قرآن پاک میں بیان نماز کے لیے مذکور عربی لفظ صلوۃ کی منکرین حدیث کی طرف سے من مانی تشریح،نماز کا انکار اور اس کا جواب
تدوین و ترتیب: منجانب فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ائمہ لغت کہتے ہیں کہ عربی زبان میں صلوۃ کے مادہ سے جتنے بھی لفظ نکلتے ہیں خواہ وہ اسی ترتیب سے رہیں اور خواہ ترتیب بدلتے رہیں یعنی ص لی ہو خواہ صلی ہو جائے۔ خواہ ص ل میں واؤ پہلے آجائے اور ص بعد میں۔ خواہ ص ل و کے تینوں حروف کو جس طرح چاہے Disorder کر دیں، اسی سے ایک لفظ صل ہے جسے صولۃ بھی کہتے ہیں عربی زبان میں کہتے ہیں کہ بلی یا شیر اگر کسی پر حملہ کریں تو پہلے تھوڑی دیر بیٹھ کر اپنی تمام توانائی کو جمع کرنا، اس کو عربی زبان میں صلّ صولا یا صولۃ کہتے ہیں۔اسی سے ایک لفظ نکلا ہے المصول جھاڑو کو المصولۃ کہتے ہیں جس کو مختلف تیلے باندھ کر جوڑا جاتا ہے۔ اس باندھنے کی وجہ سے اسے المصولۃ کہتے ہیں۔ اس معنی کو ائمہ نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح اگر آپ دیہاتوں میں جائیں تو گندم کاٹی جاتی ہے۔ جس کو اکٹھا کرکے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اس کو عمل التصویل کہتے ہیں۔ صول سے ہے۔ اس جمع کرنے کو مصول بھی کہتے ہیں۔لفظ صلوۃ کا ایک مادہ لوص بھی ہے۔ اسی سے لواص ہے جو فالودہ کو کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں دودھ، کھویا، نشاستہ ہے۔ سارے رشتوں کو ایک خانہ میں جمع کر دینے کی وجہ سے اس ایک لفظ کو لواص کہا جاتا ہے یہ اس کا چوتھا معنی تھا۔ اب اس لفظ صلوۃ کا ایک مادہ وصل ہے جس سے لفظ صلوۃ نکلا ہے۔ لغت کی کوئی کتاب اٹھائیں اس میں لکھا ہے کہ یہ صلوۃ کا Root word ہے اسی سے لفظ وصال ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص کا وصال ہوگیا۔عرب بھی کہتے ہیں وصل الشئی یا وصل الیہ الشئی یعنی کوئی چیز کسی سے مل جائے اور ایسی ملے کہ وہاں جاکر فاصلے ختم ہو جائیں۔ اس کو وصال کہتے ہیں۔اب قرآن صلوٰۃ قائم کرنے کا ذکر کرتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ قائم کیسے کی جاتی ہے ؟ کیا یہ کوئی نظام ہے ؟
صلی کے مقابلے میں لفظ تولی آیا ہے ۔
منکرین حدیث کے بقول صلاۃ کا معنٰی "فلاحی نظام حکومت کا قیام"، یا درس و اجتماع یا دعا ء وغیرہ ہے لیکن منکرین حدیث کی طرف سے لفظ صلوۃ کی یہ فرضی تشریح عربی لغت اور قرآن و حدیث دونوں کے خلاف ہے۔
صلا ۃ عربی زبان کے اندر کئی ایک معنی کے لیے استعمال ہوا ہے
فى الحال کچھ مختلف معانی کا ذکر پیش خدمت ہے
- دعا کے معنی میں
دلیل: وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ سورة التوبہ، آیۃ نمبر 103
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ سورة التوبة99
۔ داخل ہونا
وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا سورة الانشقاق 12
سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ - سورة لھب
گھوڑے کا دوسرا مقابل گھوڑا کو بھی عربی زبان کے اندر مصلی کہا جاتا ہے
کیونکہ وہ گھڑسواركا اپنے سے آگے جا رہے گھوڑے کا تعاقب کرتا ھے
انسان کے مقعد کی ہڈی کو بھی ''صلا '' کہا گیا ھے کیونکہ مسبوق مصلی سابق مصلی کے پشت کا تعاقب کرتا ہے- اور قصد کرتا ہے۔
لسان العرب نامی مشہور عربی لغت کی کتاب ہے کے اندر جلد 14 صفحہ -467-466 پر ہے کے قال ابو عبید ''واصل ھذا فی الخیل فا لسابق الاول والمصلی الثانی قیل لا مصل لا نهُ یکون عند صلا الاول و صلا ۃ جانبا ذنبه عن یمنبه وشماله ثم یتلو ہ الثالث۔
دیگر متعدد الفاظ کو جس طرح قرآن کریم نے اصطلاح بنا کر ایک خاص معنی کی شکل دی بلکہ اسی طرح ذکر الٰہی, رکوع و سجود اور طواف جیسی ساری اللہ کے لیے کی جانے والی عبادت کا نام صلا ۃ رکھ دیا گیا
یہی وجہ ہے تاریخ اسلامی کے اندر سلف سے متواتر اور منقول ثابت شدہ بیانات کی روشنی میں ہم پاتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کے اندر جب کبھی لفظ صلا ۃ کہا گیا اس سے صرف قیام رکوع و سجود ثابت شدہ اذکار کے سے ادا کی جانے والی عبادت ہی سمجھا گیا بدنی
خلاصہ تعریف صلا ۃ -شروع شروع میں لفظ صلا ۃ فقط دعا کو بولاجاتا تھا -پھر وہ ايك خاص دعا کے لیے استعمال ہوا -پھر اسلا م کے اندر ترقی کرکے شرعی اصطلا ح کی شکل میں اذکار مشروعہ کے ساتھ قیام رکوع و سجود جيسى خاموش عبادت کا ہم نشین بن گیا کیونکہ "صلا ۃ" کو دعا کے ساتھ خاص مناسبت ہے
موجودہ دور میں جب اسلامی قرآنی اصطلاحات پر طرح طرح کے حملے کیے جا رہے ہیں اور ان سے ایسی خود ساختہ مراد لی جا رہی ہیں جس كو عہد نبوی میں عہد صحابہ و خیرالقرون و عهدمتقدمین کے اندر مراد نہیں لیا جاتا تھا
جو کے عہد جا ہلیت کے عربی اشعار و تاریخ عرب میں کبھی مراد نہیں لیا گیا تھا جس کا عربی زبان کی کسی بھی ڈ کشنری میں وہ معنی و تشریح نہیں ملتی جو ہمارے نام نہاد عجمى اھل قرآن برادران مراد لیا کرتے ہیں۔
اب آپ منکرین حدیث ثابت کریں کہ لفظ صلوۃ کی وہ تشریح کبھی بھی اہل عرب نے وہ کی ہے جو آپ یعنی منکرین حدیث لوگ کرتے ہیں۔
صلات کا مطلب ہے پیروی کرنا۔
کچھ آیتیں ان گمراہ نام نہاد اہلِ قرآن و منکرینِ سُنَّت کے بےبنیادفرضی اقامت صلا ۃ کے مفہوم کو رد کرتی ہیں
اکیا منکرین حدیث و سُنَّت کے پاس اس کا کوئی معقول و مدلّل جواب ہے؟
حَٰفِظُوا عَلَى ٱلصَّلَوَٰتِ وَٱلصَّلَوٰةِ ٱلْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَٰنِتِينَ
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا
سورة البقرة328/ 329
نوٹ :-اس آیت میں صلاۃ کا لفظ نہیں بلکہ "صلوات "کا لفظ استعمال ہوا ہے جو جمع کا صیغہ ہے یعنی صلوات کی حفاظت کرو بات تو عام تھی لیکن اس كے فورا بعد "صلوۃ وسطٰی"کو بطور خاص الگ کرکے مستقل ذکر کیا جو کہ بیان اہمیت کے لئے ہے -
کیا یہاں وہ پرویزی معنٰی ثابت ہوتا ہے جو پرویزی فرقہ والے ثابت کرنا چاہتے ہیں
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ ٱلصَّلَوٰةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوٓا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ (سورة النساء102)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لِيَسْتَئـْٔذِنكُمُ ٱلَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ وَٱلَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا ٱلْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَٰثَ مَرَّٰتٍ مِّن قَبْلِ صَلَوٰةِ ٱلْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ ٱلظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَوٰةِ ٱلْعِشَآءِ (سورة النور 58)
اس آیت میں ہے کہ بوقت جنگ جب آپ صلى الله عليہ وسلم کے مجمع صحابہ ہو اورصلوة یعنی نمازقائم كرنى ہو تو تركيب يہ بتائى جارہى ہيكہ ہتھیار لے کر ایک گروہ کھڑا ہوجائے تاکہ پیارے نبی ایک دوسرے گروہ کو بسويلت صلوة قائم كراسکیں۔اب اگر صلوۃ ایک نظام کا نام ہے تو یہ کونسا نظام ہے جو محض جنگ کے دوران اس کے نفاذ کا طریقہ بتایا جا رہا ہے
حکمِ ربِّی ہے: "فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَاذْكُرُواْ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا" (سورۃُالنساء، آیۃ نمبر103) مفہوم: "پھر (اے مسلمانو!) جب تم صلاۃ ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو صلاۃ کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک صلاۃ مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے"۔اب اگر صلوۃ ایک نظام کا نام ہے تو یہ کونسا نظام ہے جو محض ایک مقررہ وقت پہ ادا کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے
ایک جگہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: "إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي" (سورۃ طٰہٰ، آیۃ نمبر14) مفہوم: "بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر صلاۃ قائم کیا کرو"حکمِ ربِّی ہے: "فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَاذْكُرُواْ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا" (سورۃُالنساء، آیۃ نمبر103) مفہوم: "پھر (اے مسلمانو!) جب تم صلاۃ ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو صلاۃ کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک صلاۃ مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے"۔
ایک جگہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: "إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي" (سورۃ طٰہٰ، آیۃ نمبر14) مفہوم: "بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر صلاۃ قائم کیا کرو"
قرآن میں نماز پڑھنے کا بھی ذکر ہے
، اس کو پڑھا کیسے جائے گا؟ کوئی طریقہ ہے قرآن میں جس سے صلوٰۃ پڑھی جا سکے ؟
قرآن میں 87 آیات ہیں صلوٰۃ پہ،آپ آیات دکھائیں تاکہ میں بھی صلوٰۃ پڑھ سکوں
منکرین حدیث ہمیں قرآن سے نماز پڑھنے کا طریقہ بتائیں۔ قیام میں کیا پڑھنا ہے، رکوع میں کیا پرھنا ہے ، سجدہ میں کیا پرھنا ہے، اور حالت قعود میں کیا؟ اور یہ سب قرآن سے بتائیں ۔
نماز کا اسلوب تو بتا دیا قران نے کہ نہ دھیمی نہ اونچی آواز میں ، لیکن پڑھنا کیا اور کیسے ہے؟ یہ منکرین حدیث جواب نہیں دے رہے۔ نہ دھیمی نہ اونچی آواز میں پڑھیں؟ کیسے پڑھیں کیا پڑھیں؟
کیا منکرین حدیث ہمیں بتائیں گے کہ خود ان کے بڑے کیوں نماز کے بارے میں ایک بات پہ متفق نہیں؟
منکرین حدیث کے کئ بڑے صاحب پانچ نمازوں کے قائل ہیں کچھ تین کے قائل ہیں کچھ دو کے اور کچھ سو فیصد منکر ہیں۔اب منکرین حدیث ہمیں بتائیں کہ ان کے بڑوں میں سے کون ٹھیک راستے پہ ہے اور قرآن کے مطابق ان میں سے کون گمراہ اور کون حق پہ ہے۔دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کو فرقہ پرستی کا طعنہ دینے والے منکرین حدیث میں خود اتنے فرقے کیوں ہیں کہ ان کے بڑے ایک بات پہ متفق ہی نہیں ہورہے
آپ دیکھیں کہ جن لوگوں یعنی منکرین حدیث نے نبی ﷺ کے دونوں منصبوں سے یعنی حدیث شریف کے ذریعے تزکیہ و تعلیم کا انکار کیا ہے سوہ نماز کے مسئلہ میں کس قدر مضطرب نظر آتے ہیں۔
منکر حدیث عبداللہ چکڑالوی قرآن سے پانچوں نمازیں ثابت کرتا تھا (اس کا رسالہ نماز ص:۸)
منکر حدیث مولوی حشمت علی دہلوی بھی پانچوں نمازوں کا قائل تھا اور کہتا تھا کہ تین یا چار نمازیں پڑھنا مفتری علی اللہ مسیلمہ کذاب محرف قرآن جہنمی ہے (صلوۃ القرآن ص:۲۳۔۲۴)
اب خود آپ کے بڑوں کے مطابق نماز کا انکار کرنے والے سب منکرین حدیث جہنمی ہیں۔
منکر حدیث مولوی رمضان کہتا ہے کہ نماز کے تین وقت ثابت و مبین فی القرآن ہیں باقی صلوۃ العصر و مغرب غیر اللہ کی ہوائے نفس ،من گھڑت اور خانہ ساز ہیں ۔(
صلوإ القرآن ص:۳۵)
منکرین حدیث رفیع الدین کہتا ہے روزانہ اوقات نماز نہ پانچ ہیں نہ تین بلکہ متوسطانہ چار ہیں ان میں کمی (۳)اور بیشی (۵)کرنے والا (اضاعوا الصلاۃ واتبعوا الشہوات)(مریم:۵۹)کا مصداق ہے ۔(الصلاۃ للرحمن ص۴۔ملاحظہ فرمائیے رسالہ تقابل ادیان اربعہ از مولانا نور حسن گرجاکھی ص:۲۴،۲۵)
منکر حدیث ماسٹر محمد علی آف رسول نگر تین نمازوں کا قائل ہے۔
بعض منکرین حدیث پانچوں نمازوں کے منکر ہیں ان میں ایک چھوٹی سی باطل جماعت جھنگ شہر میں بھی موجود ہے وہ پہلے پانچوں پڑھتے تھے پھر دو کے قائل ہوئے پھردو کے بھی انکاری ہو گئے ۔ان کے زعیم کا نام اکرم پردیسی ہے وہ جسمانی معراج ،نزول عیسی علیہ السلام کے بھی منکر ہیں اور نبیوں کے معجزات کا بھی انکار کرتے ہیں ۔
رفیع الدین کے نزدیک دو نمازیں مشرق کی طرف اور دو نمازیں مغرب کی طرف رخ کر کے پڑھی جائیں (تقابل اربعہ ص:۲۶۔۲۷)نیز حدیث رسول کی حجیت و عظمت از عبداللطیف مسعود ص۲۸)بحوالہ خطبات ضیائ از شیخ عبدالرحمن ضیائ حفظہ اللہ مدرس جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور ص:۴۲۵۔۴۲۶
اب منکرین حدیث کے بڑے بھی نماز کے بارے میں ایک بات پہ متفق نہیں۔رفیع الدین نے تو قبلہ بھی تبدیل کردیا۔اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے بڑوں میں سے کون ٹھیک کہتا ہے دوسری بات یہ کہ اگر حدیث مسلمانوں میں فرقہ واریت پیدا کرتی ہے نعوذ بااللہ تو منکرین حدیث خود ایک بات پہ متفق کیوں نہیں۔خود ان میں اتنے فرقے کیوں ہیں۔حدیث کے انکار کے بعد منکرین حدیث مضطرب کیوں ہیں۔کبھی کیا بات کرتے ہیں اور کبھی کیا بات۔
نماز کے بارے میں کہا گیا کہ اگر حدیثیں صحیح اور قابل اعتبار ہوتیں تو نماز کے طریقے میں اختلاف کیوں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اختلاف حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ہے۔ اختلاف پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلتے ہیں۔ حدیث سے نماز کا مکمل طریقہ چاہیے (جس کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے) تو الشیخ ناصرالدین البانی کی کتاب "صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کا مطالعہ کریں۔ اس میں نماز کا ایک ایک مسئلہ صحیح حدیث کی روشنی میں آپ کو مل جائے گا۔ تفصیل چاہیے تو اس موضوع پر ان کی مفصل کتاب "صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" پڑھیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام فرقوں میں نماز کے ارکان کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ دنیا بھر کے سنی، حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل الحدیث، دیوبندی، بریلوی غرض تمام مکاتبِ فکر کہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ سب سے سب یہ بھی مانتے ہیں کہ فجر میں دو رکعت، ظہر، عصر، اور عشاء میں چار چار رکعت اور مغرب میں تین رکعت فرض ہے۔ نماز کے طریقے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔ یعنی سب مانتے ہیں کہ پہلے قیام پھر رکوع، پھر قومہ، پھر دو سجدے کریں گے تب ایک رکعت پوری ہو گی۔ سب اس پر بھی متفق ہیں کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ اختلاف صرف اتنا سا ہے کہ جماعت کی صورت میں امام کی قراءت سب کو کافی ہے یا ان کو الگ سے قراءت کرنی ہو گی۔ گویا صرف پڑھنے کی نوعیت میں فرق ہے۔ اسی طرح رفع الیدین کے بارے میں صرف اختلاف یہ ہے کہ افضل کیا ہے۔ کوئی شخص تحقیق کے بعد رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھے یا بغیر رفع الیدین کے نماز سب کے نزدیک صحیح ہو گی۔ پس نماز کے بنیادی ارکان اور بنیادی مسائل میں حدیث کے ماننے والوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں جو لوگ حدیث کو چھوڑ بیٹھے ہیں ان میں نماز کے طریقے حتی کہ نمازوں کی تعداد پر جو اختلاف واقع ہوا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔ کوئی پانچوں نمازوں کو مانتا ہے، کسی کے نزدیک تین ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے مختلف آیتوں کے ٹکڑے کاٹ کر دعاؤں کا ایک مجوعہ گھڑا ہے اور نماز کے مختلف حصوں یعنی قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ کے لیے ایک ایک ٹکڑا کسی دلیل کے بغیر مقرر کر لیا ہے۔ غلام احمد پرویز صاحب کا خیال تو کہ ہے کہ نماز، حج، زکٰوۃ سب فضول چیزیں ہیں اور اسلام کی ذلت و رسوائی اور پسی کا سبب ہیں۔ (طلوع اسلام، مارچ1953۔ ص46)۔ دوسری جگہ پرویز صاحب نے نماز کو ایران کے آگ پوجنے والے مجوسیوں کی رسم کا عکس قرار دیا ہے۔ (طلوع اسلام دسمبر 1951۔ ص47)
خلاصہ یہ کہ جو لوگ حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن سے نماز کا طریقہ دریافت کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ان کے درمیان نماز کی رکعات، کیفیت، ترکیب وغیرہ میں ایسا زبردست اختلاف پایا جاتا ہے جس کا نام و نشان بھی حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ملتا-
منکرینِ حدیث کا ایک گروہ جس کے سربراہ خواجہ عباد اللہ اختر ہیں، دو وقت کی فرض نماز کے قائل ہیں۔ مدھوپوری منکرینِ حدیث چھے وقت کی نمازیں فرض مانتے ہیں۔ ان دونوں کے برخلاف گوجرانوالہ اور یوپی ہندوستان کا ایک گروہ تین وقت کی نماز فرض مانتا ہے (رسالہ اقمواالصلٰوۃ ص۲۱)۔ پھر تین ماننے والوں میں بھی سخت اختلاف ہے۔ کچھ کہتے ہیں ظہر اور مغرب فرض ہے، عصر اور مغرب کی نمازیں پڑھنا غلط ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ عصر اور عشاء فرض ہیں اور ظہر اور مغرب کی نمازپڑھنا غلط ہے۔ یہی تین وقت کی نماز ماننے والے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہر نماز میں صرف دو ہی رکعتیں ہیں۔ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔اب منکرین حدیث بتائیں کہ آپ کس کو ٹھیک مانتے ہیں اور کس دلیل کے ساتھ ٹھیک مانتے ہیں۔
آخر میں منکرین حدیث سے لفظ صلوۃ کی تشریح اور ان کی طرف سے نماز کے انکار پہ درج ذیل سوالات ہیں
1:منکرین حدیث ثابت کریں کہ ان کی طرف سے نماز کا انکار کرکے لفظ صلوۃ کی جو تشریح بیان کی گئی ہے وہ کسی بھی عربی لغت میں کسی بھی عرب اہل زباں کی طرف سے کبھی بیان کی گئی ہے۔
2:منکرین حدیث اس بات کا جواب دیں کہ اگر نماز ان کی فرضی تشریح کے مطابق محض ایک دینی نظام کے قیام و نفاذ کا نام ہے تو یہ نظام کیا محض مخصوص اوقات یا حالت جنگ میں قائم ہوگا؟ کیونکہ قرآن نماز کو مخصوص اوقات اور حالت جنگ دونوں میں قائم کرنے کا حکم کرتا ہے۔
3:اگر منکرین حدیث کی نظر میں قرآن مجید میں بیان کردہ لفظ صلوۃ کا مطلب نماز نہیں ہے تو پھر خود منکرین حدیث کے اکثر بڑے اس سے مراد نماز کیوں لیتے ہیں؟کچھ پانچ کے قائل ہیں کچھ تین کے کچھ دو کے۔اور کچھ بالکل منکر ہیں۔منکرین حدیث جواب دیں کہ اپنے بڑوں میں سے کس کو ٹھیک مانتے ہیں اور کس دلیل کے ساتھ؟
4:منکرین حدیث اکثر فرقہ پرستی کا واویلا کرکے لوگوں کو احادیث سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ اگر نعوذ بااللہ فرقہ پرستی کی وجہ حدیث ہے تو منکرین حدیث میں انکار حدیث کے بعد بھی اتنے فرقے کیوں ہیں کہ ان کے بڑے کبھی بھی ایک بات پہ متفق نہیں ہوتے۔
حوالہ جات:
http://forum.mohaddis.com/…/مسئلہ-نماز-میں-منکرین-حدیث-کی-…/
http://qnsblogs.blogspot.com/2016/07/blog-post_11.html?m=1
تدوین و ترتیب: منجانب فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ائمہ لغت کہتے ہیں کہ عربی زبان میں صلوۃ کے مادہ سے جتنے بھی لفظ نکلتے ہیں خواہ وہ اسی ترتیب سے رہیں اور خواہ ترتیب بدلتے رہیں یعنی ص لی ہو خواہ صلی ہو جائے۔ خواہ ص ل میں واؤ پہلے آجائے اور ص بعد میں۔ خواہ ص ل و کے تینوں حروف کو جس طرح چاہے Disorder کر دیں، اسی سے ایک لفظ صل ہے جسے صولۃ بھی کہتے ہیں عربی زبان میں کہتے ہیں کہ بلی یا شیر اگر کسی پر حملہ کریں تو پہلے تھوڑی دیر بیٹھ کر اپنی تمام توانائی کو جمع کرنا، اس کو عربی زبان میں صلّ صولا یا صولۃ کہتے ہیں۔اسی سے ایک لفظ نکلا ہے المصول جھاڑو کو المصولۃ کہتے ہیں جس کو مختلف تیلے باندھ کر جوڑا جاتا ہے۔ اس باندھنے کی وجہ سے اسے المصولۃ کہتے ہیں۔ اس معنی کو ائمہ نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح اگر آپ دیہاتوں میں جائیں تو گندم کاٹی جاتی ہے۔ جس کو اکٹھا کرکے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اس کو عمل التصویل کہتے ہیں۔ صول سے ہے۔ اس جمع کرنے کو مصول بھی کہتے ہیں۔لفظ صلوۃ کا ایک مادہ لوص بھی ہے۔ اسی سے لواص ہے جو فالودہ کو کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں دودھ، کھویا، نشاستہ ہے۔ سارے رشتوں کو ایک خانہ میں جمع کر دینے کی وجہ سے اس ایک لفظ کو لواص کہا جاتا ہے یہ اس کا چوتھا معنی تھا۔ اب اس لفظ صلوۃ کا ایک مادہ وصل ہے جس سے لفظ صلوۃ نکلا ہے۔ لغت کی کوئی کتاب اٹھائیں اس میں لکھا ہے کہ یہ صلوۃ کا Root word ہے اسی سے لفظ وصال ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص کا وصال ہوگیا۔عرب بھی کہتے ہیں وصل الشئی یا وصل الیہ الشئی یعنی کوئی چیز کسی سے مل جائے اور ایسی ملے کہ وہاں جاکر فاصلے ختم ہو جائیں۔ اس کو وصال کہتے ہیں۔اب قرآن صلوٰۃ قائم کرنے کا ذکر کرتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ قائم کیسے کی جاتی ہے ؟ کیا یہ کوئی نظام ہے ؟
صلی کے مقابلے میں لفظ تولی آیا ہے ۔
منکرین حدیث کے بقول صلاۃ کا معنٰی "فلاحی نظام حکومت کا قیام"، یا درس و اجتماع یا دعا ء وغیرہ ہے لیکن منکرین حدیث کی طرف سے لفظ صلوۃ کی یہ فرضی تشریح عربی لغت اور قرآن و حدیث دونوں کے خلاف ہے۔
صلا ۃ عربی زبان کے اندر کئی ایک معنی کے لیے استعمال ہوا ہے
فى الحال کچھ مختلف معانی کا ذکر پیش خدمت ہے
- دعا کے معنی میں
دلیل: وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ سورة التوبہ، آیۃ نمبر 103
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ سورة التوبة99
۔ داخل ہونا
وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا سورة الانشقاق 12
سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ - سورة لھب
گھوڑے کا دوسرا مقابل گھوڑا کو بھی عربی زبان کے اندر مصلی کہا جاتا ہے
کیونکہ وہ گھڑسواركا اپنے سے آگے جا رہے گھوڑے کا تعاقب کرتا ھے
انسان کے مقعد کی ہڈی کو بھی ''صلا '' کہا گیا ھے کیونکہ مسبوق مصلی سابق مصلی کے پشت کا تعاقب کرتا ہے- اور قصد کرتا ہے۔
لسان العرب نامی مشہور عربی لغت کی کتاب ہے کے اندر جلد 14 صفحہ -467-466 پر ہے کے قال ابو عبید ''واصل ھذا فی الخیل فا لسابق الاول والمصلی الثانی قیل لا مصل لا نهُ یکون عند صلا الاول و صلا ۃ جانبا ذنبه عن یمنبه وشماله ثم یتلو ہ الثالث۔
دیگر متعدد الفاظ کو جس طرح قرآن کریم نے اصطلاح بنا کر ایک خاص معنی کی شکل دی بلکہ اسی طرح ذکر الٰہی, رکوع و سجود اور طواف جیسی ساری اللہ کے لیے کی جانے والی عبادت کا نام صلا ۃ رکھ دیا گیا
یہی وجہ ہے تاریخ اسلامی کے اندر سلف سے متواتر اور منقول ثابت شدہ بیانات کی روشنی میں ہم پاتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کے اندر جب کبھی لفظ صلا ۃ کہا گیا اس سے صرف قیام رکوع و سجود ثابت شدہ اذکار کے سے ادا کی جانے والی عبادت ہی سمجھا گیا بدنی
خلاصہ تعریف صلا ۃ -شروع شروع میں لفظ صلا ۃ فقط دعا کو بولاجاتا تھا -پھر وہ ايك خاص دعا کے لیے استعمال ہوا -پھر اسلا م کے اندر ترقی کرکے شرعی اصطلا ح کی شکل میں اذکار مشروعہ کے ساتھ قیام رکوع و سجود جيسى خاموش عبادت کا ہم نشین بن گیا کیونکہ "صلا ۃ" کو دعا کے ساتھ خاص مناسبت ہے
موجودہ دور میں جب اسلامی قرآنی اصطلاحات پر طرح طرح کے حملے کیے جا رہے ہیں اور ان سے ایسی خود ساختہ مراد لی جا رہی ہیں جس كو عہد نبوی میں عہد صحابہ و خیرالقرون و عهدمتقدمین کے اندر مراد نہیں لیا جاتا تھا
جو کے عہد جا ہلیت کے عربی اشعار و تاریخ عرب میں کبھی مراد نہیں لیا گیا تھا جس کا عربی زبان کی کسی بھی ڈ کشنری میں وہ معنی و تشریح نہیں ملتی جو ہمارے نام نہاد عجمى اھل قرآن برادران مراد لیا کرتے ہیں۔
اب آپ منکرین حدیث ثابت کریں کہ لفظ صلوۃ کی وہ تشریح کبھی بھی اہل عرب نے وہ کی ہے جو آپ یعنی منکرین حدیث لوگ کرتے ہیں۔
صلات کا مطلب ہے پیروی کرنا۔
کچھ آیتیں ان گمراہ نام نہاد اہلِ قرآن و منکرینِ سُنَّت کے بےبنیادفرضی اقامت صلا ۃ کے مفہوم کو رد کرتی ہیں
اکیا منکرین حدیث و سُنَّت کے پاس اس کا کوئی معقول و مدلّل جواب ہے؟
حَٰفِظُوا عَلَى ٱلصَّلَوَٰتِ وَٱلصَّلَوٰةِ ٱلْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَٰنِتِينَ
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا
سورة البقرة328/ 329
نوٹ :-اس آیت میں صلاۃ کا لفظ نہیں بلکہ "صلوات "کا لفظ استعمال ہوا ہے جو جمع کا صیغہ ہے یعنی صلوات کی حفاظت کرو بات تو عام تھی لیکن اس كے فورا بعد "صلوۃ وسطٰی"کو بطور خاص الگ کرکے مستقل ذکر کیا جو کہ بیان اہمیت کے لئے ہے -
کیا یہاں وہ پرویزی معنٰی ثابت ہوتا ہے جو پرویزی فرقہ والے ثابت کرنا چاہتے ہیں
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ ٱلصَّلَوٰةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوٓا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَآئِكُمْ وَلْتَأْتِ (سورة النساء102)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لِيَسْتَئـْٔذِنكُمُ ٱلَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ وَٱلَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا ٱلْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَٰثَ مَرَّٰتٍ مِّن قَبْلِ صَلَوٰةِ ٱلْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ ٱلظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَوٰةِ ٱلْعِشَآءِ (سورة النور 58)
اس آیت میں ہے کہ بوقت جنگ جب آپ صلى الله عليہ وسلم کے مجمع صحابہ ہو اورصلوة یعنی نمازقائم كرنى ہو تو تركيب يہ بتائى جارہى ہيكہ ہتھیار لے کر ایک گروہ کھڑا ہوجائے تاکہ پیارے نبی ایک دوسرے گروہ کو بسويلت صلوة قائم كراسکیں۔اب اگر صلوۃ ایک نظام کا نام ہے تو یہ کونسا نظام ہے جو محض جنگ کے دوران اس کے نفاذ کا طریقہ بتایا جا رہا ہے
حکمِ ربِّی ہے: "فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَاذْكُرُواْ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا" (سورۃُالنساء، آیۃ نمبر103) مفہوم: "پھر (اے مسلمانو!) جب تم صلاۃ ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو صلاۃ کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک صلاۃ مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے"۔اب اگر صلوۃ ایک نظام کا نام ہے تو یہ کونسا نظام ہے جو محض ایک مقررہ وقت پہ ادا کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے
ایک جگہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: "إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي" (سورۃ طٰہٰ، آیۃ نمبر14) مفہوم: "بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر صلاۃ قائم کیا کرو"حکمِ ربِّی ہے: "فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَاذْكُرُواْ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا" (سورۃُالنساء، آیۃ نمبر103) مفہوم: "پھر (اے مسلمانو!) جب تم صلاۃ ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو صلاۃ کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک صلاۃ مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے"۔
ایک جگہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: "إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي" (سورۃ طٰہٰ، آیۃ نمبر14) مفہوم: "بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر صلاۃ قائم کیا کرو"
قرآن میں نماز پڑھنے کا بھی ذکر ہے
، اس کو پڑھا کیسے جائے گا؟ کوئی طریقہ ہے قرآن میں جس سے صلوٰۃ پڑھی جا سکے ؟
قرآن میں 87 آیات ہیں صلوٰۃ پہ،آپ آیات دکھائیں تاکہ میں بھی صلوٰۃ پڑھ سکوں
منکرین حدیث ہمیں قرآن سے نماز پڑھنے کا طریقہ بتائیں۔ قیام میں کیا پڑھنا ہے، رکوع میں کیا پرھنا ہے ، سجدہ میں کیا پرھنا ہے، اور حالت قعود میں کیا؟ اور یہ سب قرآن سے بتائیں ۔
نماز کا اسلوب تو بتا دیا قران نے کہ نہ دھیمی نہ اونچی آواز میں ، لیکن پڑھنا کیا اور کیسے ہے؟ یہ منکرین حدیث جواب نہیں دے رہے۔ نہ دھیمی نہ اونچی آواز میں پڑھیں؟ کیسے پڑھیں کیا پڑھیں؟
کیا منکرین حدیث ہمیں بتائیں گے کہ خود ان کے بڑے کیوں نماز کے بارے میں ایک بات پہ متفق نہیں؟
منکرین حدیث کے کئ بڑے صاحب پانچ نمازوں کے قائل ہیں کچھ تین کے قائل ہیں کچھ دو کے اور کچھ سو فیصد منکر ہیں۔اب منکرین حدیث ہمیں بتائیں کہ ان کے بڑوں میں سے کون ٹھیک راستے پہ ہے اور قرآن کے مطابق ان میں سے کون گمراہ اور کون حق پہ ہے۔دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کو فرقہ پرستی کا طعنہ دینے والے منکرین حدیث میں خود اتنے فرقے کیوں ہیں کہ ان کے بڑے ایک بات پہ متفق ہی نہیں ہورہے
آپ دیکھیں کہ جن لوگوں یعنی منکرین حدیث نے نبی ﷺ کے دونوں منصبوں سے یعنی حدیث شریف کے ذریعے تزکیہ و تعلیم کا انکار کیا ہے سوہ نماز کے مسئلہ میں کس قدر مضطرب نظر آتے ہیں۔
منکر حدیث عبداللہ چکڑالوی قرآن سے پانچوں نمازیں ثابت کرتا تھا (اس کا رسالہ نماز ص:۸)
منکر حدیث مولوی حشمت علی دہلوی بھی پانچوں نمازوں کا قائل تھا اور کہتا تھا کہ تین یا چار نمازیں پڑھنا مفتری علی اللہ مسیلمہ کذاب محرف قرآن جہنمی ہے (صلوۃ القرآن ص:۲۳۔۲۴)
اب خود آپ کے بڑوں کے مطابق نماز کا انکار کرنے والے سب منکرین حدیث جہنمی ہیں۔
منکر حدیث مولوی رمضان کہتا ہے کہ نماز کے تین وقت ثابت و مبین فی القرآن ہیں باقی صلوۃ العصر و مغرب غیر اللہ کی ہوائے نفس ،من گھڑت اور خانہ ساز ہیں ۔(
صلوإ القرآن ص:۳۵)
منکرین حدیث رفیع الدین کہتا ہے روزانہ اوقات نماز نہ پانچ ہیں نہ تین بلکہ متوسطانہ چار ہیں ان میں کمی (۳)اور بیشی (۵)کرنے والا (اضاعوا الصلاۃ واتبعوا الشہوات)(مریم:۵۹)کا مصداق ہے ۔(الصلاۃ للرحمن ص۴۔ملاحظہ فرمائیے رسالہ تقابل ادیان اربعہ از مولانا نور حسن گرجاکھی ص:۲۴،۲۵)
منکر حدیث ماسٹر محمد علی آف رسول نگر تین نمازوں کا قائل ہے۔
بعض منکرین حدیث پانچوں نمازوں کے منکر ہیں ان میں ایک چھوٹی سی باطل جماعت جھنگ شہر میں بھی موجود ہے وہ پہلے پانچوں پڑھتے تھے پھر دو کے قائل ہوئے پھردو کے بھی انکاری ہو گئے ۔ان کے زعیم کا نام اکرم پردیسی ہے وہ جسمانی معراج ،نزول عیسی علیہ السلام کے بھی منکر ہیں اور نبیوں کے معجزات کا بھی انکار کرتے ہیں ۔
رفیع الدین کے نزدیک دو نمازیں مشرق کی طرف اور دو نمازیں مغرب کی طرف رخ کر کے پڑھی جائیں (تقابل اربعہ ص:۲۶۔۲۷)نیز حدیث رسول کی حجیت و عظمت از عبداللطیف مسعود ص۲۸)بحوالہ خطبات ضیائ از شیخ عبدالرحمن ضیائ حفظہ اللہ مدرس جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور ص:۴۲۵۔۴۲۶
اب منکرین حدیث کے بڑے بھی نماز کے بارے میں ایک بات پہ متفق نہیں۔رفیع الدین نے تو قبلہ بھی تبدیل کردیا۔اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے بڑوں میں سے کون ٹھیک کہتا ہے دوسری بات یہ کہ اگر حدیث مسلمانوں میں فرقہ واریت پیدا کرتی ہے نعوذ بااللہ تو منکرین حدیث خود ایک بات پہ متفق کیوں نہیں۔خود ان میں اتنے فرقے کیوں ہیں۔حدیث کے انکار کے بعد منکرین حدیث مضطرب کیوں ہیں۔کبھی کیا بات کرتے ہیں اور کبھی کیا بات۔
نماز کے بارے میں کہا گیا کہ اگر حدیثیں صحیح اور قابل اعتبار ہوتیں تو نماز کے طریقے میں اختلاف کیوں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اختلاف حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ہے۔ اختلاف پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلتے ہیں۔ حدیث سے نماز کا مکمل طریقہ چاہیے (جس کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے) تو الشیخ ناصرالدین البانی کی کتاب "صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کا مطالعہ کریں۔ اس میں نماز کا ایک ایک مسئلہ صحیح حدیث کی روشنی میں آپ کو مل جائے گا۔ تفصیل چاہیے تو اس موضوع پر ان کی مفصل کتاب "صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" پڑھیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام فرقوں میں نماز کے ارکان کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ دنیا بھر کے سنی، حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل الحدیث، دیوبندی، بریلوی غرض تمام مکاتبِ فکر کہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ سب سے سب یہ بھی مانتے ہیں کہ فجر میں دو رکعت، ظہر، عصر، اور عشاء میں چار چار رکعت اور مغرب میں تین رکعت فرض ہے۔ نماز کے طریقے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔ یعنی سب مانتے ہیں کہ پہلے قیام پھر رکوع، پھر قومہ، پھر دو سجدے کریں گے تب ایک رکعت پوری ہو گی۔ سب اس پر بھی متفق ہیں کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ اختلاف صرف اتنا سا ہے کہ جماعت کی صورت میں امام کی قراءت سب کو کافی ہے یا ان کو الگ سے قراءت کرنی ہو گی۔ گویا صرف پڑھنے کی نوعیت میں فرق ہے۔ اسی طرح رفع الیدین کے بارے میں صرف اختلاف یہ ہے کہ افضل کیا ہے۔ کوئی شخص تحقیق کے بعد رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھے یا بغیر رفع الیدین کے نماز سب کے نزدیک صحیح ہو گی۔ پس نماز کے بنیادی ارکان اور بنیادی مسائل میں حدیث کے ماننے والوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں جو لوگ حدیث کو چھوڑ بیٹھے ہیں ان میں نماز کے طریقے حتی کہ نمازوں کی تعداد پر جو اختلاف واقع ہوا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔ کوئی پانچوں نمازوں کو مانتا ہے، کسی کے نزدیک تین ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے مختلف آیتوں کے ٹکڑے کاٹ کر دعاؤں کا ایک مجوعہ گھڑا ہے اور نماز کے مختلف حصوں یعنی قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ کے لیے ایک ایک ٹکڑا کسی دلیل کے بغیر مقرر کر لیا ہے۔ غلام احمد پرویز صاحب کا خیال تو کہ ہے کہ نماز، حج، زکٰوۃ سب فضول چیزیں ہیں اور اسلام کی ذلت و رسوائی اور پسی کا سبب ہیں۔ (طلوع اسلام، مارچ1953۔ ص46)۔ دوسری جگہ پرویز صاحب نے نماز کو ایران کے آگ پوجنے والے مجوسیوں کی رسم کا عکس قرار دیا ہے۔ (طلوع اسلام دسمبر 1951۔ ص47)
خلاصہ یہ کہ جو لوگ حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن سے نماز کا طریقہ دریافت کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ان کے درمیان نماز کی رکعات، کیفیت، ترکیب وغیرہ میں ایسا زبردست اختلاف پایا جاتا ہے جس کا نام و نشان بھی حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ملتا-
منکرینِ حدیث کا ایک گروہ جس کے سربراہ خواجہ عباد اللہ اختر ہیں، دو وقت کی فرض نماز کے قائل ہیں۔ مدھوپوری منکرینِ حدیث چھے وقت کی نمازیں فرض مانتے ہیں۔ ان دونوں کے برخلاف گوجرانوالہ اور یوپی ہندوستان کا ایک گروہ تین وقت کی نماز فرض مانتا ہے (رسالہ اقمواالصلٰوۃ ص۲۱)۔ پھر تین ماننے والوں میں بھی سخت اختلاف ہے۔ کچھ کہتے ہیں ظہر اور مغرب فرض ہے، عصر اور مغرب کی نمازیں پڑھنا غلط ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ عصر اور عشاء فرض ہیں اور ظہر اور مغرب کی نمازپڑھنا غلط ہے۔ یہی تین وقت کی نماز ماننے والے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہر نماز میں صرف دو ہی رکعتیں ہیں۔ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔اب منکرین حدیث بتائیں کہ آپ کس کو ٹھیک مانتے ہیں اور کس دلیل کے ساتھ ٹھیک مانتے ہیں۔
آخر میں منکرین حدیث سے لفظ صلوۃ کی تشریح اور ان کی طرف سے نماز کے انکار پہ درج ذیل سوالات ہیں
1:منکرین حدیث ثابت کریں کہ ان کی طرف سے نماز کا انکار کرکے لفظ صلوۃ کی جو تشریح بیان کی گئی ہے وہ کسی بھی عربی لغت میں کسی بھی عرب اہل زباں کی طرف سے کبھی بیان کی گئی ہے۔
2:منکرین حدیث اس بات کا جواب دیں کہ اگر نماز ان کی فرضی تشریح کے مطابق محض ایک دینی نظام کے قیام و نفاذ کا نام ہے تو یہ نظام کیا محض مخصوص اوقات یا حالت جنگ میں قائم ہوگا؟ کیونکہ قرآن نماز کو مخصوص اوقات اور حالت جنگ دونوں میں قائم کرنے کا حکم کرتا ہے۔
3:اگر منکرین حدیث کی نظر میں قرآن مجید میں بیان کردہ لفظ صلوۃ کا مطلب نماز نہیں ہے تو پھر خود منکرین حدیث کے اکثر بڑے اس سے مراد نماز کیوں لیتے ہیں؟کچھ پانچ کے قائل ہیں کچھ تین کے کچھ دو کے۔اور کچھ بالکل منکر ہیں۔منکرین حدیث جواب دیں کہ اپنے بڑوں میں سے کس کو ٹھیک مانتے ہیں اور کس دلیل کے ساتھ؟
4:منکرین حدیث اکثر فرقہ پرستی کا واویلا کرکے لوگوں کو احادیث سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ اگر نعوذ بااللہ فرقہ پرستی کی وجہ حدیث ہے تو منکرین حدیث میں انکار حدیث کے بعد بھی اتنے فرقے کیوں ہیں کہ ان کے بڑے کبھی بھی ایک بات پہ متفق نہیں ہوتے۔
حوالہ جات:
http://forum.mohaddis.com/…/مسئلہ-نماز-میں-منکرین-حدیث-کی-…/
http://qnsblogs.blogspot.com/2016/07/blog-post_11.html?m=1
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔