Monday 30 October 2017

رینگنے والے جانوروں سے وجود میں آئے؟

کیا بچوں کو دودھ پلانے والے جانور یا ممالیہ(Mammals) رینگنے والے جانوروں سے وجود میں آئے؟
ممالیہ خصوصا گھوڑوں،چمگادڑ اور مکھیوں کے ارتقا کی فرضی کہانی اور اس میں پائے جانے والے سائنسی جھوٹ
اقتباس:کتاب نظریہ ارتقا، ایک فریب
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
مصنف: ترک سکالر ہارون یحیی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
نظریہ ارتقاءکے مطابق سمندر سے نکلنے والی کچھ تصوراتی مخلوق رینگنے والے حیوانات میں تبدیل ہو گئی اور پرندے انہی رینگنے والے حیوانات کی ارتقائی شکل ہیں۔ اس نظریئے کے مطابق رینگنے والے حیوانات نہ صرف پرندوں کے اجداد ہیں بلکہ ممالیہ جانوروں کے بھی یہی اجداد ہیں حالانکہ ان دونوں جماعتوں کے بیچ وسیع اختلافات ہیں۔ ممالیہ جانور گرم خون کے جانور(Warm Blooded Animals) ہوتے ہیں جس کا مطب ہے کہ وہ نہ صرف اپنے جسم کی حرارت خود پیدا کرسکتے ہیں بلکہ یہ اس حرارت کو معتدل سطح پر رکھنے کے بھی اہل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممالیہ جانور زندہ بچے جنتے ہیں، اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں اور ان کے جسم بالوں یا لپشم سے ڈھکے ہوتے ہیں۔اس کے برعکس رینگنے والے جانور ٹھنڈا خون(Cold Blooded Animals) رکھتے ہیں یعنی وہ اپنے جسم کی حرارت پیدا نہیں کرسکتے اور ان کے جسم کے درجہ حرارت کا انحصار بیرونی درجہ حرارت کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ انڈے دیتے ہیں، اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتے اور ان کے جسم کھپروں سے ڈھکی ہوتے ہیں۔
ارتقاءپسند اپنے ڈائناساروں کو پرندوں کے اندر تبدیل ہونے کے دعوے کو یہ کہہ کر سہارادیتے ہیں کہ وہ ڈائناسار جوکہ اپنے آگے کی ٹانگوں کو پھڑپھڑاکر مکھیوں کا شکار کرتے تھے وہ اس حرکت سے اچانک ہی اڑنے لگ گئے جس طرح کہ نیچے فرضی تصویر میں نظر آرہا ہے۔ اس نظریئے میں کسی بھی طرح کی سائنسی بنیاد مفقود ہونے سے اس کا ایک خیالی کہانی ہونا صاف ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ اس نظریئے کے اندر ایک اور عدم توافق موجود ہے۔ اڑان کی ابتداءکو بیان کرنے کے لئے ارتقاءپسند جو مثال پیش کرتے ہیں اس میں خود تضاد ہے کہ مکھیوں کے اندر پہلے سے ہی اڑنے کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔ ایک انسان اپنی آنکھوں کو ایک سیکنڈ میں 10دفعہ ہی کھول بند کرسکتا ہے جبکہ ایک عام مکھی ایک سیکنڈ میں اپنے پر 500 دفعہ پھڑپھڑاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے دونوں پروں کو بیک وقت ہلاتی ہے۔ اس کے پروں کی ہلکی سی بھی بدآہنگی اس کے توازن پر اثر انداز ہوسکتی ہے لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا۔
ارتقاءپسندوں کے لئے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا لازمی ہے کہ مکھی نے اڑان کی یہ مہارت کس طرح حاصل کی۔ لیکن اس کے بجائے وہ خزندوں یعنی(Reptiles) جیسی بے ڈھنگی مخلوق کی اڑان کے بارے میں خیالی منظر نامے گھڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک عام گھریلو مکھی کی مکمل تخلیق بھی ارتقاءکے ہر دعوے کی تردید کرتی نظر آتی ہے۔ انگریزی ماہرِ حیاتیات رابن ووٹن اپنے ایک مضمون ”مکھی کے پروں کا میکانیکی نقشے“ میں لکھتا ہے:
”اڑنے والے حشروں کے پروں کے طریقہ عمل کو جیسے جیسے بہتر طور پر سمجھا جا رہاہے اتنی ہی ان کے نقشے کی خوبصورتی واضح ہوتی جا رہی ہے۔روایتی طور پر ساخت کم سے کم بدشکلی کا شکار ہوتی ہے اور میکانیکی عمل پرزوں کو توقع کے حساب سے ہلاتا جاتا ہے ۔لیکن اڑنے والے حشروں کے پر دونوں طرح کی صورتحال کو یکجا کردیتے ہیں۔ ان کے اعضاءلچکدار خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ نہایت خوش وضع طریقے سے تشکیل دیئے گئے ہوتے ہیں جس کی بدولت مناسب قوت کے جواب میں وہ تبدیل بھی ہوسکتے ہیں اور ہوا کا بہترین استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ شاید ہی کوئی اور ساخت ان کا ثانی ہے“۔1
دوسری طرف آج تک ایک بھی فوسل یا رکاز یا حجری حیاتیات ایسا نہیں ملا جو کہ مکھیوں کے خیالی ارتقاءکا ثبوت ہو۔ نامور فرانسیسی ماہرِ حیوانیات پیرگرا سے کہتا ہے کہ ”کیڑے مکوڑوں کی ابتداءکے متعلق ہم آج تک اندھیرے میں ہیں۔“2
رینگنے والے اور ممالیہ جانداروں کے درمیان ساخت کاایک فرق ان کے جبڑوں میں نمایاں فرق ہے۔ ممالیہ جانوروں کا نچلا جبڑا صرف ایک ہڈی پر مشتمل ہوتا ہے جس کے اندر دانت ہوتے ہیں جبکہ رینگنے والے جانوروں کے نچلے جبڑے کے دونوںطرف تین چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہیں۔ ساخت کا ایک اور فرق یہ ہے کہ تمام ممالیہ جانوروں کے کان کے وسطی حصے میں تین ہڈیاں ہوتی ہیں جبکہ رینگنے والے جانوروں کے کان کے بیچ میں ایک ہی ہڈی ہوتی ہے۔ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے کہ رینگنے والے جانوروں کا جبڑا اور وسطی کان ممالیہ جبڑے اور کان سے بدل گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہڈی والا کان تین ہڈی والے کان میں کس طرح تبدیل ہوگیا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اور یہ بات بھی عقل سے بالاتر ہے کہ ان تمام تبدیلیوں کے دوران سننے کی طاقت پھر بھی کیسے برقراررہی؟ اسی لئے کسی ایک بھی ایسے فوصل کی غیر موجودگی حیرت کی بات نہیں جو کہ رینگنے والے جانوروں اور ممالیہ جانوروں کے مابین رشتے کی نشاندہی کرسکیں ۔اسی لئے ارتقائی سائنسی مصنف راجر لوان کو مجبوراً یہ بات کہنی پڑی کہ: ”پہلے ممالیہ جانور تک منتقلی جو کہ ایک یا زیادہ سے زیادہ دو شجرہ نسبوں میں ہوئی ابھی تک ایک حیران کن واقعہ ہے۔“ 3
جارج گیلارڈ سمسن کا شمار معروف ارتقائی ہستیوں میں ہوتا ہے اور یہ نوڈاروینیت( Neo-Darwinism)کے نظریئے کا ایک بانی بھی ہے۔ ارتقاءپسند اس پریشان کن واقعہ سے جس مشکل کا شکار ہوگئے ہیں اس کے بارے میں وہ کہتا ہے:
”زمین کے اوپر زندگی کی تاریخ کا سب سے حل طلب مسئلہ میسوزوئک دور اور رینگنے والے جانوروں کی دور سے ممالیہ جانوروں کے دور میں منتقلی ہے۔یہ منظر اس طرح ہے کہ جس طرح کسی ایسے اسٹیج پر اچانک پردہ گرادیا جائے جس کے تمام اہم کردار رینگنے والے جانور ہوں بلکہ خاص طور پر وسیع تعداد اور انواع و اقسام کے ڈائناسار ہوں اور پھر اچانک پردہ اٹھادیا جائے اور اسی پس منظر کو نئے کرداروں کے ساتھ پیش کیا جائے جن میں ڈائناسار بالکل موجود نہ ہوں، سارے رینگنے والے جانور خاموش اداکار ہوں اور سارے اہم کردار وہ تمام ممالیہ جانوروں کی انواع و اقسام ہوں جن کا ہلکا سا ذکر بھی ابھی تک ڈرامے میں نہیں کیا گیا تھا۔“4
ارتقاءپسندوں کے مفروضے کے مطابق تمام ممالیہ نسلیں ایک مشترک پرکھا سے وجود میں آئیں۔ لیکن مختلف ممالیہ نسلوں کے درمیان وسیع امتیازات موجود ہیں مثلاً ریچھ، وہیل مچھلی، چوہے اور چمگادڑ۔ نیچے تصویر میں دیا گیا5 لاکھ سال پرانا چمگادڑ کا فوصل جوکہ دورِ حاضر کے چمگادڑ سے عین مشابہ ہے (سائنس، اشاعت 154 )
یہ جاندار نسل مخصوص نظام کی حامل ہے۔ مثلاً چمگادڑوں کے اندر بہت حساس قسم کا صوتی نظام موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اندھیرے میں بھی با آسانی راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ جس پیچیدہ نظام کی نقل جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی بمشکل کرسکتی ہے اس کا اتفاقی طور پر وجود میں آجانا ناممکن ہے۔ فوصلی ریکارڈ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ چمگادڑ اپنی حالیہ اور بہترین شکل میں کسی بھی تدریجی ترقی کے مراحل سے گزرے بغیر زمین پر اچانک نمودار ہوئے۔
اس کے علاوہ جب ممالیہ جانور اچانک نمودار ہوئے تو وہ ایک دوسرے سے اس وقت ہی بے انتہا مختلف تھے۔ مثلاً چمگادڑ، گھوڑے، چوہے اور وہیل مچھلیاں تمام ممالیہ جانور ہیں جو کہ ایک ہی ارضیاتی دور(Geological Age) میں نمودار ہوئے۔ ان کے درمیان کسی قسم کا رشتہ تصور کے آخری حد تک جانے سے بھی قائم نہیں کیا جاسکتا۔ مشہور رسالے ”ایوولوشن“ میں ارتقائی ماہرِ حیوانات ایرک لومبارڈ اس نقطے کو ایک مضمون میں اٹھاتے ہوئے کہتا ہے:
”وہ تمام لوگ جو کہ ممالیہ نسلوں کی نوعی تفریق اور انقسام کو تعمیر کرنے کی نیت سے مخصوص مواد کی تلاش میں ہیں وہ شدید مایوسی کا شکار ہوں گے۔“ 5
حالیہ دور تک گھوڑے کا ارتقاءدکھاتا ہوا ایک ازروئے دعویٰ سلسلے کو نظریہ ارتقاءکے اہم ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتارہا۔ آج کئی ارتقاءپسند خود اپنے منہ سے اس منظر نامے کا دیوالیہ ہوجانا تسلیم کرتے ہیں۔1980ء میں شکاگو کے فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں چار روزہ مجلسی مذاکرہ منعقد کیا گیا جس میں 150 ارتقاءپسندوں نے شرکت کی۔ اس مذاکرے کا مقصد بتدریج ارتقائی نظریئے کو درپیش مسائل کے اوپر بحث تھا۔ اس مذاکرے میں ارتقاءپسند بوئس رینسبرگر نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ گھوڑے کے ارتقاءکے منظرنامے کا فوصلی ریکارڈ میں کوئی وجود نہیں ہے اور نہ کوئی ثبوت گھوڑے کی تدریجی ترقی کو ثابت کرنے کے لئے موجود ہے۔6
گھوڑے کی ارتقاءکے اس مقبول مفروضے کے حساب سے چار انگلیوں والی لومڑی نما50 لاکھ سال پرانی مخلوق تدریجی ترقی سے ایک انگلی والے دورِ حاضر کے گھوڑے میں تبدیل ہوگئی۔ یہ مفروضہ آج مکمل طور پر غلط قراردے دیا گیا ہے۔ وسطی نوعیت کے اس سلسلے کی کڑی سمجھے جانےو الے کئی جانداروں کے فوصل مکمل اشکال میں نمودار ہوئے، بغیر کسی تبدیلی کے زمین پر موجود رہے اور پھر معدوم ہوگئے۔
گھوڑے کا ارتقاءدکھاتے ہوئے خاکوں کے بارے میں ڈاکٹر نائلز ایلڈرج کہتا ہے۔ ”زندگی کی تاریخ کے بارے میں لاتعداد کہانیاں سننے میں آتی ہیں جوکہ ایک سے بڑھ کر ایک رنگین تصویروں پر مبنی ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور نمونہ گھوڑے کی ارتقاءپر تشکیل دی گئی 50سال پرانی ایک نمائش ہے جوکہ کئی نصابی کتابوں میں بھی بلامبالغہ موجود ہے۔ میرے خیال سے یہ ایک نہایت قابل افسوس بات ہے۔ خاص طور پر اس لئے کیونکہ ان کہانیوں کو پیش کرنے والے کئی لوگ ان کہانیوں کی قیاس آرائیوں سے خود اچھی طرح واقف ہیں“۔7
تو پھر گھوڑے کے ارتقاءکے منظر نامے کی کیا بنیاد ہے؟ اس منظر نامے کی تشکیل انڈیا، شمالی افریقہ، جنوبی امریکہ اور یورپ میں مختلف دوروں میں رہنے والی معدوم نسلوں کے فوصلوں کی سلسلہ وار ترتیب پر مبنی پرفریب نقشوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ ان مفروضوں کو مزید ہوا ارتقاءپسندوں کے تصورات کی متمول قوت نے دی۔ مختلف تحقیق دانوں نے ایک دوسرے سے مختلف20 کے قریب گھوڑے کی ارتقاءکے اوپر نقشے تیار کئے ہیں جس سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ گھوڑے کے شجرہ نسب کے بارے میں ارتقاءپسند خود بھی آج تک ایک فیصلے پر نہیں پہنچ پائے۔ان تمام ترتیبوں میں واحد مشترک خاصیت یہ یقین ہے کہ ”ایوہپس“ نامی کتا نما حیوان جو کہ 55 لاکھ سال پرانے ایوسین دور میں موجود تھا وہ گھوڑے یا اکس کا جد امجد ہے۔ لیکن ایوہپس سے اکس تک کی ارتقائی لکیریں نہایت غیر ہموار ہیں۔
ارتقاءپسند سائنسی مصنف گورڈن ٹیلر اس غیر تسلیم شدہ سچائی کا ذکر اپنی کتاب ”داگریٹ ایوولوشن مسٹری“ یا ”ارتقاءکا عظیم بھید“ میں کرتا ہے: ”نظریہ ڈارون کی شاید سب سے توجہ طلب کمزوری ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Paleontologist) کا اہم ارتقائی تبدیلیوں کو واضح کرتے ہوئے جانداروں کی قابل یقین ترتیب کو ڈھونڈنے میں ناکامی ہے۔ گھوڑے کو ہمیشہ اس معاملے میں سب سے مفصل طور پر حل شدہ مثال سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایوہپس سے اکس تک کی لکیر بہت ڈانواڈول ہے۔ ازروئے دعویٰ یہ پیمائش میں بتدریج اضافہ دکھاتی ہے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے بیچ کی کچھ نسلیں ایوہپس سے چھوٹی تھیں، بڑی نہیں۔ مختلف ذرائع سے جمع کئے گئے قابل یقین نمونوں کو ثبوت کے طور پر یکجا کرلینا بہت آسان ہے لیکن یہ ترتیب اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں کہ یہ جاندار نسلیں و اقعی وقت اور تاریخ میں بھی اسی ترتیب سے موجود تھیں“ ۔8
یہ تمام حقائق اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ گھوڑے کی ارتقاءکے متعلق نظریہ ڈارون کو ثابت کرنے والے تمام نقشے نرالے، پرتخیل اور غیر معقول حکایتوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
ایک عجائب گھر میں موجود گھوڑے کاارتقاءدکھاتی نیچے تصویر میں دی گئی یہ ترتیب کئی جانوروں پر مشتمل ہے جوکہ مختلف اوقات اور مختلف جغرافیائی خطوط میں رہتے تھے۔ انکی ترتیب دھاندلی سے کی گئی ہے تاکہ ایک متعصب ارتقائی نقطہ نظر کو سہارا دیا جاسکے۔ گھوڑے نما ارتقاءکے منظر نامے کا فوصلی ریکارڈ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ جاندار نسلیں زمین کے اوپر اچانک اور مکمل حالتوں میں بغیر کسی ارتقائی عمل کے نمودار ہوئیں۔ ارتقاءپسند اس حقیقت کی تشریح اپنی مرضی سے ایک خاص ترتیب کے تحت کرکے ارتقاءکا ثبوت پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ جاندار نسلیں صرف تخلیق کی ترتیب کے تحت نمودار ہوئیں ،کسی ارتقائی عمل کے ذریعے نہیں۔ بہترین اور بے عیب تخلیق کے ذریعے زمین اور سمندر جانداروں سے بھرگئے اور آخر کار انسان کی نموداری پیش آئی۔ گوریلا نما آدمی کی کہانی کے برخلاف ،جو کہ دنیا کے اوپر شدید اشتہاری مہموں کے ذریعے ٹھونسی جاتی ہے، انسان بھی درحقیقت زمین کے اوپر اچانک اور مکمل حالت میں نمودار ہوا۔

حوالہ جات:
1:Robin J. Wootten, “The Mechanical Design of Insect Wings”, Scientific American, v. 263, Nov.1990, p. 120----1
2:Pierre Grasse, “Evolution of Living Orgnanisms”, New York Academic Press, 1977, p. 30- ---2
3:Roger Lewin, "Bones of Mammals, Ancestors Fleshed Out", Science, vol 212, June 26, 1981, p. 1492.
4:George Gaylord Simpson, Life Before Man, New York: Time-Life Books, 1972, p. 42.
5: R. Eric Lombard, "Review of Evolutionary Principles of the Mammalian Middle Ear, Gerald Fleischer", Evolution, Vol 33, December 1979, p. 1230.
6:Boyce Rensberger, Houston Chronicle, November 5, 1980, p. 15-----1
7:Niles Eldridge, quoted in “Darwin Enigma” by Luther D. Sunderland, Santee, CA, Master Books, 1988, p. 78----2
8:Gordon Rattray Taylor, “The Great Evolution Mystery”, Abacus, Sphere

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔