Friday 27 October 2017

صحیح بخاری کی ایک حدیث پہ منکرین حدیث کا عریانیت کا اعتراض اور اس کا جواب

صحیح بخاری کی ایک حدیث پہ منکرین حدیث کا عریانیت کا اعتراض اور اس کا جواب
تحریر و اضافہ:احید حسن
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے جس کا عربی متن و ترجمہ درج ذیل ہے

حدثنا محمد بن سلام، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابن فضيل، ‏‏‏‏‏‏حدثنا هشام، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "كانت خولة بنت حكيم من اللائي وهبن انفسهن للنبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقالت عائشة:‏‏‏‏ اما تستحي المراة ان تهب نفسها للرجل؟، ‏‏‏‏‏‏فلما نزلت:‏‏‏‏ ترجي من تشاء منهن سورة الاحزاب آية 51، ‏‏‏‏‏‏قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏ما ارى ربك إلا يسارع في هواك". رواه ابو سعيد المؤدب، ‏‏‏‏‏‏ومحمد بن بشر، ‏‏‏‏‏‏وعبدة، ‏‏‏‏‏‏عن هشام، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة يزيد بعضهم على بعض.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا تھا۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ایک عورت اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتے شرماتی نہیں۔ پھر جب آیت «ترجئ من تشاء منهن‏» ”اے پیغمبر! تو اپنی جس بیوی کو چاہے پیچھے ڈال دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے“ نازل ہوئی تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! اب میں سمجھی اللہ تعالیٰ جلد جلد آپ کی خوشی کو پورا کرتا ہے۔ اس حدیث کو ابوسعید (محمد بن مسلم)، مؤدب اور محمد بن بشر اور عبدہ بن سلیمان نے بھی ہشام سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ ایک نے دوسرے سے کچھ زیادہ مضمون نقل کیا ہے۔

حوالہ:
صحيح بخاري
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
(THE BOOK OF The Wedlock).
بَابُ هَلْ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَهَبَ نَفْسَهَا لأَحَدٍ:
باب: کیا کوئی عورت کسی سے نکاح کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کر سکتی ہے؟
حدیث نمبر: 5113
اس حدیث کے حوالے سے ملحدین و منکرین حدیث کا اعتراض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ کیوں کہا کہ ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خود ہی اپنی ذات کو نکاح کے لیے پیش کیوں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں اعتراض کی کوئ بات ہی نہیں۔ایک عورت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کرنا کہہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے شادی کریں کونسی غلط یا قابل اعتراض بات ہے جب کہ دنیا کا کوئ قانون مذہب عورت کی طرف سے شادی کے پیغام کو کوئ جرم نہیں اور نہ ہی اسلام میں۔اسلام نے والدین کی طرف سے اور عورت دونوں کی طرف سے پیغام نکاح کی اجازت دی ہے۔جہاں تک بات ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی تو ان کا یہ کہنا کہ ایک عورت کسی مرد کے لیے اپنے آپ کو ہبہ یعنی شادی کے لیے وقف کرتے ہوئے شرم نہیں کرتی تو ان کا یہ کہنا اس حیا و شرم کے لحاظ سے تھا جس کی وجہ سے ایک عورت نکاح کے پیغام کا جائز حق رکھنے کے بعد بھی خاموش رہتی ہے۔حالانکہ دونوں کی بات ٹھیک ہے۔ایک کا حیاو شرم کا لحاظ دوسری صحابیہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی ذات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کرنے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی خواہش کرنا۔یہ خوش قسمتی نکاح کی صورت میں کونسی عورت نہیں چاہے گی جب کہ خاتون کی طرف سے خود پیغام نکاح نہ دنیا کے کسی قانون میں ممنوع ہے نہ ہی کسی مذہب میں۔منکرین حدیث آگے اعتراض کرتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ لفظ کیوں ہے کہ اللٰہ تعالٰی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر خواہش جلدی پوری کرتا ہے۔اب یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اگر ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کی خواہش کی تو جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواہش کرنا نعوذ بااللہ غلط تھا؟کیا اللٰہ تعالٰی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کو پورا فرمانا غلط تھا؟جب کہ نکاح کی خواہش نہ اللٰہ تعالٰی کی نظر میں معیوب نہ ہی دنیا کے کسی قانون کی نظر میں تو اعتراض کیسا لیکن منکرین حدیث و ملحدین اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کس طرح انہیں کسی حدیث و روایت پہ اعتراض کا موقع ملے اور وہ اس کو بہانہ بنا کر لوگوں کو اسلام کے ذخیرہ روایات سے بد ظن کرکے اپنا مذموم مقصد پورا کرسکیں۔اللہ تعالیٰ نے جس نبی پاک کو ہماری تعلیم کے لیے مامور فرمایا تھا، اسی کے ذمہ یہ خدمت بھی کی تھی کہ اس خاص شعبۂ زندگی کی تعلیم و تربیت بھی ہمیں دے۔ اہل عرب اس معاملہ میں ابتدائی ضابطوں تک سے ناواقف تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ان کے مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی طہارت، استنجا اور غسل وغیرہ کے مسائل، نیز ایسے ہی دوسرے مسائل نہ صرف زبان سے سمجھائے بلکہ اپنی ازواج مطہرات کو بھی اجازت دی کہ آپ کی خانگی زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کریں اور عام لوگوں کو بتائیں کہ حضورﷺ خود کن ضابطوں پر عمل فرماتے تھے۔
احادیث پہ عریانی و فحاشی پھیلانے کے مزید اعتراض کے جواب کے لیے اس لنک کا مطالعہ کریں۔

http://ilhaad.com/2017/05/hadith-aur-fash-nigari/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔