Saturday 28 October 2017

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 2

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 2
ارتقا،پسندوں کی طرف سے فوسل ریکارڈ کس طرح عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ؟ پلٹ ڈاؤن اور اوٹا بینگا انسان کی فرضی کہانی،فوسل ریکارڈ کے حوالے سے ارتقائی سائنسدانوں کے جھوٹے دعوے اور جھوٹ پکڑے جانے پر ارتقا کے حامیوں کی سخت شرمساری
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
پوری تاریخ کے دوران تقریباً 6 ہزار گوریلوں کی نسلیں زمین پر پیدا ہوئیں جن میں سے زیادہ تر معدوم ہوگئیں۔ آج صرف 120 نسلیں زمین پر موجود ہیں لیکن معدوم گوریلوں کی ہڈیاں ارتقاءپسندوں کے لئے ہڈیوں کا ایک ایسا خزانہ ہیں جن کو وہ اپنے نظریوں کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ارتقاءپسندوں نے انسانی ارتقاءکا منظر نامہ اس طرح لکھاکہ پہلے اپنی مرضی کی کھوپڑیوں کو چھوٹے سے لے کر بڑے ناپ تک ایک ترتیب دے دی اور ان کے بیچ میں کچھ معدوم انسانی نسلوں کی کھوپڑیاں بھی ملا دیں۔ اس منظر نامے کے حساب سے انسان اور گوریلوں کے اجداد مشترک ہیں۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہ قدیم مخلوق وقت کے ساتھ ساتھ بسلسلہ تدریجی ترقی دورِ حاضر کا گوریلا بن گئی جبکہ ایک گروہ نے ارتقاءکی ایک اور شاخ کے ذریعے ترقی کے باعث دورِ حاضر کے انسانکی شکل اختیار کرلی۔ لیکن تمام علمِ معدوم حیوانا و نباتات، علم تشریح الاعضاءاور علم حیاتیات کی تحقیق کے مطابق نظریہ ارتقاءکا یہ دعویٰ اتنا ہی خام خیالی سے پر اور معذور ہے جتنے کہ دوسرے تمام دعوے ہیں۔ کسی بھی نوعیت کا اصل اور ٹھوس ثبوت آج تک اس معاملے میں سامنے نہیں آسکا جو کہ انسان اور گوریلے کے درمیان کوئی رشتہ استوار کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ سارے ثبوت صرف دھوکہ دہی ، حقیقت کی بگڑی ہوئی اشکال، بہکاووں سے پر خاکوں اور تجزیوں پر مشتمل ہیں۔
فوصلی ریکارڈ تاریخ کے ہردور میں انسانوں کا انسان اور گوریلوں کا گوریلے ہونے کی ہی نشاندہی کرتا ہے۔ ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے مطابق کچھ فوصل یا رکاز یا حجری حیاتیات جن کو وہ انسان کا جد امجد کہتے ہیں وہ ان انسانی نسلوں کی ہیں جو کہ ایک لاکھ سال پہلے کے دور میں زندہ رہیں اور معدوم ہوگئیں۔ اس کے علاوہ کئی انسانی گروہ جو کہ دورِ حاضر میں بھی موجود ہیں اِنہیں معدوم انسانی نسلوں سے مشترک طبعیاتی اور شکلیاتی خصوصیات کی حامل ہیں جن کو ارتقاءپسند انسانوں کے جد امجد کہتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ انسانی نسل تاریخ کے کسی دور میں کسی بھی ارتقائی عمل سے نہیں گزری۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ گوریلوں اور انسانوں کے درمیان اتنے زیادہ تشریح الاعضاءکے فرق موجود ہیں کہ ان دونوں نسلوں کا کسی بھی طرح کے تدریجی ترقی کے عمل کے ذریعے وجود میں آنے کا سول ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان میں سے سب سے نمایاں فرق دو ٹانگوں پر چلنے کی صفت ہے جو کہ انسان کے لئے مخصوص ہے۔ انسان اور دوسرے حیوانات کے درمیان فرق پیدا کرنے والی یہ سب سے اہم خصوصیت ہے۔
گو کہ گوریلانماآدمی کے مشہور خاکے کو سہارا دینے کے لئے کسی بھی طرح کا ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے پھر بھی یہ نقش تشہیراتی ذرائع اور ارتقائی تعلیمی حلقوں کے ذریعے پھیلایا جارہا ہے۔ ارتقائی مصور اپنے ہاتھوںمیں برش تھامے خیالی مخلوقات بنائے چلے جارہے ہیں لیکن ان تصویروں کی فوصلوں یعنی رکاز یا حجری حیاتیات یعنی ماضی کے مرنے والے قدیم جانوروں کی باقیات کے ساتھ غیر مطابقت ان کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔ اس سلسلے کا حل انہوں نے اس طرح نکالا کہ وہ خود ان فوصلوں کی تعمیر کرلیں جن کی انہیں ضرورت ہو۔ سائنسی تاریخ کا سب سے بڑا رسواکن نمونہ ’پلٹ ڈاﺅن مین ‘ اس طریقے کو استعمال کرنے کا بہترین ثبوت ہے۔
1912ء میں ایک جانا پہچانا ڈاکٹر اور قدیم بشری رکازیات(Paleontology) کا شائق چارلس ڈاسن نے یہ اعلان کیاکہ اس کو انگلستان کے مقام پلٹ ڈاﺅن کے ایک گڑھے سے ایک جبڑے کی ہڈی اور کھوپڑی کا حصہ ملا ہے۔ اگرچہ جبڑے کی ہڈی گوریلا نما تھی لیکن دانت اور کھوپڑی انسانی کھوپڑی سے مشابہ تھیں۔ ان نمونوں کو ’پلٹ ڈاﺅن مین یا پلٹ ڈاﺅن آدمی ‘ کا نام دیا گیا۔ اس وقت کہا گیا کہ یہ فوصل 5 لاکھ سال پرانے ہیں اور ان کی انسانی ارتقاءکے مطابق ثبوت کے طور پر کئی عجائب گھروں میں نمائش کی گئی۔40 سال سے زیادہ کے عرصے میں اس پلٹ ڈاﺅن مین کے اوپر کئی مضمون لکھے گئے، اس کی کئی تشریحات ہوئیں، اس کے کئی خاکے بنائے گئے اور یہ انسانی ارتقاءکا ایک ضروری ثبوت مان لیا گیا۔ حتیٰ کہ اعلیٰ ترین اسناد کے لئے اس کے اوپر تقریباً 500 کے قریب مقالے تک لکھے گئے ہیں . 1
1921ء میں انگلستان کے عجائب گھر کے دورے کے دوران ایک نامور امریکی ماہرِ قدیم بشری رکازیات ہنری فیرفیلڈ آسبارن نے کہا:”ہم کو یہ بار بار یاد دلایا جانا ضروری ہے کہ قدرت تضادپر مشتمل ہے۔“آسبارن نے پلٹ ڈاﺅن مین کو ”انسان کی ماقبل تاریخ کی تجربے سے بالاتر دریافت“ کہا ہے۔
1949ء میں انگلستان کے عجائب گھر کے معدوم حیوانات و نباتات(Paleontology) کے شعبے کے کینتھ اوکلی نے ’فلورین ٹیسٹ ‘ نامی ایک نئے تجربے کے ذریعے فوصلوں کی عمر جانچنے کی کوشش کی۔ پلٹ ڈاﺅن مین کے فوصل کے اوپر بھی اس نئے طریقے کے ذریعے تحقیق کی گئی اور اس کا نتیجہ حیران کن نکلا۔
تجربہ کے ذریعے پتہ چلا کہ اس پلٹ ڈاﺅن مین کے جبڑے کی ہڈی میں فلورین بالکل نہیں تھا یعنی کہ یہ ہڈی صرف چند سال سے ہی دفن رہی تھی۔ کھوپڑی میں فلورین صرف تھوڑی سی مقدار میں موجود تھا جس سے اس کی عمر چند ہزار سال پرانی ظاہر ہو رہی تھی۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ اس کے جبڑے میں موجود دانت ایک اورنگوٹین بندر کے تھے جن کو نقلی طریقوں سے ِگھس کر پرانا بنایا گیا تھا۔ فوصل کے ساتھ موجود جو قدیم اوزار تھے وہ بھی نقلی تھے جن کو لوہے کی مختلف مشینوں سے تیز کیاگیاتھا۔2
جو سف وائنز نے اس تجربہ کی مزید تحقیق کی اور اس دھوکہ دہی کی تفصےلات کو دنیا کے آگے 1953ء میں پیش کیا۔ پلٹ ڈاﺅن مین کی کھوپڑی ایک 500 سال پرانے آدمی کی تھی جبکہ اس کا جبڑا ایک ممالیہ مرے ہوئے گوریلے کا تھا۔ اس کے دانتوں کو خاص طور پر ترتیب دے کر جبڑے میں لگایا گیا تھا اور اس کی داڑھوں کی سطح کو اس طرح گھساگیا تھا کہ وہ انسانی داڑھوں سے مشابہ ہوگئے۔ ان تمام چیزوں کو پوٹاشیم ڈائکرومیٹ سے رنگ کر پرانا بنادیا گیا۔ تفصیلی تحقیق کے دوران جب ان تمام چیزوں کو تیزاب میں ڈبویا گیا تو یہ تمام رنگ غائب ہوگئے۔ اس دھوکے کی تحقیق کے گروہ میں سرولفرڈ لاگرو کلارک بھی شامل تھا اور اس تمام صورتحال پر اپنی حیرت کا مظاہرہ اس نے ان الفاظ میں کیا:”نقلی رینجھنے کے اس عمل کا ثبوت فوراً ہی واضح ہوگیا۔ یہ اتنا زیادہ واضح تھا کہ سمجھ نہیں آتا کہ اس غلطی کو پہلے کیوں نہیں پکڑا گیا۔“ 3
اس تمام سائنسی ثبوت کے سامنے آتے ہی پلٹ ڈاﺅن مین کو انگلستان کے عجائب گھر سے فوراً ہٹادیا گیا جہاں پر وہ بڑی شان سے 40 سال سے زائد عرصے سے ایساتذہ تھا۔
اپنی کتاب ”ڈیسنٹ آف مین“ یا انسان کا سلسلہ نسب کے ذریعے جب ڈارون نے اپنے دعوے کو فروغ دیا کہ انسان دراصل گوریلہ نما مخلوق کی تدریجی ترقی کا نتیجہ ہے تو پھر اس کو اس دعوے کے لئے ثبوت جمع کرنے کی بھی فکر ہوئی جو کہ صرف فوصل کی صورت ہی ہوسکتا تھا۔ بہت سے ارتقاءپسندوں کو یقین تھا کہ اس آدھے انسان آدھے گوریلا نما مخلوق کے نشانات نہ صرف فوصلی ریکارڈ میں موجود ہوں گے بلکہ یہ دنیا کے کچھ حصوں سے شاید انہیں یہ ’ عبوری کڑیاں(Transitional Links) ‘ زندہ بھی مل جائیں۔
بیسویں صدی کی شروعات میں ان زندہ عبوری کڑیوں کی تلاش کے ہاتھوں کئی افسوسناک واقعات دیکھنے میں آئے۔ ان میں سے سب سے ایذارساں کہانی اوٹابینگا نامی افریقہ کے بالشتئے کی ہے۔ اوٹابینگا کو 1902ء میں ایک ارتقائی تحقیق دان نے افریقہ کی ریاست کانگو میں قید کیا۔ اس کی اپنی زبان میں اس کے نام کا مطلب ”دوست“ تھا اور اس کی بیوی اور دو بچے بھی تھے۔ پنجرے میں زنجیروں سے قید کرکے اس کو امریکہ لایا گیا جہاں ارتقائی سائنسدانوں نے اس کی نمائش گوریلوں کی کئی دوسری نسلوں کے ساتھ انسان سے سب سے قریبی عبوری کڑی کے طور پر سینٹ لوئی کے عالمی میلے میں کی۔ دوسال بعد یہ لوگ اس کو نیویارک کے برانکس کے چڑیا گھر لے گئے اور اس کو انسان کا قدیم جد امجد کے نام سے پیش کیا۔
یہاں پر اوٹابینگا کے ساتھ کچھ چمپانزی بندر، ڈائنا نامی گوریلا اور ڈوہنگ نامی اورنگوٹین بندر بھی موجود تھے۔ چڑیا گھر کا ارتقاءپسند منظم اعلیٰ ڈاکٹر ولیم ٹی ہارناڈے نے لمبی لمبی تقریریں کیں کہ اس غیر معمولی عبوری کڑی کا اس کے چڑیا گھر میں ہونا اس کے لئے کس قدر فخر کی بات تھی۔ پنجرے میں قید اوٹابینگا کے ساتھ ایک عام جانور کی طرح سلوک کیا گیا۔ آخر کاراس تمام سلوک کو مزید برداشت نہ کرنے کی سکت کے باعث اوٹابینگا نے خودکشی کرلی۔4
پلٹ ڈاﺅن مین، نبراسکا کا آدمی اور اوٹابینگا ایسے رسوا انگیز واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے نظریوں کو فروغ دینے کے لئے ارتقائی سائنسدان کسی بھی طرح کا طریقہ کار اپنانے سے گریز نہیں کرتے۔ اس نقطے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب اس طرح کے دوسرے انسانی ارتقاءسے متعلق خیالی کہانیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس طرح کے اور بھی واقعات سامنے آتے ہےں۔ مندرجہ ذیل ایک ایسی ہی خیالی حکایت اور اس کو ثابت کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والوں کی ایک ارتقائءپسند فوج کا قصہ ہے جو کہ اس کہانی کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ہر حربہ آزمانے کو تیار ہیں۔
حوالہ جات:
1: Malcolm Muggeridge, The End of Christendom, Grand Rapids, Eerdmans, 1980, p. 59.
2: Kenneth Oakley, William Le Gros Clark & J. S, "Piltdown", Meydan Larousse, Vol 10, p. 133.
3: Stephen Jay Gould, "Smith Woodward's Folly", New Scientist, April 5, 1979, p. 44.
4: Philips Verner Bradford, Harvey Blume, Ota Benga: The Pygmy in The Zoo, New York: Delta Books, 1992.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔