نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط نمبر 2
دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات حرفِ آخر تسلیم کرلیتے ہیں بنا یہ سوچتے ہوئے کہ یہ تمام نظریات بھی انسانوں کے ترتیب شدہ ہیں، ان میں وسیع غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے، انہیں حرف آخر مان کر عقل، تجربے اور قدرت کی کسوٹی پر نہ پرکھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟اکثر ارتقاء پسند آپ کو بیکٹریا سے انسان تک کی 4 ارب سال پر محیط داستان 2منٹ میں مکمل کرتے نظر آئیں گے جو کہ ان کے بوکھلاہٹ کی کھلی دلیل ہے۔ ارتقاء پسندوں کے نزدیک پہلا جاندار جو وجود میں آیا وہ Anaerobic bacteria تھا، یاد رہے کہ یہ بیکٹریا کی وہ قسم ہےجس کے لئے آکسیجن گیس زہر کا کام کرتی ہے ، ارتقاء پسندوں کے نزدیک چونکہ اس وقت زمین پر کاربن اور ہائیڈروجن کا راج تھا لہذا یہ بیکٹریا اس ماحول میں ایک سے دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ پوری زمین پر پھیل گئے ، لیکن چونکہ یہ ہائیڈروجن اور کاربن کےسہارے زندہ رہتے تھے اور آکسیجن نکالتے تھے اسی خاطر زمین پر آکسیجن پھیلنا شروع ہوگئی ، جب زمین آکسیجن سے بھر گئی تو اس بیکٹریا نے جادوئی انداز میں ارتقاء کے اصول کے تحت اپنی نسل بدل لی اور یہ اب Aerobic bacteria بن گیا جو آکسیجن کے سہارے زندہ رہتا ہے ۔ ارتقائی مراحل کو سہارا دینے کی خاطر ارتقاء پسند دو طریقوں کا ذکرکرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک نیچرل سیلیکشن اور دوسرا رینڈم میوٹیشن ، نیچرل سلیکشن سے مراد ہے کہ صرف وہی جاندار زندگی بچ جاتے ہیں جو خود کو نئے قدرتی ماحول میں ڈھال لیتے ہیں اور بقیہ جاندار اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں، اسے اردو میں قدرتی چناؤ بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس متعلق تاریخ میں کوئی ایک مثال نہیں ملتی کہ قدرتی چناؤ کی وجہ سے کوئی جاندار اپنی نسل ہی بدل لے اور ایک نئی مخلوق کا روپ دھار لے۔ نیچرل سلیکشن کے متعلق سائنسدانوں کو بہت پہلے سے معلوم تھا مگر اس میں ارتقاء کا تڑکا سر ڈارون نے لگایا، اگر نیچرل سلیکشن کے تحت جانداروں میں تبدیلی آسکتی ہے تو پھر آج تک برف میں رہنے والے انسانوں کو بہت پہلے بن مانس یا انسانوں سے ایک الگ مخلوق بن جانا چاہیے تھا، اگر یہ نہیں ہوسکا تو کم از کم ان کے جسم پر بن مانس کی طرح بال اُگ آنے چاہیے تھے جو انہیں سردی سے بچاتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ارتقائی نظریے کے جھوٹ پر مبنی ہونے کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ کروڑوں سال پرانے جانداروں کے فوسلز (جن میں مچھیلیاں، سلامنڈرز، مینڈک اور دیگر سمندری مخلوق شامل ہے) اور آج کے دور کے ان جانداروں میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا ۔بلکہ سر چارلس ڈارون خود نیچرل سلیکشن کے معاملے پر بوکھلاہٹ کا شکار تھے ، وہ لکھتے ہیں :"اگر کسی پیچیدہ عضو کی موجودگی کا ثبوت قائم ہوجائے جس سے معلوم ہوجائے کہ یہ کروڑوں سال پہلے تک ویسا ہی تھا، تو میرا نظریہ مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا " (Charles Darwin, The Origin of Species, A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, P#189)
اب ہم آتے ہیں رینڈم میوٹیشن کی جانب ، اس کے تحت جانداروں کی ایک نسل وقت کی ضرورت کے باعث جینیاتی بے ترتیبیوں کی وجہ سے کچھ اور ہی بن گئی، مثلاً جب مچھلیوں کو خوراک کی ضرورت پڑی تو ان میں ٹانگیں نمودار ہوگئیں اور خشکی پر آکر انہوں نے خوراک کی تلاش شروع کردی اور اپنی زندگی کو سہارا دیے رکھا، ارتقاء پسندوں کے نزدیک ایک جاندار کو دوسری مخلوق بننے کے لئے 10 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ، اس کے تحت ایک مچھلی کو مینڈک کا سفر طے کرنے میں 10 لاکھ سال کا عرصہ لگاہوگا اور ان ارتقائی جانداروں کے فاسلز کروڑوں کی تعداد میں ہونے چاہیے مگر آج تک کوئی ایک ایسا فوسل نہیں مل پایا جو آدھا مچھلی آدھا مینڈک کا ہو، یا آدھا مگرمچھ آدھی مچھلی ہو ، حقیت یہ ہے کہ آج تک ملنے والے کروڑوں سال پرانے فاسلز میں موجود جانداروں کی باقیات ہوبہو وہی ہیں جیسےآج والے جانور ہیں۔ کچھوے اور کوٹیلوسار کے درمیان کا کوئی جانور آج تک نہیں مل پایا، جب سر چارلس ڈارون سے اس متعلق سوالات کیے گئے تو وہ صرف یہی جواب دے پائے تھے کہ ان کے فاسلز جلد مل جائیں گے مگر 150 سال گزرنے کے باوجود اتنے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک بھی ایسا فاسل نہیں مل سکا جو ارتقاء پسندوں کی تسکین کا باعث بنے۔ نظریہ ارتقاء کے پرخچے اڑانے کے لئے سب سے اہم انکشاف تب ہوا جب 5 کروڑ سال پرانے بے تحاشا فاسلز ملے اور انہیں دیکھ کر ارتقاء پسندوں کے اوسان خطا ہوگئے کہ اس وقت کے جاندار ہوبہو آج والے جانداروں جیسے تھے کوئی ایک فرق تو آیا ہوتا، یہ اتنا بڑا انکشاف تھا کہ اسے ارتقاء پسندوں کے لئے دھماکے کا نام دیا گیا اور سائنسدان آج بھی اسے کیمبرین دھماکہ کہتے ہیں۔ اس واقعے نے بےتحاشا ارتقاء پسند سائنسدانوں کو صدمہ پہنچایا، اس متعلق سر چارلس ڈارون پہلے ہی خدشہ ظاہر کرچکے تھے :"اگر جانداروں کے ایک ہی خاندان کی کئی نسلیں اچانک نمودار ہوئی ہیں تو یہ (ہمارے) نظریے کے لئے موت ہے "۔ (Charles Darwin, The Origin of Species, A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, P#302)
پس ثابت ہو اکہ نظریہ ارتقاء ایک دھوکہ تھا جس کا اندازہ سر چارلس ڈارون کو بھی بخوبی تھا لیکن آج کے دور کے کچھ باشعور طالب علم بھی اس نظریے کو حرف آخر مان کر اس پر ایمان رکھتے ہیں ! (جاری ہے)
محمد شاہ زیب صدیقی
پچھلی قسط کا لنک یہ ہے
https://m.facebook.com/story.php…
#زیب_نامہ
#DarwinTheory #EvolutionTheory #نظریہ_ارتقاء
دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات حرفِ آخر تسلیم کرلیتے ہیں بنا یہ سوچتے ہوئے کہ یہ تمام نظریات بھی انسانوں کے ترتیب شدہ ہیں، ان میں وسیع غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے، انہیں حرف آخر مان کر عقل، تجربے اور قدرت کی کسوٹی پر نہ پرکھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟اکثر ارتقاء پسند آپ کو بیکٹریا سے انسان تک کی 4 ارب سال پر محیط داستان 2منٹ میں مکمل کرتے نظر آئیں گے جو کہ ان کے بوکھلاہٹ کی کھلی دلیل ہے۔ ارتقاء پسندوں کے نزدیک پہلا جاندار جو وجود میں آیا وہ Anaerobic bacteria تھا، یاد رہے کہ یہ بیکٹریا کی وہ قسم ہےجس کے لئے آکسیجن گیس زہر کا کام کرتی ہے ، ارتقاء پسندوں کے نزدیک چونکہ اس وقت زمین پر کاربن اور ہائیڈروجن کا راج تھا لہذا یہ بیکٹریا اس ماحول میں ایک سے دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ پوری زمین پر پھیل گئے ، لیکن چونکہ یہ ہائیڈروجن اور کاربن کےسہارے زندہ رہتے تھے اور آکسیجن نکالتے تھے اسی خاطر زمین پر آکسیجن پھیلنا شروع ہوگئی ، جب زمین آکسیجن سے بھر گئی تو اس بیکٹریا نے جادوئی انداز میں ارتقاء کے اصول کے تحت اپنی نسل بدل لی اور یہ اب Aerobic bacteria بن گیا جو آکسیجن کے سہارے زندہ رہتا ہے ۔ ارتقائی مراحل کو سہارا دینے کی خاطر ارتقاء پسند دو طریقوں کا ذکرکرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک نیچرل سیلیکشن اور دوسرا رینڈم میوٹیشن ، نیچرل سلیکشن سے مراد ہے کہ صرف وہی جاندار زندگی بچ جاتے ہیں جو خود کو نئے قدرتی ماحول میں ڈھال لیتے ہیں اور بقیہ جاندار اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں، اسے اردو میں قدرتی چناؤ بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس متعلق تاریخ میں کوئی ایک مثال نہیں ملتی کہ قدرتی چناؤ کی وجہ سے کوئی جاندار اپنی نسل ہی بدل لے اور ایک نئی مخلوق کا روپ دھار لے۔ نیچرل سلیکشن کے متعلق سائنسدانوں کو بہت پہلے سے معلوم تھا مگر اس میں ارتقاء کا تڑکا سر ڈارون نے لگایا، اگر نیچرل سلیکشن کے تحت جانداروں میں تبدیلی آسکتی ہے تو پھر آج تک برف میں رہنے والے انسانوں کو بہت پہلے بن مانس یا انسانوں سے ایک الگ مخلوق بن جانا چاہیے تھا، اگر یہ نہیں ہوسکا تو کم از کم ان کے جسم پر بن مانس کی طرح بال اُگ آنے چاہیے تھے جو انہیں سردی سے بچاتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ارتقائی نظریے کے جھوٹ پر مبنی ہونے کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ کروڑوں سال پرانے جانداروں کے فوسلز (جن میں مچھیلیاں، سلامنڈرز، مینڈک اور دیگر سمندری مخلوق شامل ہے) اور آج کے دور کے ان جانداروں میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا ۔بلکہ سر چارلس ڈارون خود نیچرل سلیکشن کے معاملے پر بوکھلاہٹ کا شکار تھے ، وہ لکھتے ہیں :"اگر کسی پیچیدہ عضو کی موجودگی کا ثبوت قائم ہوجائے جس سے معلوم ہوجائے کہ یہ کروڑوں سال پہلے تک ویسا ہی تھا، تو میرا نظریہ مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا " (Charles Darwin, The Origin of Species, A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, P#189)
اب ہم آتے ہیں رینڈم میوٹیشن کی جانب ، اس کے تحت جانداروں کی ایک نسل وقت کی ضرورت کے باعث جینیاتی بے ترتیبیوں کی وجہ سے کچھ اور ہی بن گئی، مثلاً جب مچھلیوں کو خوراک کی ضرورت پڑی تو ان میں ٹانگیں نمودار ہوگئیں اور خشکی پر آکر انہوں نے خوراک کی تلاش شروع کردی اور اپنی زندگی کو سہارا دیے رکھا، ارتقاء پسندوں کے نزدیک ایک جاندار کو دوسری مخلوق بننے کے لئے 10 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ، اس کے تحت ایک مچھلی کو مینڈک کا سفر طے کرنے میں 10 لاکھ سال کا عرصہ لگاہوگا اور ان ارتقائی جانداروں کے فاسلز کروڑوں کی تعداد میں ہونے چاہیے مگر آج تک کوئی ایک ایسا فوسل نہیں مل پایا جو آدھا مچھلی آدھا مینڈک کا ہو، یا آدھا مگرمچھ آدھی مچھلی ہو ، حقیت یہ ہے کہ آج تک ملنے والے کروڑوں سال پرانے فاسلز میں موجود جانداروں کی باقیات ہوبہو وہی ہیں جیسےآج والے جانور ہیں۔ کچھوے اور کوٹیلوسار کے درمیان کا کوئی جانور آج تک نہیں مل پایا، جب سر چارلس ڈارون سے اس متعلق سوالات کیے گئے تو وہ صرف یہی جواب دے پائے تھے کہ ان کے فاسلز جلد مل جائیں گے مگر 150 سال گزرنے کے باوجود اتنے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک بھی ایسا فاسل نہیں مل سکا جو ارتقاء پسندوں کی تسکین کا باعث بنے۔ نظریہ ارتقاء کے پرخچے اڑانے کے لئے سب سے اہم انکشاف تب ہوا جب 5 کروڑ سال پرانے بے تحاشا فاسلز ملے اور انہیں دیکھ کر ارتقاء پسندوں کے اوسان خطا ہوگئے کہ اس وقت کے جاندار ہوبہو آج والے جانداروں جیسے تھے کوئی ایک فرق تو آیا ہوتا، یہ اتنا بڑا انکشاف تھا کہ اسے ارتقاء پسندوں کے لئے دھماکے کا نام دیا گیا اور سائنسدان آج بھی اسے کیمبرین دھماکہ کہتے ہیں۔ اس واقعے نے بےتحاشا ارتقاء پسند سائنسدانوں کو صدمہ پہنچایا، اس متعلق سر چارلس ڈارون پہلے ہی خدشہ ظاہر کرچکے تھے :"اگر جانداروں کے ایک ہی خاندان کی کئی نسلیں اچانک نمودار ہوئی ہیں تو یہ (ہمارے) نظریے کے لئے موت ہے "۔ (Charles Darwin, The Origin of Species, A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, P#302)
پس ثابت ہو اکہ نظریہ ارتقاء ایک دھوکہ تھا جس کا اندازہ سر چارلس ڈارون کو بھی بخوبی تھا لیکن آج کے دور کے کچھ باشعور طالب علم بھی اس نظریے کو حرف آخر مان کر اس پر ایمان رکھتے ہیں ! (جاری ہے)
محمد شاہ زیب صدیقی
پچھلی قسط کا لنک یہ ہے
https://m.facebook.com/story.php…
#زیب_نامہ
#DarwinTheory #EvolutionTheory #نظریہ_ارتقاء
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔