Wednesday 25 October 2017

قرآن مجید میں مذکور لفظ آسمان،سات آسمان اور سات زمینوں کے وجود پہ ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب

قرآن مجید میں مذکور لفظ آسمان،سات آسمان اور سات زمینوں کے وجود پہ ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و ترتیب:احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
قرآن مجید میں ہے:
الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ﴿٣﴾ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿٤﴾ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ ﴿٥﴾
اس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (اے دیکھنے والے) کیا تو (خدا) رحمٰن کی آفرنیش میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھ کو (آسمان میں) کوئی شکاف نظر آتا ہے؟پھر دو بارہ (سہ بارہ) نظر کر، تو نظر (ہر بار) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی۔اور ہم نے قریب کے آسمان کو (تاروں کے) چراغوں سے زینت دی۔ اور ان کو شیطان کے مارنے کا آلہ بنایا اور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہی تارے شیطانوں پر پھینک مارے جاتے ہیں ، اور یہ مطلب بھی نہیں کہ شہاب ثاقب صرف شیطانوں کو مارنے ہی کے لیے گرتے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاروں سے جو بے حد و حساب شہاب ثاقب نکل کر کائنات میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں ، اور جن کی بارش زمین پر بھی ہر وقت ہوتی رہتی ہے ، وہ اس امر میں مانع ہے کہ زمین کے شیاطین عالم بالا میں جا سکیں ۔ اگر وہ اوپر جانے کی کوشش کریں بھی تو یہ شہاب انہیں مار بھگاتے ہیں ۔ اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عرب کے لوگ کاہنوں کے متعلق یہ خیال رکھتے تھے اور یہی خود کاہنوں کا دعویٰ بھی تھا ، کہ شیاطین ان کے تابع ہیں ، یا شیاطین سے ان کا رابطہ ہے ، اور ان کے ذریعہ سے انہیں غیب کی خبریں حاصل ہوتی ہیں اور وہ صحیح طور پر لوگوں کی قسمتوں کا حال بتا سکتے ہیں ۔ اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ شیاطین کے عالم بالا میں جانے اور وہاں سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کا قطعا کوئی امکان نہیں ہے۔
قرآن کہہ رہا ہے کہ جب شیطان آسمانی علم کو سننے کی کوشش کریں تو ان پہ آگ کے گولے چھوڑ دئیے جاتے ہیں.
شیطان اگ سے بنے ھیں نظر نھیں اتے تو انکو مارنا کیسے نظر ایگا۔آگ آکسیجن گیس کی وجہ سے جلتی ھے ...اور آکسیجن گیس بھی نظر نھیں آتی ..اور غیبی مخلوق جنات بھی آگ روشن کرنے والے گیس کی طرح کے روشن مادے سے آگ سے ھی بنے ھیں جو وجود رکھنے کے ساتھ ساتھ انسانی آنکھ سے پوشیدہ ھیں جس طرح گیس پوشیدہ ھے۔اور دنیا میں انسانی آنکھ کئ چیزیں دیکھنے سے محروم رکھی گئ ھیں ...وقت آنے پر ان کو سب کچھ دکھا دیا جاتا ھے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ اگر شہاب ثاقب شیاطین کو مارے جاتے ہیں تو یہ باقی سیاروں پہ بھی کیوں گرتے ہیں جہاں انسان نہیں۔یہ احمق پن کی دلیل ہے ملحدین کے۔جب شہاب ثاقب ہیں ہی شیاطین کو مارنے کے لیے تو وہ ان پہ ہر اس جگہ پھینکے جائیں گے جہاں وہ چھپنے اور بھاگنے کی کوشش کریں گے خواہ وہ کوئی بھی سیارہ ہو،خواہ اس پہ انسانی آبادی ہو یا نہ ہو۔
ایک اور ملحد نے کہا ہے کہ اگر ستارے انسان کی رہنمائی کے لیے ہیں تو یہ انسان سے بھی پہلے سے کیوں ہیں۔جب کہ انسان تو بہت دیر بعد زمین پہ آیا۔یہ بات بھی ملحدین کی کم عقلی اور احمق پن کی دلیل ہے۔اصول ہے کہ بس سٹاپ ہو ریلوے اسٹیشن ہو گھر ہو یا خدا کی کائنات۔تزئین و آرائش پہلے کی جاتی ہے۔مہمان یعنی انسان بعد میں آتے ہیں۔لہذا اللہ تعالی نے انسان کے لیے اس کے زمین پہ آنے سے پہلے ہی اس کائنات کی تزئین و آرائش کر دی اور یہاں اس کی زندگی کے لیے درکار سب لازمی سہولیات فراہم کر دیں۔
قریب کے آسمان سے مراد وہ آسمان ہے جس کے تا روں اور سیاروں کو ہم برہنہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس سے آگے جن چیزوں کے مشاہدے کے لیے آلات کی ضرورت پیش آتی ہو وہ دور کے آسمان ہیں ۔ اور ان سے بھی زیادہ دور کے آسمان وہ ہیں جن تک آلات کی رسائی بھی نہیں ہے ۔
قرآن مجید نے بهت سی جگهوں پر لفظ سماء (آسمان) اس کے مادی معنی میں استعمال کیا هے که ان کے متعدد مصداق و معانی اراده هوتے هیں، من جمله:
1: لفظ سماء یا آسمان کا پہلا استمعال
آسمان اوپر کی جهت کے معنی میں " الم تر کیف ضرب الله مثلاً کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء" " کیا تم نے نهیں دیکھا که الله نے کس طرح کلمه طیبه کی مثال شجره طیبه سے بیان کی هے جس کی اصل ثابت و اور اس کی شاخ آسمان تک پهنچی هوئی هے ـ"
2:قرآن مجید میں سماء یا آسمان کے لفظ کا دوسرا استعمال زمین کی فضا کے لیے ہوا ہے، زمین کے اطراف کی فضا کے معنی میں : "ونزلنا من السماء ماءً مبارکاً " " اور هم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا هے ـ"
3:قرآن مجید میں لفظ آسمان یا سماء کا تیسرا استعمال زمین کی فضا سے بھی اوپر زمین سے نظر آنے والی اس بلندی کے لیے ہوا ہے جس میں ہمیں ستارے سیارے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آسمان، سیاروں اور ستاروں کی جگه کے معنی میں: "بابرکت هے وه ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا هوا چاند قرار دیا هے ـ"
4:عربی میں آسمان سے مراد ہر وہ چیز جو سرفس یعنی زمین سے اونچی ہے اور ارض ہر وہ چیز جو آپ کے قدموں کے نیچے ہے اور قرآن میں لفظ آسمان سے مراد وہ لی جائے گی جو اس آیت کا کانیٹیکسٹ بیان کرے گا یعنی قرآن عربی میں ہے تو آسمان کے لئے وہ کلیہ نافذ ھو گا جو عربی زبان میں لاگو ہے یا جو تشریح نبی ﷺ کے کلام یا حدیث میں مذکور ہے جیسے قرآن میں بادلوں کو بھی آسمان کہا گیا ہے جب کہ سرپر سایہ ی چھت کو بھی عربی میں آسمان کہتے ہیں۔
تیسیر القرآن کے حاشیہ پر حافظ عتیق الرحمن کیلانی فرماتے ہیں لغوی طور پہ یہ سماءاور ارض اسمائے نسبیہ ہیں یعنی بلندی کا نام سماءاور پستی کا نام ارض گویا اس لحاظ سے پہلا آسمان دوسرے آسمان کے لحاظ سے ارض ہوا اس طرح سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہی ہوئیں دوسرا مفہوم یہی ہوسکتا ہے کہ ہماری زمین جیسی اور بھی زمینں ہوں اور وہاں کسی جاندار مخلوق کی آبادی بھی ہو جدید سائنسی تحقیقات میں ایسے کئی سیاروں کا سراغ لگایا گیا ہے جہاں طبعی حالات ہماری زمین جیسے ہیں اور جہاں جاندار مخلوق کے پائے جانے کا امکان بھی ہے ۔ واللہ اعلم
تفہیم القرآن میں مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں مطلب یہ کہ جیسے متعدد آسمان اس نے بنائے ہیں ویسی ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں اور زمین کی قسم سے کا مطلب ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں اپنی موجودات کے لئے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے اسی طرح اللہ تعالی نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لئے فرش اور گہوارہ ہے ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال میں امریکہ کے رانڈ کارپوریشن نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریبا 40 کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے جلتے ہیں اور امکان ہے کہ انکےاندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو(اکانومسٹ لندن مورخہ ٢٦ جولائی)
دعوة القرآن میں مولانا شمس پیر زادہ رقمطراز ہیں یہ کائنات اس آسمان اور اس زمین تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پہلا آسمان ہے جسے ہم اپنے اوپر دیکھ رہے ہیں اس طرح سات آسمان اللہ نے بنائے ہیں اور جس طرح آسمان دنیا کے نیچے زمین ہے اسی طرح دوسرے آسمانوں کے نیچے بھی زمینیں ہیں لیکن یہ زمینیں ہماری زمین سے کا فی مختلف ہیں اور سائنس کی رسائی اس خول سے باہر نہیں ہے جس میں ہم رہتے ہیں یعنی یہ زمین اور اس کے اوپر کا پہلا آسمان مرغی کا چوزہ جب تک انڈے کے اندر رہتا ہے اس کے لئے دنیا وہی ہوتی ہے وہ جب اس خول سے باہر آتا ہے تو ایک وسیع دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے اسی ہم اس زمین وآسمان کے خول میں بند ہیں لیکن اللہ کی کائنات اس حد تک محدود نہیں ہے وحی الہی نے ہم پر اس راز کا انکشاف کیا ہے کہ وہ نہایت وسیع ہے یکے بعد دیگرے ایسے سات عالم ہیں۔
اس کی واضح حقیقت اور تفصیل قرآن نے بیان نہیں کی لہذا اگر قرآن کسی چیز کی تفصیل بیان نہ کرے تو سائنس میں اس کی تفصیل یا ثبوت میسر نہ ہونے کی بنیاد پہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس آیت کی مختلف تفسیریں جو اہل علم حضرات نے اپنی سوچ دانش اور غور و خوض کے مطابق اخذ کرنے کی کوشش کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری زمین کی طرح سات آباد زمینیں ہیں جن کا ایک ایک آسمان ہے اور اس طرح ملا کر کل سات آسمان اور سات زمینیں ہیں۔یہ پہلی تفسیر ہے۔
اس کی دوسری تفسیر یہ ہو سکتی ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے حقیقی طور پہ سات آسمان تخلیق کیے ہوں اور ان کی باقاعدہ حد ہو یعنی ایک آسمان کے بعد دوسرا آسمان شروع ہوتا ہو۔سائنس کے مطابق انسان 360 کھرب نوری سال سے آگے کچھ نہیں جانتا۔معلوم کہکشایین اس فاصلے تک ہی معلوم ہیں۔لہذا جب ہم نے اس فاصلے سے آگے دیکھا ہی کچھ نہیں اور ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اللٰہ تعالٰی کے ہاں پہلے سے ساتویں آسمان تک کی کیا وسعت ہے تو ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ ہمیں سات آسمان نظر نہیں آتے اور نعوذ بااللہ قرآن کا دعوی غلط ہے۔
اور ساینس نے اج تک اس کائنات کے صرف ایک فیصد راز دریافت کیے ہیں۔لہذا اگر ان سات زمیں سات آسمان کا سائنس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن غلط ہے نعوذ بااللہ۔کیوں کہ ساینس دیکھے جانے کے قابل کائنات سے آگے دارک میٹر اور ڈارک توانائی کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتی۔اس ڈارک میٹر میں کیا ہے یہ اج تک ہمیں نہیں پتہ۔لہذا محدود معلامات کی بنیاد پہ ہم قرآن میں بیان کردہ سات زمین اور سات آسمان کا انکار نہیں کر سکتے۔
اب پہلا آسمان کتنی بلندی تک ہے اور دوسرا آسمان کہاں سے شروع ہوتا ہے کہاں تک ہے اور اس طرح باقی آسمانوں کی وسعت کہاں سے کہاں تک ہے اس کے بارے میں ہم اپنی کئی سو سالوں کی دن رات سائنسی تحقیق کے باوجود اپنے محدود کائناتی علم کے مطابق کچھ نہیں جانتے۔ان آسمانوں کی وسعت اور پیمانہ ان کے خالق کے ہاں کیا ہے یہ صرف وہی خود جانتا ہے۔
فظ سبع (سات) عربی میں دو صورتوں میں استعمال هوا هے:
الف ـ سات، ایک مشخص و معین عدد کے معنی هیں جو ریاضیات میں استعمال هوتا هے ـ
ب ـ کثرت کی علامت کے معنی میں، کیونکه بعض اوقات عربی میں "سات" کا لفظ استعمال هوتا هے اور اس کے کنایه کے معنی (زیاده تعداد اور کثرت) مراد هوتے هیں ـیعنی جب قرآن سبع سمٰوٰت یعنی سات آسمان کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ایک یہ کہ قرآن کے نزدیک آسمان حقیقت میں ہی سات ہیں۔اب یہ سات آسمان کہاں ہیں۔ان کی حد بندی کیا ہے۔ان سے کیا مراد ہے۔اس کی تفصیل اور وضاحت میں اوپر پیش کر چکا ہوں۔سات آسمان کے لفظ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ بعض اوقات یہ لفظ عربی میں کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اب اگر ہم عربی لغت کی اس تشریح کو مراد لیں تو خود سائنس کے مطابق اس کائنات میں لاکھوں سیارے ہیں اور ان سیاروں کے لاکھوں آسمان ہیں۔یہ بات خود سائنس تسلیم کرتی ہے۔اب آپ ان تشریحات میں سے جو بھی مراد لیں قرآن کی بات کسی طرح بھی جدید سائنس کے خلاف نہیں بلکہ سائنس اس بات پہ حیران ہے کہ وہ سات آسمان کیا ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں سائنس ان کو الگ الگ سات آسمانوں کی حیثیت سے شناخت کرلے اور قرآن کے بیان کی مزید سائنسی تفصیل سامنے آجائے۔قرآن آگے چل رہا ہے اور سائنس اس کی تلاش میں پیچھے کیوں کہ قرآن جو کہتا ہے سائنس اس کی تلاش میں گردان ہے کہ یہ چیز کیا ہے کہاں ہے۔
اور اسی طرح اس کی مزید تفصیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے آسمان کے بهت سے فضاوں کو پیدا کیا هے اور زمین کے اندر بهت سے طبقات یا زمین کے ٹکڑوں اور ممالک کو پیدا کیا هے ـ آپ ان میں سے ہر تشریح کو سائنس پہ پرکھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے کوئ بھی تشریح جدید سائنس کے خلاف نہیں۔اور یہ بات بھی مدنظر رکھیں کہ سائنس ایک انسانی علم ہے جس میں غلطی اور اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہی ہے۔لہذا ہم ترجیح قرآن کے بیان کو دیں گے جو کہ اس کائنات کے خالق و مالک کا کلام ہے اور جو ہر طرح کی غلطیوں سے آزاد ہے
قرآن نے کوئی واضح تفصیل پیش نہیں کی اور قرآن کی طرف سے اس کی مکمل تفصیل کے بیان نہ ہونے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم خود کائنات میں غور و خوض کریں اور اس غور و خوض کے نتیجے میں مزید سے مزید دریافت کریں۔کیونکہ آئن سٹائن نے خود کہا تھا
"تخیل علم سے زیادہ اہم ہے"۔
قرآن پہ اعتراض کرنے والے لوگ سیدھا اس طرح کیوں نہیں کہ دیتے کہ اللہ تعالی قرآن میں کیمیا یعنی کیمسٹری اور طبیعیات یعنی فزکس کا علم بھیج دیتا تاکہ یہ لوگ ایمان لے آتے۔اللہ تعالی نے قرآن کی باتوں کو آیات کیا ہے اور اس کا مطلب نشانیاں ہے۔اگر اللہ تعالی قرآن کو خالص سائنسی نظریات کی صورت میں بھیج دیتا تو یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لاتے۔
بلب دیکھ کر ایڈیسن کو یاد کرنے والوں کو سورج دیکھ کر خدا یا د کیوں نہیں آتا۔کیا ان کو لگتا ہے کہ ان کے life time میں سائنسدانوں کو باقی کی سمجھ آ جائے گی؟
اگر ایمان نہیں لائیں گے تو سمجھ آنے سے پہلے جہنم میں پہنچ چکے ہو گے۔
ملحدین کو کیا لگتا ہے سائنسدانوں نے universe کو کتنے فیصد سمجھ لیا ہے؟خود سائنس کے مطابق آج تک اس کائنات کے صرف ایک فیصد راز معلوم ہوسکے ہیں۔پھر کس طرح قرآن میں مذکور سات آسمان اور سات زمین کا انکار کیا جا سکتا ہے جب کہ سائنس کائنات کے 99% رازوں سے ابھی بے خبر ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔