Thursday 26 October 2017

الحاد کے ایوانوں میں زلزلہ،جدید سائنس اور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی طرف سے خدا کے وجود کی تصدیق اور نظریہ ارتقاء کی تردید


الحاد کے ایوانوں میں زلزلہ،جدید سائنس اور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی طرف سے خدا کے وجود کی تصدیق اور نظریہ ارتقاء کی تردید

پیشکش فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»«»»»»»»»»»»»»»»»
ملحدین کی طرف سے کافی عرصے سے یہ اعتراض سامنے آرہا تھا کہ نظریہ ارتقاء دنیا بھر کے سائنسدانوں کی طرف سے تسلیم شدہ ایک نظریہ ہے اور اس کی حمایت میں لاکھوں سائنسی تحقیقات ہیں جب کہ اس کے خلاف ایک بھی کوئ ایسی سائنسی تحقیق نہیں جو کسی مستند بین الاقوامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی ہو۔مزید براں ملحدین کا یہ دیرینہ اعتراض ہے کہ نظریہ ارتقاء کو جھٹلانے والوں کے پاس کونسا متبادل سائنسی نظریہ ہے۔ مزید براں ملحدین کا یہ بھی کافی پرانا اعتراض ہے کہ جدید سائنس خدا کے وجود کو جھٹلا چکی ہے اور خدا کے وجود پہ ایمان ایک فرضی اور ارتقائی تصور ہے جس کا حقیقت سے کوئ تعلق نہیں۔ملحدین کا یہ اعتراض انتہائی غلط اور جدید سائنس سے کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کو جھٹلانے والے صرف مولوی نہیں بلکہ ایسے بےشمار سائنسدان موجود ہیں جن کی نظر میں نظریہ ارتقاء مکمل طور پہ غلط اور غیر سائنسی نظریہ ہے۔مزید یہ کہ سائنس کے پاس نظریہ ارتقاء کے مقابل ایک سائنسی نظریہ موجود ہے جسے ذہین خالق کی تخلیق کا نظریہ یا Theory Of Intelligent Design کہتے ہیں اور یہ وہ جدید سائنسی نظریہ ہے جس کو سائنسدانوں کی کثیر تعداد تسلیم کر چکی ہے جس میں کئ نوبل انعام یافتہ سائنسدان بھی شامل ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی تحقیقات اللٰہ تعالٰی کے وجود کی حقیقت مزید سے مزید منکشف پڑھی جاتی ہیں اور اب بےشمار سائنسدان جن میں کئ نوبل انعام یافتہ سائنسدان بھی شامل ہیں،تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ کائنات ایک عظیم ذہانت کی تخلیق ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں۔
ذہین تخلیق کے نظریے یا Theory Of Intelligent Design کی جو تعریف ڈسکوری انسٹیٹیوٹ نے پیش کی ہے( واضح رہے کہ یہ تعریف ایک سائنسی ادارے نے پیش کی ہے اور اس تعریف کو ماننا پڑے گا جب کہ ملحد کہتے تھے کہ یہ کوئ سائنسی نظریہ نہیں)، اس کے مطابق کائنات اور جانداروں کی اکثر خصوصیات کی بہترین وضاحت ان کو ایک خود بخود عمل جیسا کہ قدرتی چناؤ یا نیچرل سلیکشن کی بجائے ایک عظیم ذہانت کی تخلیق کے طور پہ کی جا سکتی ہے۔
اب ہم ان نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی تفصیل پیش کرتے ہیں جن کے مطابق ملحدانہ یا خود بخود کے تصور ڈارونی نظریہ ارتقاء غلط ہے اور کائنات ایک عظیم ذہانت کی تخلیق ہے۔
ان سائنسدانوں میں سب سے پہلے ہم ڈاکٹر برائن جوزیفسن کا تذکرہ کریں گے جنہوں نے 1973ء میں طبیعات یا فزکس میں نوبل انعام حاصل کیا۔جوزیفسن اگرچہ شروع میں بہت سخت ملحد تھے لیکن اب ان کے الحادی خیالات میں نرمی آچکی ہے اور وہ تسلیم کر چکے ہیں کہ کائنات ایک عظیم ذہانت کی تخلیق ہے۔5 مئی 2010ء کو اپنے ایک لیکچر میں جوزیفسن نے ذہین تخلیق کا ایک غیر مذہبی نظریہ پیش کیا۔علاوہ ازیں 5 مارچ 2008ء کو کیمبرج فزکس سوسائیٹی کے نام اپنا ایک لیکچر A Critical Point For Science کے نام سے پیش کیا جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ اج تک وہ مذہبی نظریات جن کو سائنس میں تسلیم کرنا حرام سمجھا جاتا ہے جلد ہی سائنس ان کو حقیقت کے طور پہ تسلیم کرلے گی اور یہ نظریات سائنس کا حصہ بن جائیں گے۔یہ سب سائنس اور کوانٹم فزکس کی جدید سائنسی تحقیقات کی وجہ سے ہوگا۔ڈاکٹر جوزیفسن کے مطابق کائنات کی ایک عظیم ذہانت کی تخلیق کا نظریہ ملحد سائنسدان اس لیے مسترد کرتے ہیں کہ ان کے مطابق یہ سچ نہیں ہوسکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نظریے کو کوئ سائنسی تحقیق غلط ثابت نہیں کر سکی اور جوزیفسن کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ یہ نظریہ ایک مکمل تسلیم شدہ سائنسی حقیقت بن جائے گا اور باقی سب سائنسی نظریات غلط قرار پائیں گے۔جوزیفسن کے مطابق کائنات کو انسان کے رہن سہن کے مطابق ایک قابل ذہن نے تخلیق کیا(جسے ہم خدا کہتے ہیں)۔ اس کے مطابق کائنات کی سالمیت،زندگی کی خصوصیات کی کوانٹم مکینکس کی طرف سے تخصیص نہ کی جا سکنے،انسانی ذہن کی زبردست ذہین صلاحیتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کائنات ایک عظیم ذہانت کی تخلیق ہے۔
ذہین تخلیق کے نظریے اور اس طرح خدا کی ذات پہ ایمان رکھنے والے دوسرے نوبل انعام یافتہ سائنسدان درحقیقت قدیم زمیں کے نظریے اور خدا کی طرف سے تمام کائنات کی تخلیق پہ یقین رکھنے والے(Old Earth Creationist) ڈاکٹر رچرڈ سمالی ہیں جنہوں نے 1996ء میں کیمیا یا کیمسٹری میں نوبل پرائز حاصل کیا۔جب کہ ملحدین جھوٹ بولتے تھے کہ اج تک ایک بھی سائنسدان ایسا نہیں جو تخلیق کے نظریے پہ یقین رکھتا ہو اور اس نے نوبل پرائز حاصل کیا ہو۔3 اکتوبر 2004ء کو تسکیگ یونیورسٹی کے ساتویں سالانہ کانووکیشن میں خطاب کرتے ہوئے اس نوبل انعام یافتہ سائنسدان نے کہا کہ جو ملحد لوگ بائیبل اور مذہب کو سائنس کے مطابق غلط کہتے ہیں وہ ثبوت پیش کریں
انہوں نے کہا کہ کائنات ایک تخلیق ہے اور اس میں ایک خالق کا ہاتھ ہے۔سمالی کے مطابق کائنات کی ایک ایک چیز کے ربط میں ہونے کی بات یعنی Cosmic Fine Tuning ثابت کرتی ہے کہ خدا موجود ہے۔سمالی نے مزید کہا کہ میں نظریہ ارتقاء کی سختی سے تردید کرتا ہوں۔مئی 2005ء کو ہوپ کالج آلمنائی بینکویٹ، جس نے ان کو آلمنایی ایوارڈ دیا تھا، کے نام لکھے گئے خط میں اس نوبل انعام یافتہ سائنسدان سمالی نے کہا کہ میں پابندی سے اپنی عبادت گاہ گرجا گھر جاتا ہوں۔خدا نے 7۔13 بلین سال پہلے یہ کائنات تخلیق کی اور وہ ہر تخلیق میں کارفرما رہا ہے۔ان کے مطابق جدید سائنس ثابت کر چکی ہے کہ کائنات انسانی زندگی کے مطابق ایک ذہین خالق کی طرف سے مرتب کی گئ اور ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے خالق کی منشا کو تلاش کریں اور ایک دوسرے سے محبت کریں۔مذہبی عبادات پہ اعتراض کرنے والے ملحدین اب دیکھیں کہ ایک عظیم نوبل انعام یافتہ سائنسدان نہ صرف نظریہ ارتقاء کی سختی سے تردید کرتا ہے بلکہ پابندی سے مذہبی عبادات بھی بجا لاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ نوبل انعام یافتہ سائنسدان رچرڈ سمالی ڈاکٹر ہگ روس کی کتاب Origins Of Life اور Who Was Adam اور ایک مسلمان حیاتیاتی کیمیادان یعنی بائیو کیمسٹ ڈاکٹر فضل رانا کی کتاب پڑھ کر تخلیق کے نظریے کی طرف مائل ہوئے تھے۔ڈاکٹر سمالی کے مطابق
"نظریہ ارتقاء موت سے دور ہوچکا ہے۔میرے کیمسٹری کے علم کے مطابق نظریہ ارتقاء بالکل غلط غلط ہے اور کتاب Who Was Adam ایک ایسی گولی ہے جو نظریہ ارتقاء کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔"
پروفیسر ڈمبسکی جو ذہین تخلیق کے نظریے پہ یقین رکھتے ہیں وہ اس نوبل انعام یافتہ سائنسدان رچرڈ سمالی کے قریبی دوست تھے۔وہ کہتے ہیں کہ سائنس میں ملحدین کی جاگیر داری ختم ہورہی ہے اور ذہین خالق کی تخلیق کا نظریہ پہلے موجود سائنسی نظریات کے پول کھول کر تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔
اللٰہ تعالٰی کی زات پہ ایمان رکھنے والے اور ملحدانہ نظریہ ارتقاء کے مخالف تیسرے نوبل انعام یافتہ سائنسدان پاکستانی غیر مسلم قادیانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام تھے جن کے مطابق نظریہ ارتقاء کے مطابق ارتقا خود بخود نہیں ہوا بلکہ یہ اللٰہ تعالٰی کے حکم اور اس کی ہدایت کے مطابق ہوا۔انہوں نے 1979ء میں فزکس میں ایک انقلابی نظریہ پیش کیا تھا جسے گرینڈ یونیفکیشن تھیوری یا جی یوٹی کہتے ہیں۔انہوں نے نوبل پرائز حاصل کرتے وقت کائنات کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کی آیات تلاوت کیں اور کہا کہ جیسے جیسے ماہرین طبیعات یا فزکس گہرائی میں جائیں گے کائنات کی ایک عظیم ذہانت کی تخلیق کے بارے میں ان کی حیرانی بڑھتی سے بڑھتی چلی جائے گی۔
ملحدانہ نظریہ ارتقاء کے سخت مخالف ایک اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان سر جان ایکلیس تھے جنہوں نے 1963ء میں میڈیسن یعنی طب میں نوبل انعام حاصل کیا اور 1977ء میں وفات پائی۔انہوں نے دماغ میں اعصاب کے باہمی رابطوں کی جگہ یعنی Synspses پہ تحقیق کی۔ان کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ان کے مطابق ہم میں سے ہر شخص میں ایک غیر مادی روح موجود ہے جو ہمارے دماغ سے تعامل کرتی ہے۔یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ڈارونی نظریہ ارتقاء کے بالکل خلاف ہے۔ ایکلیس کے مطابق ارتقا خود بخود ایک عمل نہیں بلکہ یہ ایک خالق کی طرف سے واضح ہدایت اور عمل کی وجہ سے ہوا جس میں اللٰہ تعالٰی نے مفید جینیاتی تبدیلیوں یعنی میوٹیشن کے ذریعے انسانی جسم تخلیق کیا۔
ایکلیس کے مطابق انسانی جسم اور زمین پہ موجود تمام زندگی اللٰہ تعالٰی کی طرف سے اس کے حکم کے مطابق تخلیق کی گئی۔ایکلیس کے مطابق ارتقا ایک خود بخود عمل نہیں بلکہ اس کی مکمل نگرانی اور اس پہ مکمل عمل در آمد خدا کی طرف سے ہوا۔اس کے مطابق زمین پہ زندگی کی ابتدا ایک عظیم ذہانت کی تخلیق ہے اور یہ اسکے مطابق ارتقا ایک ناممکن عمل ہے۔
تخلیق کے نظریے اور کائنات کی عظیم ذہانت کی تخلیق پہ یقین رکھنے والے پانچویں نوبل انعام یافتہ سائنسدان ارنسٹ بورس چین ہیں جنہوں نے 1945ء میں میڈیسن اور فزیالوجی میں نوبل انعام حاصل کیا۔ان کو یہ انعام دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹک دوائی پینسلین کی تیاری اور تلخیص پہ دیا گیا جس نے دو سو ملین انسانوں کی جانیں بچائیں۔وہ نارتھ ایسٹ سٹیٹ کالج اوہیو امریکا میں بیالوجی یعنی حیاتیات کے پروفیسر تھے اور خدا کی تخلیق کے نظریے پہ یقین رکھتے تھے اور نظریہ ارتقاء کو غلط تصور کرتے تھے۔ان کی 600 سائنسی تحقیقات بارہ زبانوں میں شائع ہوئ اور وہ بیس کتابوں کے مصنف تھے۔
تیہمور دمیتروف نے پچاس نوبل انعام یافتہ اور دیگر سائنسدانوں کی فہرست مرتب کی ہے جو خدا کی ذات پہ یقین رکھتے ہیں۔ اور یہ فہرست انہوں نے اپنی گیارہ سال کی محنت کے بعد ان سائنسدانوں کی تصانیف،مضامین اور خطوط کے مطالعے کے بعد مرتب کی جن میں سے اکثر نیشنل لائبریری آف بلغاریہ،آسٹرین نیشنل لائبریری اور Biblioteca Comunale di Milano میں موجود تھے۔
نوبل انعام یافتہ سائنسدان ارنسٹ بورس چین نے ایک بار کہا کہ نظریہ ارتقاء پہ یقین رکھنے سے اچھا ہے کہ میں کسی دیو مالایئ کہانی پہ یقین کرلوں۔اس کے مطابق زندگی کی تخلیق اتنا ہیچیدہ عمل ہے جس کی وضاحت سائنس کے موجودہ نظریات سے نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ان نظریات کی بنیاد پہ خدا کی ذات کا انکار کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء ایک سائنسی نظریہ نہیں ہے اور یہ مکمل طور پہ غلط ہے۔اس کے مطابق جینیاتی مادے میں تبدیلیاں یا میوٹیشن ہوتی ہیں لیکن یہ اتنی نہیں کہ جس سے زندگی کی خود بخود تخلیق کے عمل کی وضاحت کی جا سکے۔
ملحدانہ نظریہ ارتقاء کے چھٹے مخالف نوبل انعام یافتہ سائنسدان وولف گینگ پالی تھے جنہوں نے 1945ء میں طبیعات یا فزکس کا نوبل انعام حاصل کیا۔انہوں نے فطرت کا ایک اور منفرد قانون دریافت کیا جسے پالی پرنسپل یا Exclusion Principle کہا جاتا ہے۔ان کے مطابق پروبیبلٹی یا امکانی مساواتوں کے مطابق نظریہ ارتقاء غلط ہے۔ اس کے مطابق زندگی ایک خود بخود ارتقا کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ایسے ارتقا کا نتیجہ ہے جس کی مکمل نگرانی ایک عظیم ذہانت کی طرف سے کی گئی۔
ملحدانہ نظریہ ارتقاء کے ایک اور مخالف ریڈیو کے موجد گوگلیلمو مارکونی ہیں جنہوں نے 1909ء میں طویل فاصلے کی ریڈیو ٹرانسمیشن پہ تحقیق کرکے طبیعات یا فزکس میں نوبل انعام حاصل کیا۔انہوں نے مارکونی لا پیش کیا اور ایک ریڈیو ٹیلی گراف سسٹم بنایا۔
مارکونی ڈارون کے نظریہ ارتقاء پہ یقین نہیں رکھتا تھا۔ اس کے مطابق سائنس کبھی بھی زندگی کی ابتدا کے نظریے کا مسئلہ حل نہیں کر سکے گی۔یہی وجہ ہے کہ اسے عظیم ذہانت کی تخلیق کے نظریے کا حامی کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہم جدید دور کے دو ایسے سائنسدانوں کا تذکرہ کرنا لازمی سمجھتے ہیں جنہوں نے سائنس میں زبردست اور تاریخی کارنامے انجام دیے لیکن ان کے کٹر اور پکے مذہبی خیالات کی وجہ سے ان کو نوبل انعام کا مستحق ہونے کے باوجود نوبل انعام نہیں دیا گیا۔
ان میں سے پہلے فریڈ ہائل ہیں جو انگریز ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھے اور جنہوں نے 2001ء میں وفات پائی۔وہ سٹیڈی سٹیٹ تھیوری کی وجہ سے مشہور ہیں جو انہوں نے 1940ء میں دو اور سائنسدانوں ہرمین بونڈی اور تھامس گولڈ کے ساتھ مل کر پیش کی۔لیکن ان کا بنیادی کام نیوکلیو سنتھی سس کے نظریے پہ تھا جس کے مطابق سب و عناصر یا ایلیمنٹس ستاروں میں موجود ہائیڈروجن اور ہیلیم کے کیمیائی تعامل سے وجود میں آتے ہیں۔اس نظریے کے پیش کرنے پہ ان کے اس تحقیق کے رفیق کار ولیم اے فاؤلر کو تو نوبل انعام دیا گیا لیکن انہیں نہیں۔اس بات نے سائنسی حلقوں میں۔ مایوسی اور احتجاج کی فضا پیدا کی۔اور رائل سوسائٹی کے سربراہ ماہر فلکیات لارڈ ریس نے گارڈین میں لکھا کہ پتہ نہیں کیوں سویڈش سائنسدانوں اور نوبل انعام کی کمیٹی نے ہائل کو نوبل انعام دینے سے انکار کر دیا ہے جب کہ اسی تحقیق میں شامل اسکے دو دوستوں کو نوبل انعام دیا جا چکا ہے۔کئی سائنسدانوں کی طرف سے اس بات کی تائید کی گئ کہ ہائل کو کھلم کھلا نظریہ ارتقاء کی مخالفت کرنے اور کٹر مذہبی خیالات کی وجہ سے نوبل انعام سے محروم کیا گیا ہے۔
اس نامور سائنسدان ہائل کے مطابق زندگی اور کائنات میں ایک ایک چیز کی حیران کن ترتیب ظاہر کرتی ہے کہ یہ کائنات ایک عظیم ذہانت کی تخلیق ہے۔ اس کے مطابق ایک۔ سادہ ترین زندہ خلیے یا سیل کے لیے انزائم یعنی قدرتی کیمیائی مادوں کا حصول ایک ایسا عمل ہے جس کے خود بخود ہونے کا امکان کھربوں سالوں میں بھی ایک نہیں ہے اور اس کے مطابق یہی وجہ ہے کہ نظریہ ارتقاء غلط ہے اور کائنات ایک عظیم ذہانت کی تخلیق ہے۔
کٹر مذہبی خیالات رکھنے اور نظریہ ارتقاء کی کھلم کھلا مخالفت کی وجہ سے نوبل انعام سے محروم ہونے والے اس دور کے عظیم ترین سائنسدانوں میں سے ایک اور دنیا کے کروڑوں مریضوں کے محسن ڈاکٹر ریمنڈ ڈاماڈین تھے جنہوں نے ابھی چند سال پہلے وفات پائی۔یہ عظیم انسان میڈیکل سائنس میں بیماریوں کی تشخیص میں انقلاب برپا کردینے والی ایک زبردست ایحاد ایم آر آئی کا موجد ہے۔یہ وہ ایحاد ہے جس کے بغیر میڈیکل سائنس پچاس سال پیچھے چلی جاتی۔لیکن اتنی زبردست اور انقلابی ایجاد کے باوجود این آر آئی پہ کام کرنے والے دیگر سائنسدانوں کو تو 2003ء میں نوبل انعام دیا گیا لیکن انسانیت کے اس عظیم محسن کو نہیں۔اس کا قصور یہ تھا کہ وہ کٹر مذہبی اور نظریہ ارتقاء کا سخت مخالف ہے اور نظریہ ارتقاء کے خلاف ایک عالمی تحریک انسٹٹیوٹ فار کری ایشن ریسرچ یا آئی سی آر کے ٹیکنیکل بورڈ کا ایڈوائزری ممبر ہے۔ اس عظیم سائنسدان کو نوبل انعام دینے کی مخالفت پروفیسر مائیکل روس نے کی جو وہی شخص ہے جس نے امریکی ریاست ارکنساس کے سکولوں میں تخلیق کے نظریے کی تعلیم کے عدالتی قانون کی سختی سے مخالفت کی تھی۔اسی با اثر متعصب ملحد سائنسدان نے انسانیت کے اس عظیم محسن کو نوبل انعام دینے کی محض اس لیے مخالفت کی کیونکہ وہ خالص مذہبی شخص اور نظریہ ارتقاء کا سخت مخالف ہے۔اس عظیم سائنسدان کو نوبل انعام سے محروم کرنے کے لیے باقاعدہ طور پہ ملحد سائنسدانوں کی طرف سے تحریک چلائی گئی تھی اور نتیجتا جدید دور کی عظیم ترین ایجادات میں سے ایک کے موجد اس عظیم سائنسدان کو نوبل انعام سے محروم ہونا پڑا۔
قارئین ہم ثابت کر چکے ہیں کہ جدید سائنس اور نوبل انعام یافتہ کئ سائنسدان جدید سائنسی تحقیقات کی وجہ سے خدا کی ذات پہ ایمان لاچکے ہیں اور نظریہ ارتقاء کی سختی سے تردید کر چکے ہیں اور ہم یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ جدید سائنس میں نظریہ ارتقاء کے مدمقابل عظیم ذہانت کی تخلیق کا سائنسی نظریہ بھی پیش ہوچکا ہے اور کثیر تعداد میں سائنسدان اس نظریے کو تسلیم کر رہے ہیں۔
اللٰہ تعالٰی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین

حوالہ:
مزید تفصیل کے لیے یہ لنک مطالعہ فرمائیں۔
https://uncommondescent.com/…/seven-nobel-laureates-in-sci…/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔