Saturday 28 October 2017

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 4

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 4
انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
قسط :4
ہومو روڈولفینسس(Homo rudolfensis),انسانی جد امجد قرار دیا جانے والا ایک اور گوریلا
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحیی
======================================
1972ء میں چند فوصلی یعنی رکاز یا ماضی کے قدیم جانداروں کی بقایا جات ، ٹکڑوں کی دریافت کو ہوموروڈ ولفنسس کا نام دیا گیا۔ یہ فوصل جس نسل کی نشاندہی کرتے تھے اس کا نام ہوموروڈولفنسس اس لئے رکھا گیا کیونکہ یہ فوصل کینیا کی جھیل روڈالف کے آس پاس کے علاقے میں دریافت کئے گئے۔ بہت سے ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Paleontology) اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ فوصل کسی مخصوص نسل کے فوصل نہیں ہیں اور ہوموروڈولفنسس نامی مخلوق ہوموہابلس سے ناقابل امتیاز ہے۔ یہ فوصل رچرڈ لیکی نے دریافت کئے تھے اور اس نے KNM-ER 1470 نامی ایک کھوپڑی پیش کی جو کہ اس کے بیان کے مطابق 28 لاکھ سال پرانی اور علمِ بشر یعنی انسان کی تاریخ کی سب سے اہم دریافت تھی۔
گوریلے سے انسان کے عبوری مفروضے میں کوئی سچائی نہیں ہے
گوریلوں اور انسانوں کے اندرونی کان کی تین قوسی یا کمان کی طرح کی مائع دار نالیوں(Malleus,Incus,Stapes) کے درمیان موازناتی جانچ نے ثابت کردیا ہے کہ جس مخلوق کوانسان کا جد امجد سمجھا جاتارہا ہے وہ گوریلے ہی تھے۔ آسٹرالوپیتھییکس اور ہوموہابلس نسلوں میں گوریلوں کے اندرونی کان کی ساخت موجود تھی جبکہ ہومو ارکٹس نسل کے کان انسانی تھے۔
لیکی کے حساب سے یہ مخلوق اپنی آسٹرالوپتھیکس کی طرح کی چھوٹی کھوپڑی اور دورِ حاضر کے انسان سے ملتے جلتے چہرے کے ساتھ آسٹرالوپتھیکس اور انسانوں کے درمیان گمشدہ کڑی(مسنگ لنک) تھی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ KNM-ER 1470 کی انسانی شکل نما کھوپڑی جو کہ اب تک کئی سائنسی جریدوں اور مشہور سائنسی رسالوں کے سرورق پر چھپ چکی تھی دراصل کھوپڑی کی ہڈیوں کی شاید جان بوجھ کر کی گئی غلط ترتیب کا نتیجہ تھی۔ انسانی شکل کی تشریح الاعضاءپر تحقیق کرنے والے پروفیسر ٹم بروماج نے 1992ء میں کمپیوٹر کے ذریعے بنائے گئے خاکوں کے ذریعے اس معاملے کی دھوکہ دہی سے پردہ اٹھایا:
”جب KNM-ER 1470 کو سب سے پہلے بنایا گیا تھا تو اس کے چہرے کو کھوپڑی پر تقریباً عمودی طور پر بٹھایا گیا تھا جس طرح جدید انسانوں کی شکلیں ہوتی ہیں لیکن حالیہ تشریح البدن کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چہرہ زندہ KNM-ER 1470 کی زندگی کے دوران کافی حد تک باہر کی طرف نکلا ہوا ہوگا جس طرح گوریلوں کا چہرہ ہوتا ہے۔ یہ چہرہ ہر طور پر آسٹرالوپتھیکس کے چہرے سے مشابہ ہے۔“ 1
ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات( Human Paleontologist) جے۔ ای۔ کرونن اس معاملے پر کہتا ہے:
”اس کا مضبوطی سے بنا ہوا چہرہ، ناک کی چپٹی ہڈی، (جس طرح اسٹرالوپتھیسین کی ہوتی ہیں) گری ہوئی کھوپڑی کی چوڑائی، مضبوط آگے کے دانتوں اور داڑھوں کے درمیان نکلے دانت اور بڑے بڑے داڑھ (جس کی نشاندہی بچی ہوئی جڑوں سے ہوتی ہے) سب کافی قدیم خصوصیات ہیں جو کہ جنس آسٹروپتھیکس افریکا نس(A.Africanus) سے مشترک ہیں۔“ 2
مشیگن یونیورسٹی کا سی۔ لورنگ بریس بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ 1470 کی کھوپڑی کے جبڑے اور دانتوں کی ساخت پر کی جانے والی تحقیق کے بعد اس کا بیان تھا کہ ”جبڑے کی پیمائش اور داڑھوں کی جگہ کی سطح کے ناپ سے لگتا ہے کہ ER-1470 کا ایک مکمل طورپر آسٹرالوپتھیکس کے ناپ کی شکل اور جبڑا تھا۔“ 3
جان ہاپکنز یونیورسٹی کا پروفیسر ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist) ایلن والکرے نے بھی KNM-ER 1470 پر اتنی ہی تحقیق کی ہے جتنی لیکی نے کی اور اس کا بھی یہی بیان ہے کہ اس مخلوق کو کسی بھی طور پر ہومویا انسان کی درجہ بندی میں نہیں ڈالاجاسکتا بلکہ اس کی صحیح جگہ آسٹرالوپتھیکس زمرے میں ہی ثابت ہوتی ہے۔“ 4
خلاصہ کے طور پر یہ کہ ہوموہابلس اور ہومو روڈالفنسس جن کو آسٹرالو پتھیسینز اور ہومو ارکٹس کے درمیان عبوری کڑیاں بناکر پیش کیا گیا ہے وہ دراصل خیالی مخلوق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ کئی تحقیق دانوں نے سالوں پر محیط تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ تمام مخلوق دراصل آسٹرالو پتھیکس سلسلے کی ہی ارکان ہیں۔اس سچائی کی تصدیق مزید دوا ور ارتقائی ماہرِ بشریات برنارڈوڈ اور مارک کولارڈ نے کی جن کا اس موضوع کے اوپر مضمون 1991ء میں رسالہ ”سائنس“ میں چھپا۔ وڈ اور کولارڈ کا تفصیلی بیان تھا کہ ہوموہابلس اور ہوموروڈالفنسس (کھوپڑی 1470 ) سراسر خیالی مخلوق ہیں اور ان کے نام پر دکھائے گئے سارے فوصل جنس آسٹرالوپتھیکس کی درجہ بندی کے فوصل ہیں:
”حالیہ دور میں جنس ہومو کی درجہ بندی میں ڈالے گئے فوصل، ان کے بھیجے یعنی کھوپڑی کی پیمائش، ان کی بات کرنے کی صلاحیت اور ہاتھوں کا استعمال کہ اگر وہ ہاتھوں سے پتھر کے اوزار بنانے کے قابل تھے یا نہیں جیسی تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ کچھ استثنائیوں کے علاوہ انسانی ارتقاءمیں جنس ہومو کی تعریف اور استعمال بغیر کسی مسئلے کے رہا ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق، تمام ثبوت کی تازہ تشریح اور علمِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontology) کے ریکارڈ کی محدود نوعیت ہومو سے وابستہ تمام ثبوت کو کافی حد تک ناقص بنادیتے ہیں۔
عملی طور پر ہومینن نسل سمجھے جانے والے فوصل ہومو درجہ بندی میں چار میں سے ایک یا زائد شرائط کے پورا ہونے پرڈ الے جاتے ہیں لیکن اب یہ واضح ہے کہ چاروں میں سے ایک بھی وجہ تسلی بخش نہیں ہے۔ کھوپڑی کا ناپ مسئلہ پیش کرتاہے کیونکہ کھوپڑی کی حتمی پیمائش کا اندازہ لگانا علمِ بشریات کے حساب سے ایک کافی ناممکن فعل ہے۔ اسی طرح قوتِ گویائی کا اندازہ محض دماغ کے ناپ سے نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ دماغ کے وہ حصے گویائی کی صلاحیت کے ذمہ دار ہیں وہ اتنے واضح طور سے قابل شناخت نہیں ہیں جتنا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔دوسرے الفاظ میں ، ہومو ہابلس اور ہومو روڈالفنسس کی مخصوص خصوصیات کے ساتھ یہ تاثر ملتا ہے کہ ہومو کوئی اچھا جنس نہیں ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہومو ہابلس اور ہومو روڈالفنسس کو ہومو کی درجہ بندی سے نکال دیا جائے۔ بظاہر انقسامی متبادل یہ ہے کہ ایک یا دونوں نسلوں کو کسی ایک قدیم انسانی درجہ بندی میں ضرورجذب کردیا جائے۔ گو کہ ایسا کرنا مشکل نہیں ہو گا لیکن فی الحال ہماری رائے یہ ہے کہ ہومو ہابلس اور ہومو روڈالفنسس کو جنس آسٹرالوپتھیکس میں منتقل کردیا جائے۔“ 5
وڈ اور کالارڈ کا حتمی نتیجہ بھی وہی ہے جس کے اوپر شروع سے زوردیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ قدیم انسانی جد امجد جیسی کوئی مخلوق تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ جس مخلوق کے بارے میں ازروئے دعویٰ یہ خیال کیا جاتا بھی ہے تو وہ مخلوق دراصل جنس آسٹرالوپتھیکس کا حصہ ہے۔ فوصلی ریکارڈ کے مطابق معدوم گوریلوں اور ہومو یعنی انسانی نسلوں میں کسی قسم کا ارتقائی تعلق نہیں ہے۔ انسانی نسلیں بھی دوسرے تمام جانداروں کی طرح اچانک فوصلی ریکارڈ میں نمودار ہوئیں اور ارتقا والوں کا یہ دعوی کہ انسان کسی گوریلے یا بن مانس سے ارتقا پذیر ہوا، سائنسی طور پرسو فیصد غلط ہے۔
حوالہ جات:
1: Tim Bromage, New Scientist, vol 133, 1992, p. 38-41.
2: J. E. Cronin, N. T. Boaz, C. B. Stringer, Y. Rak, "Tempo and Mode in Hominid Evolution", Nature, Vol 292, 1981, p. 113-122.
3: C. L. Brace, H. Nelson, N. Korn, M. L. Brace, Atlas of Human Evolution, 2.b. New York: Rinehart and Wilson, 1979.
4: Alan Walker, Scientific American, vol 239 (2), 1978, p. 54.
5: Bernard Wood, Mark Collard, "The Human Genus", Science, vol 284, No 5411, 2 April 1999, p. 65-71.



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔