نظریہ ارتقا جینیاتی طور پرپر کیوں غلط ہے؟
نظریہ ارتقاء کی جینیاتی اساس کا کھوکھلا پن اور اس میں پائی جانے والی سائنسی غلطیاں
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
جینیاتی تبدیلی کسی جاندار کے DNA میں نئی معلومات کا اضافہ نہیں کرتی۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جینیاتی معلومات کی تشکیل کرنے والے ذرات اپنی جگہوں سے پھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں، ضائع ہوجاتے ہیں یا دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ کسی بھی جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کسی جاندار کا نیا عضو یا نئی عادت حاصل کرلینا یا کسی اور قسم کےکی جاندار میں تبدیل ہوجانا ناممکن ہے۔ یہ تبدیلی صرف غیر معمولی بدہیئتیں پیدا کرسکتی ہے مثلاً پیٹھ پر سے ٹانگ اور پیٹ پر کان کا اگ آنا۔
جینیاتی تبدیلی کا مفہوم DNA کے ذرے میں تعطل یا تبدیلی ہے۔ DNA اپنی مثل پیدا کرنے والا مادہ ہوتا ہے جو تقریباً سب زندہ نامی اجسام میں موجود ہوتا ہے اور جس میں اس جسم سے متعلق تمام جینیاتی معلومات موجود ہوتی ہیں۔ اس مادے میں تعطل یا تبدیلی بیرونی نورافگنی یا کیمیائی اثرات کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ ہر جینیاتی تبدیلی ایک حادثہ ہوتا ہے جس کے تحت DNA کے مادے کے ذرات توڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتے ہیں یا ان کی جگہ بدل جاتی ہے۔ اکثر اوقات DNA کا مادہ اتنے زیادہ نقصان کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کی مرمت اس خلیئے کے لئے ناممکن ہوجاتی ہے جس کے اندر وہ موجود ہوتا ہے۔ ارتقاءپسند اکثر جینیاتی تبدیلی کے وصف کے پیچھے منہ چھپانے کی کوشش اس دعوے کے ساتھ کرتے ہیں کہ یہ عمل ایک ایسی جادو کی چھڑی ہے جو کہ جاندار نسلوں کو مزید ترقی یافتہ اور بہترین بنانے کے لائق ہے۔ لیکن جینیاتی تبدیلی کے براہِ راست اثرات صرحاً نقصان دہ ہیں۔ جینیاتی تبدیلی کے اثرات ہیروشیما، ناگاساکی اور چرنوبل کے نیوکلیائی حادثات مےں واضح ہیں جن کا نتیجہ صرف موت، بیماری اور معذوری تھا۔ اس کی وجہ بہت سیدھی سادھی ہے۔ DNA کے مادے کی ساخت بے انتہا پیچیدہ ہے اور بے ترتیب اثرات اس مادے کو صرف نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ بی جی رانگانیتھن کے الفاظ میں:
”اول بات تو یہ ہے کہ قدرت میں بے ترتیب جینیاتی تبدیلی ایک بے انتہا غیر معمولی واقعہ ہے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ تر جینیاتی بے ترتیبی نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ یہ جینیات کی ساخت میں ترتیب وار تبدیلی کے برعکس ایک بے ترتیبی ہوتی ہے۔ کسی بھی بے انتہا پیچیدہ نظام میں معمولی سی بھی بے ترتیب تبدیلی صرف نقصان پیدا کرسکتی ہے، فائدہ نہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک زلزلہ ایک پیچیدہ عمارتی ڈھانچے کو ہلادے تو اس سے اس عمارت کے تعمیراتی ڈھانچے میں شدید بے ترتیبی پیدا ہوجائے گی جس کو کسی طور سے بھی بہتری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔“ 1
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ آج تک کوئی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے۔ تمام جینیاتی تبدیلیاں سراسر نقصان دہ رہی ہیں۔ارتقائی سائنسدان وارن وےور اس رپورٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے جو کہ ایٹمی حملے کے جینیاتی اثرات کی کمیٹی نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر لکھی تھی:
”بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہوں گے کہ تقریباً ساری ہی تبدیل شدہ جینیات نقصان دہ ہیں کیونکہ جینیاتی تبدیلی کو ارتقائی عمل کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایک اعلیٰ نسل کو پیش کرنے والا عمل ان تبدیل شدہ جینیات کا نتیجہ کیسے ہوسکتا ہے جو کہ سراسر نقصان دہ ہیں، فائدہ مند ہرگز نہیں؟“ 2
20 ویں صدی کی شروعات سے ارتقاءپسند ماہرِ حیاتیات جینیاتی تبدیلی کے ذریعے پید اکی گئی مکھیوں سے فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کاوشوں کا نتیجہ بد ہیئت اور بیمار مکھیوں کی شکل میں نکلا ہے۔ اوپر والی تصویر میں ایک صحت مند پھلوں کی مکھی کا سر ہے اور نیچے والی تصویرمیں اسی مکھی کے سر سے ٹانگیں نکلی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اوپر کی ایک تصویر میں اس مکھی کے پر بھی جینیاتی تبدیلی کے باعث بدشکل ہوچکے ہیں۔
ایک بھی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کو وجود میں لانے کے لئے کی جانے والی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ کئی دہائیوں تک ارتقائی سائنسدانوں نے پھلوں کی مکھی پر جینیاتی تجربے کئے کیونکہ یہ مکھی بہت تیزی سے نسل بڑھاتی ہے اور اس لئے اس میں جینیاتی تجربوں کے اثرات بھی تیزی سے رونما ہوتے نظر آسکتے تھے۔ اس مکھیوں کی نسل در نسل پر یہ تجربے کئے گئے لیکن ایک بھی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔
ارتقائی ماہرِ جینیات گورڈن ٹیلر لکھتا ہے:
”گوکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اس پر تبصرہ بہت کم اوقات کیاجاتا ہے کہ دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں ماہرِ جینیات پھلوں کی مکھیوں کی افزائش جینیاتی تجربوں کی شدید ناکامی کے باوجود مسلسل کئے جارہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ یہ مکھی ہر گیارہ روز بعد ایک نئی نسل جن دیتی ہے انسائنسدانوں نے اپنے کسی بھی تجربے سے ابھی تک اس مکھی کی نسل تو کجا اس میں کسی نئے لحمیہ کا وجود تک نہیں پایا“۔ 3
ایک اور تجربہ دان مائکل پٹمین بھی پھلوں کی مکھی پر کئے جانے والے تجربوں کی ناکامی کے بارے میں لکھتا ہے:
”مورگن، گولڈ اشمتھ، ملر اور کئی دوسرے ماہرِ جینیات نے پھلوں کی مکھی کی نئی نسلوں کو شدید گرمی، سردی، روشنی، اندھیرے، کیمیائی اور نورافگنی کے ماحول میں رکھا۔ ہر طرح کی معمولی سے لے کر تباہ کن جینیاتی تبدیلی ان کے اندر پیدا کی گئی۔ انسان کی پیدا کی گئی نسلیں ہرگز نہیں۔ کیونکہ ان ارتقائی عجیب الخلقت حیوانات میں سے ایک بھی اپنی نسل کی افزائش کرنے کے لائق نہیں تھا اگر اس کو اس بوتل سے باہر نکال دیا جاتا جس میں وہ تجربوں کی مدد سے وجود میں لایا گیا تھا۔ عملی طور پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نسل مرجاتی ہے یا بانجھ ہوتی ہے یا پھر مکمل طور پر جنگلی ہوجاتی ہے۔“ 4
یہ اصول انسانی نسل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ انسانی نسلوں میں جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے تباہ کن رہے ہیں۔ اس معاملے میں ارتقاءپسند معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے وہ نمونے پیش کرتے ہیں جو کہ تباہ کن اثرات کا مجسمہ ہونے کے باوجود ان کے حساب سے ارتقاءکا ثبوت ہیں۔ انسانوں میں جینیاتی تبدیلی کا نتیجہ جسمانی معذوری اور ڈاون سنڈروم، منگولزم، البینو، بونے اور کینسر جیسی بیماریاں ہیں۔ ان تمام جینیاتی معذوریوں کو ارتقاءکی نصابی کتابوں میں ارتقاءکے عملی ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ بات ان ارتقائی سائنسدانوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ کوئی بھی عمل جو کہ لوگوں کو معذور اور بیمار بنادے وہ ایک فائدہ مند ارتقائی عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ ارتقاءکا صحیح مفہوم ایسے جاندار پیدا کرنا ہے جن کے اندر اپنے ماحول میں بہترین طریقے سے پنپنے کی صلاحیت موجود ہو۔
خلاصے کے طور پر تین وجوہات ایسی ہیں جن کی روشنی میں جینیاتی تبدیلی ارتقاءپسندوں کے دعوﺅوں کو سہارا دینے سے قاصر ہے:
1۔ جینیاتی تبدیلی کے براہِ راست اثرات نقصان دہ ہیں۔ کیونکہ جینیاتی تبدیلی ایک بے ترتیب عمل ہے اس لئے یہ تقریباً ہمیشہ اس جاندار کو نقصان پہنچاتا ہے جس میں یہ رونما ہوتا ہے۔ منطق کے حساب سے بھی یہ اصول سمجھنا مشکل نہیں کہ کسی بھی پیچیدہ اور مکمل ساخت میں ایک بے شعور اور بے ترتیب مداخلت اس ساخت کو فائدہ ہرگز نہیں پہنچاسکتی۔ اس لئے آج تک کوئی مداخلت اس ساخت کو فائدہ ہرگز نہیں پہنچاسکتی۔ اسی لئے آج تک کوئی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔
2۔ جینیاتی تبدیلی کے ذریعے کسی بھی جاندار کے DNA کے مادے میں نئی معلومات کا اضافہ نہیں ہوسکتا۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جینیاتی معلومات کے ذرے یا تو اپنی اصل جگہ سے الگ ہوجاتے ہیں، مکمل طور پر تباہ ہوجاتے ہیں یا پھر کسی اور جگہ پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آج تک نئی عادات اور نئے اعضاءپیدا نہیں ہوئے، صرف موجودہ اعضاءمیں شدید معذوری نظر آئی ہے مثلاً پیٹھ پر ٹانگ کا اگ آنا یا پیٹ پر کان کا ابھر آنا۔
3۔ اگر جینیاتی تبدیلی نے دوسری نسل میں منتقل ہونا ہے تو اس کے لئے اس کا عمل جاندار کے افزائشی خلیوں کے اندر ہونا لازمی ہے۔ کسی جاندار کے عام خلیئے یا عضو کے اندر پیدا ہونے والا بے ترتیب عمل اس کے آنے والی نسل میں اس وقت تک منتقل نہیں ہوسکتا جب تک کہ افزائشی خلیوں میں موجود DNA کا مادہ جینیاتی تبدیلی کے اثرات کے تحت تبدیل ہوجائے۔ مثال کے طور پر نورافگنی اثرات سے انسانی آنکھ کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی آنے والی نسل کو منتقل نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح جانداروں کی افزائش ارتقاءکے عمل کے تحت ممکن ہی نہیں کیونکہ قدرت نے ایسا کوئی نظام ہی نہیں بنایا۔ فوصلی ریکارڈ بھی اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔ فوصل کسی بھی زاویئے سے ارتقائی عمل کی تصدیق نہیں کرتے۔
حوالہ جات:
1:B. G. Ranganathan, Origins?, Pennsylvania: The Banner Of Truth Trust, 1988.
2:Warren Weaver, "Genetic Effects of Atomic Radiation", Science, Vol 123, June 29, 1956, p. 1159.
3:Gordon R. Taylor, The Great Evolution Mystery, New York: Harper & Row, 1983, p. 48.
4:Michael Pitman, Adam and Evolution, London: River Publishing, 1984, p. 70.
نظریہ ارتقاء کی جینیاتی اساس کا کھوکھلا پن اور اس میں پائی جانے والی سائنسی غلطیاں
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
جینیاتی تبدیلی کسی جاندار کے DNA میں نئی معلومات کا اضافہ نہیں کرتی۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جینیاتی معلومات کی تشکیل کرنے والے ذرات اپنی جگہوں سے پھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں، ضائع ہوجاتے ہیں یا دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ کسی بھی جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کسی جاندار کا نیا عضو یا نئی عادت حاصل کرلینا یا کسی اور قسم کےکی جاندار میں تبدیل ہوجانا ناممکن ہے۔ یہ تبدیلی صرف غیر معمولی بدہیئتیں پیدا کرسکتی ہے مثلاً پیٹھ پر سے ٹانگ اور پیٹ پر کان کا اگ آنا۔
جینیاتی تبدیلی کا مفہوم DNA کے ذرے میں تعطل یا تبدیلی ہے۔ DNA اپنی مثل پیدا کرنے والا مادہ ہوتا ہے جو تقریباً سب زندہ نامی اجسام میں موجود ہوتا ہے اور جس میں اس جسم سے متعلق تمام جینیاتی معلومات موجود ہوتی ہیں۔ اس مادے میں تعطل یا تبدیلی بیرونی نورافگنی یا کیمیائی اثرات کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ ہر جینیاتی تبدیلی ایک حادثہ ہوتا ہے جس کے تحت DNA کے مادے کے ذرات توڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتے ہیں یا ان کی جگہ بدل جاتی ہے۔ اکثر اوقات DNA کا مادہ اتنے زیادہ نقصان کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کی مرمت اس خلیئے کے لئے ناممکن ہوجاتی ہے جس کے اندر وہ موجود ہوتا ہے۔ ارتقاءپسند اکثر جینیاتی تبدیلی کے وصف کے پیچھے منہ چھپانے کی کوشش اس دعوے کے ساتھ کرتے ہیں کہ یہ عمل ایک ایسی جادو کی چھڑی ہے جو کہ جاندار نسلوں کو مزید ترقی یافتہ اور بہترین بنانے کے لائق ہے۔ لیکن جینیاتی تبدیلی کے براہِ راست اثرات صرحاً نقصان دہ ہیں۔ جینیاتی تبدیلی کے اثرات ہیروشیما، ناگاساکی اور چرنوبل کے نیوکلیائی حادثات مےں واضح ہیں جن کا نتیجہ صرف موت، بیماری اور معذوری تھا۔ اس کی وجہ بہت سیدھی سادھی ہے۔ DNA کے مادے کی ساخت بے انتہا پیچیدہ ہے اور بے ترتیب اثرات اس مادے کو صرف نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ بی جی رانگانیتھن کے الفاظ میں:
”اول بات تو یہ ہے کہ قدرت میں بے ترتیب جینیاتی تبدیلی ایک بے انتہا غیر معمولی واقعہ ہے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ تر جینیاتی بے ترتیبی نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ یہ جینیات کی ساخت میں ترتیب وار تبدیلی کے برعکس ایک بے ترتیبی ہوتی ہے۔ کسی بھی بے انتہا پیچیدہ نظام میں معمولی سی بھی بے ترتیب تبدیلی صرف نقصان پیدا کرسکتی ہے، فائدہ نہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک زلزلہ ایک پیچیدہ عمارتی ڈھانچے کو ہلادے تو اس سے اس عمارت کے تعمیراتی ڈھانچے میں شدید بے ترتیبی پیدا ہوجائے گی جس کو کسی طور سے بھی بہتری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔“ 1
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ آج تک کوئی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے۔ تمام جینیاتی تبدیلیاں سراسر نقصان دہ رہی ہیں۔ارتقائی سائنسدان وارن وےور اس رپورٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے جو کہ ایٹمی حملے کے جینیاتی اثرات کی کمیٹی نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر لکھی تھی:
”بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہوں گے کہ تقریباً ساری ہی تبدیل شدہ جینیات نقصان دہ ہیں کیونکہ جینیاتی تبدیلی کو ارتقائی عمل کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایک اعلیٰ نسل کو پیش کرنے والا عمل ان تبدیل شدہ جینیات کا نتیجہ کیسے ہوسکتا ہے جو کہ سراسر نقصان دہ ہیں، فائدہ مند ہرگز نہیں؟“ 2
20 ویں صدی کی شروعات سے ارتقاءپسند ماہرِ حیاتیات جینیاتی تبدیلی کے ذریعے پید اکی گئی مکھیوں سے فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کاوشوں کا نتیجہ بد ہیئت اور بیمار مکھیوں کی شکل میں نکلا ہے۔ اوپر والی تصویر میں ایک صحت مند پھلوں کی مکھی کا سر ہے اور نیچے والی تصویرمیں اسی مکھی کے سر سے ٹانگیں نکلی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اوپر کی ایک تصویر میں اس مکھی کے پر بھی جینیاتی تبدیلی کے باعث بدشکل ہوچکے ہیں۔
ایک بھی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی کو وجود میں لانے کے لئے کی جانے والی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ کئی دہائیوں تک ارتقائی سائنسدانوں نے پھلوں کی مکھی پر جینیاتی تجربے کئے کیونکہ یہ مکھی بہت تیزی سے نسل بڑھاتی ہے اور اس لئے اس میں جینیاتی تجربوں کے اثرات بھی تیزی سے رونما ہوتے نظر آسکتے تھے۔ اس مکھیوں کی نسل در نسل پر یہ تجربے کئے گئے لیکن ایک بھی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔
ارتقائی ماہرِ جینیات گورڈن ٹیلر لکھتا ہے:
”گوکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اس پر تبصرہ بہت کم اوقات کیاجاتا ہے کہ دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں ماہرِ جینیات پھلوں کی مکھیوں کی افزائش جینیاتی تجربوں کی شدید ناکامی کے باوجود مسلسل کئے جارہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ یہ مکھی ہر گیارہ روز بعد ایک نئی نسل جن دیتی ہے انسائنسدانوں نے اپنے کسی بھی تجربے سے ابھی تک اس مکھی کی نسل تو کجا اس میں کسی نئے لحمیہ کا وجود تک نہیں پایا“۔ 3
ایک اور تجربہ دان مائکل پٹمین بھی پھلوں کی مکھی پر کئے جانے والے تجربوں کی ناکامی کے بارے میں لکھتا ہے:
”مورگن، گولڈ اشمتھ، ملر اور کئی دوسرے ماہرِ جینیات نے پھلوں کی مکھی کی نئی نسلوں کو شدید گرمی، سردی، روشنی، اندھیرے، کیمیائی اور نورافگنی کے ماحول میں رکھا۔ ہر طرح کی معمولی سے لے کر تباہ کن جینیاتی تبدیلی ان کے اندر پیدا کی گئی۔ انسان کی پیدا کی گئی نسلیں ہرگز نہیں۔ کیونکہ ان ارتقائی عجیب الخلقت حیوانات میں سے ایک بھی اپنی نسل کی افزائش کرنے کے لائق نہیں تھا اگر اس کو اس بوتل سے باہر نکال دیا جاتا جس میں وہ تجربوں کی مدد سے وجود میں لایا گیا تھا۔ عملی طور پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نسل مرجاتی ہے یا بانجھ ہوتی ہے یا پھر مکمل طور پر جنگلی ہوجاتی ہے۔“ 4
یہ اصول انسانی نسل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ انسانی نسلوں میں جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے تباہ کن رہے ہیں۔ اس معاملے میں ارتقاءپسند معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے وہ نمونے پیش کرتے ہیں جو کہ تباہ کن اثرات کا مجسمہ ہونے کے باوجود ان کے حساب سے ارتقاءکا ثبوت ہیں۔ انسانوں میں جینیاتی تبدیلی کا نتیجہ جسمانی معذوری اور ڈاون سنڈروم، منگولزم، البینو، بونے اور کینسر جیسی بیماریاں ہیں۔ ان تمام جینیاتی معذوریوں کو ارتقاءکی نصابی کتابوں میں ارتقاءکے عملی ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ بات ان ارتقائی سائنسدانوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ کوئی بھی عمل جو کہ لوگوں کو معذور اور بیمار بنادے وہ ایک فائدہ مند ارتقائی عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ ارتقاءکا صحیح مفہوم ایسے جاندار پیدا کرنا ہے جن کے اندر اپنے ماحول میں بہترین طریقے سے پنپنے کی صلاحیت موجود ہو۔
خلاصے کے طور پر تین وجوہات ایسی ہیں جن کی روشنی میں جینیاتی تبدیلی ارتقاءپسندوں کے دعوﺅوں کو سہارا دینے سے قاصر ہے:
1۔ جینیاتی تبدیلی کے براہِ راست اثرات نقصان دہ ہیں۔ کیونکہ جینیاتی تبدیلی ایک بے ترتیب عمل ہے اس لئے یہ تقریباً ہمیشہ اس جاندار کو نقصان پہنچاتا ہے جس میں یہ رونما ہوتا ہے۔ منطق کے حساب سے بھی یہ اصول سمجھنا مشکل نہیں کہ کسی بھی پیچیدہ اور مکمل ساخت میں ایک بے شعور اور بے ترتیب مداخلت اس ساخت کو فائدہ ہرگز نہیں پہنچاسکتی۔ اس لئے آج تک کوئی مداخلت اس ساخت کو فائدہ ہرگز نہیں پہنچاسکتی۔ اسی لئے آج تک کوئی فائدہ مند جینیاتی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔
2۔ جینیاتی تبدیلی کے ذریعے کسی بھی جاندار کے DNA کے مادے میں نئی معلومات کا اضافہ نہیں ہوسکتا۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جینیاتی معلومات کے ذرے یا تو اپنی اصل جگہ سے الگ ہوجاتے ہیں، مکمل طور پر تباہ ہوجاتے ہیں یا پھر کسی اور جگہ پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آج تک نئی عادات اور نئے اعضاءپیدا نہیں ہوئے، صرف موجودہ اعضاءمیں شدید معذوری نظر آئی ہے مثلاً پیٹھ پر ٹانگ کا اگ آنا یا پیٹ پر کان کا ابھر آنا۔
3۔ اگر جینیاتی تبدیلی نے دوسری نسل میں منتقل ہونا ہے تو اس کے لئے اس کا عمل جاندار کے افزائشی خلیوں کے اندر ہونا لازمی ہے۔ کسی جاندار کے عام خلیئے یا عضو کے اندر پیدا ہونے والا بے ترتیب عمل اس کے آنے والی نسل میں اس وقت تک منتقل نہیں ہوسکتا جب تک کہ افزائشی خلیوں میں موجود DNA کا مادہ جینیاتی تبدیلی کے اثرات کے تحت تبدیل ہوجائے۔ مثال کے طور پر نورافگنی اثرات سے انسانی آنکھ کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی آنے والی نسل کو منتقل نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح جانداروں کی افزائش ارتقاءکے عمل کے تحت ممکن ہی نہیں کیونکہ قدرت نے ایسا کوئی نظام ہی نہیں بنایا۔ فوصلی ریکارڈ بھی اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔ فوصل کسی بھی زاویئے سے ارتقائی عمل کی تصدیق نہیں کرتے۔
حوالہ جات:
1:B. G. Ranganathan, Origins?, Pennsylvania: The Banner Of Truth Trust, 1988.
2:Warren Weaver, "Genetic Effects of Atomic Radiation", Science, Vol 123, June 29, 1956, p. 1159.
3:Gordon R. Taylor, The Great Evolution Mystery, New York: Harper & Row, 1983, p. 48.
4:Michael Pitman, Adam and Evolution, London: River Publishing, 1984, p. 70.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔