سنن ابن ماجہ،صحیح مسلم شریف اور سنن ابی داؤد کی ایک حدیث پہ ملحدین و منکرین حدیث کا اعتراض اور اس کا جواب
بشکریہ:فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش،
بشکریہ:فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش،
فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام،
فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدثنا علي بن محمد ، ومحمد بن إسماعيل ، قالا: حدثنا وكيع ، عن عكرمة بن عمار ، عن إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال: "غزونا مع ابي بكر هوازن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنفلني جارية من بني فزارة من اجمل العرب عليها، قشع لها فما كشفت لها عن ثوب، حتى اتيت المدينة فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال: "لله ابوك ! هبها لي"، فوهبتها له، فبعث بها ففادى بها اسارى من اسارى المسلمين كانوا بمكة".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبیلہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لونڈی مجھے بطور نفل (انعام) دی، وہ عرب کے خوبصورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہوئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا! یہ لونڈی مجھے دے دو، میں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لونڈی ان مسلمانوں کے عوض فدیہ میں دے دی جو مکہ میں تھے ۱؎۔(سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
32- بَابُ: فِدَاءِ الأُسَارَى
باب: (جنگی) قیدیوں کو فدیہ میں دینے کا بیان،حدیث نمبر: 2846)
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المغازي ۱۴ (۱۷۵۵)، سنن ابی داود/الجہاد ۱۳۴ (۲۶۹۷)، (تحفة الأشراف: ۴۵۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/ و ۴۷، ۵۱) (صحیح)
یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں حدیث نمبر 76 اور سنن ابی داؤد میں حدیث نمبر 2846 پہ درج ہے۔لیکن ملحدین و منکرین حدیث نے کمال چالاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو اسلام اور احادیث سے بد ظن کرنے کے لیے اس حدیث کا آخری جملہ چھپا لیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو سلمہ بن الاکوع رضی اللہ تعالی عنہ سے لے کر قریش مکہ کے پاس بھیج دیا اور بدلے میں ان کےکو قبضے سے مسلمان قیدی رہا کرائے اور یہ دعوی کیا کہ اس حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ شہوت پرست تھے لیکن حدیث کی تینوں کتب جن میں یہ حدیث موجود ہے ان میں حدیث کا پورا متن پڑھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ منکرین حدیث و ملحدین نے کمال چالاکی سے اس حدیث کا آخری جملہ چھپا لیا اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ جیسا کہ نیچے پیش کیے گئے سکرین شاٹ میں دکھایا گیا ہے۔
آخر میں منکرین حصہ و ملحدی سے گزارش ہے کہ حدیث نمبر تو ٹھیک لکھ لیا کریں اور حدیث پوری بیان کیا کریں۔حدیث کے چند جملے بیان کرکے عوام کو گمراہ نہ کیا کریں۔حدیث کے آخری جملے میں صاف لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لڑکی اپنے لیے نہیں لی بلکہ یہ لڑکی مکہ قریش مکہ کو بھیج کر اس کے بدلے میں مسلمان قیدی رہا کرائے۔افسوس ہےان لوگوں کی غلط بیانی پہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدثنا علي بن محمد ، ومحمد بن إسماعيل ، قالا: حدثنا وكيع ، عن عكرمة بن عمار ، عن إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال: "غزونا مع ابي بكر هوازن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنفلني جارية من بني فزارة من اجمل العرب عليها، قشع لها فما كشفت لها عن ثوب، حتى اتيت المدينة فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال: "لله ابوك ! هبها لي"، فوهبتها له، فبعث بها ففادى بها اسارى من اسارى المسلمين كانوا بمكة".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبیلہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لونڈی مجھے بطور نفل (انعام) دی، وہ عرب کے خوبصورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہوئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا! یہ لونڈی مجھے دے دو، میں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لونڈی ان مسلمانوں کے عوض فدیہ میں دے دی جو مکہ میں تھے ۱؎۔(سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
32- بَابُ: فِدَاءِ الأُسَارَى
باب: (جنگی) قیدیوں کو فدیہ میں دینے کا بیان،حدیث نمبر: 2846)
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المغازي ۱۴ (۱۷۵۵)، سنن ابی داود/الجہاد ۱۳۴ (۲۶۹۷)، (تحفة الأشراف: ۴۵۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/ و ۴۷، ۵۱) (صحیح)
یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں حدیث نمبر 76 اور سنن ابی داؤد میں حدیث نمبر 2846 پہ درج ہے۔لیکن ملحدین و منکرین حدیث نے کمال چالاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو اسلام اور احادیث سے بد ظن کرنے کے لیے اس حدیث کا آخری جملہ چھپا لیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو سلمہ بن الاکوع رضی اللہ تعالی عنہ سے لے کر قریش مکہ کے پاس بھیج دیا اور بدلے میں ان کےکو قبضے سے مسلمان قیدی رہا کرائے اور یہ دعوی کیا کہ اس حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ شہوت پرست تھے لیکن حدیث کی تینوں کتب جن میں یہ حدیث موجود ہے ان میں حدیث کا پورا متن پڑھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ منکرین حدیث و ملحدین نے کمال چالاکی سے اس حدیث کا آخری جملہ چھپا لیا اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ جیسا کہ نیچے پیش کیے گئے سکرین شاٹ میں دکھایا گیا ہے۔
آخر میں منکرین حصہ و ملحدی سے گزارش ہے کہ حدیث نمبر تو ٹھیک لکھ لیا کریں اور حدیث پوری بیان کیا کریں۔حدیث کے چند جملے بیان کرکے عوام کو گمراہ نہ کیا کریں۔حدیث کے آخری جملے میں صاف لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لڑکی اپنے لیے نہیں لی بلکہ یہ لڑکی مکہ قریش مکہ کو بھیج کر اس کے بدلے میں مسلمان قیدی رہا کرائے۔افسوس ہےان لوگوں کی غلط بیانی پہ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔