کروڑوں خداؤں میں سچا خدا کون؟
ملحدین کا اعتراض کہ ہم کس خدا کو مانیں اور اس کا جواب
پیشکش: فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو پیدا ہو وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔خدا ہے ہی وہی جو سب کو پیدا کرے اور خود کسی سے پیدا نہ ہو۔
اور خدا کو خدا کا ماننے کا معیار کیا ہے ۔پھر ہم اس معیار پہ سب کو پر کھ کر ابھی فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل خدا کون ہے۔
کیا ہندوؤں کے ہاتھ سے گھڑے جانے والے بت خدا ہو سکتے ہیں؟ خدا گھڑا نہیں جاتا نہ ہی کسی مٹی سے اس کا بت بنایا جا سکتا ہے۔دنیا کی اکثریت ابراہیمی مذاہب کی پیروکار ہے اور ہم سب کو اسی خدا کی دعوت دیتے ہیں۔اور مختلف مذاہب میں حقیقی خدا کا تصور ایک ہی ہے۔فرق اتنا ہے کہ ہم اسی ایک بڑے خدا کو مانتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔مختلف مذاہب میں تصور خدا کیا ہے اور اس کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے۔اس پہ الحمداللہ ہماری طرف سے پوری کی پوری کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ایک ایسی ہی کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک یہ ہے
https://islamhouse.com/ur/books/195948/
آج کل دنیا میں بہت سارے مزاہب پاۓ جاتے ہیں اور ان کے ماننے والے کسی نہ کسی معبود کی پرستش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہر ایک کا یہ دعوہ ہے کہ ان کا خدا یا معبود سچا ہے۔ ہر ایک نے زمانۂ قدیم سے اپنا عقیدہ یا مزہب ورثے میں پایا ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے کے لوگ بھی خدا، ایک غیبی طاقت یا ماوراء ہستی پر ایمان رکھتے تھے۔کچھ نے سورج، چاند اور ستاروں کو خدا بنا لیا۔کچھ لوگ بتوں کی طرف راغب ہو گۓ۔ بہت سارے لوگ آگ کو جو بہت ساری چیزوں کو جلا دیتی ہے، کو زبردست مان کر اسکی پوجا کرنے لگے جیسے قدیم ایرانی بادشاہ اور وہاں کے لوگ آتش پرست بن گۓ۔ کئ ایک جنگلی درندوں کو پوجنے لگے۔
ہندو حضرات ایک قسم کی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو " تری مورتی " کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ( یہ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے کافی قریب ہے ) ان تین بڑے خداؤں کا تصور کچھ اس طرح ہے :
۱۔ براہمہ :۔ تخلیق کائنات کا ذمہ دار خدا
۲۔ وشنو:۔ کائنات کے نظم و بقا کا ذمہ دار خدا
۳۔ شیو:۔ کائنات کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار خدا
اہل ہنود تناسخ و حلول کے عقیدہ کی بنیاد پر یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا کی روح بہت سے حیونات اور حشرات میں داخل ہو کر خدائی کے فرائض انجام دیتی ہے لہٰذا لا تعداد عبادت گاہوں ( مندروں) اور مذہبی رسومات میں بعض حیوانات کو بھی جگہ دی گئی ہے اور ان میں خاص طور سے گائے کو بڑا ہم مقام حاصل ہے اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض ہندو مفکرین اور فلسفیوں نے کبھی اس پوری کائنات پر ایک حقیقت و احدہ کے محیط ہونے اور کبھی وحدت وجود کا تصور بھی پیش کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فکر اس دین سے قطعی مختلف ہے جو عملی طور پر ہندو عوام کے ہاتھوں میں موجود ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ خدا جس نے کائنات کو تخلیق کیا، کیا وہ اس قابل نہیں تھا کہ کائنات کا نظام بھی چلا سکتا؟ کیا وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس کائنات کو تباہ بھی کر سکتا؟ کیا وہ اس قابل نہیں تھا کہ کہ اکیلا ہی کسی ساتھی کی مدد کے بغیر اپنے سارے افعال و احکامات انجام دلوا سکتا۔لہذا وہ خدا ہی نہ ہوا جو کسی اور کا محتاج ہوا۔لہذا ہندوؤں کا خدا خدا نہیں مانا جائے گا اور یہ بات کئ ہندو مفکرین خود بھی تسلیم کرتے ہیں۔
بدھ مذہب کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بانی مذہب کی طرح نہیں بلکہ ایک مصلح یا فلسفی کی حثیت سے اپنی تعلیمات کا سارا زور اخلاق و اعمال پر پیش کیا گیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو نظر انداز کردیا ہے، جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بات صاف کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ ہی روح کی وضاحت کی ہے، بلکہ اسے مادہ کا جز کہے کر خاموشی اختیار کی ہے۔ جنت و جہنم، حشر ونشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انہوں نے پس پشت دال دیا ہے اور آواگون Arvagona کے ہندو عقیدے کو اہمیت دے کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ عالم کی چیزیں اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہر لمہ غیر محسوس طریقہ سے بدلتی رہتی ہیں اور انہی اسباب کے تحت فناء ہوتی ہیں۔ گویا پوری کائنات میکانکی طور پر وجود میں آئی ہے اور اسی طور پر چل رہی ہے۔ اس میں کوئی شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے جب کہ گوتم بدھ کا یہ تصور بالکل غلط ہے۔آج سائنس خود ثابت کر چکی ہے کہ چیزیں خود بخود وجود میں نہیں آتی اور ان کا ایک خالق موجود ہے۔ علاوہ ازیں بدھ مذہب میں گوتم بدھ کو ایک مقدس شخصیت کا درجہ دے کر اس کی پوجا شروع ہوچکی ہے۔لہذا گوتم بدھ جو ایک انسان ہے محض اسے کس طرح خدا قرار دیا جا سکتا ہے جو خود ایک انسان سے پیدا ہوا جو مر گیا۔وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے جو پیدا ہو زندگی میں محتاج رہے اور موت سے نہ بچ سکے۔
اب جس مذہب میں خدا کا واضح تصور ہی موجود نہیں وہ مذہب کیسے سچا ہوسکتا ہے۔لہذا بدھ مت بھی ایک غلط مذہب ہے۔
یہودی اور عیسائی خدا کی وحدانیت کا اقرارکرتے ہیں
تمام یہودی حضرت موسیٰ حضرت ہارون اور حضرت یوشع علیہم السلام پر ایمان لاتے ہیں اس طرح یہودی تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں سب یہودی اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی پیغمبر دوسرے پیغمبر کے لائے ہوئے احکامات کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللٰہ تعالٰی کا بیٹا کہتے ہیں اور اس کے پیغمبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر چکے ہیں۔لہذا یہود کو کس طرح ہداہت پہ مانا جائے گا۔وہ خدا جو بچے جنتا ہو خدا کیسے ہوسکتا ہے۔بچے تو وہ جنے جو اپنی نسل آگے بڑھانا چاہتا ہو،جس کو اپنی نسل اور شناخت مٹنے کا ڈر ہو جس کو زندگی میں کسی ساتھی کی اولاد کی مدد کی ضرورت ہو۔جب خدا ہے ہی وہی جس کو اپنی شناخت مٹنے کا ڈر نہیں جو ہمیشہ رہنے والا ہو جس کو مدد کے لیے کسی ساتھی یا اولاد کی ضرورت نہیں تو پھر کس طرح یہود کے تصور خدا کو مانا جائے گا جب کہ وہ اللٰہ تعالٰی کے بیٹے اور مددگار تلاش کرتے ہیں جب کہ ایک حقیقی رب اس سب سے پاک ہے۔
کیا ستارے جو خود پیدا کیے گئے،سورج جو خود پیدا کیا گیا،چاند جو خود پیدا کیا گیا،آگ جو خود تیل یا لکڑی سے پیدا کی جاتی ہے،سب مخلوقات جو خود کسی اور سے پیدا ہوتی ہیں ان کو کس طرح خدا مانا جاسکتا ہے۔خدا ہے ہی وہی جو اپنے وجود کے لیے کسی سے پیدا ہونے کا محتاج نہ ہو،جو پیدا ہوا وہ خدا کیسے ہوا۔لہذا باقی مذاہب کے خدا کے بارے میں تصورات بھی غلط ہیں۔
اب حقیقی خدا کا ایک ہی تصور بچتا ہے۔جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو،جو ہمیشہ سے موجود ہو،جو کائنات چلانے میں کسی کی مدد کا محتاج نہ ہو،جس کو اپنی شناخت اور بقا کے لیے اولاد کی ضرورت نہ ہو،جس کا وجود فنا سے آزاد ہو جب کہ سائنس خود تصدیق کر چکی ہے کہ ایک دن یہ پوری کائنات فنا ہوجائے گی اور اس دن کو سائنس Universe Dooms Day کہتی ہے۔لہذا یہ پوری کی پوری کائنات اور اس کی کوئ بھی چیز کیسے خدا ہوسکتی ہے۔لہذا ایک ہی خدا ہے جو کسی سے پیدا نہیں ہوا،کسی کی مدد کا محتاج نہیں،اپنی بقا اور شناخت کے لیے اولاد کا محتاج نہیں،فنا سے آزاد ہے۔یہ تصور اسلام کا ہے۔لہذا اسلام کا تصور خدا ہی سچ ہے اور باقی سب خدا فرضی اور جھوٹے ہیں
ملحدین کا اعتراض کہ ہم کس خدا کو مانیں اور اس کا جواب
پیشکش: فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو پیدا ہو وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔خدا ہے ہی وہی جو سب کو پیدا کرے اور خود کسی سے پیدا نہ ہو۔
اور خدا کو خدا کا ماننے کا معیار کیا ہے ۔پھر ہم اس معیار پہ سب کو پر کھ کر ابھی فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل خدا کون ہے۔
کیا ہندوؤں کے ہاتھ سے گھڑے جانے والے بت خدا ہو سکتے ہیں؟ خدا گھڑا نہیں جاتا نہ ہی کسی مٹی سے اس کا بت بنایا جا سکتا ہے۔دنیا کی اکثریت ابراہیمی مذاہب کی پیروکار ہے اور ہم سب کو اسی خدا کی دعوت دیتے ہیں۔اور مختلف مذاہب میں حقیقی خدا کا تصور ایک ہی ہے۔فرق اتنا ہے کہ ہم اسی ایک بڑے خدا کو مانتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔مختلف مذاہب میں تصور خدا کیا ہے اور اس کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے۔اس پہ الحمداللہ ہماری طرف سے پوری کی پوری کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ایک ایسی ہی کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک یہ ہے
https://islamhouse.com/ur/books/195948/
آج کل دنیا میں بہت سارے مزاہب پاۓ جاتے ہیں اور ان کے ماننے والے کسی نہ کسی معبود کی پرستش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہر ایک کا یہ دعوہ ہے کہ ان کا خدا یا معبود سچا ہے۔ ہر ایک نے زمانۂ قدیم سے اپنا عقیدہ یا مزہب ورثے میں پایا ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے کے لوگ بھی خدا، ایک غیبی طاقت یا ماوراء ہستی پر ایمان رکھتے تھے۔کچھ نے سورج، چاند اور ستاروں کو خدا بنا لیا۔کچھ لوگ بتوں کی طرف راغب ہو گۓ۔ بہت سارے لوگ آگ کو جو بہت ساری چیزوں کو جلا دیتی ہے، کو زبردست مان کر اسکی پوجا کرنے لگے جیسے قدیم ایرانی بادشاہ اور وہاں کے لوگ آتش پرست بن گۓ۔ کئ ایک جنگلی درندوں کو پوجنے لگے۔
ہندو حضرات ایک قسم کی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو " تری مورتی " کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ( یہ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے کافی قریب ہے ) ان تین بڑے خداؤں کا تصور کچھ اس طرح ہے :
۱۔ براہمہ :۔ تخلیق کائنات کا ذمہ دار خدا
۲۔ وشنو:۔ کائنات کے نظم و بقا کا ذمہ دار خدا
۳۔ شیو:۔ کائنات کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار خدا
اہل ہنود تناسخ و حلول کے عقیدہ کی بنیاد پر یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا کی روح بہت سے حیونات اور حشرات میں داخل ہو کر خدائی کے فرائض انجام دیتی ہے لہٰذا لا تعداد عبادت گاہوں ( مندروں) اور مذہبی رسومات میں بعض حیوانات کو بھی جگہ دی گئی ہے اور ان میں خاص طور سے گائے کو بڑا ہم مقام حاصل ہے اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض ہندو مفکرین اور فلسفیوں نے کبھی اس پوری کائنات پر ایک حقیقت و احدہ کے محیط ہونے اور کبھی وحدت وجود کا تصور بھی پیش کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ فکر اس دین سے قطعی مختلف ہے جو عملی طور پر ہندو عوام کے ہاتھوں میں موجود ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ خدا جس نے کائنات کو تخلیق کیا، کیا وہ اس قابل نہیں تھا کہ کائنات کا نظام بھی چلا سکتا؟ کیا وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس کائنات کو تباہ بھی کر سکتا؟ کیا وہ اس قابل نہیں تھا کہ کہ اکیلا ہی کسی ساتھی کی مدد کے بغیر اپنے سارے افعال و احکامات انجام دلوا سکتا۔لہذا وہ خدا ہی نہ ہوا جو کسی اور کا محتاج ہوا۔لہذا ہندوؤں کا خدا خدا نہیں مانا جائے گا اور یہ بات کئ ہندو مفکرین خود بھی تسلیم کرتے ہیں۔
بدھ مذہب کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بانی مذہب کی طرح نہیں بلکہ ایک مصلح یا فلسفی کی حثیت سے اپنی تعلیمات کا سارا زور اخلاق و اعمال پر پیش کیا گیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو نظر انداز کردیا ہے، جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بات صاف کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ ہی روح کی وضاحت کی ہے، بلکہ اسے مادہ کا جز کہے کر خاموشی اختیار کی ہے۔ جنت و جہنم، حشر ونشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انہوں نے پس پشت دال دیا ہے اور آواگون Arvagona کے ہندو عقیدے کو اہمیت دے کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ عالم کی چیزیں اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہر لمہ غیر محسوس طریقہ سے بدلتی رہتی ہیں اور انہی اسباب کے تحت فناء ہوتی ہیں۔ گویا پوری کائنات میکانکی طور پر وجود میں آئی ہے اور اسی طور پر چل رہی ہے۔ اس میں کوئی شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے جب کہ گوتم بدھ کا یہ تصور بالکل غلط ہے۔آج سائنس خود ثابت کر چکی ہے کہ چیزیں خود بخود وجود میں نہیں آتی اور ان کا ایک خالق موجود ہے۔ علاوہ ازیں بدھ مذہب میں گوتم بدھ کو ایک مقدس شخصیت کا درجہ دے کر اس کی پوجا شروع ہوچکی ہے۔لہذا گوتم بدھ جو ایک انسان ہے محض اسے کس طرح خدا قرار دیا جا سکتا ہے جو خود ایک انسان سے پیدا ہوا جو مر گیا۔وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے جو پیدا ہو زندگی میں محتاج رہے اور موت سے نہ بچ سکے۔
اب جس مذہب میں خدا کا واضح تصور ہی موجود نہیں وہ مذہب کیسے سچا ہوسکتا ہے۔لہذا بدھ مت بھی ایک غلط مذہب ہے۔
یہودی اور عیسائی خدا کی وحدانیت کا اقرارکرتے ہیں
تمام یہودی حضرت موسیٰ حضرت ہارون اور حضرت یوشع علیہم السلام پر ایمان لاتے ہیں اس طرح یہودی تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں سب یہودی اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی پیغمبر دوسرے پیغمبر کے لائے ہوئے احکامات کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللٰہ تعالٰی کا بیٹا کہتے ہیں اور اس کے پیغمبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر چکے ہیں۔لہذا یہود کو کس طرح ہداہت پہ مانا جائے گا۔وہ خدا جو بچے جنتا ہو خدا کیسے ہوسکتا ہے۔بچے تو وہ جنے جو اپنی نسل آگے بڑھانا چاہتا ہو،جس کو اپنی نسل اور شناخت مٹنے کا ڈر ہو جس کو زندگی میں کسی ساتھی کی اولاد کی مدد کی ضرورت ہو۔جب خدا ہے ہی وہی جس کو اپنی شناخت مٹنے کا ڈر نہیں جو ہمیشہ رہنے والا ہو جس کو مدد کے لیے کسی ساتھی یا اولاد کی ضرورت نہیں تو پھر کس طرح یہود کے تصور خدا کو مانا جائے گا جب کہ وہ اللٰہ تعالٰی کے بیٹے اور مددگار تلاش کرتے ہیں جب کہ ایک حقیقی رب اس سب سے پاک ہے۔
کیا ستارے جو خود پیدا کیے گئے،سورج جو خود پیدا کیا گیا،چاند جو خود پیدا کیا گیا،آگ جو خود تیل یا لکڑی سے پیدا کی جاتی ہے،سب مخلوقات جو خود کسی اور سے پیدا ہوتی ہیں ان کو کس طرح خدا مانا جاسکتا ہے۔خدا ہے ہی وہی جو اپنے وجود کے لیے کسی سے پیدا ہونے کا محتاج نہ ہو،جو پیدا ہوا وہ خدا کیسے ہوا۔لہذا باقی مذاہب کے خدا کے بارے میں تصورات بھی غلط ہیں۔
اب حقیقی خدا کا ایک ہی تصور بچتا ہے۔جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو،جو ہمیشہ سے موجود ہو،جو کائنات چلانے میں کسی کی مدد کا محتاج نہ ہو،جس کو اپنی شناخت اور بقا کے لیے اولاد کی ضرورت نہ ہو،جس کا وجود فنا سے آزاد ہو جب کہ سائنس خود تصدیق کر چکی ہے کہ ایک دن یہ پوری کائنات فنا ہوجائے گی اور اس دن کو سائنس Universe Dooms Day کہتی ہے۔لہذا یہ پوری کی پوری کائنات اور اس کی کوئ بھی چیز کیسے خدا ہوسکتی ہے۔لہذا ایک ہی خدا ہے جو کسی سے پیدا نہیں ہوا،کسی کی مدد کا محتاج نہیں،اپنی بقا اور شناخت کے لیے اولاد کا محتاج نہیں،فنا سے آزاد ہے۔یہ تصور اسلام کا ہے۔لہذا اسلام کا تصور خدا ہی سچ ہے اور باقی سب خدا فرضی اور جھوٹے ہیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔