Saturday, 28 October 2017

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 7

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 7
 
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحیی
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
نظریہ ارتقاءکے خیالی شجرہ نسب کو غلط ثابت کرنے والا سب سے دلچسپ اور قابلِ ذکر واقعہ جدید انسان کی قدیم تاریخ کا خلاف توقع دریافت ہونا ہے۔ علمِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontology) کے مطابق بالکل دورِ حاضر کے انسانوں کے ہمشکل ہوموسیپین لوگ زمین پر ایک لاکھ سال پہلے بھی موجود تھے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے ثبوت مشہور ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات لوئس لیکی نے دریافت کئے۔ 1932ء میں کینیا کی جھیل وکٹوریا کے اطراف کے کانجیرہ علاقے میں لیکی کو وسطی پلائسٹوسین دور کے کئی فوصل ملے جو جدید انسان کے ہوبہو مشابہ تھے ۔ وسطی پلائسٹوسین دور ایک لاکھ سال پہلے کا دور تھا ۔1
ان تمام دریافتوں سے ارتقاءکا شجرہ نسب الٹا ہوگیا اور اس کو کئی ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Evolutionary paleontologists) نے مکمل طور پر برخاست کردیا۔ لیکن لیکی کو ہمیشہ اس بات کا یقین رہا کہ اس کی تحقیق اور نتائج بالکل درست تھے۔ جیسے ہی ممکن ہواکہ لوگ اس تمام تنازعہ کو بھول جاتے ۔1995ء میں اسپین سے ملنے والے ایک فوصل نے ایک نہایت حیرت انگیز طریقے سے ثابت کیا کہ ہوموسیپیس کی تاریخ اس وقت سے بھی زیادہ پرانی ہے جس کا پہلے خیال رہا تھا۔ یہ فوصل تین ہسپانوی یونیورسٹی آف میڈرڈ کے ماہرِ قدیم بشری رکازیات نے اسپین کے اٹاپرکا کے علاقے میں موجود گران ڈولینا نامی ایک غار سے دریافت کئے۔ اس فصول میں ایک 11 سالہ بچے کی شکل تھی جو کہ ہو بہو ایک دورِ حاضر کے انسان کی طرح تھی لیکن اس کو مرے ہوئے اسی ہزار سال گزرچکے تھے۔ اپنے دسمبر 1997ءء کے شمارے میں رسالہ ’ڈسکور‘(Discover) نے اس کہانی کو بے حد تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ اس فوصل نے وان لوئی آرسواگا فیرےراس کے اعتقاد کو بھی متزلزل کردیا جو کہ گران ڈولینا کی کھدائی کا سربراہ تھا۔ فیرےراس کہتا ہے:
”ہم کسی بڑی، ضخیم، پھولی ہوئی قدیم چیز کی توقع کررہے تھے۔ ہماری توقعات ایک آٹھ لاکھ سال پرانے لڑکے کے بارے میں ایسی تھیں جیسے کہ ترکا نہ بوائے تھا۔ لیکن جو چیز ہم کو ملی اس کا مکمل جدید چہرہ تھا۔ میرے لئے یہ دریافت نہایت حیرت انگیز تھی۔ اس طرح کی چیزیں آپ کو ہلاکر رکھ دیتی ہیں۔ اس طرح کی مکمل طور پر غیر متوقع چیزیں فوصلوں کا ملنا نہیں، فوصلوں کا ملنا تو توقع کے مطابق ہے اور ٹھیک ہے، لیکن سب سے حیرت انگیز چیز ایک ایسی چیز کا ملنا ہے جس کو آپ ہمیشہ سے ماضی کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ اچانک حالیہ دور کے اوصاف کے ساتھ ظاہر ہوجائے۔ یہ تو اسی طرح ہے جس طرح گرین دولینا کے غار سے ٹیپ ریکارڈ مل جائے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز دریافت ہوگی۔ ہم وسطی پلائسٹو سین دور میں کیسیٹوں اور ٹیپ ریکارڈوں کے ہونے کی ہرگز توقع نہیں کرسکتے۔ آٹھ لاکھ سال پہلے ایک جدید چہرے کے ہونے کا ثبوت ملنا بھی ایسی ہی بات ہے۔ اس چہرے کو دیکھ کر ہم ناقابلِ بیان حیرت کا شکار ہوگئے ہیں۔“ 2
اس فوصل نے اس حقیقت کو اجاگر کردیا کہ ہومو سیپینز کی تاریخ ضرور آٹھ لاکھ سال پرانی ہے۔ ارتقاءپسند جب اس فوصل کے جھٹکے سے باہر نکلے تو اس کو دریافت کرنے والے ارتقائی سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ یہ فوصل ہو نہ ہو کسی اورہی نسل کا فوصل ہے کیونکہ ان کے بنائے گئے ارتقائی شجرہ نسب کے حساب سے ہومو سیپینز آٹھ لاکھ سال پہلے موجود ہی نہیں تھے۔اس لئے انہوں نے ہنگامی طور پر ایک نئی خیالی مخلوق تخلیق کرلی جس کو انہوں نے ’ہومواینٹے سیسر‘(Homo antecessor ) کا نام دیا۔ اس نئی درجہ بندی کے اندر انہوں نے اس اٹاپرکا سے ملنے والی کھوپڑی کو بھی ڈال دیا۔
کئی دریافتیں ایسی بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوموسیپینز کی عمر آٹھ لاکھ سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ ان میں سے لوئس لیکی کی اولڈ لوائی گورج میں کی گئی 1970ء کے سالوں کی یہ دریافت ہے۔ یہاں پر پرت II کی تہہ سے لیکی کو پتہ چلا کہ آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس نسلیں ایک ہی وقت کے اےک ہی دور میں موجود تھیں۔ اس سے زیادہ حےرت انگیز وہ ساخت تھی جو کہ لیکی کو اسی خطے سے ملی۔ یہاں اس کو ایک پتھر کی جھونپڑی کے بقیا جات ملے۔ اس واقعے کے بارے میں سب سے غیر معمولی بات یہ تھی کہ اس جھونپڑی کو بنانے کا طریقہ کار آج بھی افریقہ کے کچھ حصوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کو صرف ہوموسیپینز ہی تعمیر کرتے ہیں۔ لیکی کی اس دریافت کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور دورِ حاضر کا انسان ساتھ ساتھ ہی تقریباً 17 لاکھ سال پہلے زندہ تھے ۔3 اس دریافت سے وہ تمام ارتقائی نظریئے ناقص ہوجاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ جدید انسان آسٹرالوپتھیکس جیسی گوریلا نما مخلوق کی تدریجی شکل ہے۔
کئی دوسری دریافتیں بھی دورِ حاضر کے انسان کی ابتداءکا ثبوت 17 لاکھ سال پہلے کے دور میں دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم دریافت 1977ء میں لائٹولی، تنزانیہ سے میری لیکی کو ملنے والے قدموں کے نشان ہیں۔ یہ قدموں کے نشان ایک لاکھ سال پرانی تہہ میں ملے اور ان نشانوں سے بالکل مختلف نہیں ہیں جس طرح کے نشان ایک دورِ حاضر کا انسان چھوڑسکتا تھا۔ میری لیکی کو ملنے والے ان قدموں کے نشانات کا معائنہ بعد میں مشہور ماہر قدیم بشری رکازیات ڈونلڈ جانسن اور ٹم وائٹ کے علاوہ اس شعبے کے دوسرے ماہروں نے بھی کیا۔ ان تمام سائنسدانوں کا ایک ہی نتیجہ تھا۔وائٹ لکھتا ہے:
” اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ نشان جدید قدموں کے نشانات کی طرح ہی ہیں۔ اگر ان میں سے ایک نشان کیلیفورنیا کے ساحل پر ڈال دیا جائے اور ایک چار سال کے بچے سے اس کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ فوراً کہے گا کہ یہاں پر کوئی ابھی چل کر گیا ہے۔ وہ اس کا امتیا ز ساحل پر موجود لاتعداد دوسرے پیروں کے نشانات سے نہیں کرسکے گا۔نہ صرف وہ بچہ بلکہ آپ خود بھی اس نشان اور دوسرے نشانات کے بیچ میں کوئی فرق محسوس نہیں کرس کتے۔۵۹
قدموں کے نشانات کا معائنہ کرنے کے بعد نارتھ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی کوئس رابنسن کا کہنا تھا کہ:
”پاﺅں کی خمیدہ شکل اٹھی ہوئی ہے۔ کسی چھوٹے انسان کے پاﺅں کی خمیدہ شکل میرے پاﺅں کی اس شکل سے اونچی تھی۔ بڑا والاانگوٹھا بڑا ہے اور دوسرے پاﺅں کے انگوٹھے سے ہم آہنگ ہے۔ یہ انگوٹھے زمین کو بالکل انسانی انگوٹھوں کی طرح پکڑ سکتے ہیں۔ یہ خاصیت حیوانی اشکال میں موجود نہیں ہوتی۔“ 4
رسل ٹٹل نے بھی ان نشانات کا معائنہ کیا اور لکھتا ہے:
”ایک چھوٹے ہومو سیپین پیر نے یہ نشانات بنائے ہیں۔ تمام شکلیاتی عناصر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نشانات جدید انسانی پیروں کے نشانات سے ناقابل امتیاز ہیں۔“ 5
ان قدموں کے نشانات کا غیر جانبدارانہ معائنہ ان کے اصل مالکوں کا پتہ دیتے ہیں ۔یہ نشانات ایک 10 سالہ انسان کے 20 فوصل شدہ پیروں کے نشانات پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک جوان انسان کے پاﺅں کے 72 نشانات بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ تمام نشانات دورِ حاضر کے انسان کے پاﺅں کے نشانات سے ہوبہو مشابہ ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ان پیروں کے حامل انسان بھی بالکل ہماری ہی طرح کے لوگ تھے۔اس صورتحال نے لائٹولی کے قدموں کے نشانات کو کئی سال تک مدلل بحث کا مرکز بنائے رکھا۔ ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Evolutionary Human Paleontologist) نے شدت سے کوئی ایسی دلیل پیش کرنے کی کوشش کی جو کہ اس تمام ثبوت کو ناکارہ بنادے۔ ان کے لئے یہ بات بے حد ناقابل فہم تھی کہ ایک جدید طرز کا آدمی زمین کے اوپر کئ لاکھ سال پہلے بھی چل پھررہا تھا۔
،1990ء کے سالوں کے دوران ایک طرح کی صفائی نے بالآخر سراٹھانا شروع کردیا۔ ارتقاءپسندوں نے فیصلہ کیا کہ یہ قدموں کے نشانات آسٹرالوپتھیکس کے بنائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نظریئے کے مطابق کسی بھی ہومو نسل کے جاندار کا اتنے لاکھ سال پہلے موجود ہونا ناممکن بات تھی۔ رسل ٹٹل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:
لاؤٹولی کے قدموں کے نشان لاکھوں سال پرانے ہونے کے باوجود آج کے انسانی قدموں کے نشانات سے ہوبہو مشابہ ہیں
”خلاصہ یہ کہ لائٹولی کے مقام سے ملنے والے 35 لاکھ سال پرانے قدموں کے نشانات ایسے جدید انسانوں کے ہیں جن کو پیروں میں جوتا پہننے کی کبھی عادت نہ رہی ہو۔ کسی بھی خاصیت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ لائٹولی کے انسان ہم سے کسی طور پر ادنیٰ دوپایہ تھے۔ اگر لائٹولی کے پیروں کے یہ نشانات اتنے پرانے نہیں ہوتے تو با آسانی یہ نتیجہ اخذ کرلیتے کہ یہ ہماری ہی جنس ہومو کے کسی انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔کسی بھی حال میں ہمیں اس ڈھیلے سے اندازے سے پیچھا چھڑا لےنا چاہئے کہ لائٹولی کے قدموں کے نشانات لوسی کی جنس آسٹرالوپتھیکس ا فارنسس کے بنائے ہوئے ہیں۔“ 6
مختصرََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نشانات جو کہ کئ لاکھ سال پرانے قیاس کئے جاتے ہیں وہ آسٹرالوپتھیکس کے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ان کو آسٹرالوپتھیکس نسل کا سمجھے جانے کی ایک وجہ ان کا 36 لاکھ سال پرانی آتش فشانی تہہ سے دریافت ہونا ہے۔ ان کو آسٹرالوپتھیکس نسل سے جوڑے جانے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کسی طور پر یہ گمان بھی کسی کو نہیں تھاکہ انسان وقت کے اس دور میں موجود بھی ہوسکتا تھا۔ لائٹولی کے نشانات کی تمام تشریحات ایک اہم حققت کو سامنے لے کر آتی ہیں اور وہ یہ کہ ارتقاءپسند اپنے نظریوں کوسائنسی تجربات کا سہارا دینے سے سراسر گریز کرتے ہیں۔ اس کی مثال لائٹولی کے نشانات ہیں جن کو ہر طرح کی سائنسی تحقیق کا مکمل سہارا حاصل ہونے کے باوجود ارتقاءپسندوں کے ہاتھوں اس قدر شک و شبہ میں ڈال دیا گیا کہ یہ ثبوت عام لوگوں نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نظریہ ارتقاءسائنس نہیں بلکہ سائنس کی مخالفت کرتے ہوئے کٹر عقائد ہیں۔
حوالہ جات:
1: L. S. B. Leakey, The Origin of Homo Sapiens, ed. F. Borde, Paris: UNESCO, 1972, p. 25-29; L. S. B. Leakey, By the Evidence, New York: Harcourt Brace Jovanovich, 1974.
2: "Is This The Face of Our Past", Discover, December 1997, p. 97-100.
3: A. J. Kelso, Physical Anthropology, 1.b., 1970, pp. 221; M. D. Leakey, Olduvai Gorge, Vol 3, Cambridge: Cambridge University Press, 1971, p. 272.
4: Ian Anderson, New Scientist, Vol 98, 1983, p. 373.
5: Russell H. Tuttle, Natural History, March 1990, p. 61-64.



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔