Monday 30 October 2017

کیا مرے ہوئے جانداروں کا فوسل ریکارڈ نظریہ ارتقا کو ثابت کرتا ہے؟ دوسری قسط


کیا مرے ہوئے جانداروں کا فوسل ریکارڈ نظریہ ارتقا کو ثابت کرتا ہے؟ دوسری قسط
نظریہ ارتقا کے ثبوت کے لیے پیش کیے جانے والے کیمبرین دھماکے اور فوسل ریکارڈ میں سائنسی کھوکھلاپن اور ارتقا کے حامیوں کے جھوٹ کا انکشاف
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
یہ پوسٹ میری طرف سے کراچی سے بہاولپور کے ہوائ سفر کے دوران آدھا گھنٹہ پہلے مرتب کی گئ ہے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
قدیم حیاتی دور(Ancient Biological Ages) کے سنگوارے ٹریلوبائٹ(Trilobite) کی آنکھوں کا دوعدسہ شہد کے چھتے نما ساختی تخلیق کا ایک حیران کن عجوبہ ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ روچسٹر اور شکاگو یونیورسٹی کے ارضیات(Geology) کے پروفیسر ڈیوڈ راوئپ کا کہنا ہے کہ 520 لاکھ سال پہلے رہنے والے ٹرےلو بائٹ کی آنکھوں کا نظام ایسا تھا گویا اس کو تشکیل دینے کے لئے ایک نہایت اعلیٰ سطح کا تربیت یافتہ اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والا بصری انجینئر(Optical Engineer) سے کام لیا گیا ہو۔ 1
ٹریلوبائٹ کی آنکھ کی 350 لاکھ یعنی تین کڑور پچاس لاکھ سال پہلے مکمل حالت میں نموداری میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس بہترین اور اعلیٰ نقشے کی اچانک نموداری ارتقاءکے ذریعے بیان کرنا ناممکن ہے اور یہ تخلیق کا واضح ثبوت ہے۔ ٹریلوبائٹ کی شہد کے چھتے نما آنکھ کی ساخت دورِ حاضر میں بھی بغیر کسی تبدیلی کے موجود ہے۔شہد کی مکھیوں اور بھنبھیریوں میں بھی ٹریلوبائٹ جیسی آنکھ کی ساخت پائی جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ ارتقائی مفروضہ کہ جانداروں کی ترقی قدیم سے پیچیدہ اشکال میں ارتقاءکے ذریعے بتدریج ہوئی مکمل طور پر غلط ثابت ہوجاتاہے۔
(٭ آر۔ایل۔ گریگوری، آنکھ اور دماغ۔ ”دافیزیولوجی آف سیپنگ“ آکسفورڈ یونیورسٹی 1995ء صفحہ 13 ٹریلوبائٹ کی آنکھ)
یہ ساری باتیں ظاہر کر رہی ہے کہ آج سےتک پانچ کروڑ بیس لاکھ سال پہلے بھی جاندار اسی پیچیدہ اور تخلیقی صورت میں موجود تھے جس صورت میں یہ آج ہیں اور جانداروں کا بغیر کسی خدا کے خود بخود سادہ سے پیچیدہ حالت میں وجود میں آنے کا ماہرین ارتقا کا دعوی بالکل غلط ہے۔
ارتقاءپسندوں کو کیمبرین دھماکے سے متعلق مزید الجھن کا سامنا مختلف جاندار نسلوں کا آپس میں موازنے کی صورت میں کرنا پرتا ہے۔ اس موازنے سے پتہ چلا ہے کہ ارتقاءپسندوں کے حساب سے جو جاندار ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار تصور کئے جاتے ہیں وہ دراصل جینیاتی تحقیق کے مطابق ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں۔ حالیہ وقتوں میں آشکار ہونے والی یہ حقیقت ”وسطی اشکال“ کے نظریئے کو مزید پریشانی میں ڈال دیتی ہے۔ رسالہ ”پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنس“ کی 2000ء کی رپورٹ میں چھپنے والے ایک مضمون کے تحت DNA کے مادے کی تحقیق نے ماضی میں وسطی اشکال یعنی Transitional Forms تصور کئے جانے والے سب جانداروں کے امکانات کو رد کردیا ہے:
”DNA مادے کی سلسلہ وار تحقیق سے درختوں کی کچھ خصوصیات کا ارتقاءایک نئے مفہوم کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ میٹازوا درختوں کی وہ نسلیں جو کہ درختوں کی سلسلہ وار تدریجی ترقی کی بنیاد تصور کی جاتی تھیں لیکن اب وہ مکمل طور پر رد کردی گئی ہیں۔ اس سے ارتقائی ”وسطی “ اشکال کے تمام امکانات کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ہم دو طرفہ تکوین کے متعلق غور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں“۔
کیمبرین پتھروں سے ملنے والے فوصل یعنی چٹانوں میں مرے ہوئے جانداروں کی باقیات جیسا کہ گھونگے، قدیم حیاتیاتی دور کے سنگوارے ،اسفنج یا سپونج ، کیچوے، فالودہ مچھلی، ستارہ مچھلی یا سٹار فش، آبی خولدار جانور اور آبی کنول جیسے پیچیدہ غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے جانور(Invertiberates) نسلوں کے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ تمام مخصوص نسلیں اچانک ہی نمودار ہوئیں اور یہ جانور آج بھی بغیر کسی ارتقا کے اسی حالت میں ہیں جس صورت میں یہ کروڑوں سال پہلے تھے۔ یہ ساری باتیں ارتقا کو غلط ثابت کر کے دکھاتی ہیں۔ اس وجہ سے اس معجزاتی واقعہ کو ارضیاتی کتب میں ”کیمبرین دھماکے“ کا نام دیا جاتا ہے۔جس میں جانور بغیر کسی ارتقا کے اچانک ہمیں اپنی آج جیسی پیچیدہ حالت میں ملنے لگتے ہیں۔
یہ نہایت پیچیدہ غیر فقاری حیوان مکمل شکل میں اچانک زمین پر نمودار ہوئے۔ ان سے پہلے زمین پر صرف یک خلیہ جانداروں کا بسیرا تھا اور ٹریلوبائٹ اور ان کے بیچ نہ تو کسی طرح کی ارتقائی نوعیت(Evolutionary Relationships) کی مشابہت تھی اوار نہ ہی ان دونوں کے درمیان کسی وسطی شکل(Transitional Animals) کے دوسرے جاندار موجود ہیں۔ مشہور سائنسی جریدے ”سائنس نیوز“ کا سائنسی صحافی رچرڈ موناسٹرسکی کیمبرین دھماکے(Cambrian Explosion) کو نظریہ ارتقاءکے لئے موت کا پھندا تصور کرتا ہے اور کہتا ہے:
”آدھ کروڑ سالوں پہلے قابل غور اور نہایت پیچیدہ نوعیت کے وہ جاندار اچانک نمودار ہوئے جو کہ ہم کو آج بھی نظر آتے ہیں۔ 550 لاکھ سال پہلے زمین کے کیمبرین دور کی شروعات میں اس ارتقائی دھماکے کے نتیجے میں سمندر پیچیدہ انواع و اقسام کے جانداروں سے بھرگئے۔ یہ وسیع جاندار خلقت جس کی ابتداءکیمبرین دور میں ہوئی وہ آج بھی نظر آتی ہے اور آج بھی ایک دوسرے سے اتنی ہی مختلف ہے جتنی کہ لاکھوں سال پہلے تھی۔“ 2
کیمبرین دھماکے کی مزید گہرائیوں میں تحقیق اس پریشانی سے پردہ اٹھاتی ہے جو کہ یہ نظریہ ارتقاءکے لئے پیش کرتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق دنیاکی تقریباً ساری ہی حیوانی نسلیں اچانک کیمبرین دور میں نمودار ہوئیں۔ رسالہ ”سائنس“ میں چھپنے والے 2001ء کے اس مضمون کے مطابق 545 لاکھ سال یعنی آج سے پانچ کروڑ پپنتالیس لاکھ سال پہلے کیمبرین دور کی شروعات نے فوصلی ریکارڈ میں تقریباً ان تمام حیوانی نسلوں کی اچانک نموداری دیکھی جو کہ آج بھی حیوانی زندگی پر راج کرتی ہیں۔3
اسی مضمون میں مزید لکھا ہے کہ:
” ان تمام پیچیدہ اورواضح طور پر امتیازی جاندار گروہوں کی وضاحت نظریہ ارتقاءکے حساب سے کرنا صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب فوصلی ریکارڈ زرخیزی سے ان جانداروں کی سلسلہ وار تدریجی ترقی کے ثبوت بھی پیش کریں لیکن ابھی تک ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔اس تفرقی ارتقاءکی موجودگی اور پھیلاﺅ کی بنیادی وجہ کوئی ایسا تاریخی گروہ تو ضرور ہوگا جس کا کوئی فوصلی ثبوت موجود نہیں ہے۔“ 4
زمین پر لاتعداد قسم کی حیوانی نسلوں کاچانک بغیر کسی ارتقاء کے نام و نشان کے نمودار ہونا ایک ایسامعمہ ہے جس کا حل ارتقاءپسند آج تک ڈھونڈ رہے ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز آکسفورڈ یونیورسٹی کا ماہرِ حیوانات ہے جس کا شمار دنیا میں ارتقائی سوچ کے سب سے بڑے حمایتیوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکنز کا اس حقیقت پر تبصرہ اس بحث کی بنیادوں کو ہی کھوکھلا کردیتا ہے جس کی وہ دراصل حمایت کرنا چاہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر کیمبرین دور کی پتھریلی ساخت سب سے قدیم ساخت ہے جس میں سب سے اہم غیر فقاری یعنی بغیر کی ہڈی والے جانداروں(Invertebrates) کے گروہ دریافت ہوئے ہیں۔ کئی جانداروں کے فوصل ان کو دریافت کے وقت سے ہی نہایت ترقی یافتہ ارتقائی حالت میں پیش کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے ان کو وہاں بغیر کسی ارتقائی تاریخ یا پس منظر کی بودیا ہو۔“ 5
ڈاکنز زبردستی اس بات کا اعتراف کرنے کے لئے مجبور ہے کہ کیمبرین دھماکہ تخلیق کا مضبوط ثبوت ہے کیونکہ صرف تخلیق ہی ان مکمل اور بے عیب جانداروں کی نموداری کی وجہ ہوسکتی ہے۔ ڈگلس فوٹائما ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات ہے اور اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے:
”جاندار زمین کے اوپر یا تو مکمل تخلیق شدہ حالت میں نمودار ہوئے یا پھر بالکل نہیں ہوئے۔ ان کے نہیں ہونے کا مطلب ہے کہ وہ کسی پہلے رہنے والی نسل کی تدریجی شکل ہیں۔ لیکن اگر ان سے پہلے کوئی نسل ہی موجود نہ ہو جس کی یہ تدریجی شکل ہوسکتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو کسی قادر مطلق طاقت نے تخلیق کیا ہے۔“ 6
اس بات کا امکان ڈارون نے خود ظاہر کیا تھا جب اس نے لکھا کہ ”اگر جانداروں کے اےک ہی خاندان کی کئی نسلیں اچانک ہی نمودار ہوئی ہیں تو یہ حقیقت تدریجی ترقی بذریعہ انتخاب طبعی کے نظریئے کے لئے موت ہے۔“7
کیمبرین دھماکہ ڈارون کے نظریئے کے لئے ایک مہلک وار ہے۔
کیمبرین دور میں اچانک نمودار ہونے والی ایک مخلوق ہیلوسیجینیا بھی تھی۔ اس کے اور کئی دوسری مخلوق کے فوصلوں میں سخت اور نوکیلی ریڑھ کی ہڈیوں کے آثار ملے ہیں جو ان کو حملوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتے تھے۔ ارتقاءپسند اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مخلوقات میں اتنے اعلیٰ دفاعی نظام کی موجودگی کی کیا وجہ تھی جبکہ ان کے آس پاس خطرناک شکاری بھی موجود نہیں تھے۔ ایسے شکاریوں کی غیر موجودگی کا ان ریڑھ کی ہڈیوں کی انتخاب طبعی کی رو سے وضاحت کرنا ناممکن ہے۔
اسی مضمون میں ارتقائی مصنف خاص طور پر اس نقطہ پر روشنی ڈالتے ہیں کہ:
” اسفنجوں، نائڈیرین اور سمندری پٹاری نما حیوانی گروہوں کے درمیان وسطی اشکال تصور کئے جانے والے حیوانات کی نئی جینیاتی تحقیق کے مطابق کوئی حقیقت نہیں ہے اور اسی لئے اب نظریہ ارتقاءکے پاس کسی بھی ایسے ارتقائی شجرہ نسب کو تعمیر کرنے کابھی کوئی جواز نہیں ہے۔ سالموں کی تحقیق پر مبنی جاندار نسلوں کی خصوصیات کئی اہم دلائل سامنے لاتی ہیں جس میں سے سب سے اہم اسفنجوں، نائڈیرین اور سمندری پٹاری نما گروہ کے درمیان وسطی اشکال کی غیر موجودگی ہے جو نتیجتاً ماضی میں خیال کئے گئے دو طرفہ جانداروں کے درمیان ہر رشتہ ختم کر کے ایک وسیع تعطل کو پیدا کرتا ہے۔
ہم نے ہر وہ امید چھوڑدی ہے جو کہ پچھلی ارتقائی منطقوں کا خاصہ تھی اور جس سے ہم جانداروں کے پرکھا کو سلسلہ وار تدریجی ترقی کے ذریعے قدیم سے ترقی یافتہ اشکال میں بدلتے ہوئے دکھاتے تھے۔ ان قدیم ”خاندانوں“ کی تعمیر اب ممکن نہیں رہی۔“ 9
سوئڈن کے ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Palaoentologist) اسٹیفن بینگسٹن کیمبرین دور میں وسطی کڑیوں(Missing links) کی غیر موجودگی کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ”کیمبرین دور ڈارون کے لئے تو ایک وجہ شرمندی ہے ہی مگر ہمارے لئے بھی چکاچوند کردینے والا واقعہ ہے۔“ 8
فوصلی ریکارڈ واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جاندار نسلیں ارتقاءکے ذریعے قدیم سے ترقی یافتہ اشکال میں نہیں ڈھلیں بلکہ اچانک اور مکمل ہیئتوں میں نمودار ہوئیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جاندار کسی تدریجی ترقی کا نہیں بلکہ تخلیق کا نتیجہ ہیں۔
نیچے جانداروں کے کئ ملین سال پرانے زمانے کے فوسل دیکھیں جنکہ میں یہ جاندار اج بھی اسی حالت میں ہیں جس میں یہ آج سے کروڑوں سال پہلے تھے اور یہ بات ارتقا کو غلط ثابت کرتی ہے۔
حوالہ جات:
1:David Raup, "Conflicts Between Darwin and Paleontology", Bulletin, Field Museum of Natural History, Vol 50, January 1979, p. 24.
2:Richard Monastersky, "Mysteries of the Orient", Discover, April 1993, p. 40.
3: Richard Fortey, "The Cambrian Explosion Exploded?", Science, vol 293, No 5529, 20 July 2001, p. 438-439.
4:ibid
5: Richard Dawkins, The Blind Watchmaker, London: W. W. Norton 1986, p. 229.
6:Douglas J. Futuyma, Science on Trial, New York: Pantheon Books, 1983, p. 197.
7: Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p. 302.
8:Stefan Bengston, Nature, Vol. 345, 1990, p. 765.
9:The New Animal Phylogeny: Reliability And Implications, Proc. of Nat. Aca. of Sci., 25 April 2000, vol 97, No 9, p. 4453-4456.
37 Ibid.


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔