جب حدیث کے مطابق ایک آیت بکری کھاگئی تو ثابت ہوا کہ قرآن نامکمل ہے
(ملحدین کے ایک اعتراض کا جواب)
جہاں تک اس حدیث کی سند کا تعلق ہے یہ ابن ماجہ میں سند حسن کے ساتھ موجود ہے.. [ابن ماجہ مع احکام البانی] اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ کی محض خبر دی گئی ہے.. اس سے جو مطلب وساوس پیدا کرنے والوں نے نکالا وہ انکا خودساختہ ہے کہ یہ آیت معاذ اللہ قرآن کا حصہ تھی لیکن بکری کے کھا جانے کی وجہ سے موجودہ قرآن میں نہیں اور قرآن نامکمل ہے..
پہلی بات اس دور میں بھی قرآن مختلف لوگوں کے پاس لکھا ہوا تھا اور اسکے سینکڑوں حفاظ بھی موجود تھے.. یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ بکری قرآن کی آیت کھا گئ تھی اور وہ آیت صحابہ کے سینوں سے بھی نکل گئ..؟ بکری کے کسی ایک کاغذ یا پتے کو کھا جانے سے قرآن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا.. یہ ایک غیر معقول بات ہے..
یہ آیت قرآن میں موجود کیوں نہیں..؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان آیات میں سے ہے جن کا تعلق ناسخ منسوخ سے ہے.. کسی آیت کے ناسخ یا منسوخ ہونے کا حکم دلیل شرعی سے معلوم ہوتا ہے.. قرآن میں ہے..
{ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا۔۔۔} (البقرہ: ۱۰۶)
"ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لاتے ہیں.."
نسخ کی کئی قسمیں ہیں مثلا
(۱) تلاوت منسوخ ہوجائے لیکن حکم باقی رہے..
(۲) حکم منسوخ ہوجائے لیکن تلاوت باقی رہے..
(۳)تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوجائے..
رجم کی آیت کا تعلق پہلی قسم سے ہے.. اسکی تلاوت منسوخ ہوگئی حکم باقی رہا.. تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ زنا کی سزا ابتداءً موت تک عورت کوقید رکھنا تھی..
"تمہاری عورتوں میں سے جوبھی بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو.. اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کوگھروں میں قید رکھو.. یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے یا پھر اللہ تعالی ان کے لیے کوئي اور راہ نکال دے.." ( النساء _ 15 )
اللہ تعالی نے ان کے لیے جوراستہ بنایا وہ اس حکم کی منسوخی ہے.. ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ حکم اسی طرح تھا حتی کہ اللہ تعالی نے سورۃ النور میں کوڑے یا پھر رجم کا حکم نازل کرکے اسے منسوخ کردیا اور اسی طرح عکرمہ اور سعید بن جبیر , حسن اور عطاء خراسانی اور ابو صالح , قتادہ اور زيد بن اسلم اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ منسوخ ہے جوکہ ایک متفقہ مسئلہ ہے.. رجم کی جو آیت آئی اسکا حکم باقی رہا' تلاوت منسوخ کی گئی..
اس آیت کے منسوخ ہونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی گواہی مختلف کتب مع صحیح بخاری میں موجود ہے.. ذیل میں ابوداود سے حدیث پیش خدمت ہے..
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا.. "تحقیق اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل کی.. اس نازل کردہ (کتاب) میں رجم کی آیت بھی تھی.. ہم نے اسے پڑھا اور یاد کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا ہے اور ان کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ہے.. مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ رجم والی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے ہیں.. اس طرح وہ اللہ کے نازل کردہ فریضہ کو ترک کر کے گمراہ نہ ہو جائیں.. پس جس کسی مرد یا عورت نے زنا کیا ہو اور وہ شادی شدہ ہو اور گواہی ثابت ہو جائے یا حمل ہو یا اعتراف ہو تو اس پر رجم حق ہے.. اللہ کی قسم ! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا ہے تو میں اس آیت کو کتاب اللہ میں درج کر دیتا.."
(سنن ابوداود ،كتاب الحدود، حدود اور تعزیرات کا بیان، باب في الرجم، باب: زانی کو سنگسار کرنے کا بیان، حدیث نمبر 4418)
پہلے آیت رجم نازل ہوئی تھی اللہ کے رسول اور صحابہ نے اس کو پڑھا بھی اور اس پر عمل بھی کیا.. بعد میں اللہ نے اس آیت کی تلاوت منسوخ کردی.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ بیان کررہے کہ آیت رجم قرآن میں تھی اور اسکی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی ہے.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواہش ظاہر کی میں اسے قرآن کے مصحف میں بطور حاشیہ شامل کردوں لیکن انہیں خطرہ تھا کہ لوگ مابعد اس کو قرآن کا حصہ نہ سمجھیں اور جو لوگ یہ جانتے ہوں کہ یہ آیت کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہے وہ غلط فہمی میں یہ نہ کہے کہ حضرت عمر نے قرآن میں تحریف کی اور مصحف میں ایک منسوخ آیت حاشیے میں جمع کردی..
اس طرح ایک حاشیے کو قرآن سمجھے جانے کا گمان اس لئے تھا کیونکہ اس وقت ایک ہی مصحف قرآن کا موجود تھا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتب کیا گیا اور یہ حضرت عثمان کے دور تک ایک ہی مصحف رہا لہذا یہی قرآن کی آیات کو جانچنے کا واحد ذریعہ تھا لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احتیاط سے کام لیا.. اس کو مصحف میں بطور حاشیہ بھی شامل نہیں کیا تاکہ غلط فہمی سے یہ قرآن کا حصہ نہ سمجھا جائے..
ایک ذیلی اعتراض جو نسخ کے متعلق کیا جاتا ہے کہ جب اللہ کو پہلے سے پتا تھا تو پھر یہ تبدیلی کیوں لائی..؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے.. ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کردے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تو وہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے.. جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے.. حکیم وہ نہیں جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلائے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلی کردے..!!!
مذہب فلسفہ اور سائنس
(ملحدین کے ایک اعتراض کا جواب)
جہاں تک اس حدیث کی سند کا تعلق ہے یہ ابن ماجہ میں سند حسن کے ساتھ موجود ہے.. [ابن ماجہ مع احکام البانی] اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ کی محض خبر دی گئی ہے.. اس سے جو مطلب وساوس پیدا کرنے والوں نے نکالا وہ انکا خودساختہ ہے کہ یہ آیت معاذ اللہ قرآن کا حصہ تھی لیکن بکری کے کھا جانے کی وجہ سے موجودہ قرآن میں نہیں اور قرآن نامکمل ہے..
پہلی بات اس دور میں بھی قرآن مختلف لوگوں کے پاس لکھا ہوا تھا اور اسکے سینکڑوں حفاظ بھی موجود تھے.. یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ بکری قرآن کی آیت کھا گئ تھی اور وہ آیت صحابہ کے سینوں سے بھی نکل گئ..؟ بکری کے کسی ایک کاغذ یا پتے کو کھا جانے سے قرآن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا.. یہ ایک غیر معقول بات ہے..
یہ آیت قرآن میں موجود کیوں نہیں..؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان آیات میں سے ہے جن کا تعلق ناسخ منسوخ سے ہے.. کسی آیت کے ناسخ یا منسوخ ہونے کا حکم دلیل شرعی سے معلوم ہوتا ہے.. قرآن میں ہے..
{ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا۔۔۔} (البقرہ: ۱۰۶)
"ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لاتے ہیں.."
نسخ کی کئی قسمیں ہیں مثلا
(۱) تلاوت منسوخ ہوجائے لیکن حکم باقی رہے..
(۲) حکم منسوخ ہوجائے لیکن تلاوت باقی رہے..
(۳)تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوجائے..
رجم کی آیت کا تعلق پہلی قسم سے ہے.. اسکی تلاوت منسوخ ہوگئی حکم باقی رہا.. تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ زنا کی سزا ابتداءً موت تک عورت کوقید رکھنا تھی..
"تمہاری عورتوں میں سے جوبھی بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو.. اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کوگھروں میں قید رکھو.. یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے یا پھر اللہ تعالی ان کے لیے کوئي اور راہ نکال دے.." ( النساء _ 15 )
اللہ تعالی نے ان کے لیے جوراستہ بنایا وہ اس حکم کی منسوخی ہے.. ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ حکم اسی طرح تھا حتی کہ اللہ تعالی نے سورۃ النور میں کوڑے یا پھر رجم کا حکم نازل کرکے اسے منسوخ کردیا اور اسی طرح عکرمہ اور سعید بن جبیر , حسن اور عطاء خراسانی اور ابو صالح , قتادہ اور زيد بن اسلم اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ منسوخ ہے جوکہ ایک متفقہ مسئلہ ہے.. رجم کی جو آیت آئی اسکا حکم باقی رہا' تلاوت منسوخ کی گئی..
اس آیت کے منسوخ ہونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی گواہی مختلف کتب مع صحیح بخاری میں موجود ہے.. ذیل میں ابوداود سے حدیث پیش خدمت ہے..
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا.. "تحقیق اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتاب نازل کی.. اس نازل کردہ (کتاب) میں رجم کی آیت بھی تھی.. ہم نے اسے پڑھا اور یاد کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا ہے اور ان کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ہے.. مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ رجم والی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے ہیں.. اس طرح وہ اللہ کے نازل کردہ فریضہ کو ترک کر کے گمراہ نہ ہو جائیں.. پس جس کسی مرد یا عورت نے زنا کیا ہو اور وہ شادی شدہ ہو اور گواہی ثابت ہو جائے یا حمل ہو یا اعتراف ہو تو اس پر رجم حق ہے.. اللہ کی قسم ! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا ہے تو میں اس آیت کو کتاب اللہ میں درج کر دیتا.."
(سنن ابوداود ،كتاب الحدود، حدود اور تعزیرات کا بیان، باب في الرجم، باب: زانی کو سنگسار کرنے کا بیان، حدیث نمبر 4418)
پہلے آیت رجم نازل ہوئی تھی اللہ کے رسول اور صحابہ نے اس کو پڑھا بھی اور اس پر عمل بھی کیا.. بعد میں اللہ نے اس آیت کی تلاوت منسوخ کردی.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ بیان کررہے کہ آیت رجم قرآن میں تھی اور اسکی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی ہے.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواہش ظاہر کی میں اسے قرآن کے مصحف میں بطور حاشیہ شامل کردوں لیکن انہیں خطرہ تھا کہ لوگ مابعد اس کو قرآن کا حصہ نہ سمجھیں اور جو لوگ یہ جانتے ہوں کہ یہ آیت کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہے وہ غلط فہمی میں یہ نہ کہے کہ حضرت عمر نے قرآن میں تحریف کی اور مصحف میں ایک منسوخ آیت حاشیے میں جمع کردی..
اس طرح ایک حاشیے کو قرآن سمجھے جانے کا گمان اس لئے تھا کیونکہ اس وقت ایک ہی مصحف قرآن کا موجود تھا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتب کیا گیا اور یہ حضرت عثمان کے دور تک ایک ہی مصحف رہا لہذا یہی قرآن کی آیات کو جانچنے کا واحد ذریعہ تھا لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احتیاط سے کام لیا.. اس کو مصحف میں بطور حاشیہ بھی شامل نہیں کیا تاکہ غلط فہمی سے یہ قرآن کا حصہ نہ سمجھا جائے..
ایک ذیلی اعتراض جو نسخ کے متعلق کیا جاتا ہے کہ جب اللہ کو پہلے سے پتا تھا تو پھر یہ تبدیلی کیوں لائی..؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ نسخ کا مطلب رائے کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتا ہے.. ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کردے اور یہ بتادے کہ پہلا حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ تو وہی مناسب تھا لیکن اب حالات کی تبدیلی کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے.. جو شخص بھی سلامتِ فکر کے ساتھ غور کرے گا وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہٰیہ کے عین مطابق ہے.. حکیم وہ نہیں جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلائے بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اور مرض کے بدلتے ہوئے حالات پر بالغ نظری کے ساتھ غور کرکے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلی کردے..!!!
مذہب فلسفہ اور سائنس
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔