نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط اول
انسان روزِ اول سے ہی زمین و آسمان کے اسرار و رموز کو کھنگالنے اور ان کی گُتھیاں سُلجھانے میں مصروفِ عمل ہے ، لیکن بسااوقات یہ گتھیاں اس قدر پیچیدہ ہوتیں ہیں کہ انسان ان کو سُلجھاتے سُلجھاتے اپنا اشرف المخلوقات ہونا فراموش کردیتا ہے ، اسی خاطر مشہورِ زمانہ فلاسفر فرانسس بیکن کو یہ متنازعہ قول کہنا پڑا کہ "سائنس کوتھوڑا ساسمجھناآپ کو ملحد بنا دیتا ہے جبکہ سائنس کومکمل سمجھنا آپ کا خدا پر ایمان مضبوط کردیتا ہے "، کہنے کو انسان ترقی کے نئے باب کھول چکا ہے لیکن ابھی تک زمین پر زندگی کی ابتداء سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے، 1831ء میں سر چارلس ڈارون نے جہاز رانی کا پیشہ اختیار کیا ، اسی شوق میں انہوں نے دنیا کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا ، اس دوران انہوں نے بہت سے فاسلز جمع کیے اور قدیم افریقی قبائل سے ملاقاتیں بھی کیں۔ 29 سال کی تحقیق کے بعد سر چارلس ڈارون نے ایک کتاب لکھی جس کا نام “Origion of species” رکھا گیا ۔ اس میں انہوں نے اپنی 29 سالہ تحقیق کو بے حدمفصل انداز میں تحریر کیا ۔آج سے 170 سال پہلے سر چارلس ڈارون کو بھی معلوم نہ تھا کہ جو خیالی ارتقاء کی تصاویر وہ بنا رہے ہیں ، وہ آنے والے عرصے میں سائنسدانوں کا ایک نیا گروہ متعارف کروائے گی، بہرحال جو چیز نظریہ ارتقاء کو شروع سے ہی بے معانی بنا دیتی ہے وہ اس کا نامکمل دعویٰ ہونا ہے کہ زمین پر زندگی خودبخود وجود میں آگئی۔ اس منظرنامے کے تحت ارتقاء پسندوں کا دعویٰ ہے کہ آج سے اربوں سال پہلے زمین کئی بے جان کیمیکلز کا مرکب تھی ، اسی دوران ان میں ردعمل ہوا اور زمین پر پہلا خلیہ وجود میں آیا،یہاں پر ارتقاء پسند اس خلیے کے وجود میں آنے کے بارے میں متعدد کہانیاں پیش کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ عیاں ہے کہ آج تک انسانی تاریخ میں کوئی ایسی لیبارٹری نہیں بن سکی جو کیمیکلز کو ملا کر زندگی کا وجود ممکن کرسکے بلکہ یہ دعویٰ سائنسی اصولوں کے بھی خلاف ہے ،کہانی کے اس موڑ کو کچھ مسلمان ارتقاء پسند مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھی پیش کرتے ہیں۔ ارتقاء پسندوں کا ماننا ہے کہ اتفاقاً یک خلوی جاندار زمین پر کیمیائی ردعمل کے تحت پیدا ہوگیا مگر انہی احباب کے سامنے اگر یہ ذکر کیا جائے کہ زمین پر بارش ہوئی جس سے کیمیائی ردعمل کے تحت اینٹیں اور سیمنٹ خودبخود بن گیا اور انہوں نے مل کر ایک محل کی شکل اختیار کرلی تو فوراً بیان کرنے والے کی ذہنی حالت پر شک کریں گے ، بنا یہ سوچے ہوئے کہ نظریہ ارتقاء بھی یہی کہانی سناتا ہے۔ سر چارلس ڈارون کے زمانے میں لوگوں کو نظریہ ارتقاء کی کہانی سنا کر دھوکا دینا انتہائی آسان تھا، لیکن 20ویں صدی میں سائنس نے خلیے کا مکمل پوسٹ مارٹم کرکے دنیا کو بتا دیا کہ اس میں پورا شہر آباد ہے ، اس کا محض اتفاقاً وجود میں آجانا ناممکن بات ہے ۔چونکہ اس وقت سر ڈارون خلیے کی اصلیت سے مکمل نا آشنا تھے اسی خاطر انہوں نے ایک ایسا کمزور نظریہ ترتیب دیا جس کی عمارت جدید تحقیق کے سامنے بُری طرح لڑکھڑا رہی ہے ۔ اسی وجہ سے ارتقاء کے حامی سائنسدان ڈبلیو –ایچ –تھارپ یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ "سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا (یا اس کا خودبخود وجود میں آجانا کیمیائی ردعمل سے کے باعث) تو دور کی بات ، (اس کی پیچیدگی کا) انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے۔" (W.R.Bird. The Origin of Species Revisited, Nashville:Thomas Nelson Co. 12 Nov, 1981, P#289-99)
سائنس کی ترقی نے نظریہ ارتقاء کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا اور اس کے بہت سے مقلدین کو اس سے چھین لیا۔ ارتقاء پسند انگریز ریاضی دان اور ہئیت دان سر فریڈ ہائل نے اپنے ایک انٹرویو میں زندگی کے وجود کے متعلق کہا کہ : "اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک عظیم طیارہ وجود میں آجائے " (“Hoyle on Evolution”, Nature, 12 Nov 1981, Vol 294, P#105)
اس نظریے کی بنیادیں ہلانے کے لئے یہ سوال ہی کافی ہیں کہ اگر کیمیائی ردعمل کے تحت ہی زندگی ممکن ہے تو آج کے دور میں جہاں بلیک ہول اور بیگ بینگ تک کے تجربات لیبارٹری میں کیے جارہے ہیں وہاں ایک خلیہ بنانا کیونکر ممکن نہ ہوسکا؟ ارتقاء پسند حقیقت جاننے کے باوجود اس نظریے کی اندھی تقلید اس بنا پر کر کرتے ہیں کہ جانداروں کی اشکال آپس میں ملتی ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی اندرونی ساخت اور نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے.... (جاری ہے )
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
#DarwinThoery #EvolutionTheory #نظریہ_ارتقاء
انسان روزِ اول سے ہی زمین و آسمان کے اسرار و رموز کو کھنگالنے اور ان کی گُتھیاں سُلجھانے میں مصروفِ عمل ہے ، لیکن بسااوقات یہ گتھیاں اس قدر پیچیدہ ہوتیں ہیں کہ انسان ان کو سُلجھاتے سُلجھاتے اپنا اشرف المخلوقات ہونا فراموش کردیتا ہے ، اسی خاطر مشہورِ زمانہ فلاسفر فرانسس بیکن کو یہ متنازعہ قول کہنا پڑا کہ "سائنس کوتھوڑا ساسمجھناآپ کو ملحد بنا دیتا ہے جبکہ سائنس کومکمل سمجھنا آپ کا خدا پر ایمان مضبوط کردیتا ہے "، کہنے کو انسان ترقی کے نئے باب کھول چکا ہے لیکن ابھی تک زمین پر زندگی کی ابتداء سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے، 1831ء میں سر چارلس ڈارون نے جہاز رانی کا پیشہ اختیار کیا ، اسی شوق میں انہوں نے دنیا کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا ، اس دوران انہوں نے بہت سے فاسلز جمع کیے اور قدیم افریقی قبائل سے ملاقاتیں بھی کیں۔ 29 سال کی تحقیق کے بعد سر چارلس ڈارون نے ایک کتاب لکھی جس کا نام “Origion of species” رکھا گیا ۔ اس میں انہوں نے اپنی 29 سالہ تحقیق کو بے حدمفصل انداز میں تحریر کیا ۔آج سے 170 سال پہلے سر چارلس ڈارون کو بھی معلوم نہ تھا کہ جو خیالی ارتقاء کی تصاویر وہ بنا رہے ہیں ، وہ آنے والے عرصے میں سائنسدانوں کا ایک نیا گروہ متعارف کروائے گی، بہرحال جو چیز نظریہ ارتقاء کو شروع سے ہی بے معانی بنا دیتی ہے وہ اس کا نامکمل دعویٰ ہونا ہے کہ زمین پر زندگی خودبخود وجود میں آگئی۔ اس منظرنامے کے تحت ارتقاء پسندوں کا دعویٰ ہے کہ آج سے اربوں سال پہلے زمین کئی بے جان کیمیکلز کا مرکب تھی ، اسی دوران ان میں ردعمل ہوا اور زمین پر پہلا خلیہ وجود میں آیا،یہاں پر ارتقاء پسند اس خلیے کے وجود میں آنے کے بارے میں متعدد کہانیاں پیش کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ عیاں ہے کہ آج تک انسانی تاریخ میں کوئی ایسی لیبارٹری نہیں بن سکی جو کیمیکلز کو ملا کر زندگی کا وجود ممکن کرسکے بلکہ یہ دعویٰ سائنسی اصولوں کے بھی خلاف ہے ،کہانی کے اس موڑ کو کچھ مسلمان ارتقاء پسند مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھی پیش کرتے ہیں۔ ارتقاء پسندوں کا ماننا ہے کہ اتفاقاً یک خلوی جاندار زمین پر کیمیائی ردعمل کے تحت پیدا ہوگیا مگر انہی احباب کے سامنے اگر یہ ذکر کیا جائے کہ زمین پر بارش ہوئی جس سے کیمیائی ردعمل کے تحت اینٹیں اور سیمنٹ خودبخود بن گیا اور انہوں نے مل کر ایک محل کی شکل اختیار کرلی تو فوراً بیان کرنے والے کی ذہنی حالت پر شک کریں گے ، بنا یہ سوچے ہوئے کہ نظریہ ارتقاء بھی یہی کہانی سناتا ہے۔ سر چارلس ڈارون کے زمانے میں لوگوں کو نظریہ ارتقاء کی کہانی سنا کر دھوکا دینا انتہائی آسان تھا، لیکن 20ویں صدی میں سائنس نے خلیے کا مکمل پوسٹ مارٹم کرکے دنیا کو بتا دیا کہ اس میں پورا شہر آباد ہے ، اس کا محض اتفاقاً وجود میں آجانا ناممکن بات ہے ۔چونکہ اس وقت سر ڈارون خلیے کی اصلیت سے مکمل نا آشنا تھے اسی خاطر انہوں نے ایک ایسا کمزور نظریہ ترتیب دیا جس کی عمارت جدید تحقیق کے سامنے بُری طرح لڑکھڑا رہی ہے ۔ اسی وجہ سے ارتقاء کے حامی سائنسدان ڈبلیو –ایچ –تھارپ یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ "سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا (یا اس کا خودبخود وجود میں آجانا کیمیائی ردعمل سے کے باعث) تو دور کی بات ، (اس کی پیچیدگی کا) انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے۔" (W.R.Bird. The Origin of Species Revisited, Nashville:Thomas Nelson Co. 12 Nov, 1981, P#289-99)
سائنس کی ترقی نے نظریہ ارتقاء کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا اور اس کے بہت سے مقلدین کو اس سے چھین لیا۔ ارتقاء پسند انگریز ریاضی دان اور ہئیت دان سر فریڈ ہائل نے اپنے ایک انٹرویو میں زندگی کے وجود کے متعلق کہا کہ : "اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک عظیم طیارہ وجود میں آجائے " (“Hoyle on Evolution”, Nature, 12 Nov 1981, Vol 294, P#105)
اس نظریے کی بنیادیں ہلانے کے لئے یہ سوال ہی کافی ہیں کہ اگر کیمیائی ردعمل کے تحت ہی زندگی ممکن ہے تو آج کے دور میں جہاں بلیک ہول اور بیگ بینگ تک کے تجربات لیبارٹری میں کیے جارہے ہیں وہاں ایک خلیہ بنانا کیونکر ممکن نہ ہوسکا؟ ارتقاء پسند حقیقت جاننے کے باوجود اس نظریے کی اندھی تقلید اس بنا پر کر کرتے ہیں کہ جانداروں کی اشکال آپس میں ملتی ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی اندرونی ساخت اور نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے.... (جاری ہے )
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
#DarwinThoery #EvolutionTheory #نظریہ_ارتقاء
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔