Wednesday 25 October 2017

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے واقعے کے حوالے سے ملحدین کا قرآن پہ اعتراض اور اس کا جواب

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے واقعے کے حوالے سے ملحدین کا قرآن پہ اعتراض اور اس کا جواب

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّـهُـمْ عَلٰى مَوْتِهٓ ٖ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٝ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِى الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ (14)
پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم کیا تو انہیں اس کی موت کا پتہ نہ دیا مگر گھن کے کیڑے نے جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا، پھر جب گر پڑا تو جنوں نے معلوم کیا کہ اگر وہ غیب کو جانتے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔
اس آیت کی تفسیر ابن کثیر میں درج ذیل وضاحت پیش کی گئ ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کی کیفیت بیان ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ جو جنات ان کے فرمان کے تحت کام کاج میں مصروف تھے ان پر ان کی موت کیسے نامعلوم رہی وہ انتقال کے بعد بھی لکڑی کے ٹیکے پر کھڑے ہی رہے اور یہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے سر جھکائے اپنے سخت سخت کاموں میں مشغول رہے ۔ مجاہد وغیرہ فرماتے ہی تقریباً سال بھر اسی طرح گزر گیا ۔ جس لکڑی کے سہارے آپ کھڑے تھے جب اسے دیمک چاٹ گئی اور وہ کھوکھلی ہوگئی تو آپ گرپڑے ۔ اب جنات اور انسانوں کو آپ کی موت کا پتہ چلا ۔ تب تو نہ صرف انسانوں بلکہ خود جنات کو بھی یقین ہوگیا کہ ان میں سے کوئی بھی غیب داں نہیں ۔ ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے کہ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے ۔ وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے ۔ ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا ضروب ۔ پوچھا تو کس لئے ہے؟ کہا اس گھر کو اجاڑنے کیلئے تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے ۔ اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہوگیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہوگیا ۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھاگئی اور اب حضرت سلیمان گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے ۔ لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے ۔ بعض صحابہ سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال دو دو سال یا کم و بیش مدت کیلئے مسجد قدس میں اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا ۔ آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے وہ بتاتا آپ اسی کام میں اسے لاتے بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا نام ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے کہا اس مسجد کے اجاڑنے کیلئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہوگی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کیلئے ہے ۔ چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگا دیا مسجد کی بیچ کی جگہ میں کھڑے ہو کر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کردی ۔ وہیں انتقال ہوگیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا ۔ شیاطین سب کے سب اپنی نوکری بجا لاتے رہے کہ ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کریں اور اللہ کے رسول آ جائیں تو ہمیں سزا دیں ۔ یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو ایک بہت بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جاکر وہاں سے نکل آؤں تو میری طاقت کو مانو گے یا نہیں؟ چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے حضرت سلیمان کی آواز نہ آئی ۔ دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ حضرت سلیمان کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مرجاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال سا گزرا اس نے پھر اور جرأت کی اور مسجد میں چلا گیا دیکھتا کہ وہاں جانے کے بعد وہ نہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کہ وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرما چکے ہیں اب آکر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول کو زندہ نہ پایا ۔ آپ کو مسجد سے نکال لائے ۔ مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کیلئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے انتقال کو پورا سال گزر چکا ۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہوگیا کہ جنات جو بنتے تھے کہ ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے ۔ اس وقت سے جنات گھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لا دیا کرتے ہیں گویا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ کہا یہ بھی تھا کہ اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول ۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے واللہ اعلم الغیب ۔ حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتا دینا حضرت ملک الموت نے یہی کیا تو آپ نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا ۔ حضرت ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبض کرکے گئے ۔ پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر ادھر سے دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھاچکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ کی موت کا یقین ہوگیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا پورے ایک سال کسی کو پتہ نہیں چلا۔یہ بات قرآن میں کس جگہ مذکور ہے۔اگر قرآن میں نہیں تو کسی مستند حدیث میں کس جگہ مذکور ہے؟
حضرت سلیمان علیہ السلام کہاں یعنی کس جگہ عبادت کیا کرتے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی عبادت کا دورانیہ کیا ہوتا تھا۔
پہلی بات کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا ایک سال تک کسی کو پتہ نہیں چلا،یہ بات ابن کثیر نے صرف مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کی ہے اور اس کی کوئی سند پیش نہیں کی۔ہم نے اس عرصے کی سند ڈھونڈنے کے لیے مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا لیکن ہمیں اس کی کوئی سند نہیں ملی۔یہاں تک کہ ہم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے واقعے کے حوالے سے 52 ویب سائٹس مطالعہ کی۔ہمیں کہیں بھی اس روایت کی سند نہیں ملی۔تفسیر ابن کثیر تفسیر کی کتاب ہے،حدیث کی نہیں جس میں کچھ ضعیف روایات بھی موجود ہیں۔لہذا ابن کثیر کی مجاہد رحمہ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ روایت کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا ایک سال تک کسی کو پتہ نہیں چلا،ناقابل اعتبار اور ضعیف ہے کیوں کہ ابن کثیر نے اس کی کوئی سند پیش نہیں کی۔اگر ملحدین اس روایت کی سند پیش کرسکتے ہیں تو کردیں۔ہم اس روایت اور اسکے راویوں پہ مزید تفصیلی بات کر لیں گے۔
ابن کثیر نے اسی ایک سال کی مدت کے حوالے سے دوسری روایت بھی پیش کی ہے۔لیکن اس کی بھی سند پیش نہیں کی۔لیکن خود ہی کہا ہے کہ اس دوسری روایت میں ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی سے بعض روایات میں نکارت ثابت ہے۔لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے جب تک اس روایت کی تصدیق کسی اور روایت سے نہ ہوجائے جس میں مستند راوی موجود ہوں۔لہذا یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
آگے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کی ایک سال کی مدت کے حوالے سے ابن کثیر نے ایک اور روایت پیش کی ہے جس میں لکھا ہے کہ بعض صحابہ کرام سے مروی ہے اور اس کے بعد یہ پورا واقعہ بیان کیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کونسے صحابہ کرام سے مروی ہے۔ان کے کیا نام ہیں،ان صحابہ کرام سے یہ روایت کرنے والے راوی کون ہیں۔اسکی ابن کثیر نے کوئی سند پیش نہیں کی۔لہذا ابن کثیر کی یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی کوئی سند پیش نہیں کی ابن کثیر نے۔
لہذا یہ کہنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا ایک سال تک کسی کو پتہ نہیں چلا تو یہ بات کسی بھی مستند روایت سے ثابت نہیں۔لہذا ملحدین نہیں کہ سکتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا ایک سال تک کسی کو پتہ کیوں نہیں چلا اور وہ ایک سال تک کیسے وفات کے بعد عصا کے سہارے رہے تو یہ اعتراض غلط ہے۔
اب دوسرا سوال یہ کہ مان لیا حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا ایک سال تک کسی کو پتہ نہیں چلا،یہ بات غلط ہے۔یعنی دورانیہ ایک سال نہیں تھا بلکہ کم تھا۔کیسے کم تھا۔اس کی سائنسی وضاحت میں نیچے دوں گا۔
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ مان لیا عرصہ ایک سال نہیں تھا بلکہ کچھ ماہ تھا تو پھر بھی کسی کو اتنا عرصہ ان کی وفات کا علم کیوں نہیں ہوا۔اب میں اس سوال پہ بحث کروں گا۔
اس کی تفصیل قرآن یا کسی صحیح حدیث میں کسی جگہ مذکور نہیں کہ ان کی وفات کس جگہ ہوئی اور جس جگہ وفات ہوئی وہ وہاں کیا کر رہے تھے۔لیکن کچھ تفصیل جو ہمیں 52 ویب سائٹس کا مطالعہ کرکے پتہ چلی ہے وہ درج ذیل ہے۔
بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داؤد علیہ السلام نے شروع کی، پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل فرمائی، اس میں کچھ کام تعمیر کا باقی تھا اور یہ تعمیر کا کام جنات کے سپرد تھا، جن کی طبیعت میں سر کشی غالب تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خوف سے جنات کام کرتے تھے، ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجائے تو فوراََ کام چھوڑ بیٹھیں اور تعمیر رہ جائے۔ اس کا انتظام حضرت سلیمان علیہ السلام نے باِذنِ ربانی یہ کیا کہ جب موت کا وقت آیا تو موت کی تیاری کرکے اپنی محراب میں داخل ہوگئے، جو شفاف شیشے سے بنی ہوئی تھی۔ باہر سے اندر کی سب چیزیں نظر آتی تھیں اور اپنے معمول کے مطابق عبادت کیلئے ایک سہارا لے کر کھڑے ہوگئے کہ روح پرواز کرنے کے بعد بھی جسم اس عصاء کے سہارے اپنی جگہ جما رہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی روح وقت مقرر پر قبض کرلی گئی، مگر وہ اپنے عصاء کے سہارے اپنی جگہ جمے ہوئے باہر سے ایسے نظر آتے کہ عبادت میں مشغول ہیں۔ جنات کی یہ مجال نہ تھی کہ پاس آکر دیکھ سکتے، وہ سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھ کر کام میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سال بھر گزر گیا اور تعمیر بیت المقدس کا بقیہ کام پورا ہوگیا تو اللہ تعالٰی نے گھن کے کیڑے کو جس کو اردو میں دیمک کہا جاتا ہے اور قرآن کریم نے اس کو دابتہ الارض کے نام سے موسوم کیا ہے، عصائے سلیمانی پر مسلط کردیا۔ دیمک نے عصاء کی لکڑی کو اندر سے کھا کر کمزور کردیا۔ عصاء کا سہارا ختم ہوا تو سلیمان علیہ السلام گرگئے۔ اس وقت جنات کو ان کی موت کی خبر ہوئی۔​
جنات کو اللہ تعالٰی نے دور دراز کی مسافت چند لمحات میں قطع کر لینے کی قوت عطا فرمائی ہے، وہ بہت سے ایسے حالات و واقعات سے واقف ہوتے تھے جن کو انسان نہیں جانتے، جب وہ انسانوں کو ان واقعات کی خبر دیتے تو انسان یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیب کی خبر ہے اور جنات کو بھی علم غیب حاصل ہے۔( خود جنات کو بھی علم غیب کا دعوٰی ہوتو بعید نہیں۔) موت کے اس عجیب واقعہ نے اس کی بھی حقیقت کھول دی۔ خود جنات کو بھی پتہ چل گیا اور سب انسانوں کو بھی کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کو غیب کا علم ہوتا تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت سے ایک سال پہلےہی باخبر ہوجاتے۔​آپ نے دعا مانگی کہ میری موت جنوں پہ ظاہر نہ ہو۔
اس کی ایک اور تفصیل جو ہمیں ایک اور ویب سائٹ سے ملی ہے وہ پیسٹ کر رہا ہوں۔
بعض صحابہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کے حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال، دو دو سال یا کم وبیش مدت کے لئے مسجد قدس کا اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے۔۔۔ وہ بتاتا۔۔۔ آپ اسی کام میں اُسے لاتے۔۔۔۔بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے کہا اس مسجد کو اجاڑنے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہوگی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کے لئے ہے چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگادیا مسجد کے بیچ کی جگہ میں کھڑے ہوکر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کردی وہیں انتقال ہوگیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا شیاطین سب کے سب اپنی اپنی نوکریاں بجالاتے رہے کے ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کردی اور اللہ کے رسول علیہ السلام آجائیں تو ہمیں سزا دیں یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو ایک بہت بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جاکر وہاں سے نکل آؤن تو میری طاقت مانو گے یا نہیں؟؟؟ِ۔۔۔

چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی آواز نہ آئی دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ حضرت سلیمان رحمہ اللہ کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مرجاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال ساگزرا۔۔۔ اس نے پھر اور جرات کی اور مسجد میں چلا گیا یہ وہاں جانے کے بعد وہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کے وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرماچکے ہیں اب آکر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول علیہ السلام کو زندہ نہ پایا آپ کو مسجد سے نکال لائے مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کے آپ کے انتقال کو پورا سال گزرچکا۔۔۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہوگیا کے جنات جو بنتے تھے کے ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے اس وقت سے جنات گُھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لادیا کرتے ہیں گویا اس کا شکر ادا کرتے ہیں کہا یہ بھی تھا کے اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے۔۔۔ لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول۔۔۔ خلاف حق ہوں، مردود دونوں سے الگ ہوں، وہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے قابل۔۔۔ واللہ اعلم بالغیب۔۔۔

حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہ سے مروی ہے کے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کے میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتادینا۔۔۔ حضرت ملک الموت نے یہی کیا تو آپ علیہ السلام نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی۔۔۔ یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا۔۔۔ حضرت ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبذض کرکے گئے پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر اُدھر دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھا چکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اُٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ علیہ السلام کی موت کا یقین ہوگیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے۔۔۔ (تفسیر ابن کثیر پارہ نمبر بائیس صفحہ نمبر ٧٢٠- ٧٢٢)
ایک اور تفصیل جو ہمیں ایک اور ویب سائٹ سے ملی ہے وہ پیسٹ کر رہا ہوں۔
حضرت ابن عباسؓ نے روایت کی کہ رسول اکرم ﷺسے مروی ہے آپ نے فرمایاجب اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام نماز ادافرماتے توسامنے ایک درخت اگادیکھتے آپ اس سے پوچھتے تیراکیانام ہے ؟ وہ کہتا فلاں۔آپ پوچھتے تو کس فائدہ کے لئے ہے ؟ نسل بڑھانے کے لئے یاکسی دوا کیلئے ۔ تو ایک مرتبہ آپ نماز ادا فرمارہے تھے کہ آپ نے ایک درخت کوسامنے دیکھا تو اس سے پوچھا تیرا کیا نام ہے ؟ عرض کیا خرو ب آپ نے پوچھا کس چیز کے لئے ہے تو ؟ عرض کیا اس گھر کی خرابی ویرانی کیلئے(یعنی آپ کواشارہ کیاگیاکہ آپ کی وفات قریب ہے )تو آپ نے دعا کی اے اللہ سال بھر تک جنوں سے میری موت کو مخفی رکھنا تاکہ انسان جان لیں کہ جن غیب کا علم نہیں جانتے ۔
پھر آپ نے اس درخت کی عصا بنائی ۔ اور اس پر ٹیک لگا لی ۔ اور ایک سال تک یوں ہی کھڑے رہے اور جن کام کرتے رہے ۔ پھر لکڑی کو کیڑے نے کھا لیا (تو آپ گڑے اور پھر پتا چلا کہ اپ تو ایک سال سے وفات پاچکے ہیں)تو پھر انسان کو پتہ چلا کہ اگر جن غیب جانتے تو ایک سال تک ذلت کے ساتھ کام میں نہ پھنسے ہوتے ۔(قصص الانبیاء : ۵۷۱علامہ ابن کثیر)۔
اب ہم اس تفصیل کی صحت اور مستند ہونے پہ بحث کرتے ہیں۔
تفصیل نمبر ایک جو سب سے پہلے میں نے پیش کی، اس کی کوئی سند پیش نہیں کی گئی۔بلا سند اور تحقیق کے یہ روایت اور تفصیل قابل اعتبار نہیں کیوں کہ ہمیں اس کی حقیقت کا کسی مستند حوالے سے نہیں پتہ۔اور جن حوالوں نے یہ تفصیل پیش کی ہے انہوں نے بھی اس کی کوئی سند پیش نہیں کی۔لہذا بلا سند اور راویوں کی تحقیق کے یہ تفصیل ناقابل اعتبار ہے۔اس کی دوسری تفصیل ابن کثیر کے حوالے سے دو طرح پیش کی گئ ہے۔ایک جس میں ابن کثیر کہتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام سے مروی ہے۔اس کی سند پیش نہیں کی ابن کثیر نے۔لہذا بلا سند یہ تفصیل بھی قابل اعتبار نہیں۔
اس کی دوسری تفصیل ابن کثیر زید بن اسلم کے حوالے سے پیش کرتے ہیں لیکن اس کی بھی مکمل سند پیش نہیں کی۔لہذا بلا سند یہ تفصیل بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔اس کی تیسری تفصیل جو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مروی ہے، اس میں بھی ایک مسئلہ ہے۔وہ یہ کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تفصیل روایت کی۔ لیکن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ تفصیل روایت کرنے والے راوی کون ہیں اس کی پوری سند کیا ہے،اس کی تفصیل ابن کثیر نے پیش نہیں کی۔لہذا مکمل سند کے بغیر یہ تفصیل بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔لہذا جب یہ ساری تفصیل مکمل سند کے بغیر ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے تو ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر پھر کیوں نہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھر والوں کو ان کی وفات کا پتہ چلا، نہ ان کی فوج کو، نہ جنوں کو۔یہ کیسے ممکن ہے۔اب ہم اس سوال کا جواب عرض کرتے ہیں۔
کچھ سوالات جو ذہنوں میں اٹھتے ہیں ان کا جواب تلاش کرنا ہمارے لیے لازم آتا ہے ۔
اتنی بڑی سلطنت میں یہ بات کیسے چھپی رہی کہ کسی کو علم نہ ہوسکا؟
اس کا جواب ہے کہ حضرت سلیما ن ؑ کی عادت تھی کہ وہ کئی کئی مہینے تنہائی میں عبادت کیاکرتے ا ستعمال کی چیزیں اور کھانا پینا ساتھ رکھتے تھے اس دوران کسی کو ان کے پاس جانے کی اجازت نہ ہوتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنی وفات کاپہلےسے علم تھا لہذا انہوں نے اپنے گھر والوں کو سختی سے تنبیہ کردی کہ سلطنت کے کسی فرد کو اس بات کا علم نہ ہو اس کا مقصد بیت المقدس کی تعمیر کو پورا کرنا تھا۔ جنات بیت المقدس کی تعمیر کررہے تھے اور آپ ؑ ان کی نگرانی پر معمور تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام کو کتنے ہی معجزات عطا فرمائے جب حضرت عزیر علیہ السلام کو سو سال سلاسکتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھاسکتا ہے تویہ کیسے ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسد خاکی ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑا رہے ۔ اس کی بارگاہ میں سب ممکن ہے اور اسے سب آسان ہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام محراب میں عبادت کر رہے تھے۔اس لیے کسی کو پتہ نہیں چلا۔
یہ اس کی ممکنہ وضاحت ہے جو ہم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے معمولات کے حوالے سے اخذ کی ہے کیونکہ تمام انبیاء عبادت گزار تھے۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی اور دعوی نبوت سے پہلے بھی غار ثور میں کئ کئ دن مسلسل عبادت میں مصروف رہتے تھے۔لہذا عین ممکن ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اسی طرح تنہائی میں محو عبادت تھے عصا کے سہارے جیسا کہ خود قرآن نے کہا ہے عصا کے سہارے کا۔وہیں ان کی وفات ہوئی لیکن کسی کو پتہ اس لیے نہیں چلا کیوں کہ وہ کئ کئ دن اور ماہ عبادت اور اعتکاف میں گزارتے تھے۔یہی سب سے قرین قیاس تفصیل ہے۔
اس طرح ان کی وفات کو کئ دن یا ماہ گزر گئے اور ان کی وفات کا پتہ کسی کو نہیں چلا۔لوگوں نے سمجھا کہ وہ تنہائی میں عصا کے سہارے عبادت میں مصروف ہیں۔لیکن جب خود قرآن کے مطابق عصا کو لکڑی کھا گئ تو وہ گر پڑے۔تب پتہ چلا کہ ان کی وفات ہوچکی ہے۔لیکن اس عمل میں ایک سال لگنے والی بات ہماری نظر میں غلط ہے۔
اس سارے عمل میں ایک سال نہیں لگا نہ ہی ایک سال والی بات حقیقت لگتی ہے۔ اس عمل میں چھ ماہ سے بھی کم عرصہ لگا یعنی چند ماہ اور یہ بات ہم نے جدید سائنسی تحقیق سے اخذ کی ہے جس کے مطابق دیمک لکڑی کے ایک فٹ کو چھ ماہ سے بھی کم عرصہ میں کھا سکتی ہے جب کہ عصا کے آدھا فٹ کا کھایا جانا عصا کو اتنا کمزور کر سکتا ہے کہ اس کے سہارے کھڑا یا بیٹھا انسان گر جائے۔لہذا باالکل ممکن ہے کہ اس عمل میں ایک سے تین ماہ لگے اور اس دوران حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھر والے اور سب لوگ یہی سمجھتے رہے کہ وہ عبادت میں مصروف ہیں۔یہی وجہ تھی کہ ان کی وفات کی طرف عبادت میں مصروفیت کی وجہ سے کسی کی توجہ نہیں گئ اور یہی اس اعتراض کا جواب ہے جو ملحدین کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا ایک سال تک کسی کو کیسے ممکن ہے پتہ نہ چلے۔اس کی سائنسی تفصیلی کچھ درج ذیل ہے۔

Termites eat wood, and they can eat a lot of it in a short time. The average colony can eat about one foot of a 2×4 in six months, but certain species of termite can tear through homes at a much faster pace. In eating wood, termites are also making tunnels inside the wood in order to help foster and grow their colonies, each of which contain about 60,000 termites.

https://www.allgoodservices.com/…/the-trouble-with-termites…
یہ سائنسی تحقیق ہماری بات کی تائید کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ملحدین کے اس اعتراض کا جواب مکمل ہوا۔
یہاں تک کہ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق دیمک ایک دن میں ایک پاؤنڈ لکڑی بھی کھا سکتی ہے۔اس طرح عین ممکن ہے پانچ سے دس پاؤنڈ یعنی ساڑھے بارہ کلو وزنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے عصا کو دیمک ایک مہینے سے بھی کم یعنی ایک سے دو ہفتے یا صرف ایک ہفتے بلکہ چند دن میں ہی کھا گئ ہو اور اس دوران جن اور انسان یہ سمجھتے رہے ہوں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام عبادت میں ہیں اور زندہ ہیں۔جب دیمک ایک دن کے اندر ایک پاؤنڈ یعنی ڈھائی کلو عصا کھا چکی ہو یا ایک ہفتے بعد یا زیادہ سے زیادہ دو ہفتے بعد تو اس وقت عصا ٹوٹنے سے اس کے سہارے عبادت میں کھڑے یا بیٹھے یا نشست پہ بیٹھے حضرت سلیمان علیہ السلام گر پڑے ہوں اور تب لوگوں کو پتہ چلا ہو کہ ان کی وفات ہوچکی ہے۔اس طرح ہماری یہ ساری بحث ۔ملحدین کا اعتراض غلط ثابت کر چکی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا ایک سال تک کسی کو کیوں پتہ نہیں چلا اور قرآن نعوذ بااللہ غلط ہے۔جدید سائنسی تحقیق قرآن کے بیان کی تائید کر رہی ہے۔
یہ ہے 550 سے 468 قبل مسیح کا دارا اعظم یعنی فارسی بادشاہ کا قدیم مجسمے میں عصا جس کا وزن چار پاؤنڈ سے بھی کم لگ رہا ہے تصویر کے مطابق۔اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ 980 قبل مسیح جیسا کہ کچھ مورخین بتاتے ہیں مان لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کا بیان ان کے عصا کا وزن اور اسکے دیمک لگنے سے گلنے اور اس کے سہارے موجود فوت شدہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا وجود جدید سائنسی تحقیق کے عین مطابق ہے اور ملحدین کا اعتراض بالکل غلط ہے۔
The largest subterranean termite colonies eat about a pound of wood per day. Even when the amount of wood eaten in a day by a termite is multiplied by 1,000,000 termites, it may not seem like very much.

https://www.terminix.com/termite-control/termite-facts/
یہ ہے وہ سائنسی تحقیق جو ہمارے اوپر پیش کردہ بیان کی تصدیق کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے واقعے کے حوالے سے ملحدین کے قرآن پہ اعتراض کا جواب مکمل ہوا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
الحمداللہ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔