جاندار خلیہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ حتیٰ کہ دنیا کی جدید ترین تجربہ گاہیں بھی ایسا کوئی معجزہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔البتہ نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ وہ جاندار خلیہ جو کہ انسانی عقل، علم اورفنیات کی تمام طاقت مل کر نہیں بناسکی وہ زمین کے کروڑوں سال پہلے کے قدیم ماحول میں محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔
اگر کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ جاندار خلیہ محض اتفاق سے وجود میں آگیا تو اس کو مندرجہ ذیل کہانی پر یقین لانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک چھوٹے سے شہر کی کہانی ہے۔
ایک دن بنجر زمین پر موجود پتھروں کے بیچ پھنسی ہوئی کچھ مٹی بارش کے پانی سے گیلی ہوگئی۔ یہ گیلی مٹی سورج کے نکلنے کے بعد سوکھ کر سخت ہوگئی اور اس کے اندر قوت مدافعت پیدا ہوگئی۔بعد میں یہ پتھر جنہوں نے سانچے کا کام بھی کیا تھا اس کے کسی طرح ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوگئے اور پھر ایک صاف ستھری شکل کی مضبوط اینٹ کی شکل دھارگئے۔ یہ اینٹ اسی قدرتی ماحول میں سالوں ایک اور اپنی جنسی اینٹ کے بننے کا انتظار کرتی رہی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس جگہ پر ہزاروں اسی طرح کی اینٹیں جمع نہیں ہوگئیں۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اینٹ کسی نقصان کا شکار نہیں ہوئی ۔ باوجود ہزاروں سال کے طوفانوں، بارشوں، ہواﺅں، سورج کی تیز روشنی اور شدید ٹھنڈ کے باوجود کسی بھی اینٹ میں معمولی سی بھی دراڑ نہیں پڑی اور نہ وہ ٹوٹیں یا اپنی جگہ سے ہلیں بلکہ نہایت قطعیت سے ایک ہی جگہ پر دوسری اینٹیں بننے کاانتظار کرتی رہیں۔
جب کافی مقدار میں اینٹیں جمع ہوگئیں تو انہوں نے ماہرانہ طور پر اپنے آپ کو ترتیب دیتے ہوئے ایک بہترین عمارت تعمیر کرلی۔ ان کی ترتیب کسی ہوا، طوفان یا آندھی کا بے ترتیب نقشہ نہیں تھا بلکہ ایک انتہائی منظم تعمیر کاثبو ت تھا۔ ان کو جوڑنے والے سیمنٹ اور مٹی کے مرکبات بھی ان کی طرح قدرتی عوامل کے ذریعے وجود میں آئے اور ان اینٹوں کے درمیان خود ہی گھس کر ان کو چپکانے اور آپس میں جوڑنے کا اہم کام انجام دیتے رہے۔ ان تمام واقعات کے دوران زمین کے نیچے قدرتی حالات کے تحت لوہا بننا شروع ہوگیا جو کہ خاص طور پر اس عمارت کی بنیادوں میں استعمال ہوگا جوکہ ان اینٹوں سے بنے گی۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں ایک مکمل عمارت اپنی تمام تر ضروری لوہے اور لکڑی کے پرزوں اور بجلی کی تاروں سمیت کھڑی ہوگئی۔
ظاہر ہے کہ ایک عمارت صرف بنیادوں، اینٹوں اور سیمنٹ ہی کا مرکب نہیں ہوتی۔ تو پھر باقی دوسری چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ اس کا جواب آسان ہے۔ جس طرح کا سامان اس عمارت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے وہ سب اس زمین کے اندر موجودہے جس کے اوپر وہ عمارت کھڑی ہے مثلاً شیشوں کے لئے سیلیکون، بجلی کی تاروں کے لئے تانبا، بنیادوں کے ستونوں اور پانی کے پائپوں کے لئے لوہا وغیرہ سب زمین کے اندر وافر مقدار میں موجود دھاتیں ہیں۔ صرف قدرتی کیفیات کی ہنرمندی سے یہ دھاتیں ضرورت کے تحت اشکال میں ڈھل کر عمارت کے اندر پہنچ جائیں گی۔ اینٹوں کے اس ڈھانچے میں تمام پائپ، لکڑی کا کام اور دوسری ضروری چیزیں اڑتی ہوا، بارش اور زلزلوں کی مدد سے اپنی صحیح جگہ پر پہنچ جائیں گی۔ہرچیز اتنے منظم اور مکمل طریقے سے تعمیر ہوگی کہ اینٹوں نے صحیح جگہوں پر کھڑکیوں کی جگہ بھی چھوڑدی ہو گی تاکہ قدرتی عوامل بعد میں شیشہ نامی چیز بناکر یہاں پر کھڑکیاں لگادیں۔ اس کے علاوہ اینٹیں، پانی، بجلی اور ایئرکنڈیشنر کے نظام کے لئے مناسب جگہ بھی موجود ہو گی جو کہ بعد میں محض اتفاقاً ہی وجود میں آجائیں گے۔ ہر چیز بہترین طریقے سے وجود میں آتی ہے ۔غرضیکہ اتفاقات اورقدرتی عوامل ایک مکمل عمارت تعمیر کردےں گے۔
اگر کسی کو اب بھی اس کہانی کے سچ ہونے کا یقین ہے تو اس کو اس شہر کی دوسری عمارتوں، سڑکوں، کارخانوں، چھوٹی عمارتوں اور گھروں کا بھی ا سی طرح سے وجود میں آنے پر بھی مکمل یقین آجائے گا۔ اگر کسی کے اندر تکنیکی سمجھ بوجھ ہو اور جو اس موضوع سے تھوڑا آشنا ہو تو اس کو ایک ایسی سائنسی نوعیت کی کتاب لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی جس کے اندر وہ شہر کے نظامِ نکاسی اور دوسری عمارتوں کے ساتھ اس عمارت کی ہم آہنگی کے اوپر اپنا ذاتی ارتقائی سائنسی مقالہ پیش کرے۔ ذہانت کے اس بھرپور مظاہرے پر بہت ممکن ہے کہ ایسے مصنف کو کئی تعلیمی انعامات سے نوازا جائے اور مصنف خود کو ایک غیر معمولی ذہنی اور تخلیقی صلاحیت کا حامل سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔ نظریہ ارتقاءبھی اسی طرح سے دعویٰ کرتا ہے کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آئی اور یہ نظریہ اس کہانی ہی کی طرح واہیات اور نامعقول ہے کیونکہ جسم کی تمام تر ذمہ داریاں، رابطے، نقل و حمل اور انتظامی نظام تو ایک طرف، ایک واحد خلیہ بھی کسی ایک پورے شہر سے کم پیچیدہ اور اہم نہیں ہے۔
ایک زندہ خلئے کی پیچیدہ ساخت ڈارون کے زمانے میں سامنے نہیں آئی تھی۔ اس زمانے میں ارتقاءپسندوں کا زندگی کی ابتداءکو اتفاقات اور قدرتی عوامل کا نتیجہ ہونا کہہ دینا ہی لوگوں کو اس دھوکے میں لانے کےلئے کافی تھا۔ لیکن 20 ویں صدی کی تکنیکی اور سائنسی مہارت نے زندگی کے اس سب سے چھوٹے ترین پرزے کے اندر جاکر اس کی اصلیت کو جاندار اجسام کی پیچیدہ ترین تنظیم ثابت کردیا ہے۔ آج پوری دنیا کو پتہ ہے کہ خلیوں کے اندر طاقت کے کارخانے یعنی مائیٹو کونڈریا لگے ہیں جوکہ خلئے یا سیل کو کارآمدرکھنے کے لئے مستقل طاقت پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان لحمیوں یا پروٹین کو پیدا کرنے کا کارخانہ ہیں جو کہ مخصوص حیاتیاتی کیمیائی ردعمل(Biochemical Reactions) میں عمل انگیز(Catalyst) کا کام کرتے ہیں۔خلئے ایک ایسا بینک ہیں جن میں ان تمام انتضامات کے متعلق معلومات داخل ہوتی ہیں جو اس نے جسم میں پیدا کرنے ہیں۔ خلیہ ایک پیچیدہ نقل و حمل کا نظام ہے اور جسم کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں انتضامی اشیاءاور خام مال لے کر جانے کا نہایت اہم کام بھی انجام دیتا ہے۔خلئے کی شکل میں جسم میں نہایت ترقی یافتہ تجربہ گاہیں موجود ہیں جو کہ باہر سے آنے والے خام مال کو توڑنے اور قابل استعمال بنانے والے کارخانے بھی ہیں۔ خلیوں کی مخصوص لحمیاتی جھلی اس کے اندر آنے والے اور باہر جانے والے اجزاءکو قابو میں رکھتی ہے۔ یہ تمام کام خلیوں کے نہایت پیچیدہ نظام کی ہلکی سی جھلک ہے۔
خلیہ انسانی ذہن اور عقل کے سامنے سب سے زیادہ پیچیدہ اور اعلیٰ نظام ہے۔ حیاتیات کے پروفیسر مائیکل ڈنٹن نے اپنی
کتاب ”ایوولوشن اے تھیوری ان کرائسس“(Evolution,A Theory In Crisis) یا ”ارتقائ: ایک پریشان حال نظریہ“ میں خلئے کی پیچیدگی کی وضاحت کی ہے: ”سالماتی حیاتیات(Molecular Biology) کے ذریعے سامنے لائی گئی زندگی کی حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے ہمیں ایک خلئے کو ایک ہزار لاکھ سے ضرب دے کر اتنا بڑا کرنا پڑے گا کہ اس کا قطر بیس کلومیٹر ہوکر ایک عظیم ہوائی جہاز کے مشابہ ہوجائے جوکہ لندن اور نیویارک جیسے بڑے شہروں کو بھی ڈھک دے۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک ایسی شے آئے گی جوکہ پیچیدگی اور صلاحیت کے اعتبار سے بے مثل ہوگی۔
خلئے کی سطح پر لاکھوں مہین سوراخ نظر آئیں گے جس طرح کہ ایک بہت بڑے جہاز کے پہلو میں روشن دان ہوتے ہیں۔ یہ سوراخ مستقل کھلنے اور بند ہونے کے عمل میں ہوتے ہیں تاکہ مختلف اجزاءاس کے اندر اور باہر جاسکیں۔ اگر ہم ان میں سے کسی سوراخ سے خلئے کے اندر داخل ہوجائیں تو ہم اپنے آپ کو انتہائی ترقی یافتہ اور تکنیکی دنیا میں پائیں گے جس کی پیچیدگی کا تصور بھی محال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو کہ اتفاق کی مکمل ضد ہے۔ خلئے ساخت اور انتظام کی مہارت انسانی عقل کے ذریعے بنائی گئی کسی بھی چیز سے کہیں زیادہ ممتاز اور اعلیٰ ہےں۔
ارتقائی سائنسدان ڈبلیو۔ایچ۔ تھارپ کہتا ہے ”سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا تو دور کی بات، انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے۔“1
ایک خلئے کی ساخت اس قدر پیچیدہ ہے کہ جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی اس کو بنانے سے قاصر ہے۔ خلیہ یا سیل بنانے کی ہر کوشش ہمیشہ سے ناکام رہی اور اس لئے سائنسدانوں نے اب ایسی کسی کوشش کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا ہے۔ لیکن نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ یہ نظام جس کی نقل انسان اپنی تمام تر عقل، تعلیم اور جدید ترین تکنیکی صلاحیتوں کے باوجود نہیں کرسکا وہ زمین کے قدیم ترین ماحول کے زیر اثر محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ خلئے کے اچانک وجود میں آجانے کی ایک اور مثال ایسی ہے جیسے کہ کتابوں کے طباعت خانے میں دھماکے ہوجانے کی بناءپر ایک بہترین کتاب کا وجود میں آجاناہے۔
انگریز ماہرِ ریاضی اور ہیئت دان سرفریڈ ہائل نے رسالہ ”نیچر“(Nature) کی 21 نومبر 1981ء کی اشاعت میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں اسی طرح کا ایک موازنہ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود ایک ارتقاءپسند ہے ہائل کہتا ہے کہ: ”اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک بوئنگ 747 طیارہ وجود میں آجائے۔“2
اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ خلیوں کا محض اتفاق کی بناءپر وجود میں آجانا ممکن ہی نہیں۔ خلئے صرف تخلیق کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔ایک اور بنیادی وجہ جس کی بناءپر نظریہ ارتقاءخلیوں کی ابتداءبیان کرنے سے قاصر ہے وہ اس کے اندر موجود ”ناقابل تخفیف پیچیدگی“ ہے۔ ایک جاندار خلیہ اپنے آپ کو کئی ترکیبی حصوں کے تعاون سے زندہ رکھتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی حصہ ناکارہ ہوجائے تو خلیہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ خلیہ کے پاس کسی انتخابِ طبعی یا جینیاتی بے ترتیبی جیسے غیر شعوری طریقہ عمل کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہوتا جوکہ اس کو ترقی دینے یا زندہ رہنے میں مدد دے سکے۔ اسی لئے زمین پر پہلا خلیہ بے شک اور لازماً ایک مکمل خلیہ تھا جس کے اندر تمام ترکیبی نظام اور کارگزاری کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ اس لئے خلیہ صرف اللٰہ تعالٰی کی طرف سے تخلیق ہی کیا گیا، اتفاقاً نہیں بن سکتا۔

حوالہ جات:
1: W. R. Bird, The Origin of Species Revisited, Nashville: Thomas Nelson Co., 1991, pp. 298-99.
2: "Hoyle on Evolution", Nature, Vol 294, November 12, 1981, p. 105.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔