ظالم دنیا اور نا م نہاد اعلٰی تعلیم یافتہ لبرلزکی طرف سے ایک نوجوان غریب لڑکی کے جنسی استحصال کی سچی کہانی
--------------------
یہ تحریر میری ایک جاننے والی لڑکی کی زندگی کے حوالے سے ہے جو میں نے آپ حضرات کے لیے لکھی ہے۔یہ ایک غریب حسین نوجوان لڑکی کی سچی کہانی ہے جو اسنے مجھے ایک ہفتہ پہلے بتائی۔ایک ہفتہ ہونے کو ہے۔اس کے الفاظ میرے ذہن کو جھنجوڑ رہے ہیں۔میں یہ واقعہ سننے کے بعد شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوچکا ہوں ۔یہ واقعہ اگر کسی دینی مدرسے میں ہوتا تو اس پہ بہت شور مچایا جاتا لیکن یہ واقعہ جدید دنیاوی تعلیم یافتہ لبرلز کے حوالے سے ہے جس پہ کوئ اتنا شور نہیں کرے گا۔۔ اب تحریر پڑھیں
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
میں لاپتہ ہوگئ ہوں،میں بیہوش اکیلی ہسپتال میں پڑی ہوں،میرے گھر والوں کو میرے بارے میں کچھ نہیں پتہ،میرے والدین میری گمشدگی پہ شدید اذیت میں مبتلا ہیں،میری خیریت کے بارے میں پتہ کرایا جا رہا ہے،میں رات دیر تک گھر نہیں پہنچی ہوں،میری سہیلیوں کو کال کرکے میری خیریت کا پتہ کرایا جا رہا ہے،میرے بارے میں پوچھا جا رہا ہے کہ میں کہاں ہوں،کسی کو میرے بارے میں کچھ نہیں پتہ کہ میں کہاں ہوں،میرے والدین پہ میری گمشدگی پہ بیہوشی کے کے دورے پڑ رہے ہیں،میری ماں غم سے نڈھال ہے،میرا ذہنی معذور باپ اپنے حواس کھو چکا ہے،میرے رشتہ دار میری گمشدگی پہ پریشان ہونے کی بجائے الٹا میرے گھر والوں کو میرے گھر سے بھاگ جانے کے طعنے دے رہے ہیں،پھر آخر میری وہی سہیلی جو میرے ساتھ یہ سب ہونے کی ذمہ دار ہے میرے گھر والوں کو فون کرکے جھوٹ بتاتی ہے کہ میں اس سے ملنے اس کے ہاسٹل آنے کے بعد ہیضہ کے بعد بہیوش ہو گئ ہوں،میرے والدین ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔
اب رات کے تین بج چکے ہیں،میں ہوش میں آچکی ہوں،میں ٹھیک ہوکر گھر آچکی ہوں،میں نہیں جانتی کہ میرے ساتھ کیا ہوا،مجھے میری سہیلی نے اپنے ہسپتال کے ہاسٹل کے اکیلے کمرے میں کونسی بوتل پلائی تھی جس کے بعد میں بیہوش ہوگئ ہوں،مجھے نہیں پتہ کہ میرے باپ کی عمر کے تین ڈاکٹر،ایک آرتھو پیڈک یعنی ہڈی جوڑ سرجن،ایک نیورو سرجن اور ایک چائلڈ سپیشلسٹ میری سہیلی کو رقم دے کر مجھے بیہوش کرکے میرے کپڑے ہی نہیں،میری عزت بھی تار تار کر چکے ہیں،میری قابل اعتراض ویڈیو بنائی جا چکی ہے،میری عزت سے کھیلنے کے بعد بھی ان کی تسلی نہیں ہورہی،اس جنسی درندگی کو آگے جاری رکھنے اور اپنی ہوس کا سامان مہیا رکھنے کے کے لیے مجھے بلیک میل کرنے کے سارے سامان مہیا کیے جا چکے ہیں،میں نہیں جانتی کہ یہ سب ہوچکا میرے ساتھ،میں 18 سال کی معصوم لڑکی ان سب باتوں سے بے خبر ہوں کہ میری کنوارگی اور عزت کے پیچھے اتنے لوگ پڑ چکے ہیں۔
اب ہوش میں آنے کے بعداگلا دن ہے۔مجھے بوتل میں نیند آور ادویات ملاکر میری عزت کا سودا کرنے والی نرس سہیلی کی کال آرہی ہے،مجھے بتایا جا رہا ہے کہ میں لٹ چکی ہوں،برباد ہوچکی ہوں،میری عزت میرا مان میرا دھرم سب لٹ چکا ہے،یہ سب بڑے فخر سے بتا کر مجھے بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ میں اب اس کے کہنے پہ ہر طرح کے مرد کی جنسی ہوس پوری کروں گی ورنہ میری ویڈیو پوری دنیا میں پھیلا کر زمین میرے رہنے کے لیے تنگ کر دی جائے گی،اور مجبوری خوف ڈر کی صورت میں آج میں بے بس لیکن مکمل ہوش کی حالت میں ایک بار پھر ان ڈاکٹروں کے سامنے پڑی ہوں جنہوں نے پہلے مجھے بیہوش کراکر میری عزت تار تار کی،اور پھر اس کے بعد کبھی میں شہر کے مشہور ہسپتال کے سامنے ایک ہوٹل کے روم میں کبھی کس ڈاکٹر کی جنسی ہوس کا شکار ہورہی ہوں تو کبھی کس ڈاکٹر کی جنسی ہوس کا۔میری عزت میرا دوپٹہ کبھی شہر کے ہر مشہور ہوٹل کے کمروں کبھی شہر کے امیر لوگوں کی شہر کے مشہور علاقوں میں موجود کوٹھیوں اور کبھی پاکستان کے مشہور ترین ہسپتالوں میں سے ایک ہسپتال کے ڈاکٹر ہاسٹل میں اچھالا جا رہا ہے،کبھی میرے جسم کو پاکستان کے اس مشہور ترین ہسپتالوں میں سے ایک کا ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نوچتا ہے تو کبھی اس ہسپتال کے مشہور پروفیسر ڈاکٹر اور حقیقت میں خفیہ جنسی درندے۔مجھے اس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرکے بیس مردوں کے ہاتھوں میں دیا جا چکا ہے،میری سہیلی ان سب سے پیسے بٹور رہی ہے۔
میں کیا کروں،کہاں مروں،کاش زمین پھٹ جائے اور میں زندہ اس میں دفن ہوجاؤں، خود کشی کروں؟کیسے؟مجھ پہ منحصر ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو دنیا میں اکیلا چھوڑ کر؟جن کا گزارا میری ایک فارما کمپنی میں میڈیکل نمائندے کی جاب سے چل رہا تھا۔میں نفسیاتی مریض بن چکی ہوں،میں آج اس واقعے کے چار سال بعد صرف 22 سال کی عمر میں بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ بن چکی ہوں،میری جوانی کے خواب ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں،واپڈا کے بڑے افسر اور شہر کے بڑے وکیل،بڑے پروفیسر،ڈاکٹر میری غربت کے نام پہ مجھ سے ہمدردی کرتے ہیں اور پھر میری عزت سے کھیل کر مجھے چھوڑ رہے ہیں،ڈاکٹروں کی طرف سے میری کمپنی کی دوائی میری عزت کا سودا لگا کر لکھی جاتی ہے،نہ لکھی جائے اور کمپنی کو آمدنی نہ ہو رہی ہو تو کمپنی مجھے جاب سے نکال دیتی ہے۔میں پاگل ہورہی ہوں،مجھے نیند نہیں آتی راتوں کو،نیند کی ادویات میری غذا بن چکی ہیں،گھر میں کھانے پینے بہن بھائیوں کی تعلیم کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں۔جو دیتا ہے پہلے میرے جسم کا مطالبہ کرتا ہے۔
اے میرے رب!میں اپنی کمزوری اور دنیا کے ظلم کا گلہ تجھ سے کرتی ہوں۔تو نے مجھے کتنی ظالم دنیا کے حوالے کر دیا۔یا مجھے اس بے عزتی کی زندگی سے نجات دے یا میرے مسائل حل کر۔اے میرے رب!اے رب العالمین
--------------------
یہ تحریر میری ایک جاننے والی لڑکی کی زندگی کے حوالے سے ہے جو میں نے آپ حضرات کے لیے لکھی ہے۔یہ ایک غریب حسین نوجوان لڑکی کی سچی کہانی ہے جو اسنے مجھے ایک ہفتہ پہلے بتائی۔ایک ہفتہ ہونے کو ہے۔اس کے الفاظ میرے ذہن کو جھنجوڑ رہے ہیں۔میں یہ واقعہ سننے کے بعد شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوچکا ہوں ۔یہ واقعہ اگر کسی دینی مدرسے میں ہوتا تو اس پہ بہت شور مچایا جاتا لیکن یہ واقعہ جدید دنیاوی تعلیم یافتہ لبرلز کے حوالے سے ہے جس پہ کوئ اتنا شور نہیں کرے گا۔۔ اب تحریر پڑھیں
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
میں لاپتہ ہوگئ ہوں،میں بیہوش اکیلی ہسپتال میں پڑی ہوں،میرے گھر والوں کو میرے بارے میں کچھ نہیں پتہ،میرے والدین میری گمشدگی پہ شدید اذیت میں مبتلا ہیں،میری خیریت کے بارے میں پتہ کرایا جا رہا ہے،میں رات دیر تک گھر نہیں پہنچی ہوں،میری سہیلیوں کو کال کرکے میری خیریت کا پتہ کرایا جا رہا ہے،میرے بارے میں پوچھا جا رہا ہے کہ میں کہاں ہوں،کسی کو میرے بارے میں کچھ نہیں پتہ کہ میں کہاں ہوں،میرے والدین پہ میری گمشدگی پہ بیہوشی کے کے دورے پڑ رہے ہیں،میری ماں غم سے نڈھال ہے،میرا ذہنی معذور باپ اپنے حواس کھو چکا ہے،میرے رشتہ دار میری گمشدگی پہ پریشان ہونے کی بجائے الٹا میرے گھر والوں کو میرے گھر سے بھاگ جانے کے طعنے دے رہے ہیں،پھر آخر میری وہی سہیلی جو میرے ساتھ یہ سب ہونے کی ذمہ دار ہے میرے گھر والوں کو فون کرکے جھوٹ بتاتی ہے کہ میں اس سے ملنے اس کے ہاسٹل آنے کے بعد ہیضہ کے بعد بہیوش ہو گئ ہوں،میرے والدین ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔
اب رات کے تین بج چکے ہیں،میں ہوش میں آچکی ہوں،میں ٹھیک ہوکر گھر آچکی ہوں،میں نہیں جانتی کہ میرے ساتھ کیا ہوا،مجھے میری سہیلی نے اپنے ہسپتال کے ہاسٹل کے اکیلے کمرے میں کونسی بوتل پلائی تھی جس کے بعد میں بیہوش ہوگئ ہوں،مجھے نہیں پتہ کہ میرے باپ کی عمر کے تین ڈاکٹر،ایک آرتھو پیڈک یعنی ہڈی جوڑ سرجن،ایک نیورو سرجن اور ایک چائلڈ سپیشلسٹ میری سہیلی کو رقم دے کر مجھے بیہوش کرکے میرے کپڑے ہی نہیں،میری عزت بھی تار تار کر چکے ہیں،میری قابل اعتراض ویڈیو بنائی جا چکی ہے،میری عزت سے کھیلنے کے بعد بھی ان کی تسلی نہیں ہورہی،اس جنسی درندگی کو آگے جاری رکھنے اور اپنی ہوس کا سامان مہیا رکھنے کے کے لیے مجھے بلیک میل کرنے کے سارے سامان مہیا کیے جا چکے ہیں،میں نہیں جانتی کہ یہ سب ہوچکا میرے ساتھ،میں 18 سال کی معصوم لڑکی ان سب باتوں سے بے خبر ہوں کہ میری کنوارگی اور عزت کے پیچھے اتنے لوگ پڑ چکے ہیں۔
اب ہوش میں آنے کے بعداگلا دن ہے۔مجھے بوتل میں نیند آور ادویات ملاکر میری عزت کا سودا کرنے والی نرس سہیلی کی کال آرہی ہے،مجھے بتایا جا رہا ہے کہ میں لٹ چکی ہوں،برباد ہوچکی ہوں،میری عزت میرا مان میرا دھرم سب لٹ چکا ہے،یہ سب بڑے فخر سے بتا کر مجھے بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ میں اب اس کے کہنے پہ ہر طرح کے مرد کی جنسی ہوس پوری کروں گی ورنہ میری ویڈیو پوری دنیا میں پھیلا کر زمین میرے رہنے کے لیے تنگ کر دی جائے گی،اور مجبوری خوف ڈر کی صورت میں آج میں بے بس لیکن مکمل ہوش کی حالت میں ایک بار پھر ان ڈاکٹروں کے سامنے پڑی ہوں جنہوں نے پہلے مجھے بیہوش کراکر میری عزت تار تار کی،اور پھر اس کے بعد کبھی میں شہر کے مشہور ہسپتال کے سامنے ایک ہوٹل کے روم میں کبھی کس ڈاکٹر کی جنسی ہوس کا شکار ہورہی ہوں تو کبھی کس ڈاکٹر کی جنسی ہوس کا۔میری عزت میرا دوپٹہ کبھی شہر کے ہر مشہور ہوٹل کے کمروں کبھی شہر کے امیر لوگوں کی شہر کے مشہور علاقوں میں موجود کوٹھیوں اور کبھی پاکستان کے مشہور ترین ہسپتالوں میں سے ایک ہسپتال کے ڈاکٹر ہاسٹل میں اچھالا جا رہا ہے،کبھی میرے جسم کو پاکستان کے اس مشہور ترین ہسپتالوں میں سے ایک کا ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نوچتا ہے تو کبھی اس ہسپتال کے مشہور پروفیسر ڈاکٹر اور حقیقت میں خفیہ جنسی درندے۔مجھے اس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرکے بیس مردوں کے ہاتھوں میں دیا جا چکا ہے،میری سہیلی ان سب سے پیسے بٹور رہی ہے۔
میں کیا کروں،کہاں مروں،کاش زمین پھٹ جائے اور میں زندہ اس میں دفن ہوجاؤں، خود کشی کروں؟کیسے؟مجھ پہ منحصر ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو دنیا میں اکیلا چھوڑ کر؟جن کا گزارا میری ایک فارما کمپنی میں میڈیکل نمائندے کی جاب سے چل رہا تھا۔میں نفسیاتی مریض بن چکی ہوں،میں آج اس واقعے کے چار سال بعد صرف 22 سال کی عمر میں بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ بن چکی ہوں،میری جوانی کے خواب ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں،واپڈا کے بڑے افسر اور شہر کے بڑے وکیل،بڑے پروفیسر،ڈاکٹر میری غربت کے نام پہ مجھ سے ہمدردی کرتے ہیں اور پھر میری عزت سے کھیل کر مجھے چھوڑ رہے ہیں،ڈاکٹروں کی طرف سے میری کمپنی کی دوائی میری عزت کا سودا لگا کر لکھی جاتی ہے،نہ لکھی جائے اور کمپنی کو آمدنی نہ ہو رہی ہو تو کمپنی مجھے جاب سے نکال دیتی ہے۔میں پاگل ہورہی ہوں،مجھے نیند نہیں آتی راتوں کو،نیند کی ادویات میری غذا بن چکی ہیں،گھر میں کھانے پینے بہن بھائیوں کی تعلیم کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں۔جو دیتا ہے پہلے میرے جسم کا مطالبہ کرتا ہے۔
اے میرے رب!میں اپنی کمزوری اور دنیا کے ظلم کا گلہ تجھ سے کرتی ہوں۔تو نے مجھے کتنی ظالم دنیا کے حوالے کر دیا۔یا مجھے اس بے عزتی کی زندگی سے نجات دے یا میرے مسائل حل کر۔اے میرے رب!اے رب العالمین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔