مسلمان سائنسدانوں کا عہد زریں
عبدالرحمان صوفی، دور خلافت عباسیہ: عبدالرحمان نے ستاروں کی روشنی پیمائش میں اصطلاح کی۔ ابن یونس، دور خلاف عباسیہ: ابن یونس نے آونگ (رقاصہ ساعت) پینڈولم ایجاد کیا۔ اور اس کے جھولنے سے وقت کی پیمائش کی۔
فاطمی خلافت:
اس کے زمانے میں قاہرہ کے کتب خانے میں بیس لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں جن میں سے چھ ہزارصرف ریاضیات، فلکیات اور طبیعیات سے متعلق تھیں۔
اشبیلیہ کا مینار جیرالد :
عظیم ریاضی دان جابر بن افلح کی زیر نگرانی فلکی مشاہدات کے لیے 1198ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر کئی برس میں مکمل ہوئی ۔ یہ اب بھی سپین میں موجود ہے اور اسے اہم تاریخی ورثہ کردانا جاتا ہے۔
بہاء الدین العاملی:
دسویں صدی ہجری کا آخری ریاضی دا ن معلم جس نے الجبرا پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔
میر ہاشم جیلانی:
انہوں نے محقق طوسی کی کتاب اصول الہندسہ والحساب کی شرح لکھی تھی۔
لطف اللہ المہندس :
لال قلعہ اور جامع مسجد دہلی اور تاج محل آگرہ تعمیر کرنے والے استاد کا بیٹا لطف اللہ نامور مہندس تھا۔ اس نے خلاصتہ الحساب کی شرح لکھی۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔
ابو عبداللہ محمد بن حسن طوسی:
نامور عالم ہیئت دان‘ ریاضی دان‘ ماہر طبیعیات‘ علم اخلاق ‘ موسیقی اور علوم حکمیہ کا ماہر تھا۔ اس کی فرمائش پر ہلاکو خان نے رصد گاہ تعمیر کروائی تھی۔ 30 سے زیادہ تصانیف کا مصنف تھا۔
قطب الدین شیرازی:
علوم عقلیہ اور نقلیہ کا ماہر سائنسدان تھا بے شمار کتابوں کا مصنف تھا۔ اس نے فلکیات ‘ ارضیات‘ سمندروں‘ فضا میکانیات اور بصریات پر بحث کی ہے۔ اس کے خیال میں زمین مرکز کائنات ہے۔ قوس قزح پر بھی اس نے کھل کر بحث کی۔
کمال الدین الفارسی:
قطب الدین شیرازی کا شاگرد جس نے ہالہ قمر اور قوس قزح کے بارے میں اپنے استاد کے نظریات کو جھٹلایا اور ابن الہیثم کی کتاب کی شرح تصنیف کی۔
محمد بن محمد چغمینی:
علم ریاضی پر ایک مشہور کتاب الخلص فی الہیتہ کے نام سے لکھی۔
الحمیاری، ساتویں / آٹھویں صدی:
ان کا شمار کیمیا دان جابربن حیان کے معلمین میں کیا جاتا ہے۔ ابراہیم الفزاری،
آٹھویں صدی تا 777ئ:
خلافت عباسیہ کے دور میں خلیفہ ہارون الرشید کے تحقیقاتی اداروں سے وابستگی رہی۔ علم فلکیات پر تحقیق و تحریر کیں جن میں اسطرلاب اور سالنامہ کی ترتیب بھی شامل ہیں۔ ہارون الرشید کے کہنے پر یعقوب بن طارق کی شراکت میں ہندوستانی فلکیاتی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا، یہ کتاب 750ء میں بیت الحکمہ بغداد میں الزیج علی سنی العرب کے نام سے تکمیل کو پہنچی۔
جابر بن حیان721ء تا 815ئ: کیمیا دان، طبیعیات میں کام؛ علم الادویہ میں تحقیق؛ علم الہیئت میں تحقیق
عبدالرحمان صوفی، دور خلافت عباسیہ: عبدالرحمان نے ستاروں کی روشنی پیمائش میں اصطلاح کی۔ ابن یونس، دور خلاف عباسیہ: ابن یونس نے آونگ (رقاصہ ساعت) پینڈولم ایجاد کیا۔ اور اس کے جھولنے سے وقت کی پیمائش کی۔
فاطمی خلافت:
اس کے زمانے میں قاہرہ کے کتب خانے میں بیس لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں جن میں سے چھ ہزارصرف ریاضیات، فلکیات اور طبیعیات سے متعلق تھیں۔
اشبیلیہ کا مینار جیرالد :
عظیم ریاضی دان جابر بن افلح کی زیر نگرانی فلکی مشاہدات کے لیے 1198ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر کئی برس میں مکمل ہوئی ۔ یہ اب بھی سپین میں موجود ہے اور اسے اہم تاریخی ورثہ کردانا جاتا ہے۔
بہاء الدین العاملی:
دسویں صدی ہجری کا آخری ریاضی دا ن معلم جس نے الجبرا پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔
میر ہاشم جیلانی:
انہوں نے محقق طوسی کی کتاب اصول الہندسہ والحساب کی شرح لکھی تھی۔
لطف اللہ المہندس :
لال قلعہ اور جامع مسجد دہلی اور تاج محل آگرہ تعمیر کرنے والے استاد کا بیٹا لطف اللہ نامور مہندس تھا۔ اس نے خلاصتہ الحساب کی شرح لکھی۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔
ابو عبداللہ محمد بن حسن طوسی:
نامور عالم ہیئت دان‘ ریاضی دان‘ ماہر طبیعیات‘ علم اخلاق ‘ موسیقی اور علوم حکمیہ کا ماہر تھا۔ اس کی فرمائش پر ہلاکو خان نے رصد گاہ تعمیر کروائی تھی۔ 30 سے زیادہ تصانیف کا مصنف تھا۔
قطب الدین شیرازی:
علوم عقلیہ اور نقلیہ کا ماہر سائنسدان تھا بے شمار کتابوں کا مصنف تھا۔ اس نے فلکیات ‘ ارضیات‘ سمندروں‘ فضا میکانیات اور بصریات پر بحث کی ہے۔ اس کے خیال میں زمین مرکز کائنات ہے۔ قوس قزح پر بھی اس نے کھل کر بحث کی۔
کمال الدین الفارسی:
قطب الدین شیرازی کا شاگرد جس نے ہالہ قمر اور قوس قزح کے بارے میں اپنے استاد کے نظریات کو جھٹلایا اور ابن الہیثم کی کتاب کی شرح تصنیف کی۔
محمد بن محمد چغمینی:
علم ریاضی پر ایک مشہور کتاب الخلص فی الہیتہ کے نام سے لکھی۔
الحمیاری، ساتویں / آٹھویں صدی:
ان کا شمار کیمیا دان جابربن حیان کے معلمین میں کیا جاتا ہے۔ ابراہیم الفزاری،
آٹھویں صدی تا 777ئ:
خلافت عباسیہ کے دور میں خلیفہ ہارون الرشید کے تحقیقاتی اداروں سے وابستگی رہی۔ علم فلکیات پر تحقیق و تحریر کیں جن میں اسطرلاب اور سالنامہ کی ترتیب بھی شامل ہیں۔ ہارون الرشید کے کہنے پر یعقوب بن طارق کی شراکت میں ہندوستانی فلکیاتی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا، یہ کتاب 750ء میں بیت الحکمہ بغداد میں الزیج علی سنی العرب کے نام سے تکمیل کو پہنچی۔
جابر بن حیان721ء تا 815ئ: کیمیا دان، طبیعیات میں کام؛ علم الادویہ میں تحقیق؛ علم الہیئت میں تحقیق
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔