Saturday 28 October 2017

حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے اور نوح علیہ السلام کی عمر پر ملحدین و منکرین حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب

حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے اور نوح علیہ السلام کی عمر پر ملحدین و منکرین حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب

تحریر۔۔۔۔۔احید حسن، سالم فريادى
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شریعت اسلامیہ نے اس فترہ کی کوئ تحدید نہیں کی کہ آدم اورمحمد علیہما السلام کے درمیان کتنا رقفہ تھا بلکہ یہ بھی پتہ نہیں کہ آدم علیہ السلام کتنی مدت زندہ رہے اوران کی عمر کتنی تھی ۔
لیکن بعض احادیث اورمختلف اثار کرجمع کرنے سے مدت کے اندازے تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن یہ مکمل مدت نہیں بلکہ اس سےکچھ مدت کا اندازہ لگ سکتا ہے ، پھریہ احادیث اوراثار کچھ توصحیح ہیں اور کچھ میں اختلاف ہے ، اور کچھ مدت بچتی ہے جس کی تحدید کے بارہ میں کوئ اثاروارد نہیں ۔
جس میں صحیح دلا‏ئل وارد ہيں وہ یہ ہیں :
1 - نوح علیہ السلام کی تبلیغ کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان کہ انہوں نے کتنی مدت تبلیغ کی ۔
اس کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ تووہ ان میں ہزار سے پچاس برس کم ٹھرے } یعنی ساڑھے نوسوبرس ۔
2 - عیسی اورہمارے نبی محمد علیہما السلام کے درمیان مدت کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری میں سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ سوبرس کی مدت ہے ۔
https://islamqa.info/ur/20907
ابن ہشام کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدم علیہ السلام جی 80 ویں پشت میں ہیں لیکن ہشام نے یہ بات کس حدیث سے کی۔ابن ہشام مورخ ہے محدث نہیں۔ملحدین ہمیں حدیث کا حوالہ دیں۔اور ابن ہشام جو یہ بات محمد بن اسحاق مطلبی سے کہ رہے ہیں اس میں اس روایت کے کسی صحابہ تک پہنچنے کا ذکر کیوں نہیں۔ایسی روایت کو مرسل روایت کہتے ہیں اور یہ ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔
اسلام کے بنیادی عقائد میں کوئ شک نہیں۔وہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔جہاں تک بات ہے تاریخ کی تو اس میں بہت جھول ہیں۔اسلام کے بنیادی عقائد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جو قرآن و حدیث کے معتبر ذرائع سے ثابت ہے وہ فلاح کے لیے۔ لازمی ہے۔باقی باتیں جو تاریخ اور روایات کے دائرے میں ہیں اور ان کے مستند حوالہ جات میسر نہیں ہیں ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا مناسب ہے۔نہ اقرار نہ انکار
ابن ہشام جس بندے کے واسطے سے یہ بات کر رہے ہیں خود اس بندے نے کسی صحابہ کا حوالہ نہیں دیا۔ ملحدین اپنا اعتراض صحیح احادیث کے حوالے کے ساتھ پیش کریں۔ابن ہشام محدث نہیں ہیں مورخ ہیں۔ابن ہشام نے محمد بن اسحق کی روایت سے زیاد بن عبداللہ بکایی کا حوالہ دیا۔عبداللہ نے خود کس صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ سنا اس بات کا کوئ ذکر نہیں تواریخ ابن ہشام میں۔یہ مرسل اور ضعیف روایات ہیں۔۔کونسی صحیح احادیث میں یہ آیا ہے۔کوئ ایک صحیح احادیث پیش کیجیے۔ہم نے تو پہلے ہی کہا کہ احادیث حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پہ آئے کے زمانے کے بارے میں خاموش ہیں۔پھر ملحدین کس بنیاد پہ اعتراض کر رہے ہیں کہ حدیث نے وقت بتایا اور۔ سائنس کے مطابق یہ وقت نہیں ہے
ملحد لوگ کس بنیاد پہ کہ ریے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام دس ہزار سال پرانی شخصیت ہیں۔یہ عیسائ کہتے ہیں۔کسی صحیح احادیث میں حضرت آدم علیہ السلام کے وقت کے بارے میں واضح بات نہیں۔اور سائنس کے مطابق کوئ ایسی مخلوق زمین پہ نہیں گزری جس میں انسانی و حیوانی دونوں صفات بیک وقت موجود ہوں۔ارتقا والے یہ کہتے ہیں اور ان کے سائنسی دلائل کو جدید سائنس غلط ثابت کر رہی ہے
منکرین حدیث اور پرویزیوں یعنی نام نہاد قرانست حضرات کا قرآن سے کافر عقائد و نظریات جیسا کہ نظریہ ارتقا،سوشلزم،جمہوریت ثابت کرنا درست ہے اور صحیح احادیث میں موجود روایات ناقابل اعتماد؟قرآن۔ کی فرضی من گھڑت تفسیر کی بجائے جو حقیقت میں ان کی تفسیر بالراہے ہے وہ احادیث سے زیادہ قابل اعتماد ہے؟ایک جاہل پرویز احمد عرف خسرو پرویز نے پورے قرآن کا ترجمہ مذاق بنا کے رکھ دیا ہے
اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کے حوالے سے جومنکرین حدیث نے اپنا قیاس پیش کیا ہے وہ کیا ان آیات کی "تفسیر بالرائے" نہیں، جو کہ "قرآنسٹ حضرات" کا خاصہ ہے جو کہ منکرینِ حدیث ہیں۔
چنانچہ پہلا سوال تو یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا جناب آدم و نوح علیہ السلام کے متعلق ان درجنوں سینکڑوں روایاتِ نبوی کو نظر انداز کر کے اس معاملے میں تفسیر بالرائے کرنا کیا درست رہے گا؟
کیا قرآن سے منکرین حدیث یعنی نام نہاد قرانسٹ حضرات کے پاس کوئی دلیل ہے کہ نوح علیہ السلام کی عمر 100 سال تھی، اور نیز یہ کہ اس آیت میں 950 سال انکی عمر نہیں، بلکہ انکے پیغام کی عمر بتلائی جا رہی ہے؟
نیز کیا اللہ نے کسی اور نبی کے تعلیمات کا دورانیہ بتلایا ہے کہ وہ کب تک انکی قوم میں رہیں؟ کیا نئے نبی کی آمد کے بعد یہ تعلیمات ختم ہو گئیں، یا پھر قوم پر عذاب آنے کے بعد یہ تعلیمات ختم ہو گئیں؟ تو پھر 950 سال کے بعد کونسے نبی نے آ کر یہ تعلیمات ختم کیں؟ یا پھر 950 سال کے بعد کون سے طوفان نے آ کر یہ تعلیمات ختم کیں؟
حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل تاریخ کا زمانہ ہے۔مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی راے یہ ہے کہ بائیبل میں دیے گئے شجرۂ نسب سے حضرت آدم اور حضرت نوح وغیرہ کے زمانے کا اندازہ لگانا درست نہیں ہے۔ اس شجرۂ نسب میں وہی نام باقی رہ گئے ہیں جو بہت معروف ہو گئے تھے اور بیچ کی کئی نسلیں غائب ہیں۔ ان کے خیال میں یہ درحقیقت بڑے بڑے سرداروں کے نام ہیں۔ ایک اور دوسرے شخص کے بیچ میں ممکن ہے کئی سو برس کا فاصلہ ہو۔ ان کی اس راے کو سامنے رکھیں جو واضح طور پر درست لگتی ہے تو حضرت نوح کے زمانے کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کرنا ممکن نہیں۔
اب ہمارے پاس واحد یقینی ذریعہ قرآن مجید اور حدیث ہے۔ قرآن مجید میں بھی صرف حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ہی کا ذکر ہے۔ کوئی اور بات اس زمانے کے انسانوں کے حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ بائیبل، کتاب پیدایش کے باب 5 ،اور 6 میں جو تفصیل منقول ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لمبی عمروں کا یہ سلسلہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ختم کر دیا گیا۔ قرآن مجید کے بیان کی روشنی میں ہم یہ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ بائیبل کا یہ بیان درست ہو، ۔البتہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کا بیان حتمی ہے اور ان کے بارے میں ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی عمر یہی تھی۔
جہاں تک حضرت نوح علیۃ والسلام کی عمر ساڑھے نو سال کے بارے یہ عقل کے خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں تو ان عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہاتھی کی عمر دوسو سال اور کچھوؤن کی عمر تین سو سال آج کے دور میں بھی ہوتی ہے تو یہ نشانی ہے ۔ کیا کسی کو شک ہے کہ حضرت نوح علیۃ والسلام کا دور اور طوفان اس سے بھی قدیم ہو گزرا ہو اور تبے انسانوں کی عمریں بھی طویل ہوتی ہوں۔ یا تب سورج کے گرد زمین کے چکر کا جسے ہم سال مانتے ہیں وہ دورانیہ مختصر وقت کا ہوتا ہو ۔ یا کیا عجب کہ سورج بتدریج گرم ہوا ہو اور سیارے خدا کی حکمت سے دور ہوتے چلے گئے ہوں اور انکا دورانے کا وقت بڑھ گیا ہو۔ اللہ تعالٰی کو ہر بات اور عمل کی قدرت ہے۔ جبکہ سائنس بار بار اپنے ہی تخلیق کردہ نظریات اور قوانین کو متواتر مسترد کرتی رہی ہے اور خدا جانے کیب تک کرتی رہے گی اور یوں عقل انسانی کو کسوٹی ماننے والے گمراہ ہوتے رہے گے۔
قرآن میں سال یا برس کے لیے لفظ عام بھی استعمال ہوا ہے اور سنۃ بھی۔
عام: خیر وعافیت کا سال
سنۃ: خشک سالی اور قحط سالی کا سال
دلیل کے طور پر یہ آیت دیکھیں:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ (العنکبوت: 14)
’’ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ پچاس برس کم ایک ہزار سال ان کے درمیان رہے۔ پھر ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا کہ وہ ظالم تھے۔‘‘
ساڑھے نو سو سال جو نوح علیہ السلام کے قوم سے مخالفت اور تکلیف میں گزرے ، انہیں لفظ سنین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور نبوت سے پیشتر کے پچاس سال کو ، جن میں کچھ جھگڑا اور پریشانی نہ تھی، لفظ عام سے۔
ایک اور مصنف کے بقول:
سنۃ تو پورے سال کو کہا جاتا ہے، کہیں سے بھی اس کو شروع کردیا جائے۔ اور عام کہتے ہیں ایسے سال کو جس میں گرمی اور جاڑے پورے ہوجائیں۔ (الفاظ مترادفہ کے درمیان فرق از مولانا نور حسین قاسمی، ص: 258)
عام یہ ایام کی جمع ہے اور سنۃ شہور کی..
عام کسی چیز کے وقوع شدہ وقت کو بتانے کے لئے..جیسے عام الفیل عام الحزن...سنۃ الفیل یا سنۃ الحزن نہیں کہا جائے گا
جبکہ سنۃ تاریخ کو بتانے کے لئے..جیسے مائۃ سنۃ وعشرون...مائۃ عام وعشرون نہیں کہا جا سکتا...
اس طرح آپ کی پیش کی گئ سنۃ کے لفظ کی تشریح بالکل غلط ہے۔جب قرآن نوح علیہ السلام کے لیے 950 سنۃ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس سے مراد واضح طور پہ 950 سال ہیں۔
عام کی جمع اعوام آتی ہے ۔یوم کی جمع ایام اور سنۃ کی جمع سنین یا سنوات آتی ہے جزاکم اللہ۔
لبث ۔ فعل ماضی ہے اس کا فاعل ضمیر مستتر ھو ضمیر ہے جو حضرت نوح پر لوٹتی ہے لہذا عربی گرائمر کی رو سے یہ ساری توجہیات مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں ۔
قران کے ظاہری مفہوم کو توجیہات کا پابند تبھی کیا جاسکتاہے جب قران میں ہی دوسری جگہ ایسے قرینے موجود ہوں جو ان توجیہات کو منطقی سپورٹ فراہم کرتے ہیں ۔
عربوں میں آج بھی سنۃ بول کر فصل مراد نہیں لیا جاتا ۔ مثال کے طور پر اگر انہیں یہ پوچھنا ہو کہ تم نے ہندوستان میں کتنے سال کام کیا ہے تو وہ پوچھتے ہیں
کم سنۃ عملت بالھند کذا و کذا
لہذا یہ فصلوں والی توجیہ بالکل دوع کی کوڑی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔