Saturday 28 October 2017

ایٹمی ماڈل کا ارتقا

ایٹمی ماڈل کا ارتقا
ایٹم مادے کا چھوٹا ترین ذرہ ہوتا ہے جو اپنے کیمائی خواص برقرار رکھتا ہے۔ چونکہ ایٹم عام خورد بین سے نظر نہیں آتے اس لیے سائینس دانوں کو ایٹم کی ساخت دریافت کرنے میں بڑا وقت لگا۔ بہت ساری مختلف ایجادوں سے ایٹم کی ساخت آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی گئی۔
بوہر کے ماڈل کے مطابق ایٹم صرف مخصوص توانائی جذب یا خارج کر سکتا ہے۔ جب توانائی جذب ہوتی ہے تو اسکے الیکٹرون بیرونی مدار میں چلے جاتے ہیں۔ جب توانائی خارج ہوتی ہے تو وہ الیکٹرون دوبارہ اندرونی مدار پر آ جاتے ہیں۔
ڈالٹن:
1803 میں جوہن ڈالٹن نے نظریئہ پیش کیا کہ مادہ ایٹموں سے بنا ہوتا ہے۔یعنی اگر کسی مادی چیز کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں تو آخر کار ایک حد آ جائے گی اور مزید تقسیم ممکن نہیں ہو گی۔
فیراڈے:
1832 میں مائیکل فیراڈے نے مختلف نمکیات کے محلولوں میں سے بجلی گزاری اور نتائج کا بغور مطالعہ کیا۔ اس نے برق پاشی (electrolysis) کے قوانین وضع کیئے اور بتایا کہ بجلی گزرنے سے ایٹم اور مولیکیول دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔
پلک:
1859 میں جے پلک کر نے پہلی گیس ڈسچارج ٹیوب بنائی۔ آجکل اسے کیتھوڈ رے ٹیوب (یا مخفف سی آر ٹی) کہتے ہیں۔ اس ٹیوب نے بعد میں الیکٹرون کی ایجاد میں بڑی مدد دی۔
ایک پرانے 14 انچ کے TV کی کیتھوڈ رے ٹیوب کی پُشت۔ آج کل ٹی وی CRT کی بجائے ایل ای ڈی یا ایل سی ڈی سے بنائے جاتے ہیں۔
مینڈیلیف:
1869 میں مینڈیلیف نے سارے عناصر کو انکے کیمائی خواص کی بنیاد پر سات گروپ میں تقسیم کیا۔ اس وقت تک غیر عامل گیسیں ایجاد نہیں ہوئیں تھیں۔ مینڈیلیف نے بتایا کہ ایٹم جیسے جیسے بھاری ہوتے چلے جاتے ہیں ان کے خواص بدلتے چلے جاتے ہیں لیکن پھر ایک ایسا ایٹم آتا ہے جہاں سے یہی سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ مینڈیلیف کے بنائے ہوئے دوری جدول (Periodic Table) میں بعد میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں مگر آج بھی اسکا سہرا مینڈیلیف کے ہی نام جاتا ہے۔
میکس ویل:
1873 میں جیمز کلرک میکس ویل نے نظریہ پیش کیا کہ خالی جگہ میں برقی (الیکٹرک) اور مقناطیسی میدان موجود ہوتا ہے۔
کروکس:
1876ء میں سر ویلیئم کروکس نے ٹنگسٹن کے تار پر بیریم آکسائیڈ کی تہہ جمانے کا طریقہ دریافت کیا جس سے کیتھوڈ (منفی برقیرہ) بنائے جاتے ہیں۔
1879ء میں سر ویلیئم کروکس نے ڈسچارج ٹیوب میں کیتھوڈ ریز دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ کیتھوڈ سے نکلنے والی یہ شعاعیں ایک سیدھ میں چلتی ہیں، ان کی وجہ سے گیس چمکنے لگتی ہے، یہ جس چیز سے ٹکراتی ہیں اس پر منفی چارج آ جاتا ہے، برقی یا مقناطیسی میدان میں یہ جس طرح مڑتی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان شعاعوں پر منفی چارج ہے۔ جب یہ شعاعیں ایک بہت ہی چھوٹے سے پنکھے کے پر سے ٹکراتی ہیں تو پنکھا گھومنے لگتا ہے یعنی یہ شعاعیں مادی ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ (کئی سال بعد پتہ چلا کہ کیتھوڈ ریز اور تابکاری کی بی ٹا ریز درحقیقت تیز رفتار الیکٹرونوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔)
بامر:
1885 میں Johann Balmer جو سوئزرلینڈ میں سیکنڈری اسکول میں حساب کا ٹیچر تھا، نے ہائیڈروجن گیس سے نکلنے والی اسپیکٹرل لائن کی وضاحت کرنے کا سادہ فارمولا دریافت کر لیا۔
گولڈسٹین:
1886 میں ای گولڈسٹین نے ڈسچارج ٹیوب میں کنال ریز دریافت کیں جن کے برقی اور مقناطیسی خواص کیتھوڈ ریز کے برعکس تھے۔
اسٹونی:
1894 میں جی جے اسٹونی نے خیال ظاہر کیا کہ بجلی کا گزرنا منفی ذرات کے بہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تصور کیا جاتا تھا کہ بجلی کا گزرنا مثبت ذرات کا بہاو ہے۔ اسٹونی نے ہی ان منفی ذرات کو الیکٹرون کا نام دیا۔
روئنجن:
1895 میں روئنجن نے دریافت کیا کہ جب کیتھوڈ رے ٹیوب زیر استعمال ہوتی ہے تو اس کے نزدیک رکھے کچھ کیمیائی مادے چمکنے لگتے ہیں۔ اس طرح ایکس ریز دریافت ہوئیں جو برقی یا مقناطیسی میدان میں نہیں مڑتیں۔
بیک کوئیریل:
1896 میں ہنری بیک کوئیریل نے معلوم کیا کہ کچھ (تابکار) مادے خودبخود ایکس ریز (گاما ریز) خارج کرتے ہیں۔
تھامسن:
جے جے تھامسن نے کیتھوڈ شعاعوں کی خصوصیات معلوم کر لیں جن سے ظاہر ہوا کہ ایٹم اپنے اجزا میں توڑا جا سکتا ہے۔
1897ء میں جے جے تھامسن نے الیکٹرون کے چارج اور کمیت کی نسبت (e/m ratio) معلوم کر لی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن اس وقت بھی نہ الیکٹرون کا چارج دریافت ہوا تھا نہ اسکی کمیت۔ 1906ء میں اسے فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔
تھامسن نے یہ بھی دریافت کر لیا تھا کہ الیکٹرون کی کمیت پروٹون سے لگ بھگ 2000 گنا کم ہے۔ اس وقت الیکٹرون کو 'corpuscles' کہا گیا تھا۔
ردر فورڈ:
1898 میں ردر فورڈ نے تابکار یورینیئم اتابکار یورینیئم اور تھوریئم سے نکلنے والی شعاعوں کا مطالعہ کیا اور انہیں الفااور بی ٹا کا نام دیا۔
کیوری:
1898 میں میڈم ماری کیوری نے یورینیئم اور تھوریئم کی تابکاری کا بغور مشاہدہ کیا اور ایٹم کے اس طرح خودبخود ٹوٹنے کو تابکاری کا نام دیا۔
سوڈی:
1900 میں سوڈی نے معلوم کیا کہ تابکاری کے نتیجے میں ایک عنصر دوسرے عنصر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ کیمیائی طریقے سے ریڈیئم کے مختلف ہمجاء الگ الگ کر لے مگر ناکام رہا۔
پلانک:
1900 میں میکس پلانک نے بلیک باڈی ریڈی ایشن کا راز دریافت کر لیا۔اس نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ توانائی بھی ذرات کی نوعیت رکھتی ہے۔ اُس وقت فوٹون کو quanta کہا گیا تھا۔
پلانک نے جس کوانٹم تھیوری کی ابتدا کی تھی اسے موجودہ شکل تک پہنچنے میں 25 سال لگے۔
ناکوگا :
1903 میں ناکوگا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ سیارہ زحل کی طرح ایٹم میں بھی الیکٹرون ایک مثبت ذرے کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔
ابیگ :
1904 میں ابیگ نے دریافت کیا کہ غیر عامل گیسوں میں الیکٹرون کے مدار مکمل بھر چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ گیسیں غیر عامل ہو جاتی ہیں۔
آئن اسٹائن:
1905 میں آئن اسٹائن نے بتایا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
1921 میں آئن اسٹائن کو فوٹو الیکٹرک ایفکٹ پر فزکس کا نوبل انعام ملا۔ آئن اسٹائن کو پلانک کے نظریئے سے بڑی مدد ملی تھی۔
گیگر :
1906 میں ہینس گیگر نے ایک ایسا الیکٹرونک آلہ بنایا جو الفا ذروں کی موجودگی پر کلک کی آواز نکالتا تھا۔
ملیکین :
1909 میں ملیکین نے کیپیسٹر کی پلیٹوں کے درمیان تیل کے قطروں کو معلق کر کے الیکٹرون کا چارج معلوم کر لیا۔ چونکہ چارج اور کمیت کی نسبت پہلے ہی معلوم ہو چکی تھی اس لیے الیکٹرون کا وزن بھی دریافت ہوگیا۔
ارنسٹ ردر فورڈ:
1911 میں ارنسٹ ردرفورڈ نے تابکار مادے سے نکلنے والے الفا ذرات کے سونے کے ورق میں سے گزرنے کا مطالعہ کیا اور بتایا کہ ایٹم میں مثبت گٹھلی (positive nucleus) موجود ہوتی ہے اور ایٹم کے اندر زیادہ تر جگہ خالی ہوتی ہے۔
جے جے تھامسن کا خیال تھا کہ جس طرح کھیر پر کشمش کے دانے پڑے ہوتے ہیں اسی طرح ایٹم کے مثبت چارج پر منفی الیکٹرون چپکے ہوتے ہیں۔ لیکن اسکے سابقہ شاگرد ارنسٹ ردرفورڈ نے اس خیال کو یکسر غلط ثابت کر دیا۔ اگر تھامسن کا ایٹم کے بارے میں Plum pudding ماڈل درست ہوتا تو ایک بھی الفا ذرہ سونے کے ورق سے ٹکرا کر نہیں پلٹتا مگر اس تجربے کے دوران چند الفا ذرے ورق کے آر پار نہ گزر سکے اور واپس پلٹے۔
موزلے:
1914 میں H.G.J. Moseley نے ایکس رے ٹیوب کی مدد سے بہت سارے ایٹمی مرکزوں (nucleus) کا چارج معلوم کر لیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ اب تک کیمیا دان جسے ایٹمی نمبر کہتے رہے وہ دراصل ایٹمی مرکزوں میں موجود پروٹونوں کی تعداد ہے۔ اس طرح دوری جدول (Periodic table) کو ایٹمی وزن کی بجائے ایٹمی نمبروں کے لحاظ سے ترتیب دینے میں کامیابی ملی۔
ایسٹون:
1919 میں Aston نے ماس اسپیکٹروگراف کی مدد سے ثابت کیا کہ ایک ہی عنصر کے ایٹم مختلف ایٹمی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ہمجاء (isotopes) دریافت ہوئے لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
ڈی بروگلی:
1923 میں de Broglie نے ریاضیات کی مدد سے ثابت کیا کہ الیکٹرون نہ صرف مادی خصوصیات رکھتا ہے بلکہ لہر یا موج کی خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ اس طرح wave particle duality کی بنیاد پڑی۔ ڈی بروگلی کے کام سے آئن اسٹائن کی تھیوری کو تقویت ملی۔
ہائزن برگ:
1927 میں Heisenberg نے غیر یقینیت کا اصول (Principle of uncertainity) وضع کیا یعنی کسی ذرے کی رفتار اور پوزیشن بیک وقت معلوم نہیں کی جا سکتی۔
کوکروفٹ اور والٹن:
1929 میں Cockcroft / Walton نے پہلا پارٹیکل ایکسیلیریٹر بنایا اور 14 اپریل 1932 میں معلوم کیا کہ جب پروٹون کو تیز رفتاری سے لیتھیئم سے ٹکراتے ہیں تو لیتھیئم کا ایٹم ٹوٹ کر ہیلیئم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس طرح پہلی دفعہ انسان نے کسی ایٹم کے مرکزے کو توڑا۔
اسی تجربے نے پہلی دفعہ آئن اسٹائن کے فارمولے E=mc2 کی تصدیق کری۔
شروڈنگر:
1930 میں Schrodinger نے ریاضیات سے ثابت کیا کہ ایٹم کے اندر الیکٹرون مرکزے کے گرد ایک بادل سا بنا دیتا ہے۔ اس طرح wave mechanics کی بنیاد پڑی۔
پال ڈائرک:
1930 میں Paul Dirac نے ضد ذرے کا تصور دیا۔ دو سال بعد پوزیٹرون دریافت ہوا۔ 1955 میں اینٹی پروٹون دریافت ہوا۔
انریکو فرمی:
1934 میں فرمی نے دریافت کیا کہ اگر نیوٹرون کی رفتار کم کر دی جائے تو وہ دوسرے ایٹمی مرکزوں میں زیادہ آسانی سے جذب ہو کر نیوکلیائی تعاملات کا سبب بنتا ہے۔ فرمی کو 1938 میں نوبل انعام ملا۔
بہت کم رفتار سے چلنے والے نیوٹرون "تھرمل نیوٹرون" کہلاتے ہیں اور اینٹیمنی 124 سے نکلنے والی گاما ریزکوبیریلیئم پربرسانے پر حاصل ہوتے ہیں۔
اوٹو ہان:
جنوری 1939 میں Otto Hahn نے یورینیئم کے مرکزے میں فشن کا ہونا اور چین ری ایکشن دریافت کر لیا۔اسے 1944 کا کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔
انریکو فرمی:
1942 میں Enrico Fermi نے دنیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنایا جسے شکاگو پائیل کا نام دیا گیا۔
بشکریہ:
https://ur.m.wikipedia.org/…/%D8%A7%DB%8C%D9%B9%D9%85%DB%8C…

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔