لارڈمیکالے نے انڈیا میں انگریزی تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ اِس تعلیمی نظام کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے اُس نے انڈیا کا کونا کونا گھوم کر برصغیر کے تعلیمی نظام کا مشاہدہ کیا۔ وہ اپنے مشاہدے اور ایک انگریزی تعلیمی نظام کی انڈیا میں ضرورت کو 1835 ( کلکتہ) میں کچھ اِس طرح بیان کرتا ہے۔
ْ ’’ میں نے انڈیا کے چپے چپے کو چھان مارا ہے ، لیکن میں نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا، ایک چور نہیں دیکھا ، بلکہ بے پناہ دولت دیکھی ۔ اِس ملک کے لوگ بھی اتنے سمجھدار ،قابل اور باصلاحیت ہیں کہ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ہم کبھی بھی اِن پر حکومت نہیں کر سکیں گے جب تک ہم ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نہ توڑ ڈالیں ، جو کہ دراصل اُن کی روحانی اور ثقافتی روایات ہیں اور جن کو تبدیل کرنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اُن کا قدیم اور روایتی تعلیمی نظام اور ثقافتی اِقدار کو بدل دیا جائے۔ اگر انڈیا کے لوگوں کو ہم نے یہ سمجھا دیا کہ ہمارا یعنی انگریزی نظام اور روایات اُن سے بہتر ہیں تو وہ اپنی عزتِ نفس کھو دیں گے اور اپنی ثقافت کو بھول کر ہماری مرضی کے مطابق ایک غلام قوم میں تبدیل ہو جائیں گے ‘‘
ہمیں لارڈ میکالے کی اس سوچ کے ساتھ ساتھ اِس بات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے کہ لارڈ میکالے نے برطانوی حکومت کے ایک پہلے سے طے شُدہ ایجنڈے کو ایک عملی شکل دی اورایک ایسا ہدف متعین کیا جو کہ برطانوی حکومت کے Imperialistic ایجنڈے کے مطابق تھا حقیقت میں برطانوی حکومت نے 1813 ء سے ہی انڈیا کے تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لیے ایک بجٹ مقرر کر دیا تھا ۔ اس تعلیمی بجٹ کی کُل مالیت اُ س وقت ایک لاکھ انڈین روپے تھی۔
اِن تفصیلات کو جاننے کے بعد کوئی بھی قابل فہم شخص اِس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر ہمیں اپنے روایتی تعلیمی نظام ، مذہبی اقدار اور روایات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا اور اگر ہم لارڈ میکالے کے اِس منصوبے اور عزائم کو وقت سے پہلے جانچ لیتے تو شاید اِس وقت برِصغیر کا نقشہ اور حالات کچھ مختلف ہوتے ۔
ہم انگریز کے اس جھانسے میں کیوں آگئے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس مضمون کا مقصد نہیں بلکہ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرناہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ اکثرو بیشتر زہر قاتل بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔آج ہم اِس نظام تعلیم سے اس قدر مرعوب ہو چُکے ہیں کہ اِس کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور تک نہیں کر سکتے اور ہم یہ بھی شاید مکمل طور پر بھول چُکے ہیں کہ ہمارا اپنا روایتی تعلیمی نظام کیا تھا؟۔۔۔ ۔یہ تعلیمی نظام آج بھی زندہ ہے اور اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہے لیکن صرف اِس حد تک کہ مغربی تہذیب کی یلغار کے مقابلے میں ڈھال کا کام دے رہا ہے۔
لارڈ میکالے نے اپنے زمانے میں ایک اور بات کہی۔ اُس نے کہا ’’ اگر میرا بس چلے تو میں عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی چھپائی بند کرا دوں اور مدرسوں اور سنسکرت کے سکولوں کو بھی منہدم کرا دوں ‘‘
لارڈ میکالے کی اس بات سے بھی ہمیں اسی طرف اشارہ ملتا ہے کہ برِصغیر میں روایتی درسگاہوں کی موجودگی دراصل صرف مغربیت اور مغربی آمریت ہی کے لیے خطرے کا باعث تھی اور اب بھی بن سکتی ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے مدرسوں کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک سازش پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں ؟
لارڈ میکالے کی باتوں سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ سماجی/معاشرتی انتشار یعنی غربت، افلاس، ناانصافی اور دیگرمعاشرتی برائیاں دراصل بیرونی طاقتوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں کہ وہ آئیں اور اپنی آمرانہ حکومت کے پنجے گاڑ کر قوموں کو محکوم بنا سکیں۔ہمیں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دو سوسال پہلے جو تعلیمی نظام برِصغیر میں رائج تھا اُس کے نتیجے میں ایک مستحکم معاشرہ قائم تھا جہاں نہ غربت تھی اور نہ ناانصافی اور نہ کوئی چوری چکاری۔
ہم یہ بات پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ 1813 میں ہی برطانوی حکومت نے ایک لاکھ روپے سالانہ کی رقم ایسٹ انڈیا کمپنی کی پُشت پناہی میں خرچ کرنی شروع کر دی تھی اور یہ سلسلہ پھر نہیں رُکا، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی1955 میں #USAID نے 10ملین ڈالر کے لگ بھگ پاکستان سے مشہور بزنس انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جس کا نامIBA ہے۔آج #IBA کے طرز پر پاکستان میں بے شمار تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جن کو مغرب کی فریب زدہ آنکھیں بڑی قابلِ ستائش نظروں سے دیکھتی ہیں، ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ IBA کے طرز کے اِن تعلیمی اداروں کا کوئی مثبت کردار نہیں ہے لیکنِ ہمیں یہ بھی ضرور دیکھنا ہو گا کہ ایسے ادارے کہیں لارڈ میکالے کے بنائے گئے فریم ورک کا حصہ تو نہیں۔
Business Institutes کی یہاں خصوصی طور پر مثال اس لیے دی گئی ہے کیوں کہ تمام تعلیمی اداروں کے مقابلے میں مغربی سوچ اور فکر کا غلبہ زیاد ہ ترانہی تعلیمی اداروں میں نظرآتا ہے اور ہمیں اس بات کا بھی اعترف کرنا ہو گا کہ اُن تمام طلبہ اور طالبات جو اِن Institutes سے پڑھ کر نکلتے ہیں اُن کی اولین ترجیح Multinational Corporations یا Banks میں نوکری کا حصول ہوتا ہے۔ہمیں اِس بات کا بھی اعتراف کرنا ہو گا کہ اِن تعلیمی اداروں میں پاکستان کے بہترین طلبہ و طالبات ہی داخلہ لے پاتے ہیں اور یوں آخر میں ملٹی نیشنلز کا حصہ بن کر اپنی ساری زندگی صابن 249 تیل 249گھی 249 شمپو،آئس کریم یا سودی قرضے وغیرہ بیچتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔یہاں بات صرف شمپو اور تیل وغیرہ بیچنے پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک اجنبی تہذیب 249اُس کی ثقافت ، اُس کی اقدار اور روایات بھی بیچی جاتی ہیں اور خریدنے والا بھی اِس پورے پیکیج کو خریدتا ہے۔ کیا ہی بات ہوتی اگر یہی طالب علم اور قوم کے ذہین ترین نوجوان سائنس دان ، سیاستدان ، Technocrates ،عالمِ دین وغیرہ بنتے اور وہ تمام شعبے اختیار کرتے جن سے ملک و قوم کی فلاح ہوتی نہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اور ان کے اسٹیک ہولڈرزکی۔
یہ تمام باتیں تھیں 1955 میں لیے جانے والے ایک قدم کی۔ آیئے اب ایک نظر ڈالتے ہیں حال ہی میں لیے گے USAID کے ایک اور اقدام کی طرف۔ USAID نے حال ہی میں بچوں کے ایک ٹی وی چینل کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا ہے اور اسی مد میں کروڑ وں ڈالرکے ٹینڈر کھولنے کا اعلان بھی کیا ہے۔مختلف اخبارات میں چھپنے والے اس اعلان میںUSAID نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اس ٹی وی چینل کا مقصد دراصل بچوں کی ذہن سازی ہے۔ اس ذہن سازی سے کیا مراد ہے اس کا اندازہ تو صحیح طور پراس ٹی وی چینل کے on air ہونے کے بعدہی لگایا جاسکے گا البتہ تاریخی پس منظر کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس بات کاگمان کرنا شاید غلط نہ ہوگا کہ یہ ٹی وی چینل بھی در اصل اسی سلسے کی ہی کڑی ہو۔
بچوں کی ذہن سازی کا مطلب ہے کہ آپ آنے والی ایک نہیں بلکہ کئی نسلوں کی ذہنی اور فکریDirection متعین کررہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور دلچسپ مثال حال ہی میں ہمارے سامنے آئی ۔ کراچی میں Educational Technologies کے نام سے ایک کمپنی ایک ایسی Productکوپروموٹ کر رہی جس کے ذریعے آپ اپنے نومولود یعنی ایک دو ماہ کے بچے کی تعلیم و تربیت شروع کر سکتے ہیں۔ اس Educational Product کے ذریعے جو کہ مکمل طور پر انگریزی زبان میں ہے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اُس وقت اُبھاراجاتا ہے جب بچوں کی Learning abilityتیزی سے Develop ہو رہی ہوتی ہے یعنی چار سال تک یا اس سے کم عمر۔ اس طریقۂ تعلیم کو دیکھنے کے بعد ہمیں یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اِس ذریعہ تعلیم سے مغربیت کو گھٹی میں ملا کر بچوں کوپلانے کا تو انتِظام ہے لیکن اسلامی طرز عمل اور روایات کو سکھانے کی کوئی گنجایش نہیں۔
یہ تو چند مثالیں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس مزید ہونگی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے۔جس گھن چکر میں ہم اور آپ پھنس چکے ہیں اِس سے نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔میرے نزدیک اِس مسئلہ کے حل کے لئے سب سے پہلے اس مسئلہ کا ادراک ضروری ہے اور جب آپ ایسا کر لیں گے تو آپ کو ایسی راہیں نظر آنی شروع ہوجائے گی جن پر چل کر آپ اپنے آپ کو اور اپنی آنے والی نسل کو اس علمی اور نفسیاتی جنگ سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
کسی بھی تہذیب کی مضبوطی اور استحکام اس کے ideological frameworkپر ہوتاہے۔ اگر اس ideological frameworkمیں کوئی دراڑ ہے تو اس تہذیب کو منہدم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پچھلے دوسو سالوں سے جو تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جولارڈ میکالے نے شروع کیا اس کے باوجود ہماری چند روایات اور چند ادارے (Institutes)اس ideological frameworkسے قریب ہونے کی وجہ سے ابھی تکFunctionalہیں اور اگر ہم مغرب کی غلامی سے آزاد ہوکر زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں اس روائتی طرز کے تعلیمی اداروں سے اپنا بھی تعلق جوڑنا ہوگا اور اپنے آنے والی نئی نسل کی ابتدائی تربیت کے لیے بھی ان کے ساتھ الحاق کو یقینی بنانا پڑے گا۔ یہاں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ جدیدتعلیم کا بھی اپنا ایک مقام ہے لیکن ہمیں اس کو اپنی ترجیحات میں دوسرے نمبر پر لانا پڑے گا۔ پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف ہمیں اس وقت بڑھنا ہوگا جب بنیادی تعلیم اور تربیت خالص اسلامی اور روائتی طرزِعمل سے پُر ہو۔ اس سلسلہ میں مدرسوں کو بھی حاضر دماغی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں ایسی اجتہادی تبدیلیوں کو متعارف کرائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اپنے اور اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تعلیم جاری رکھوا سکیں۔
لارڈ میکالے کا اگر یہ عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوتا تو اس کے صدقہ جاریہ میں مستقل اضافہ ہورہاہوتا مگر حقیقت شایداس کے بالکل برعکس ہے۔ لارڈ میکالے کو جو بھی عذاب مل رہا ہے وہ اس کو ملتارہے گا مگرہمارے پاس متبادل راہ موجود ہے۔ ہم اب بھی اس جنگ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں صرف مسئلہ کا ادراک اور تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے۔
ْ ’’ میں نے انڈیا کے چپے چپے کو چھان مارا ہے ، لیکن میں نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا، ایک چور نہیں دیکھا ، بلکہ بے پناہ دولت دیکھی ۔ اِس ملک کے لوگ بھی اتنے سمجھدار ،قابل اور باصلاحیت ہیں کہ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ہم کبھی بھی اِن پر حکومت نہیں کر سکیں گے جب تک ہم ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نہ توڑ ڈالیں ، جو کہ دراصل اُن کی روحانی اور ثقافتی روایات ہیں اور جن کو تبدیل کرنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اُن کا قدیم اور روایتی تعلیمی نظام اور ثقافتی اِقدار کو بدل دیا جائے۔ اگر انڈیا کے لوگوں کو ہم نے یہ سمجھا دیا کہ ہمارا یعنی انگریزی نظام اور روایات اُن سے بہتر ہیں تو وہ اپنی عزتِ نفس کھو دیں گے اور اپنی ثقافت کو بھول کر ہماری مرضی کے مطابق ایک غلام قوم میں تبدیل ہو جائیں گے ‘‘
ہمیں لارڈ میکالے کی اس سوچ کے ساتھ ساتھ اِس بات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے کہ لارڈ میکالے نے برطانوی حکومت کے ایک پہلے سے طے شُدہ ایجنڈے کو ایک عملی شکل دی اورایک ایسا ہدف متعین کیا جو کہ برطانوی حکومت کے Imperialistic ایجنڈے کے مطابق تھا حقیقت میں برطانوی حکومت نے 1813 ء سے ہی انڈیا کے تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لیے ایک بجٹ مقرر کر دیا تھا ۔ اس تعلیمی بجٹ کی کُل مالیت اُ س وقت ایک لاکھ انڈین روپے تھی۔
اِن تفصیلات کو جاننے کے بعد کوئی بھی قابل فہم شخص اِس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر ہمیں اپنے روایتی تعلیمی نظام ، مذہبی اقدار اور روایات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا اور اگر ہم لارڈ میکالے کے اِس منصوبے اور عزائم کو وقت سے پہلے جانچ لیتے تو شاید اِس وقت برِصغیر کا نقشہ اور حالات کچھ مختلف ہوتے ۔
ہم انگریز کے اس جھانسے میں کیوں آگئے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس مضمون کا مقصد نہیں بلکہ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرناہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ اکثرو بیشتر زہر قاتل بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔آج ہم اِس نظام تعلیم سے اس قدر مرعوب ہو چُکے ہیں کہ اِس کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور تک نہیں کر سکتے اور ہم یہ بھی شاید مکمل طور پر بھول چُکے ہیں کہ ہمارا اپنا روایتی تعلیمی نظام کیا تھا؟۔۔۔ ۔یہ تعلیمی نظام آج بھی زندہ ہے اور اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہے لیکن صرف اِس حد تک کہ مغربی تہذیب کی یلغار کے مقابلے میں ڈھال کا کام دے رہا ہے۔
لارڈ میکالے نے اپنے زمانے میں ایک اور بات کہی۔ اُس نے کہا ’’ اگر میرا بس چلے تو میں عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی چھپائی بند کرا دوں اور مدرسوں اور سنسکرت کے سکولوں کو بھی منہدم کرا دوں ‘‘
لارڈ میکالے کی اس بات سے بھی ہمیں اسی طرف اشارہ ملتا ہے کہ برِصغیر میں روایتی درسگاہوں کی موجودگی دراصل صرف مغربیت اور مغربی آمریت ہی کے لیے خطرے کا باعث تھی اور اب بھی بن سکتی ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے مدرسوں کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک سازش پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں ؟
لارڈ میکالے کی باتوں سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ سماجی/معاشرتی انتشار یعنی غربت، افلاس، ناانصافی اور دیگرمعاشرتی برائیاں دراصل بیرونی طاقتوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں کہ وہ آئیں اور اپنی آمرانہ حکومت کے پنجے گاڑ کر قوموں کو محکوم بنا سکیں۔ہمیں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دو سوسال پہلے جو تعلیمی نظام برِصغیر میں رائج تھا اُس کے نتیجے میں ایک مستحکم معاشرہ قائم تھا جہاں نہ غربت تھی اور نہ ناانصافی اور نہ کوئی چوری چکاری۔
ہم یہ بات پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ 1813 میں ہی برطانوی حکومت نے ایک لاکھ روپے سالانہ کی رقم ایسٹ انڈیا کمپنی کی پُشت پناہی میں خرچ کرنی شروع کر دی تھی اور یہ سلسلہ پھر نہیں رُکا، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی1955 میں #USAID نے 10ملین ڈالر کے لگ بھگ پاکستان سے مشہور بزنس انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جس کا نامIBA ہے۔آج #IBA کے طرز پر پاکستان میں بے شمار تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جن کو مغرب کی فریب زدہ آنکھیں بڑی قابلِ ستائش نظروں سے دیکھتی ہیں، ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ IBA کے طرز کے اِن تعلیمی اداروں کا کوئی مثبت کردار نہیں ہے لیکنِ ہمیں یہ بھی ضرور دیکھنا ہو گا کہ ایسے ادارے کہیں لارڈ میکالے کے بنائے گئے فریم ورک کا حصہ تو نہیں۔
Business Institutes کی یہاں خصوصی طور پر مثال اس لیے دی گئی ہے کیوں کہ تمام تعلیمی اداروں کے مقابلے میں مغربی سوچ اور فکر کا غلبہ زیاد ہ ترانہی تعلیمی اداروں میں نظرآتا ہے اور ہمیں اس بات کا بھی اعترف کرنا ہو گا کہ اُن تمام طلبہ اور طالبات جو اِن Institutes سے پڑھ کر نکلتے ہیں اُن کی اولین ترجیح Multinational Corporations یا Banks میں نوکری کا حصول ہوتا ہے۔ہمیں اِس بات کا بھی اعتراف کرنا ہو گا کہ اِن تعلیمی اداروں میں پاکستان کے بہترین طلبہ و طالبات ہی داخلہ لے پاتے ہیں اور یوں آخر میں ملٹی نیشنلز کا حصہ بن کر اپنی ساری زندگی صابن 249 تیل 249گھی 249 شمپو،آئس کریم یا سودی قرضے وغیرہ بیچتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔یہاں بات صرف شمپو اور تیل وغیرہ بیچنے پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک اجنبی تہذیب 249اُس کی ثقافت ، اُس کی اقدار اور روایات بھی بیچی جاتی ہیں اور خریدنے والا بھی اِس پورے پیکیج کو خریدتا ہے۔ کیا ہی بات ہوتی اگر یہی طالب علم اور قوم کے ذہین ترین نوجوان سائنس دان ، سیاستدان ، Technocrates ،عالمِ دین وغیرہ بنتے اور وہ تمام شعبے اختیار کرتے جن سے ملک و قوم کی فلاح ہوتی نہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اور ان کے اسٹیک ہولڈرزکی۔
یہ تمام باتیں تھیں 1955 میں لیے جانے والے ایک قدم کی۔ آیئے اب ایک نظر ڈالتے ہیں حال ہی میں لیے گے USAID کے ایک اور اقدام کی طرف۔ USAID نے حال ہی میں بچوں کے ایک ٹی وی چینل کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا ہے اور اسی مد میں کروڑ وں ڈالرکے ٹینڈر کھولنے کا اعلان بھی کیا ہے۔مختلف اخبارات میں چھپنے والے اس اعلان میںUSAID نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اس ٹی وی چینل کا مقصد دراصل بچوں کی ذہن سازی ہے۔ اس ذہن سازی سے کیا مراد ہے اس کا اندازہ تو صحیح طور پراس ٹی وی چینل کے on air ہونے کے بعدہی لگایا جاسکے گا البتہ تاریخی پس منظر کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس بات کاگمان کرنا شاید غلط نہ ہوگا کہ یہ ٹی وی چینل بھی در اصل اسی سلسے کی ہی کڑی ہو۔
بچوں کی ذہن سازی کا مطلب ہے کہ آپ آنے والی ایک نہیں بلکہ کئی نسلوں کی ذہنی اور فکریDirection متعین کررہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور دلچسپ مثال حال ہی میں ہمارے سامنے آئی ۔ کراچی میں Educational Technologies کے نام سے ایک کمپنی ایک ایسی Productکوپروموٹ کر رہی جس کے ذریعے آپ اپنے نومولود یعنی ایک دو ماہ کے بچے کی تعلیم و تربیت شروع کر سکتے ہیں۔ اس Educational Product کے ذریعے جو کہ مکمل طور پر انگریزی زبان میں ہے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اُس وقت اُبھاراجاتا ہے جب بچوں کی Learning abilityتیزی سے Develop ہو رہی ہوتی ہے یعنی چار سال تک یا اس سے کم عمر۔ اس طریقۂ تعلیم کو دیکھنے کے بعد ہمیں یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اِس ذریعہ تعلیم سے مغربیت کو گھٹی میں ملا کر بچوں کوپلانے کا تو انتِظام ہے لیکن اسلامی طرز عمل اور روایات کو سکھانے کی کوئی گنجایش نہیں۔
یہ تو چند مثالیں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس مزید ہونگی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے۔جس گھن چکر میں ہم اور آپ پھنس چکے ہیں اِس سے نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔میرے نزدیک اِس مسئلہ کے حل کے لئے سب سے پہلے اس مسئلہ کا ادراک ضروری ہے اور جب آپ ایسا کر لیں گے تو آپ کو ایسی راہیں نظر آنی شروع ہوجائے گی جن پر چل کر آپ اپنے آپ کو اور اپنی آنے والی نسل کو اس علمی اور نفسیاتی جنگ سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
کسی بھی تہذیب کی مضبوطی اور استحکام اس کے ideological frameworkپر ہوتاہے۔ اگر اس ideological frameworkمیں کوئی دراڑ ہے تو اس تہذیب کو منہدم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پچھلے دوسو سالوں سے جو تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جولارڈ میکالے نے شروع کیا اس کے باوجود ہماری چند روایات اور چند ادارے (Institutes)اس ideological frameworkسے قریب ہونے کی وجہ سے ابھی تکFunctionalہیں اور اگر ہم مغرب کی غلامی سے آزاد ہوکر زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں اس روائتی طرز کے تعلیمی اداروں سے اپنا بھی تعلق جوڑنا ہوگا اور اپنے آنے والی نئی نسل کی ابتدائی تربیت کے لیے بھی ان کے ساتھ الحاق کو یقینی بنانا پڑے گا۔ یہاں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ جدیدتعلیم کا بھی اپنا ایک مقام ہے لیکن ہمیں اس کو اپنی ترجیحات میں دوسرے نمبر پر لانا پڑے گا۔ پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف ہمیں اس وقت بڑھنا ہوگا جب بنیادی تعلیم اور تربیت خالص اسلامی اور روائتی طرزِعمل سے پُر ہو۔ اس سلسلہ میں مدرسوں کو بھی حاضر دماغی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں ایسی اجتہادی تبدیلیوں کو متعارف کرائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اپنے اور اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تعلیم جاری رکھوا سکیں۔
لارڈ میکالے کا اگر یہ عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوتا تو اس کے صدقہ جاریہ میں مستقل اضافہ ہورہاہوتا مگر حقیقت شایداس کے بالکل برعکس ہے۔ لارڈ میکالے کو جو بھی عذاب مل رہا ہے وہ اس کو ملتارہے گا مگرہمارے پاس متبادل راہ موجود ہے۔ ہم اب بھی اس جنگ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں صرف مسئلہ کا ادراک اور تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔