تدوین ِحدیث اور اس کی تاریخ
تدوین سے مراد:
٭…امام زہریؒ کے بارے میں علماء حدیث کہتے ہیں:
أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْعِلْمَ ابْنُ شِہَابٍ الزُّھْرِیُّ۔
سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو جمع کیا وہ مشہور تابعی امام ابن شہاب الزہریؒ تھے۔ اس عبارت کے لفظ دَوَّنَ سے مستشرقین نے یہ غلط فہمی پھیلائی کہ احادیث کو ابن شہاب زہری ؒ نے خود تصنیف کیا۔حالانکہ یہ لفظ عربوں کے ہاں قدیم سے اسی معنی میں جانا بوجھا تھا۔ جو علماء نے دَوَّنَ کہہ کرلیا۔یوں یہ غلط فہمی پھیلا دی گئی کہ احادیث کو اس طرح تصنیف کیا گیا ہے جس طرح میز کو ہلا کر (Gospal Writers)نے اپنے اندازے سے انجیل صدیوں بعد لکھی۔ ظاہر ہے لفظ تدوین کا یہ غلط مفہوم ہے۔تغلیط وتحریف تو اہل کتاب کا خاصہ ہے۔ یہ انہی کی کرم فرمائی ہے کہ اپنی میراث پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد یہاں بھی انہوں نے نقب لگانے کی کوشش کی مگر{ إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ} بھی ہے۔ علماء حدیث نے لفظ تصنیف اور تدوین کا لغوی معنی ومفہوم یہ پیش کیا:
تصنیف :
عربی زبان میں ایک کو دوسرے سے جدا کرنے کو کہتے ہیں۔نیز اس کاوش کو بھی تصنیف کہتے ہیں جس میں چیدہ چیدہ ذاتی معلومات کو اپنے الفاظ میں مرتب کرلیا جائے۔ یعنی یہ معلومات انسان اردگرد سے لے اور پھر انہیں اپنے الفاظ میں ڈھال کرجمع کرلے۔انگریزی میں اس کا معنی(To Compose, to Forge a lie) بھی لکھا ہے۔
تدوین:
ترتیب دینا۔ دیوان بھی اسی سے ہے جس کا معنی ہے : کتب و اشعار وقصائد کا مرتب مجموعہ یا جمع شدہ۔ عرب کہتے ہیں: دَوَّنَہُ أَیْ جَمَعَہُ۔ اس نے معلومات کو جمع ومرتب کردیا۔ اس میں جامع کے اپنے الفاظ نہیں ہوتے۔انگریزی میں اس کا معنی ( to make a selection of work, Collection)لکھا ہے۔
٭…عربی زبان میں لفظ تدوین باب تفعیل سے ہے جس میں ابتداء کرنا اور مأخذ بنانا کے معنی بھی آتے ہیں۔تدوین سے مراد ترتیب دینا اور رجسٹر تیارکرنا ہے۔ اس سے مراد جمع کرنا یا لکھنا نہیں ہے بلکہ تابعین نے صحابہ کرام کے لکھے مسودات حدیثیہ کو حاصل کیا۔ اور دیگر صحابہ سے سنی احادیث کا ان میں اضافہ کرکے ترتیب دے دیا یہی کام تبع تابعین نے تابعین کے لکھے صحف اورمسودات کو اپنی مسموعہ احادیث کے ساتھ مرتب کردیا۔
مراحل تدوین:
تدوین حدیث کے کل تین مراحل ہیں جواس تاریخ کو اپنے اندر سموتے ہیں کہ حدیث رسول کس طرح مرحلہ وار تاریخی اور تحقیقی معیارات سے گذر کر ہم تک پہنچی۔ اور امین وصادق علماء کے ذریعے پہنچی جن پر اعتبار کرناشاید اس اعتبار سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے جو آج کے دور میں بدعملی ، جھوٹ ، منافقت اور کینہ وحسد میں ملوث جاہل ولاتعلق لوگوں پر کیا جاتا ہے۔ اس لئے تدوین حدیث کا یہ عظیم سفر اپنی بھرپور تاریخ رکھتا ہے جس سے ہر طالب علم کا آگاہ ہونا ضروری ہے:
پہلا مرحلہ:
یہ عصرِ نبوی اور دورِ صحابہ کرام و تابعین ہے۔
دوسرا مرحلہ:
یہ دوسری وتیسری صدی ہجری کا زمانہ ہے۔ جو امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ خاص اور اصحاب خمسہ سے قبل کا ہے۔
تیسرامرحلہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا زمانہ اور ان کے بعد کا زمانہ ہے۔
٭٭٭٭٭
پہلا مرحلہ:
عصرِنبوی اور صحابہ و تابعین :
یہ سنہرا دور۔۔ جو پہلی صدی ہجری تک کا ہے۔ اس بحث وتحقیق کا محتاج تھا کہ حدیث کی روایت وحفظ کا اورآپﷺ اور صحابہ کرام کے مکتوبات کو جمع کرنے کا کتنا کام ہوا؟ تاریخ حدیث کا یہی مرحلہ ہے کہ اگر اس کے ڈانڈے رسول اللہ ﷺسے اور بعد کے محققین سے جڑتے ہیں تو پھر بات محقق ہوتی ہے کہ واقعی تدوین حدیث کا کام ہوا ہے اور اگر نہیں تو پھر (Gospel Writers ) انجیل کے مصنفین کی طرح یہ بھی چند ایسے مسودے ہیں جنہوں نے زمانہ بعد بیٹھ کرمحض ایسی مفروضہ باتیں لکھ دیں جن کا انہیں بھی یقین نہیں۔
٭… آپﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط بھیجے وہ تحریر شدہ تھے۔مصر کے شاہ مقوقس کو ایک خط لکھا جس میں اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ گذشتہ صدی ایک عیسائی گرجا میں رکھی گئی ایک قدیم کتاب کی جلد میں لگا ہوا آپ ﷺ کایہ خط ملا ہے جس کا انکشاف بھی مستشرقین نے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ بعینہ وہی نامہ مبارک ہے جو آپ ﷺ نے مقوقس کو لکھوایا تھا۔ کیونکہ اس کا عربی رسم الخط بھی آپ ﷺ کے دور کا ہے، مہر میں نام، اس کی ترتیب اور صورت بھی وہی ہے۔ اس کی تحریر بھی وہی ہے جو صحابہ وتابعین اور محدثین کی سند سے زبانی روایت ہوکر کتب حدیث میں درج ہوچکی ہے۔
نوٹ: زبانی روایت میں احتیاط اور اہل افراد کے ذریعے احادیث کی روایت ہی حدیث کے صحیح ہونے اور الہی حفاظت کے انتظام ہونے کی کتنی بڑی سچی دلیل ہے۔
٭…رسول اکرم ﷺ کے کئی ایسے صحیفے جو دعوتی اور فقہی مسائل پر مبنی خطوط ہیں وہ آپ ﷺ نے بادشاہوں ، حکمرانوں، قبائلی سرداروں، اپنے گورنرز، عمال اور قاضیوں کو لکھے۔ کئی تحریری معاہدے اور عہد وپیمان کئے اور لکھ کر دئے۔ بیشتر تحریریں ایسی لکھوائیں جن میں معافی نامے اور زمین کی ملکیت دینے کی تھیں۔ان میں کچھ دستیاب بھی ہوگئے جن کی فوٹو شائع ہوچکی ہیں۔ ایسے رجسٹر تیار کروائے جن میں عام مسلمانوں اور مجاہدین کے نام درج ہوں تاکہ ان میں غنائم اور اموال تقسیم ہو سکیں اور شہداء کا علم بھی ہو۔ اپنے سفراء کا رجسٹر بھی تیار کروایا۔ غلامی سے آزادی اور قرض وبار کے بوجھوں کی ضمانت کے نامے لکھوائے۔ خطبوں اور مختلف احادیث کی کتابت بھی کرائی۔ ان سب کا انکشاف گو پچھلی صدی عیسوی میں ہوا ہے جو محدثین کرام کی انتہائی محتاط زبانی روایت وثقاہت کے شواہد ہیں اور سبھی مرفوع احادیث ہیں۔ صحیفۂ صحیحہ، صحیفہ ٔصادقہ، مقوقس کو آپﷺ کا لکھا ہوا خط اور خلافت عثمانی کا لکھا ہوا قرآن یہ سب آج بھی موجود ہیں ۔
٭… سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا لکھا صحیفۂ حدیث جس میں زکاۃ کے احکام تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کتاب الجہاد میں کیا ہے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا صحیفہ تو معروف ہی تھا جس میں زکاۃ، صدقات، دیت، حرمت ِمدینہ، خطبہ حجۃ الوداع اور اسلامی دستور کے اہم نکات تھے۔محمد بن الحنفیہ جو سیدنا علی رضی اللہ کے بیٹے ہیں ان کے پاس یہ صحیفہ تھا۔ پھر امام جعفرؒ کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر دیا۔(صحیح بخاری: ۱۱۱)
٭…ڈاکٹر مصطفی اعظمی کاکام Studies In Early Hadith Literatureبھی بہت اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے ۔مشہور مستشرق اے جے آربری کی زیر نگرانی یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ جس میں پچاس سے زائد صحابہ کرام اور ڈیڑھ سو سے زائد تابعین کرام کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حدیثی مواد کے ثبوت فراہم کئے ہیں۔
٭…یوں اس نسل کے مجموعہ ہائے حدیث مرتب ہوگئے جن میں صحیفہ ہمام بن منبہ ، صحیفہ معمر بن راشدجسے ان کے شاگرد امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں جمع کیا اور وہ مسند احمد میں بھی آگیا ہے۔کے علاوہ بے شمار تابعین کے لاتعداد مجموعوں کی دنیا کی مختلف لائبریریوں میں موجودگی ایک حقیقت ہے جن میں کچھ شائع ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ کا صحیفہ ہمام بن منبہ کی تحقیق پر قیمتی نوٹ اور الْوَثَائِقُ السِّیَاسِیَّۃُ میں آپ ﷺ کے خطوط، معاہدات ، اور خلفاء اربعہ کے معاہدات وغیرہ کا تذکرہ اہل ایمان کے یقین کے لئے کافی ہیں۔وہ لکھتے ہیں: صحیفہ ہمام کے نودستیاب مخطوطوں سے خود اس کا بھی یقین ہوجاتا ہے کہ امام احمد ؒبن حنبل نے پوری علمی دیانت سے صحیفہ ہمام کے متعلق اپنی معلومات محفوظ کی ہیں انہیں کیا خبر تھی کہ ان کی وفات کے ساڑھے گیارہ سو سال بعد ان کی لکھی حدیث کی توثیق اس طرح ہوگی۔ اگر انہوں نے صحیفہ ہمام کی حد تک جعل سازی نہیں کی تو اپنی مسند کے باقی اجزاء میں بھی عمداً کوئی ایسی بددیانتی نہیں کی ہوگی۔(صحیفہ ہمام بن منبہ اردو ترجمہ از بیکن بکس، ص:۵۸) اسی طرح امام اوزاعی، سفیان ثوری، ابن وردان کے صحف حدیثیہ بھی قابل ذکر ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور مجموعہ امام مالک ؒ کی موطأ ہے جو دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ہی جمع کرلیا گیا تھا۔
٭…الحمد للہ ہمارے دور کی چند ممتاز شخصیات نے اس موضوع پر علمی و تحقیقی کام پیش کرکے ایسے توہمات کو یقین میں بدل دیا ہے ان میں ایک راہنماکوشش ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی کی ہے جنہوں نے (Hadith Literature)کتاب لکھی اور مستشرقین کے سوالات واعتراضات کا بہت محققانہ جواب دیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے مجموعۃ الوثائق السیاسیہ لکھ کر اور صحیفہ ہمام بن منبہ کو ایڈٹ کرکے علم کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور خطوط ِنبوی ودیگر تحریری معاہدات ورسائل کو شائع کرکے روایت وحفاظت ِحدیث کے ایسے ٹھوس دلائل فراہم کردئے کہ شر اپنا منہ دیکھتا رہ گیا۔
٭… ان معاصر مسلم علماء کی ان کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ استشراق اپنی تمام تر محرف تحقیق اور تنقید کے اپنا منہ دیکھتا رہ گیا۔کیونکہ ان کے نام نہاد سوالات اور تحقیقات ان علماء کے انکشافات کے بعد اپنی قدر کھو بیٹھے اور حدیث رسول ایک بار پھر توانا ہوگئی اور اس کی خدمات میں اضافہ ہوگیا۔
٭٭٭٭٭
تابعین:
ہر وہ شخص جو صحابی ٔرسول کو حالت ایمان میں ملا ہوخواہ عرفی صحبت نہ ہی ہو۔نیز حالت ایمان میں ہی وہ فوت ہوا ہو۔اسے تابعی کہتے ہیں۔ائمہ حدیث اس آیت میں لفظ اتبعوہم کا مصداق اسی نسل کے مسلمانوں کو ہی سمجھتے ہیں۔
{وَالسَّابِقُوْنَ الْأوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانِ۔۔}
پہلے سبقت لے جانے والے مہاجرین وانصار اور وہ لوگ جنہوں نے بڑی خوش دلی سے ان کی اتباع کی۔۔(التوبۃ۱۰۰)
یہ نسل براہ راست صحبت ِصحابہ سے مستفید ہوئی جسے روایت حدیث میں خاص اہمیت حاصل ہے ۔ا س نسل کی ذمہ داریاں نئی تھیں۔ مختلف گروہ اور فتنے نیز ان کے دعاۃ پھر ان کی تدلیس وتلبیس سبھی حدیث کی مزید حفاظت کے متقاضی تھے۔تابعین نے نوواردوں کی پھیلائی گرد وغبار کو جھاڑا اوران کی بدبودار تحریروں کا جواب دیا۔ کیونکہ یہ ان کے شاگرد تھے جنہوں نے بہترین زمانہ پایا۔ صحابہ کرام کے بعد انہی کا درجہ اسی لئے توہے۔تابعین نے ان احادیث کو جمع کیا جو انہوں نے صحابۂ رسول سے سنی تھیں نیز ان کے فتاوی کو بھی ان مجموعوں میں شامل کیا۔یوں اپنے لئے مجموعے مرتب کئے۔ ڈیڑھ سو سے زائد تابعین کے ذاتی مجموعہ ہائے حدیث کا انکشاف ہوچکا ہے۔ اس نسل میں چونکہ کچھ ایسے بھی پائے گئے جو عقل کے مارے اور گروہی سیاست ونفرت کا شکار تھے اس لئے ان کی روایت محدثین کھنگالتے اور نقد وتبصرہ کے بعد اس پر اپنا فیصلہ صاد کرتے ہیں۔
تابعین کا زمانہ ۱۵۰ھ تک ہے۔اولین تابعی جو فوت ہوئے وہ ابوزید معمر بن راشد ہیں جنہیں سن (۳۰ھ) تیس ہجری میں خراسان میں شہید کردیا گیا تھا۔اور آخری تابعی خلف بن خلیفہ ہیں جن کی وفات (۱۸۱ھ) ایک سو اکیاسی ہجری میں ہوئی۔
٭…گو اس زمانہ میں اسناد طویل ہوگئی تھی مگر پھر بھی اس نسل میں ثقات وغیر ثقات کی تمیز کا شعور بیدار تھا۔علماء حدیث نے ایک آوازۂ حق بلند کیااور ببانگ ِدہل کہا:
إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ۔
یہ علم( سنت وحدیث ) ایک دین ہے آنکھیں کھول کر دیکھا کرو کہ تم یہ دین کس سے سیکھ رہے ہو۔(العلل از امام احمد: ۴۱۹۹)
یہ آواز محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی تھی جس کا بلند ہونا تھا کہ دفاع ِسنت کے تیار دستے پوری ہمت سے آگے بڑھے اور کذاب ومفتری لوگوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے اور ان کی تلبیس وتدلیس کو رسوا کرنے میدان میں اتر آئے۔علم اسناد وجود میں آگیا جس کے ذریعے حدیث اور سند دونوں کی حفاظت شروع ہوگئی ۔
مخضرم تابعین:
یہ وہ لوگ ہیں جو زمانۂ رسالت میں پیدا ہوئے مسلمان بھی تھے مگر رسول اکرم ﷺ کی زیارت نہ کرسکے۔ سبط ابن العجمی نے ایسے چالیس مخضرم تابعین کے نام گنوائے ہیں۔
فقہائے مدینہ:
یہ مدینہ کے وہ سات فقہاء ہیں جنہیں علمی وفقہی اعتبار سے دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔ ان میں:
۱۔داماد سید نا ابوہریرہؓ امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ(۱۵۔۹۴ھ)،
امام قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق(۳۷۔۹۹ھ)،
امام عروۃ بن زبیر(۹۴ھ)،
خارجہ بن زید بن ثابت(۲۹۔۹۹ھ)،
سلیمان بن یسار (۳۴۔۱۰۷ھ)،
عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود ہذلی(۹۸ھ)،
ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف(۹۴ھ)،
سالم بن عبد اللہ بن عمر(۱۰ھ)
یا بعض کے نزدیک
ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی(۹۴ھ)۔
ثقاہت ِتابعی:
محدثین کرام نے قبول روایت کے لئے تابعی کا ثقہ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔جیسے امام اعمشؒ کو طبقۂ تابعین میں امام مسلم ؒنے لکھا ہے کیونکہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حرم پاک میں مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا تھا گو ان کا سماع ثابت نہیں مگر لقاء اور حفظ وثقاہت امام مسلم ؒکے نزدیک مسلّم ہے۔
طبقات تابعین:
امام حاکمؒ نے ان علماء کے پندرہ طبقات لکھے ہیں مگر دیگر علماء نے انہیں تین میں جمع کردیا ہے۔
طبقہ اولی:
یہ وہ کبار تابعین ہیں جنہوں نے کبار صحابہ سے روایت کی اور علم رسول حاصل کیا۔جیسے سعید بن المسیب اور فقہاء سبعہ شامل ہیں۔
طبقہ ثانیہ:
تابعین کا یہ درمیانہ طبقہ ہے جیسے حسن بصری اور ابن سیرین وغیرہ جنہوں نے بعض صحابہ سے روایات کیں اور کچھ دوسرے صحابہ نے انہیں احادیث لکھ کربھیجیں۔
طبقہ ثالثہ:
یہ صغار تابعین کا طبقہ ہے جنہوں نے صغار صحابہ سے احادیث روایت کیں۔ ایسے تابعین نے انہیں کم سنی میں ہی پایا ۔
٭…امام احمد اور اہل مدینہ کے نزدیک سب سے افضل تابعی امام سعید ؒبن المسیب ہیں۔ اہل کوفہ اویسؒ قرنی کو خیر التابعین کہتے ہیں اور اہل بصرہ حسن بصری کو۔فرق صرف یہ ہے کہ امام احمد ؒ علم وروایت حدیث میں سعید بن المسیب کو افضل قراردے رہے ہیں اور اہل کوفہ صلاح وزہد میں۔
خواتین تابعیات میں سیدہ حفصہ بنت سیرین(م:۱۰۰ھ) ، عمرہ بنت عبد الرحمن(۱۰۰ھ) اور ام الدرداء (م:۸۱ھ) جن کا ہجیمہ تھا ،ہیں۔
فائدہ:
تابعین کی معرفت کا فائدہ یہ ہے کہ: ہم مرسل روایت کو متصل روایت سے ممیز کرسکتے ہیں۔اور اس نسل کے فقہاء تابعین کے منہج ِفقہ اور فتاوی واجتہاد کو بھی بخوبی جان سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
دوسرا مرحلہ:
عصرِ بنو امیہ:
اسلامی سلطنت کا دائرہ کار جب وسیع ہوا اور ملک وسلطنتیں فتح ہوئیں ، صحابۂ رسول علمِ نبوی کی میراث بانٹنے انہی علاقوں میں جا آباد ہوئے ۔مغرب ومشرق کا فرق یا سیاسی ومعاشرتی ارتقاء ان پر اثر انداز نہ ہوسکا۔خود عادل تھے اس لئے یہ خیرات بھی انہوں نے صرف ان میں بانٹی جو صدق، امانت، دیانت اور ثقاہت میں اعلیٰ درجے پر تھے۔ جن کی اکثریت خلیفۂ راشد کی ہدایت پر یہ کام کر رہی تھی اور کچھ اپنی دعوتی دل چسپی سے بھی شغف رکھے رہی۔ ہر خلیفۂ وقت نے زیادہ اہم امور نمٹانے میں وقت گذارا۔ اس لئے کہ دینی امور نمٹانے کے لئے صحابۂ رسول تا حال حیات تھے۔ گوحدیث رسول کو ان ادوار میں خلافتی سرپرستی تو حاصل نہ ہوسکی مگر ایسا بھی نہیں ہوا کہ کسی حکمران یا خلیفہ کے لئے حدیث گھڑی گئی ہو۔دیگر فتنوں کے سر اٹھانے کی وجہ سے توجہ قرآن کے جمع کرنے اور فتنوں کو دبانے میں رہی۔خوارج اور علویوں کے فتنے بھی تدوین حدیث کے کام میں رکاوٹ بنے رہے۔ تا آنکہ وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے خلافت عمر ثانی کے مختصر عہد میں یہ عظیم الشان کام لے لیا۔
خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی تدوینی کوشش:
سیدنا عمر بن عبد العزیز علم حدیث میں گو امام زہری ؒ سے کم نہیں تھے مگر خلافتی امور کے ہمراہ وہ تدوین حدیث کے امور کو بھی درد دل سے نمٹانا چاہتے تھے۔ سیدنا عمرؓ فاروق کے اصرار پر قرآن جمع ہوا اور عمربن عبد العزیزؒ کے اصرار پر احادیث۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عمروں سے دین کی دو اہم بنیادوں کا عظیم الشان کام لیا۔
٭…سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنی سلطنت کے عمال وعلماء کو جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاسداران حکومت کو اہل علم حضرات کی ہر اس کوشش کی حمایت ومدد کرنے کا احساس دلاتے ہیں جو سنت ِرسول کی ترویج واشاعت کا باعث بن سکتی ہے۔ عکرمہؒ بن عمار کہتے ہیں: میں نے جناب عمر بن عبد العزیز ؒ کا خط سنا جس میں انہوں نے فرمایا تھا:
أَمَّا بَعْدُ! فَآمُرُوْا أَہْلَ الْعِلْمِ أَنْ یَنْتَشِرُوْا فِیْ مَسَاجِدِہِمْ، فَإِنَّ السُّنَّۃَ کَادَتْ قَدْأُمِیْتَتْ۔
اہل علم کو حکم دو کہ وہ اپنے علاقوں کی مساجد میں پھیل جائیں اور علم حدیث کو پڑھائیں اس لئے کہ سنت کہیں ختم نہ ہوجائے۔
علماء کو انہوں نے نصیحت کی:
وَلْیَفْشُوا الْعِلْمَ، وَلْیَجْلِسُوْا حَتّٰی یَعْلَمَ مَنْ لاَ یَعْلَمُ، فَإِنَّ الْعِلْمَ لاَ یَہْلِکُ حَتّٰی یَکُوْنَ سِرًّ ا۔
علم حدیث کو علماء پھیلائیں، اور وہ اس غرض کے لئے مجلسیں برپا کریں تاکہ جو علم نہیں رکھتا اسے علم ہوجائے کیونکہ علم ختم ہی تب ہوتا ہے جب وہ ایک راز بن جائے۔(فتح الباری۱؍۷۶)
٭… انہوں نے علماء کے لئے بیت المال سے ایک مشاہرہ مقرر فرمایا جو ان کی ذاتی ضروریات کو پورا کرسکے تاکہ وہ معاش کی فکر سے آزاد ہو کرعلم پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف ہوں۔والیٔ حمص کو انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا:
مُرْ لِأَہْلِ الصَّلاَحِ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ مَا یَقِیْتُہُمْ لِئَلاَّ یُشْغِلُہُمْ شَیْئٌ عَنْ تِلاَوَۃِ الْقُرْآنِ، وَمَا حَمَلُوْا مِنَ الْحَدِیْثِ۔
بیت المال کے اہل خیر حضرات کو حکم دو کہ وہ ان علماء کواتنا دیں کہ اپنا گذارہ کرلیں تاکہ کوئی چیز بھی انہیں تلاوت قرآن سے اور حدیث کی راہ میں اٹھائی جانے والی مشقتوں سے نہ روک سکے۔(شرف اصحاب الحدیث:۶۴)
٭… سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کی شاندار اور نمایاں ترین خدمت سنت یہ ہے کہ انہوں نے مملکت کے چاروں طرف حدیث کو جمع کرنے اور مدون کرنے کے بارے میں یہ سرکاری حکم بھیجا :
اُنْظُرُوْا حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَأَجْمِعُوْہُ۔
حدیث ِرسول ﷺ تلاش کرو اور اسے جمع کرو۔(فتح الباری۱؍۲۰۴)
٭… اہلِ مدینہ کو انہوں نے لکھا:
اُنْظُرُوْا حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَإِنِّی خِفْتُ دُرُوْسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَ الْعُلَمَائِ۔
مدینہ والو! حدیث کو تلاش کرو، مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔(سنن دارمی )؍۱۲۶)
٭…مدینہ کے گورنر جناب ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم (م:۱۱۷ھ) کو لکھا:
اُکْتُبْ إِلَیَّ بِمَا ثَبَتَ عِنْدَکَ مِنَ الْحَدِیْثِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَبِحَدِیْثِ عُمْرَۃَ، فَإِنِّیْ خَشِیْتُ دُرُوْسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَہُ۔
مجھے وہ احادیث رسول لکھ بھیجئے جو آپ کے نزدیک مصدقہ ہوں اور سیدہ عمرۃ کی احادیث بھی لکھ بھیجئے کیونکہ میں علم کے مٹ جانے اور اس کے ختم ہوجانے کا خوف رکھتا ہوں۔(الطبقات الکبری لابن سعد ۲؍۱۳۴)
ایک اور روایت میں ہے :
مجھے عمرۃ بنت عبدالرحمن (خالہ ابوبکربن حزم)(م: ۱۱۷ھ)اور القاسم بن محمد(م: ۳۷۔۹۹ھ) کی احادیث لکھ کر بھجوائیے۔سو انہوں نے لکھ کر بھجوادیں۔(مقدمۃ کتاب الجرح والتعدیل:۲۱)۔یہ عمرۃ، سیدہ عائشہ ام المؤمنین ؓ کی سب سے بڑی شاگردہ تھیں۔ام المؤمنین سے عمرۃ کی روایات کا سرمایہ ابوبکر بن حزم کے پاس محفوظ تھا۔اس لئے ابوبکر کو سیدنا عمر بن عبد العزیز نے بطور خاص اس کا حکم دیا۔ ایک اور روایت میں ہے:
مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے ختم ہوجانے کا غم ہے۔ کوئی شے بھی قبول نہ کی جائے سوائے حدیث ِرسول کے۔
٭…ان خطوط کے بعد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے امام ابن شہابؒ الزہری کو حکم دیا کہ وہ ان گورنرز سے احادیث کو اکٹھا کرکے ایک دیوان کی شکل دیں۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے ان تمام تحریروں کو یکجا لکھ کر یہ کام عین ۱۰۰ھ میں کر دکھایا۔یہ پہلی تصنیف تھی جو باقاعدہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی ہدایت اور نگرانی میں اہل اسلام کو نصیب ہوئی۔اور جس کے نسخے لکھوا کر سلطنت کے مختلف گورنرز کو بھیجے گئے۔
معاونین:
جن ذمہ دار اہل علم کو اس منصوبے کا اہل سمجھا گیا ۔ اس میں شامل حضرات کی یہ ٹیم ابوبکر بن محمد، القاسم بن محمد اور ابن شہاب زہری پر مشتمل تھی۔جن کی صلاحیت واہلیت کو وقت کے علماء نے چیلنج نہیں کیا بلکہ انہیں اس کا اہل سمجھا اورعلماء وفضلاء نے عزت وتکریم دی۔علمی رعب ودبدبے کے علاوہ ان کی علم دوستی ہی تھی جو رب کریم نے عام افراد معاشرہ کے قلوب میں محبت کی صورت میں پیدا کردی تھی۔
ابوبکر بن محمدبن عمرو بن حزم:
ان کے بارے میں صحابی ٔرسول سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:میں نے ابوبکرؒ بن محمد جیسا صاحب مروئت اور مکمل انسان نہیں دیکھا۔ مدینہ کے وہ کیا والی بنے کہ قضاء اور موسم حج کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔عمرۃؒبنت عبد الرحمن کے بھانجے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے انہی کے دادا محترم سیدنا عمرو ؓبن حزم کو ۔۔ یمن کے گورنر۔۔ خط لکھا تھا جس میں سنن، فرائض اور دیگر احکام شامل تھے۔ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ نے اس قیمتی دستاویز کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان کے نام اکیس دیگر فرامین نبوی ﷺ بھی ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے فراہم کئے۔ جنہیں ابن طولونؒ نے اپنی کتاب إعلام السائلین عن کتب سید المرسلین میں بطور ضمیمہ کے شامل کردیا تھا اور جو اب چھپ چکی ہے۔
القاسمؒ بن محمد بن ابی بکر (م: ۳۷۔۹۹ھ) مدینہ کے چیدہ فقہاء سبعہ میں سے تھے۔ اپنے دور کے ایک سربرآوردہ عالم وامام تھے۔اپنی پھوپھی محترمہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے علم حاصل کیا۔
امام ابن شہابؒ زہری(م: ۱۲۴ھ) یہ زہری ؒ کون ہیں ؟ اورتمہیں کیا معلوم کہ زہریؒ کون ہیں؟ اس ٹیم کے روح رواں ممبر جن سے سلاطین بھی مرعوب رہتے تھے۔ جنہوں نے احادیث رسول کو جمع کیا اور لکھا بھی۔ ائمہ حفاظ میں سے ہیں۔صرف اسی راتوں میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ فرماتے ہیں:
مَا اسْتَعَدْتُّ حَدِیْثاً قَطُّ، ولاَ شَکَکْتُ فِیْ حَدِیْثٍ قَطُّ، إِلاَّ حَدِیْثاً وَاحِداً، فَسَأَلْتُ صَاحِبِیْ فَإِذَا ہُوَ کَمَا حَفِظْتُ۔
میں نے کبھی کسی حدیث کی تیاری نہیں کی اور نہ ہی کسی حدیث کے بارے میں مشکوک ہوا، سوائے ایک حدیث کے ۔ میں نے اس کے بارے اپنے ساتھی سے پوچھا تو وہ ویسے ہی تھی جیسے مجھے یاد تھی۔
مَااسْتَوْدَعْتُ قَلْبِیْ شَیْئاً ۔۔قَطُّ۔۔فَنَسِیْتُہُ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کوئی شے اپنے دل کے سپرد کی اور میں اسے بھول گیاہوں۔
اثنائے طلب ِعلم انہوں نے احادیث ِرسول اور آثار ِصحابہ کو یا دکیا اورلکھا ۔فرمایا کرتے: میں نے دو لاکھ احادیث اپنے ہاتھ سے لکھیں۔دس برس ممتاز فقیہ اور تابعی کبیر سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی صحبت میں گذارے۔حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے معاصرین میں عالی مقام رکھتے تھے۔صالح ؒبن کیسان کہتے ہیں:
کُنْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ أَنَا وَالزُّہْرِیُّ، فَنَکْتُبُ السُّنَنَ فَکَتَبْنَا مَا جَائَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ: تَعَاَلَ نَکْتُبُ مَا جَائَ عَنِ الصَّحَابَۃِ۔ قَالَ: فَکَتَبَ وَلَمْ أَکْتُبْ فَأَنْجَحَ وَضَیَّعْتُ۔
میں اور زہری طالب علم تھے ہم سنن لکھا کرتے اور جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے مروی تھا اسے بھی لکھا۔ پھر زہریؒ نے کہا: آؤ اب ہم وہ لکھیں جو صحابۂ رسول سے مروی ہے۔ صالح کہتے ہیں: انہوں نے لکھا اور میں نے اسے نہ لکھا۔ وہ کامیاب رہے اور میں ضائع ہوگیا۔
امام ابوبکر الہذلیؒ کہتے ہیں:
قَدْ جَالَسْتُ الْحَسَنَ وَابْنَ سِیْرِیْنَ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَداً أَعْلَمَ مِنْہ یَعْنِی الزُّہْرِیَّ۔
میں حسن بصری اور ابن سیرین کی صحبت میں بیٹھا مگر ان میں کسی کو ابن شہاب سے بڑھ کر علم حدیث میں نہ پایا۔(تہذیب الکمال۲۶؍۴۳۷)
امام اللیثؒ بن سعد فقیہ ِمصرفرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ عَالِماً قَطُّ یُحَدِّثُ أَجْمَعَ مِنِ ابْنِ شِہَابٍ، وَلاَ أَکْثَرَ عِلْماً مِنْہُ۔ لَوْ سَمِعْتَ ابْنَ شِہَابٍ یُحَدِّثُ فِی التَّرْغِیْبِ لَقُلْتَ لاَ یُحْسِنُ إِلاَّ ہٰذَا وَإِنْ حَدَّثَ عَنِ الْعَرَبِ وَالْأَنْسَابِ قُلْتَ: لاَ یُحْسِنُ إِلاَّ ہٰذَا، وَإِنْ حَدَّثَ عَنِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ کَانَ حَدِیْثُہُ نَوْعاً جَامِعًا۔
میں نے کسی عالم کو نہیں دیکھا جو ابن شہاب سے بڑھ کر حدیث کو جامع انداز سے پیش کرتا ہو او ر نہ ہی ان سے بڑھ کر کسی اورکو عالم دیکھا۔اگر تم ابن شہاب سے احادیث ترغیب سنو تو تم ضرور یہ کہو کہ یہی ہیں جو اسے جچتے ہیں۔ اور اگر عربوں اور ان کے انساب کے بارے میں وہ کلام کریں تو تم یہی کہو کہ یہی اس کا حق ادا کرسکتے ہیں اور اگر وہ قرآن و سنت پیش کریں تو ان کی گفتگو جامع نوعیت کی ہوتی۔ (تہذیب الکمال۲۶؍۴۳۶)
یہی امام اللیثؒ، جعفرؒ بن ربیعہ کی وساطت سے فرماتے ہیں: میں نے عراکؒ بن مالک سے کہا:
مَنْ أَفْقَہُ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ؟ قَالَ: أَمَّا أَعْلَمُہُمْ بِقَضَایَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَقَضَایَا أَبِیْ بَکْرٍ، وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، وَأَفْقَہَہُمْ فِقْہاً، وَأَعْلَمَہُمْ بِمَا مَضَی مِنْ أَمْرِ النَّاسِ فَسَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ، وَأَمَّا أَغْزَرَہُمْ حَدِیْثًا فَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ وَلَا تَشَأُ أَنْ تُفَجِّرَ مِنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بَحْرًا إِلاَّ فَجَّرْتُہُ۔ قَالَ عِرَاکٌ: وَأَعْلَمُہُمْ جَمِیْعاً عِنْدِیْ مُحَمَّدُ بْنُ شِہَابٍ، لِأَنَّہُ جَمَعَ عِلْمَہُمْ إِلٰی عِلْمِہِ۔
اہل مدینہ میں اب کون بڑا فقیہ ہے؟ انہوں نے کہا: رہا یہ کہ کون رسول اکرم ﷺ ، ابو بکر صدیق، اور عمر وعثمان کے فیصلہ جات کے بارے میں سب سے زیادہ آگاہ ہے اور یہ بھی کہ ماضی قریب کے واقعات کا بڑا عالم کون؟ تو وہ سعید بن المسیب ہیں حدیث کا گہرا علم رکھنے والے عروہ بن زبیر۔ اور تم عبید اللہ بن عبد اللہ کے بارے چاہو کہ اس سمند کو میں پھاڑوں تو تم واقعی اسے پھاڑوگے۔ عراک کہتے ہیں اور ان تمام کے مقابلے میں میرے نزدیک سب سے بڑے عالم ابن شہاب زہری ہیں جنہوں نے ان تمام حضرات کا علم اپنے علم میں جمع کرلیا تھا۔ (تہذیب الکمال ۲۶؍ ۴۳۵)
امام مکحولؒ انہیں یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
مَا بَقِیَ عَلٰی ظَہْرِہَا أَحَدٌ أَعْلَمَ بِسُنَّۃٍ مَاضِیَۃٍ مِنَ الزُّہْرِیِّ۔
زمین کی پشت پر سنت ماضیہ کا عالم اب زہریؒ سے بڑھ کر کوئی باقی نہیں رہا۔
مشہور تابعی عمرو بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَنَصَّ لِلْحَدِیْثِ مِنَ الزُّہْرِیِّ، وَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا، اَلدِّیْنَارُ وَالدِّرْہَمُ أَہْوَنُ عَلَیْہِ مِنْہُ۔ مَا کَانَ الدَّنَانِیْرُ وَالدَّرَاہِمُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِمَنْزِلَۃِ الْبَعْرِ۔
زہری سے بڑھ کر میں نے کسی کو نصِ حدیث کا خیال کرنے والا نہیں پایا اور دینار ودرہم کو غیر اہم سمجھنے والا ان سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں پایا۔ ان کے نزدیک تودینار ودرہم جانور کی مینگنی کی حیثیت رکھتے تھے۔
سیدنا عمربن عبد العزیز ؒنے علماء کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
عَلَیْکُمْ بِابْنِ شِہَابٍ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَجِدُوْنَ أَحَداً أَعْلَمُ بِالسُّنَّۃِ الْمَاضِیَۃِ مِنْہُ۔
ابن شہابؒ سے فائدہ اٹھاؤ تم ان سے بڑھ کر سنت ِماضیہ کا عالم کسی کو بھی نہ پاؤ گے۔ (الإرشاد فی معرفۃ علماء الحدیث از خلیلی ۱؍۱۸۹)
ان خطوط کے اثرات:
خلیفۂ راشد کے ان بے بہا خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا مقصددین اسلام کے اصل مآخذ کی حفاظت اور شعائر کا احیاء ہے۔ علم حدیث کے بقاء کی فکر لئے اس خلیفہ محترم نے سرمایہ ٔ حدیث کو جمع کرنے کا کام سرانجام دیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے{ثم إن علینا بیانہ} پھر اس قرآن کے بیان کی ذمہ داری ہم پر ہے ۔ کے ذریعے اسے دوام بخش دیا۔اس خدمت سے قبل یہی علم ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مساجد ہی اس کی تعلیم وتعلّم کا مرکز تھیں۔ اس منتشر علم کو سمیٹنا مقامی امراء کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لئے خلیفۂ وقت نے خصوصی توجہ دے کر علماء واصدقاء میں یہ تڑپ پیدا کردی کہ اس سرمایۂ حیات کو واقعتاً جمع کیا جائے۔جونہی انہیں خلیفۂ راشد جناب عمر بن عبد العزیز ؒ کا خط ملا انہوں نے اس کا عملی نفاذ کرڈالا۔ فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بِجَمْعِ السُّنَنِ، فَکَتَبْنَاہَا دَفْتَرًا دَفْتَرًا، فَبَعَثَ إِلَی کُلِّ أَرْضٍ لَہُ عَلَیْہَا سُلْطَانٌدََفْتَرًا ۔
ہمیں عمر بن عبد العزیز نے سنن واحادیث کو جمع کرنے کا حکم دیاتو ہم نے ان کی کئی نقلیں تیار کیں پھر جہاں جہاں ان کی حکومت تھی وہاں ہر جگہ ایک ایک مجموعہ بھیجا۔(جامع بیان العلم ۱؍۷۶)
٭…خلیفۂ راشد نے یہ عظیم تاریخی کارنامہ سرانجام دینے کی مہم امام زہریؒ کے سپرد کی۔ کیوں؟ خلیفۂ راشد کا یہ انتخاب ان پر کس قسم کا اعتماد ظاہر کرتا ہے؟ کیا ان کی نظر میں دوسرے علماء وفضلاء نہیں تھے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ علمِ حدیث پر گہری نظر ہونے کی بناء پر خودخلیفہ کومعاصرین میں کوئی ایسا نظرنہ آیا جو اس دقیق فن میں اپنی پوری مہارت وبصیرت وقف کرکے حدیث کو جمع کرسکے اور جس کے حافظہ پر اعتماد کیا جاسکے۔یہی معنی ہے مورخین اور علماء کے اس قول کا:
أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْعِلْمَ ابْنُ شِہَابٍ ۔
سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو مدون کیا وہ ابن شہاب زہریؒؒتھے۔ یعنی سرکاری طور پر ذمہ دار حکمرانوں کی طرف سے جس نے سب سے پہلے علم حدیث کو مدون کیا وہ آپ ہی تھے۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ آپ نے احادیث کیوں لکھیں؟ تو جواب میں انہوں نے یہ فرمایا:
إِنَّ ہٰؤُلاَئِ الْأُمَرَائُ أَکْرَہُونَا عَلَی کِتَابَۃِ الأَحَادِیْثِ ۔
کہ ان امراء نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم احادیث کو لکھیں ۔ یعنی جمع کرکے اسے مرتب کردیں۔
تدوین سے مراد:
٭…امام زہریؒ کے بارے میں علماء حدیث کہتے ہیں:
أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْعِلْمَ ابْنُ شِہَابٍ الزُّھْرِیُّ۔
سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو جمع کیا وہ مشہور تابعی امام ابن شہاب الزہریؒ تھے۔ اس عبارت کے لفظ دَوَّنَ سے مستشرقین نے یہ غلط فہمی پھیلائی کہ احادیث کو ابن شہاب زہری ؒ نے خود تصنیف کیا۔حالانکہ یہ لفظ عربوں کے ہاں قدیم سے اسی معنی میں جانا بوجھا تھا۔ جو علماء نے دَوَّنَ کہہ کرلیا۔یوں یہ غلط فہمی پھیلا دی گئی کہ احادیث کو اس طرح تصنیف کیا گیا ہے جس طرح میز کو ہلا کر (Gospal Writers)نے اپنے اندازے سے انجیل صدیوں بعد لکھی۔ ظاہر ہے لفظ تدوین کا یہ غلط مفہوم ہے۔تغلیط وتحریف تو اہل کتاب کا خاصہ ہے۔ یہ انہی کی کرم فرمائی ہے کہ اپنی میراث پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد یہاں بھی انہوں نے نقب لگانے کی کوشش کی مگر{ إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ} بھی ہے۔ علماء حدیث نے لفظ تصنیف اور تدوین کا لغوی معنی ومفہوم یہ پیش کیا:
تصنیف :
عربی زبان میں ایک کو دوسرے سے جدا کرنے کو کہتے ہیں۔نیز اس کاوش کو بھی تصنیف کہتے ہیں جس میں چیدہ چیدہ ذاتی معلومات کو اپنے الفاظ میں مرتب کرلیا جائے۔ یعنی یہ معلومات انسان اردگرد سے لے اور پھر انہیں اپنے الفاظ میں ڈھال کرجمع کرلے۔انگریزی میں اس کا معنی(To Compose, to Forge a lie) بھی لکھا ہے۔
تدوین:
ترتیب دینا۔ دیوان بھی اسی سے ہے جس کا معنی ہے : کتب و اشعار وقصائد کا مرتب مجموعہ یا جمع شدہ۔ عرب کہتے ہیں: دَوَّنَہُ أَیْ جَمَعَہُ۔ اس نے معلومات کو جمع ومرتب کردیا۔ اس میں جامع کے اپنے الفاظ نہیں ہوتے۔انگریزی میں اس کا معنی ( to make a selection of work, Collection)لکھا ہے۔
٭…عربی زبان میں لفظ تدوین باب تفعیل سے ہے جس میں ابتداء کرنا اور مأخذ بنانا کے معنی بھی آتے ہیں۔تدوین سے مراد ترتیب دینا اور رجسٹر تیارکرنا ہے۔ اس سے مراد جمع کرنا یا لکھنا نہیں ہے بلکہ تابعین نے صحابہ کرام کے لکھے مسودات حدیثیہ کو حاصل کیا۔ اور دیگر صحابہ سے سنی احادیث کا ان میں اضافہ کرکے ترتیب دے دیا یہی کام تبع تابعین نے تابعین کے لکھے صحف اورمسودات کو اپنی مسموعہ احادیث کے ساتھ مرتب کردیا۔
مراحل تدوین:
تدوین حدیث کے کل تین مراحل ہیں جواس تاریخ کو اپنے اندر سموتے ہیں کہ حدیث رسول کس طرح مرحلہ وار تاریخی اور تحقیقی معیارات سے گذر کر ہم تک پہنچی۔ اور امین وصادق علماء کے ذریعے پہنچی جن پر اعتبار کرناشاید اس اعتبار سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے جو آج کے دور میں بدعملی ، جھوٹ ، منافقت اور کینہ وحسد میں ملوث جاہل ولاتعلق لوگوں پر کیا جاتا ہے۔ اس لئے تدوین حدیث کا یہ عظیم سفر اپنی بھرپور تاریخ رکھتا ہے جس سے ہر طالب علم کا آگاہ ہونا ضروری ہے:
پہلا مرحلہ:
یہ عصرِ نبوی اور دورِ صحابہ کرام و تابعین ہے۔
دوسرا مرحلہ:
یہ دوسری وتیسری صدی ہجری کا زمانہ ہے۔ جو امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ خاص اور اصحاب خمسہ سے قبل کا ہے۔
تیسرامرحلہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا زمانہ اور ان کے بعد کا زمانہ ہے۔
٭٭٭٭٭
پہلا مرحلہ:
عصرِنبوی اور صحابہ و تابعین :
یہ سنہرا دور۔۔ جو پہلی صدی ہجری تک کا ہے۔ اس بحث وتحقیق کا محتاج تھا کہ حدیث کی روایت وحفظ کا اورآپﷺ اور صحابہ کرام کے مکتوبات کو جمع کرنے کا کتنا کام ہوا؟ تاریخ حدیث کا یہی مرحلہ ہے کہ اگر اس کے ڈانڈے رسول اللہ ﷺسے اور بعد کے محققین سے جڑتے ہیں تو پھر بات محقق ہوتی ہے کہ واقعی تدوین حدیث کا کام ہوا ہے اور اگر نہیں تو پھر (Gospel Writers ) انجیل کے مصنفین کی طرح یہ بھی چند ایسے مسودے ہیں جنہوں نے زمانہ بعد بیٹھ کرمحض ایسی مفروضہ باتیں لکھ دیں جن کا انہیں بھی یقین نہیں۔
٭… آپﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط بھیجے وہ تحریر شدہ تھے۔مصر کے شاہ مقوقس کو ایک خط لکھا جس میں اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ گذشتہ صدی ایک عیسائی گرجا میں رکھی گئی ایک قدیم کتاب کی جلد میں لگا ہوا آپ ﷺ کایہ خط ملا ہے جس کا انکشاف بھی مستشرقین نے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ بعینہ وہی نامہ مبارک ہے جو آپ ﷺ نے مقوقس کو لکھوایا تھا۔ کیونکہ اس کا عربی رسم الخط بھی آپ ﷺ کے دور کا ہے، مہر میں نام، اس کی ترتیب اور صورت بھی وہی ہے۔ اس کی تحریر بھی وہی ہے جو صحابہ وتابعین اور محدثین کی سند سے زبانی روایت ہوکر کتب حدیث میں درج ہوچکی ہے۔
نوٹ: زبانی روایت میں احتیاط اور اہل افراد کے ذریعے احادیث کی روایت ہی حدیث کے صحیح ہونے اور الہی حفاظت کے انتظام ہونے کی کتنی بڑی سچی دلیل ہے۔
٭…رسول اکرم ﷺ کے کئی ایسے صحیفے جو دعوتی اور فقہی مسائل پر مبنی خطوط ہیں وہ آپ ﷺ نے بادشاہوں ، حکمرانوں، قبائلی سرداروں، اپنے گورنرز، عمال اور قاضیوں کو لکھے۔ کئی تحریری معاہدے اور عہد وپیمان کئے اور لکھ کر دئے۔ بیشتر تحریریں ایسی لکھوائیں جن میں معافی نامے اور زمین کی ملکیت دینے کی تھیں۔ان میں کچھ دستیاب بھی ہوگئے جن کی فوٹو شائع ہوچکی ہیں۔ ایسے رجسٹر تیار کروائے جن میں عام مسلمانوں اور مجاہدین کے نام درج ہوں تاکہ ان میں غنائم اور اموال تقسیم ہو سکیں اور شہداء کا علم بھی ہو۔ اپنے سفراء کا رجسٹر بھی تیار کروایا۔ غلامی سے آزادی اور قرض وبار کے بوجھوں کی ضمانت کے نامے لکھوائے۔ خطبوں اور مختلف احادیث کی کتابت بھی کرائی۔ ان سب کا انکشاف گو پچھلی صدی عیسوی میں ہوا ہے جو محدثین کرام کی انتہائی محتاط زبانی روایت وثقاہت کے شواہد ہیں اور سبھی مرفوع احادیث ہیں۔ صحیفۂ صحیحہ، صحیفہ ٔصادقہ، مقوقس کو آپﷺ کا لکھا ہوا خط اور خلافت عثمانی کا لکھا ہوا قرآن یہ سب آج بھی موجود ہیں ۔
٭… سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا لکھا صحیفۂ حدیث جس میں زکاۃ کے احکام تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کتاب الجہاد میں کیا ہے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا صحیفہ تو معروف ہی تھا جس میں زکاۃ، صدقات، دیت، حرمت ِمدینہ، خطبہ حجۃ الوداع اور اسلامی دستور کے اہم نکات تھے۔محمد بن الحنفیہ جو سیدنا علی رضی اللہ کے بیٹے ہیں ان کے پاس یہ صحیفہ تھا۔ پھر امام جعفرؒ کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر دیا۔(صحیح بخاری: ۱۱۱)
٭…ڈاکٹر مصطفی اعظمی کاکام Studies In Early Hadith Literatureبھی بہت اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے ۔مشہور مستشرق اے جے آربری کی زیر نگرانی یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ جس میں پچاس سے زائد صحابہ کرام اور ڈیڑھ سو سے زائد تابعین کرام کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حدیثی مواد کے ثبوت فراہم کئے ہیں۔
٭…یوں اس نسل کے مجموعہ ہائے حدیث مرتب ہوگئے جن میں صحیفہ ہمام بن منبہ ، صحیفہ معمر بن راشدجسے ان کے شاگرد امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں جمع کیا اور وہ مسند احمد میں بھی آگیا ہے۔کے علاوہ بے شمار تابعین کے لاتعداد مجموعوں کی دنیا کی مختلف لائبریریوں میں موجودگی ایک حقیقت ہے جن میں کچھ شائع ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ کا صحیفہ ہمام بن منبہ کی تحقیق پر قیمتی نوٹ اور الْوَثَائِقُ السِّیَاسِیَّۃُ میں آپ ﷺ کے خطوط، معاہدات ، اور خلفاء اربعہ کے معاہدات وغیرہ کا تذکرہ اہل ایمان کے یقین کے لئے کافی ہیں۔وہ لکھتے ہیں: صحیفہ ہمام کے نودستیاب مخطوطوں سے خود اس کا بھی یقین ہوجاتا ہے کہ امام احمد ؒبن حنبل نے پوری علمی دیانت سے صحیفہ ہمام کے متعلق اپنی معلومات محفوظ کی ہیں انہیں کیا خبر تھی کہ ان کی وفات کے ساڑھے گیارہ سو سال بعد ان کی لکھی حدیث کی توثیق اس طرح ہوگی۔ اگر انہوں نے صحیفہ ہمام کی حد تک جعل سازی نہیں کی تو اپنی مسند کے باقی اجزاء میں بھی عمداً کوئی ایسی بددیانتی نہیں کی ہوگی۔(صحیفہ ہمام بن منبہ اردو ترجمہ از بیکن بکس، ص:۵۸) اسی طرح امام اوزاعی، سفیان ثوری، ابن وردان کے صحف حدیثیہ بھی قابل ذکر ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور مجموعہ امام مالک ؒ کی موطأ ہے جو دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ہی جمع کرلیا گیا تھا۔
٭…الحمد للہ ہمارے دور کی چند ممتاز شخصیات نے اس موضوع پر علمی و تحقیقی کام پیش کرکے ایسے توہمات کو یقین میں بدل دیا ہے ان میں ایک راہنماکوشش ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی کی ہے جنہوں نے (Hadith Literature)کتاب لکھی اور مستشرقین کے سوالات واعتراضات کا بہت محققانہ جواب دیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے مجموعۃ الوثائق السیاسیہ لکھ کر اور صحیفہ ہمام بن منبہ کو ایڈٹ کرکے علم کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور خطوط ِنبوی ودیگر تحریری معاہدات ورسائل کو شائع کرکے روایت وحفاظت ِحدیث کے ایسے ٹھوس دلائل فراہم کردئے کہ شر اپنا منہ دیکھتا رہ گیا۔
٭… ان معاصر مسلم علماء کی ان کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ استشراق اپنی تمام تر محرف تحقیق اور تنقید کے اپنا منہ دیکھتا رہ گیا۔کیونکہ ان کے نام نہاد سوالات اور تحقیقات ان علماء کے انکشافات کے بعد اپنی قدر کھو بیٹھے اور حدیث رسول ایک بار پھر توانا ہوگئی اور اس کی خدمات میں اضافہ ہوگیا۔
٭٭٭٭٭
تابعین:
ہر وہ شخص جو صحابی ٔرسول کو حالت ایمان میں ملا ہوخواہ عرفی صحبت نہ ہی ہو۔نیز حالت ایمان میں ہی وہ فوت ہوا ہو۔اسے تابعی کہتے ہیں۔ائمہ حدیث اس آیت میں لفظ اتبعوہم کا مصداق اسی نسل کے مسلمانوں کو ہی سمجھتے ہیں۔
{وَالسَّابِقُوْنَ الْأوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانِ۔۔}
پہلے سبقت لے جانے والے مہاجرین وانصار اور وہ لوگ جنہوں نے بڑی خوش دلی سے ان کی اتباع کی۔۔(التوبۃ۱۰۰)
یہ نسل براہ راست صحبت ِصحابہ سے مستفید ہوئی جسے روایت حدیث میں خاص اہمیت حاصل ہے ۔ا س نسل کی ذمہ داریاں نئی تھیں۔ مختلف گروہ اور فتنے نیز ان کے دعاۃ پھر ان کی تدلیس وتلبیس سبھی حدیث کی مزید حفاظت کے متقاضی تھے۔تابعین نے نوواردوں کی پھیلائی گرد وغبار کو جھاڑا اوران کی بدبودار تحریروں کا جواب دیا۔ کیونکہ یہ ان کے شاگرد تھے جنہوں نے بہترین زمانہ پایا۔ صحابہ کرام کے بعد انہی کا درجہ اسی لئے توہے۔تابعین نے ان احادیث کو جمع کیا جو انہوں نے صحابۂ رسول سے سنی تھیں نیز ان کے فتاوی کو بھی ان مجموعوں میں شامل کیا۔یوں اپنے لئے مجموعے مرتب کئے۔ ڈیڑھ سو سے زائد تابعین کے ذاتی مجموعہ ہائے حدیث کا انکشاف ہوچکا ہے۔ اس نسل میں چونکہ کچھ ایسے بھی پائے گئے جو عقل کے مارے اور گروہی سیاست ونفرت کا شکار تھے اس لئے ان کی روایت محدثین کھنگالتے اور نقد وتبصرہ کے بعد اس پر اپنا فیصلہ صاد کرتے ہیں۔
تابعین کا زمانہ ۱۵۰ھ تک ہے۔اولین تابعی جو فوت ہوئے وہ ابوزید معمر بن راشد ہیں جنہیں سن (۳۰ھ) تیس ہجری میں خراسان میں شہید کردیا گیا تھا۔اور آخری تابعی خلف بن خلیفہ ہیں جن کی وفات (۱۸۱ھ) ایک سو اکیاسی ہجری میں ہوئی۔
٭…گو اس زمانہ میں اسناد طویل ہوگئی تھی مگر پھر بھی اس نسل میں ثقات وغیر ثقات کی تمیز کا شعور بیدار تھا۔علماء حدیث نے ایک آوازۂ حق بلند کیااور ببانگ ِدہل کہا:
إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ۔
یہ علم( سنت وحدیث ) ایک دین ہے آنکھیں کھول کر دیکھا کرو کہ تم یہ دین کس سے سیکھ رہے ہو۔(العلل از امام احمد: ۴۱۹۹)
یہ آواز محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی تھی جس کا بلند ہونا تھا کہ دفاع ِسنت کے تیار دستے پوری ہمت سے آگے بڑھے اور کذاب ومفتری لوگوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے اور ان کی تلبیس وتدلیس کو رسوا کرنے میدان میں اتر آئے۔علم اسناد وجود میں آگیا جس کے ذریعے حدیث اور سند دونوں کی حفاظت شروع ہوگئی ۔
مخضرم تابعین:
یہ وہ لوگ ہیں جو زمانۂ رسالت میں پیدا ہوئے مسلمان بھی تھے مگر رسول اکرم ﷺ کی زیارت نہ کرسکے۔ سبط ابن العجمی نے ایسے چالیس مخضرم تابعین کے نام گنوائے ہیں۔
فقہائے مدینہ:
یہ مدینہ کے وہ سات فقہاء ہیں جنہیں علمی وفقہی اعتبار سے دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔ ان میں:
۱۔داماد سید نا ابوہریرہؓ امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ(۱۵۔۹۴ھ)،
امام قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق(۳۷۔۹۹ھ)،
امام عروۃ بن زبیر(۹۴ھ)،
خارجہ بن زید بن ثابت(۲۹۔۹۹ھ)،
سلیمان بن یسار (۳۴۔۱۰۷ھ)،
عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود ہذلی(۹۸ھ)،
ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف(۹۴ھ)،
سالم بن عبد اللہ بن عمر(۱۰ھ)
یا بعض کے نزدیک
ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی(۹۴ھ)۔
ثقاہت ِتابعی:
محدثین کرام نے قبول روایت کے لئے تابعی کا ثقہ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔جیسے امام اعمشؒ کو طبقۂ تابعین میں امام مسلم ؒنے لکھا ہے کیونکہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حرم پاک میں مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا تھا گو ان کا سماع ثابت نہیں مگر لقاء اور حفظ وثقاہت امام مسلم ؒکے نزدیک مسلّم ہے۔
طبقات تابعین:
امام حاکمؒ نے ان علماء کے پندرہ طبقات لکھے ہیں مگر دیگر علماء نے انہیں تین میں جمع کردیا ہے۔
طبقہ اولی:
یہ وہ کبار تابعین ہیں جنہوں نے کبار صحابہ سے روایت کی اور علم رسول حاصل کیا۔جیسے سعید بن المسیب اور فقہاء سبعہ شامل ہیں۔
طبقہ ثانیہ:
تابعین کا یہ درمیانہ طبقہ ہے جیسے حسن بصری اور ابن سیرین وغیرہ جنہوں نے بعض صحابہ سے روایات کیں اور کچھ دوسرے صحابہ نے انہیں احادیث لکھ کربھیجیں۔
طبقہ ثالثہ:
یہ صغار تابعین کا طبقہ ہے جنہوں نے صغار صحابہ سے احادیث روایت کیں۔ ایسے تابعین نے انہیں کم سنی میں ہی پایا ۔
٭…امام احمد اور اہل مدینہ کے نزدیک سب سے افضل تابعی امام سعید ؒبن المسیب ہیں۔ اہل کوفہ اویسؒ قرنی کو خیر التابعین کہتے ہیں اور اہل بصرہ حسن بصری کو۔فرق صرف یہ ہے کہ امام احمد ؒ علم وروایت حدیث میں سعید بن المسیب کو افضل قراردے رہے ہیں اور اہل کوفہ صلاح وزہد میں۔
خواتین تابعیات میں سیدہ حفصہ بنت سیرین(م:۱۰۰ھ) ، عمرہ بنت عبد الرحمن(۱۰۰ھ) اور ام الدرداء (م:۸۱ھ) جن کا ہجیمہ تھا ،ہیں۔
فائدہ:
تابعین کی معرفت کا فائدہ یہ ہے کہ: ہم مرسل روایت کو متصل روایت سے ممیز کرسکتے ہیں۔اور اس نسل کے فقہاء تابعین کے منہج ِفقہ اور فتاوی واجتہاد کو بھی بخوبی جان سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
دوسرا مرحلہ:
عصرِ بنو امیہ:
اسلامی سلطنت کا دائرہ کار جب وسیع ہوا اور ملک وسلطنتیں فتح ہوئیں ، صحابۂ رسول علمِ نبوی کی میراث بانٹنے انہی علاقوں میں جا آباد ہوئے ۔مغرب ومشرق کا فرق یا سیاسی ومعاشرتی ارتقاء ان پر اثر انداز نہ ہوسکا۔خود عادل تھے اس لئے یہ خیرات بھی انہوں نے صرف ان میں بانٹی جو صدق، امانت، دیانت اور ثقاہت میں اعلیٰ درجے پر تھے۔ جن کی اکثریت خلیفۂ راشد کی ہدایت پر یہ کام کر رہی تھی اور کچھ اپنی دعوتی دل چسپی سے بھی شغف رکھے رہی۔ ہر خلیفۂ وقت نے زیادہ اہم امور نمٹانے میں وقت گذارا۔ اس لئے کہ دینی امور نمٹانے کے لئے صحابۂ رسول تا حال حیات تھے۔ گوحدیث رسول کو ان ادوار میں خلافتی سرپرستی تو حاصل نہ ہوسکی مگر ایسا بھی نہیں ہوا کہ کسی حکمران یا خلیفہ کے لئے حدیث گھڑی گئی ہو۔دیگر فتنوں کے سر اٹھانے کی وجہ سے توجہ قرآن کے جمع کرنے اور فتنوں کو دبانے میں رہی۔خوارج اور علویوں کے فتنے بھی تدوین حدیث کے کام میں رکاوٹ بنے رہے۔ تا آنکہ وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے خلافت عمر ثانی کے مختصر عہد میں یہ عظیم الشان کام لے لیا۔
خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی تدوینی کوشش:
سیدنا عمر بن عبد العزیز علم حدیث میں گو امام زہری ؒ سے کم نہیں تھے مگر خلافتی امور کے ہمراہ وہ تدوین حدیث کے امور کو بھی درد دل سے نمٹانا چاہتے تھے۔ سیدنا عمرؓ فاروق کے اصرار پر قرآن جمع ہوا اور عمربن عبد العزیزؒ کے اصرار پر احادیث۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عمروں سے دین کی دو اہم بنیادوں کا عظیم الشان کام لیا۔
٭…سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنی سلطنت کے عمال وعلماء کو جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاسداران حکومت کو اہل علم حضرات کی ہر اس کوشش کی حمایت ومدد کرنے کا احساس دلاتے ہیں جو سنت ِرسول کی ترویج واشاعت کا باعث بن سکتی ہے۔ عکرمہؒ بن عمار کہتے ہیں: میں نے جناب عمر بن عبد العزیز ؒ کا خط سنا جس میں انہوں نے فرمایا تھا:
أَمَّا بَعْدُ! فَآمُرُوْا أَہْلَ الْعِلْمِ أَنْ یَنْتَشِرُوْا فِیْ مَسَاجِدِہِمْ، فَإِنَّ السُّنَّۃَ کَادَتْ قَدْأُمِیْتَتْ۔
اہل علم کو حکم دو کہ وہ اپنے علاقوں کی مساجد میں پھیل جائیں اور علم حدیث کو پڑھائیں اس لئے کہ سنت کہیں ختم نہ ہوجائے۔
علماء کو انہوں نے نصیحت کی:
وَلْیَفْشُوا الْعِلْمَ، وَلْیَجْلِسُوْا حَتّٰی یَعْلَمَ مَنْ لاَ یَعْلَمُ، فَإِنَّ الْعِلْمَ لاَ یَہْلِکُ حَتّٰی یَکُوْنَ سِرًّ ا۔
علم حدیث کو علماء پھیلائیں، اور وہ اس غرض کے لئے مجلسیں برپا کریں تاکہ جو علم نہیں رکھتا اسے علم ہوجائے کیونکہ علم ختم ہی تب ہوتا ہے جب وہ ایک راز بن جائے۔(فتح الباری۱؍۷۶)
٭… انہوں نے علماء کے لئے بیت المال سے ایک مشاہرہ مقرر فرمایا جو ان کی ذاتی ضروریات کو پورا کرسکے تاکہ وہ معاش کی فکر سے آزاد ہو کرعلم پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف ہوں۔والیٔ حمص کو انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا:
مُرْ لِأَہْلِ الصَّلاَحِ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ مَا یَقِیْتُہُمْ لِئَلاَّ یُشْغِلُہُمْ شَیْئٌ عَنْ تِلاَوَۃِ الْقُرْآنِ، وَمَا حَمَلُوْا مِنَ الْحَدِیْثِ۔
بیت المال کے اہل خیر حضرات کو حکم دو کہ وہ ان علماء کواتنا دیں کہ اپنا گذارہ کرلیں تاکہ کوئی چیز بھی انہیں تلاوت قرآن سے اور حدیث کی راہ میں اٹھائی جانے والی مشقتوں سے نہ روک سکے۔(شرف اصحاب الحدیث:۶۴)
٭… سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کی شاندار اور نمایاں ترین خدمت سنت یہ ہے کہ انہوں نے مملکت کے چاروں طرف حدیث کو جمع کرنے اور مدون کرنے کے بارے میں یہ سرکاری حکم بھیجا :
اُنْظُرُوْا حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَأَجْمِعُوْہُ۔
حدیث ِرسول ﷺ تلاش کرو اور اسے جمع کرو۔(فتح الباری۱؍۲۰۴)
٭… اہلِ مدینہ کو انہوں نے لکھا:
اُنْظُرُوْا حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَإِنِّی خِفْتُ دُرُوْسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَ الْعُلَمَائِ۔
مدینہ والو! حدیث کو تلاش کرو، مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔(سنن دارمی )؍۱۲۶)
٭…مدینہ کے گورنر جناب ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم (م:۱۱۷ھ) کو لکھا:
اُکْتُبْ إِلَیَّ بِمَا ثَبَتَ عِنْدَکَ مِنَ الْحَدِیْثِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَبِحَدِیْثِ عُمْرَۃَ، فَإِنِّیْ خَشِیْتُ دُرُوْسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَہُ۔
مجھے وہ احادیث رسول لکھ بھیجئے جو آپ کے نزدیک مصدقہ ہوں اور سیدہ عمرۃ کی احادیث بھی لکھ بھیجئے کیونکہ میں علم کے مٹ جانے اور اس کے ختم ہوجانے کا خوف رکھتا ہوں۔(الطبقات الکبری لابن سعد ۲؍۱۳۴)
ایک اور روایت میں ہے :
مجھے عمرۃ بنت عبدالرحمن (خالہ ابوبکربن حزم)(م: ۱۱۷ھ)اور القاسم بن محمد(م: ۳۷۔۹۹ھ) کی احادیث لکھ کر بھجوائیے۔سو انہوں نے لکھ کر بھجوادیں۔(مقدمۃ کتاب الجرح والتعدیل:۲۱)۔یہ عمرۃ، سیدہ عائشہ ام المؤمنین ؓ کی سب سے بڑی شاگردہ تھیں۔ام المؤمنین سے عمرۃ کی روایات کا سرمایہ ابوبکر بن حزم کے پاس محفوظ تھا۔اس لئے ابوبکر کو سیدنا عمر بن عبد العزیز نے بطور خاص اس کا حکم دیا۔ ایک اور روایت میں ہے:
مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے ختم ہوجانے کا غم ہے۔ کوئی شے بھی قبول نہ کی جائے سوائے حدیث ِرسول کے۔
٭…ان خطوط کے بعد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے امام ابن شہابؒ الزہری کو حکم دیا کہ وہ ان گورنرز سے احادیث کو اکٹھا کرکے ایک دیوان کی شکل دیں۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے ان تمام تحریروں کو یکجا لکھ کر یہ کام عین ۱۰۰ھ میں کر دکھایا۔یہ پہلی تصنیف تھی جو باقاعدہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی ہدایت اور نگرانی میں اہل اسلام کو نصیب ہوئی۔اور جس کے نسخے لکھوا کر سلطنت کے مختلف گورنرز کو بھیجے گئے۔
معاونین:
جن ذمہ دار اہل علم کو اس منصوبے کا اہل سمجھا گیا ۔ اس میں شامل حضرات کی یہ ٹیم ابوبکر بن محمد، القاسم بن محمد اور ابن شہاب زہری پر مشتمل تھی۔جن کی صلاحیت واہلیت کو وقت کے علماء نے چیلنج نہیں کیا بلکہ انہیں اس کا اہل سمجھا اورعلماء وفضلاء نے عزت وتکریم دی۔علمی رعب ودبدبے کے علاوہ ان کی علم دوستی ہی تھی جو رب کریم نے عام افراد معاشرہ کے قلوب میں محبت کی صورت میں پیدا کردی تھی۔
ابوبکر بن محمدبن عمرو بن حزم:
ان کے بارے میں صحابی ٔرسول سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:میں نے ابوبکرؒ بن محمد جیسا صاحب مروئت اور مکمل انسان نہیں دیکھا۔ مدینہ کے وہ کیا والی بنے کہ قضاء اور موسم حج کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔عمرۃؒبنت عبد الرحمن کے بھانجے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے انہی کے دادا محترم سیدنا عمرو ؓبن حزم کو ۔۔ یمن کے گورنر۔۔ خط لکھا تھا جس میں سنن، فرائض اور دیگر احکام شامل تھے۔ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ نے اس قیمتی دستاویز کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان کے نام اکیس دیگر فرامین نبوی ﷺ بھی ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے فراہم کئے۔ جنہیں ابن طولونؒ نے اپنی کتاب إعلام السائلین عن کتب سید المرسلین میں بطور ضمیمہ کے شامل کردیا تھا اور جو اب چھپ چکی ہے۔
القاسمؒ بن محمد بن ابی بکر (م: ۳۷۔۹۹ھ) مدینہ کے چیدہ فقہاء سبعہ میں سے تھے۔ اپنے دور کے ایک سربرآوردہ عالم وامام تھے۔اپنی پھوپھی محترمہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے علم حاصل کیا۔
امام ابن شہابؒ زہری(م: ۱۲۴ھ) یہ زہری ؒ کون ہیں ؟ اورتمہیں کیا معلوم کہ زہریؒ کون ہیں؟ اس ٹیم کے روح رواں ممبر جن سے سلاطین بھی مرعوب رہتے تھے۔ جنہوں نے احادیث رسول کو جمع کیا اور لکھا بھی۔ ائمہ حفاظ میں سے ہیں۔صرف اسی راتوں میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ فرماتے ہیں:
مَا اسْتَعَدْتُّ حَدِیْثاً قَطُّ، ولاَ شَکَکْتُ فِیْ حَدِیْثٍ قَطُّ، إِلاَّ حَدِیْثاً وَاحِداً، فَسَأَلْتُ صَاحِبِیْ فَإِذَا ہُوَ کَمَا حَفِظْتُ۔
میں نے کبھی کسی حدیث کی تیاری نہیں کی اور نہ ہی کسی حدیث کے بارے میں مشکوک ہوا، سوائے ایک حدیث کے ۔ میں نے اس کے بارے اپنے ساتھی سے پوچھا تو وہ ویسے ہی تھی جیسے مجھے یاد تھی۔
مَااسْتَوْدَعْتُ قَلْبِیْ شَیْئاً ۔۔قَطُّ۔۔فَنَسِیْتُہُ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کوئی شے اپنے دل کے سپرد کی اور میں اسے بھول گیاہوں۔
اثنائے طلب ِعلم انہوں نے احادیث ِرسول اور آثار ِصحابہ کو یا دکیا اورلکھا ۔فرمایا کرتے: میں نے دو لاکھ احادیث اپنے ہاتھ سے لکھیں۔دس برس ممتاز فقیہ اور تابعی کبیر سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی صحبت میں گذارے۔حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے معاصرین میں عالی مقام رکھتے تھے۔صالح ؒبن کیسان کہتے ہیں:
کُنْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ أَنَا وَالزُّہْرِیُّ، فَنَکْتُبُ السُّنَنَ فَکَتَبْنَا مَا جَائَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ: تَعَاَلَ نَکْتُبُ مَا جَائَ عَنِ الصَّحَابَۃِ۔ قَالَ: فَکَتَبَ وَلَمْ أَکْتُبْ فَأَنْجَحَ وَضَیَّعْتُ۔
میں اور زہری طالب علم تھے ہم سنن لکھا کرتے اور جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے مروی تھا اسے بھی لکھا۔ پھر زہریؒ نے کہا: آؤ اب ہم وہ لکھیں جو صحابۂ رسول سے مروی ہے۔ صالح کہتے ہیں: انہوں نے لکھا اور میں نے اسے نہ لکھا۔ وہ کامیاب رہے اور میں ضائع ہوگیا۔
امام ابوبکر الہذلیؒ کہتے ہیں:
قَدْ جَالَسْتُ الْحَسَنَ وَابْنَ سِیْرِیْنَ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَداً أَعْلَمَ مِنْہ یَعْنِی الزُّہْرِیَّ۔
میں حسن بصری اور ابن سیرین کی صحبت میں بیٹھا مگر ان میں کسی کو ابن شہاب سے بڑھ کر علم حدیث میں نہ پایا۔(تہذیب الکمال۲۶؍۴۳۷)
امام اللیثؒ بن سعد فقیہ ِمصرفرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ عَالِماً قَطُّ یُحَدِّثُ أَجْمَعَ مِنِ ابْنِ شِہَابٍ، وَلاَ أَکْثَرَ عِلْماً مِنْہُ۔ لَوْ سَمِعْتَ ابْنَ شِہَابٍ یُحَدِّثُ فِی التَّرْغِیْبِ لَقُلْتَ لاَ یُحْسِنُ إِلاَّ ہٰذَا وَإِنْ حَدَّثَ عَنِ الْعَرَبِ وَالْأَنْسَابِ قُلْتَ: لاَ یُحْسِنُ إِلاَّ ہٰذَا، وَإِنْ حَدَّثَ عَنِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ کَانَ حَدِیْثُہُ نَوْعاً جَامِعًا۔
میں نے کسی عالم کو نہیں دیکھا جو ابن شہاب سے بڑھ کر حدیث کو جامع انداز سے پیش کرتا ہو او ر نہ ہی ان سے بڑھ کر کسی اورکو عالم دیکھا۔اگر تم ابن شہاب سے احادیث ترغیب سنو تو تم ضرور یہ کہو کہ یہی ہیں جو اسے جچتے ہیں۔ اور اگر عربوں اور ان کے انساب کے بارے میں وہ کلام کریں تو تم یہی کہو کہ یہی اس کا حق ادا کرسکتے ہیں اور اگر وہ قرآن و سنت پیش کریں تو ان کی گفتگو جامع نوعیت کی ہوتی۔ (تہذیب الکمال۲۶؍۴۳۶)
یہی امام اللیثؒ، جعفرؒ بن ربیعہ کی وساطت سے فرماتے ہیں: میں نے عراکؒ بن مالک سے کہا:
مَنْ أَفْقَہُ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ؟ قَالَ: أَمَّا أَعْلَمُہُمْ بِقَضَایَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَقَضَایَا أَبِیْ بَکْرٍ، وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، وَأَفْقَہَہُمْ فِقْہاً، وَأَعْلَمَہُمْ بِمَا مَضَی مِنْ أَمْرِ النَّاسِ فَسَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ، وَأَمَّا أَغْزَرَہُمْ حَدِیْثًا فَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ وَلَا تَشَأُ أَنْ تُفَجِّرَ مِنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بَحْرًا إِلاَّ فَجَّرْتُہُ۔ قَالَ عِرَاکٌ: وَأَعْلَمُہُمْ جَمِیْعاً عِنْدِیْ مُحَمَّدُ بْنُ شِہَابٍ، لِأَنَّہُ جَمَعَ عِلْمَہُمْ إِلٰی عِلْمِہِ۔
اہل مدینہ میں اب کون بڑا فقیہ ہے؟ انہوں نے کہا: رہا یہ کہ کون رسول اکرم ﷺ ، ابو بکر صدیق، اور عمر وعثمان کے فیصلہ جات کے بارے میں سب سے زیادہ آگاہ ہے اور یہ بھی کہ ماضی قریب کے واقعات کا بڑا عالم کون؟ تو وہ سعید بن المسیب ہیں حدیث کا گہرا علم رکھنے والے عروہ بن زبیر۔ اور تم عبید اللہ بن عبد اللہ کے بارے چاہو کہ اس سمند کو میں پھاڑوں تو تم واقعی اسے پھاڑوگے۔ عراک کہتے ہیں اور ان تمام کے مقابلے میں میرے نزدیک سب سے بڑے عالم ابن شہاب زہری ہیں جنہوں نے ان تمام حضرات کا علم اپنے علم میں جمع کرلیا تھا۔ (تہذیب الکمال ۲۶؍ ۴۳۵)
امام مکحولؒ انہیں یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
مَا بَقِیَ عَلٰی ظَہْرِہَا أَحَدٌ أَعْلَمَ بِسُنَّۃٍ مَاضِیَۃٍ مِنَ الزُّہْرِیِّ۔
زمین کی پشت پر سنت ماضیہ کا عالم اب زہریؒ سے بڑھ کر کوئی باقی نہیں رہا۔
مشہور تابعی عمرو بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ أَنَصَّ لِلْحَدِیْثِ مِنَ الزُّہْرِیِّ، وَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا، اَلدِّیْنَارُ وَالدِّرْہَمُ أَہْوَنُ عَلَیْہِ مِنْہُ۔ مَا کَانَ الدَّنَانِیْرُ وَالدَّرَاہِمُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِمَنْزِلَۃِ الْبَعْرِ۔
زہری سے بڑھ کر میں نے کسی کو نصِ حدیث کا خیال کرنے والا نہیں پایا اور دینار ودرہم کو غیر اہم سمجھنے والا ان سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں پایا۔ ان کے نزدیک تودینار ودرہم جانور کی مینگنی کی حیثیت رکھتے تھے۔
سیدنا عمربن عبد العزیز ؒنے علماء کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
عَلَیْکُمْ بِابْنِ شِہَابٍ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَجِدُوْنَ أَحَداً أَعْلَمُ بِالسُّنَّۃِ الْمَاضِیَۃِ مِنْہُ۔
ابن شہابؒ سے فائدہ اٹھاؤ تم ان سے بڑھ کر سنت ِماضیہ کا عالم کسی کو بھی نہ پاؤ گے۔ (الإرشاد فی معرفۃ علماء الحدیث از خلیلی ۱؍۱۸۹)
ان خطوط کے اثرات:
خلیفۂ راشد کے ان بے بہا خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا مقصددین اسلام کے اصل مآخذ کی حفاظت اور شعائر کا احیاء ہے۔ علم حدیث کے بقاء کی فکر لئے اس خلیفہ محترم نے سرمایہ ٔ حدیث کو جمع کرنے کا کام سرانجام دیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے{ثم إن علینا بیانہ} پھر اس قرآن کے بیان کی ذمہ داری ہم پر ہے ۔ کے ذریعے اسے دوام بخش دیا۔اس خدمت سے قبل یہی علم ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مساجد ہی اس کی تعلیم وتعلّم کا مرکز تھیں۔ اس منتشر علم کو سمیٹنا مقامی امراء کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لئے خلیفۂ وقت نے خصوصی توجہ دے کر علماء واصدقاء میں یہ تڑپ پیدا کردی کہ اس سرمایۂ حیات کو واقعتاً جمع کیا جائے۔جونہی انہیں خلیفۂ راشد جناب عمر بن عبد العزیز ؒ کا خط ملا انہوں نے اس کا عملی نفاذ کرڈالا۔ فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بِجَمْعِ السُّنَنِ، فَکَتَبْنَاہَا دَفْتَرًا دَفْتَرًا، فَبَعَثَ إِلَی کُلِّ أَرْضٍ لَہُ عَلَیْہَا سُلْطَانٌدََفْتَرًا ۔
ہمیں عمر بن عبد العزیز نے سنن واحادیث کو جمع کرنے کا حکم دیاتو ہم نے ان کی کئی نقلیں تیار کیں پھر جہاں جہاں ان کی حکومت تھی وہاں ہر جگہ ایک ایک مجموعہ بھیجا۔(جامع بیان العلم ۱؍۷۶)
٭…خلیفۂ راشد نے یہ عظیم تاریخی کارنامہ سرانجام دینے کی مہم امام زہریؒ کے سپرد کی۔ کیوں؟ خلیفۂ راشد کا یہ انتخاب ان پر کس قسم کا اعتماد ظاہر کرتا ہے؟ کیا ان کی نظر میں دوسرے علماء وفضلاء نہیں تھے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ علمِ حدیث پر گہری نظر ہونے کی بناء پر خودخلیفہ کومعاصرین میں کوئی ایسا نظرنہ آیا جو اس دقیق فن میں اپنی پوری مہارت وبصیرت وقف کرکے حدیث کو جمع کرسکے اور جس کے حافظہ پر اعتماد کیا جاسکے۔یہی معنی ہے مورخین اور علماء کے اس قول کا:
أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْعِلْمَ ابْنُ شِہَابٍ ۔
سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو مدون کیا وہ ابن شہاب زہریؒؒتھے۔ یعنی سرکاری طور پر ذمہ دار حکمرانوں کی طرف سے جس نے سب سے پہلے علم حدیث کو مدون کیا وہ آپ ہی تھے۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ آپ نے احادیث کیوں لکھیں؟ تو جواب میں انہوں نے یہ فرمایا:
إِنَّ ہٰؤُلاَئِ الْأُمَرَائُ أَکْرَہُونَا عَلَی کِتَابَۃِ الأَحَادِیْثِ ۔
کہ ان امراء نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم احادیث کو لکھیں ۔ یعنی جمع کرکے اسے مرتب کردیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔