Thursday, 26 October 2017

نعوذ بااللہ اگر پیغمبر کی گستاخی کرنا کفر ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں بت توڑ کر کفار مکہ کے خداؤں کی گستاخی اور دل آزاری نہیں کی؟

نعوذ بااللہ اگر پیغمبر کی گستاخی کرنا کفر ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں بت توڑ کر کفار مکہ کے خداؤں کی گستاخی اور دل آزاری نہیں کی؟
ایک اعتراض اور اس کا جواب

تحریر۔۔ ارکان آپریشن ارتقائے فہم و دانش
تدوین۔۔۔احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
اپنے ہی ہاتھ سے بت بنا کر اسے اپنا خالق مان لینا کہا ں کی انسانیت اور کہاں کا انصاف ھے ؟
خانہ کعبہ اور مکہ مکرمہ میں جس جگہ سے بتوں کا خاتمہ کیا گیا ،،،،وہ جگہ تا ریخیٰ اعتبار سے مسلمانوں،،اہل توحید کا مرکز تھی ،،،اس جگہ پر بت پرستوں کا ناجا ئز قبضہ تھا ،،،اس لیے یہاں سے بتوں کا خاتمہ ضروری تھا۔انہوں نے اللہ تعالٰی کا شریک مقرر کر کے جو بے انصافی کی ہے اسکی سزا تو عین انصاف کہلائے گی نہ کہ دل آزاری۔اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے:
إن أول بيت وضع للناس للذي ببكة مباركا وهدى للعالمين
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو بکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے۔ (ـترجمہ از محمد جوناگڑھی)
اس آیت مبارکہ میں مکہ کا نام بکہ ارشاد ہوا ہے اور مزید یقین دہانی کے لئے اللہ کے گھر کا ذکر بھی ہوا ہے تو اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا کہ خانہ کعبہ جہاں موجود ہے وہی مکہ شہر ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے، اس کے علاوہ زبور میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں:
بکہ کی وادی میں گزرتے ہوئے اسے ایک کنواں بتاتے، برکتوں سے مورۃ کو ڈھانپ لیتے، قوت سے قوت تک ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ (زبور)
زبور قرآن سے بھی پہلے کی الہامی کتاب ہے بلکہ حضرت عیسٰیؑ سے بھی بہت پہلے کی کتاب ہے جس میں مکہ کا وہی نام ملتا ہے جو قرآن میں ملتا ہے یعنی "بکہ”۔ زبور کی اس آیت سے پہلے کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
(حضرت داؤد خدا سے فرماتے ہیں) اے فوجوں کے خدا، تیرے مسکن کس قدر شیریں ہیں، میرا نفس خدا کے گھر کا مشتاق بلکہ عاشق ہے، اے خدا، تیرے قربان گاہ میرے مالک اور میرے خدا ہیں، مبارکی ہو ان لوگوں کے لئے جو تیرے گھر میں ہمیشہ رہتے ہیں اور تیری تسبیح پڑھتے ہیں۔ (زبور)
تاریخی طور پہ خانہ کعبہ اور مکہ مکرمہ مسلمانوں ہی کی جگہ تھی جہاں کفار نے بت رکھ دیے۔اس لیے اسلام نے اپنی جگہ واپس لی اور یہاں سے بتوں کو توڑ کر اسے اس کی حقیقی صورت میں بحال کر دیا اور دوسری بات یہ کہ یہ بت توڑنے والے وہی لوگ تھے جو کسی زمانے میں ان کی پوجا کرتے تھے اور مسلمان ہوکر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی یہ بت توڑے۔لہذا یہ اعتراض ہی غلط ہے کہ خانہ کعبہ میں کفار کے بت کیوں توڑے گئے۔
کہتے ہیں کہ کعبے میں تین سو ساٹھ بتوں کو توڑتے ہوئے قرآنی حکم کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا نہ کہو مبادا وہ آپ کے سچے خدا کو گالی دے، پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔۔۔
جواباً عرض ہے کہ ہم نے کونسا کفار مکہ کو دعوت نامہ بھیجا تھا کہ آؤ بھئی یہاں بتوں کی شرکیہ گندگی ڈالو ۔۔۔۔ کعبہ شریف حضرت ابرہیم نے بنایا تھا اور یہ خالصتاً توحید کی دعوت کے لیے تھا۔۔۔ اب اس میں کسی اور نے گھس کر گند ڈال دیا تو بندہ صفائی بھی نہ کرے 😏۔
،،،،بصورت دیگر تاریخ گواہ ہے ،،،کہ مسلمانوں نے اپنی سلطنوں میں دیگر مذاہب کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی ہے۔
خلیفہٴ اول حضرت ابو بکر صدیق نے کفار کے مذہبی معاملات کے تعلق سے جو معاہدہ لکھا، اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
لاَیُہْدَمُ لَہُمْ بِیْعَةٌ وَلاَ کَنِیْسَةٌ وَلاَ قَصْرٌ مِنْ قُصُوْرِہِمْ الَّتِي کَانُوْا یَتَحَصَّنُوْنَ اذَا نَزَلَ بِہِمْ عَدُوٌّ لَہُمْ وََلَا یُمْنَعُوْنَ مِنْ ضَرْبِ النَّوَاقِیْسِ وَلاَ مِنْ اخْرَاجِ الصُّلْبَانِ فِیْ عِیْدِہِمْ․
ان کے چرچ اور کنیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے،اور نہ کوئی ایسی عمارت گرائی جائے گی جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملہ میں قلعہ بند ہو تے ہیں،ناقوس اور گھنٹیاں بجانے کی ممانعت نہیں ہوگی،اور نہ تہواروں کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے، (کتاب الخراج لابی یوسف،ص:۱۷۲)
حضرت عمر نے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو معاہدہ تحریر فرمایا، اس کے بعض اجزا اس طرح ہیں:
”یہ امان ہے جو اللہ کے غلام امیر المومنین عمرنے اہلِ ایلیا کو دی،یہ امان جان و مال، گرجا، صلیب،تندرست و بیمار اوران کے تمام اہلِ مذہب کے لیے ہے،نہ ان کے گرجا میں سکونت اختیار کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گے،نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائے گی،مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا،نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔“(الفاروق،ج:۲،ص:۱۳۷)
وحشی  جورسول اللہ کے عزیز ترین چچا کا قاتل،ہند زوجہٴ ابو سفیان جس نے حضرت حمزہ کا سینہ چاک کر کے دل و جگرکوچبایا تھا، سب کو معاف کردیا۔(بخاری، کتاب المغازی،باب قتل حمزہ،بخاری کتاب الفضائل،ذکر ھند)
حضرت عکرمہ جو اسلام کے شدید ترین دشمن ابو جہل کے بیٹے ہیں،اسلام لانے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے میں ابو جہل سے کم نہ تھے؛لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اللہ کے رسول… نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا ۔(موطا امام مالک ،کتاب النکاح،باب نکاح المشرک)
آپ کو عمل بھی دکھا دیتے ہیں ،،ا یک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اس وفد میں شامل مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجد نبوی میں ادا کریں چنانچہ یہ مسیحی حضرات مسجد نبوی کی ایک جانب مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 357
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 4 : 4
3. ابن قيم، زادالمعاد، 3 : 629
عمومی طور پر طور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور شعار کو توڑنے کا کوئی حکم موجود نہیں ،،،،نہ کسی معتبر اسلامی سکالر کو کوئی ایسا فتویٰ ہے۔
لبرل سیکولر طبقے کو کو پاکستان میں رہنے والے صرف 3% ہندوؤں کے بھگوان کی بے ادبی گستاخی تو یاد ہے مگر ہندوستان میں رہنے والے چھبیس کروڑ مسلمانوں پر ظلم ان کی مساجد عبادت گاہوں کو نذرآتش اور انہیں زبردستی بھارت ماتا کی جے بولنے پر ٹارچر کیا جاتا ھے اس بارے کچھ یاد نہیں۔یہ ہے اس طبقے کا دوغلا پن اور منافقت۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔