کیا زندگی گرم سمندروں میں خود بخود شروع ہوئ؟ مالیکیولر بیالوجی اور پروٹین مالیکیول کی ساخت کس طرح نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرتی ہے؟
نظریہ ارتقا کی سالمیاتی(مالیکیولر) بنیاد اور اس میں پائے جانے والے سائنسی نقائص
نظریہ ارتقا کی سالمیاتی(مالیکیولر) بنیاد اور اس میں پائے جانے والے سائنسی نقائص
قسط:3
اقتباس:نظریہ ارتقا ،ایک فریب
مصنف:ترک سکالر ہارون یحیی
تلخیص و تزئین:احید حسن
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
چپ دست لحمیات(L _ Proteins):
اب اس بات کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں کہ لحمیات یا پروٹین کی تشکیل کا ارتقائی منظر نامہ ناممکن کیوں ہے۔ امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز کی بالکل مکمل اور درست ترتیب بھی ایک عملی طور پر درست سالمیاتی لحمیہ یا پروٹین مالیکیول کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے۔ ان تمام ضروریات کے پورا ہونے کے علاوہ لحمیات یا پروٹین کی تشکیل کے لئے جن 20 مختلف طرح کے امینو ترشوں کا ہونا ضروری ہے ان کا چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔ تمام عضوی سالمیات کی طرح امینو ترشے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں چپ دست یا الٹے ہاتھ والے(L-Amino Acids) یا سیدھے ہاتھ والے(D-Amino Acids) امینو ترشے۔ ان کے درمیان فرق کسی انسان کے سیدھے اور الٹے ہاتھ کے درمیان سہ ابعادی ساخت(Three Dimensional Structure) میں اصل اور عکس کا باہمی توافق کی طرح ہے جس سے یہ دو طرح کے امینو ترشے آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاتے ہیں۔ لیکن تحقیق کے ذریعے لحمیات یا پروٹین کی ایک حیرت انگیز صفت سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ اس سےارے کے تمام حیوانی اور نباتاتی لحمیات،سب سے سادہ جاندار سے لے کرسب سے پیچیدہ ساخت والے جانداروں تک ،چپ دست امینو ترشوں(L Amino Acids) سے بنے ہوئے ہیں۔ اگرایک بھی سیدھے ہاتھ والاامینو ترشہ کسی لحمیہ کی ساخت سے جڑ جائے تو وہ لحمیہ(Proteins) ناکارہ ہوجاتا ہے۔ کئی سلسلہ و ار تجربوں سے حیرت انگیز طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ جراثیم جو کہ سیدھے ہاتھ والے امینو ترشوں(D Amino Acids) کے ساتھ جوڑے گئے تھے انہوں نے امینو ترشوں کو ہلاک کردیا۔ صرف چند حالات میں ٹوٹے پھوٹے اجزاءسے ان جراثیم نے استعمال کے لائق چپ دست امینو ترشے(L Amino Acids) تشکیل کرلئے۔
ایک لمحے کے لئے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ زندگی ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق اتفاق کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال میں چپ دست(L Amino Acids) اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے جو کہ اتفاقاً وجود میں آئے ہیں وہ بھی قدرت میں تقریباً برابر تناسب میں موجود ہونے چاہئیں۔ اس لئے تمام جانداروں کے اندر چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے موجود ہونا چاہئیں کیونکہ ارتقاءکے حساب سے دونوں طرح کے امینو ترشوں کا کیمیائی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جانا ممکن ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل دنیا میں تمام جاندار اجسام کے اندر موجود لحمیات یا پروٹین صرف چپ دست امینو ترشوں(L Amino Acids) سے بنے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لحمیات یا پروٹین سارے امینو ترشوں میں سے صرف چپ دست امینو ترشوں(L Amino Acids) کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں اور ایک بھی سیدھے ہاتھ والا امینو ترشہ زندگی کے عمل میں شامل کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ایک ایسی پریشانی ہے جس کا حل ارتقاءپسند آج تک تلاش کررہے ہیں۔ اتنا مخصوص اور باشعور انتخاب نظریہ ارتقاءکے لئے ایک اور بہت بڑا تعطل ہے کیونکہ لحمیات یا پروٹین کی یہ صفت ارتقاءپسندوں کے ”اتفاق“ سے متعلق مسئلے کو اور پیچیدہ بنادیتی ہے۔ کسی پر معنی لحمیہ یا پروٹین کی تشکیل کے لئے اس کے اندر امینو ترشوں کا مخصوص اعداد اور سلسلے میں ہی موجود ہونا ہی کافی نہیں اور نہ ہی اس کا سہ ابعادی شکل(Three Dimensional Structure) میں ہونا کافی ہے بلکہ اس کے علاوہ ان تمام امینو ترشوں کا چپ دست(L Amino Acids) ہونا بھی لازم ہے۔ ان میں سے ایک امینو ترشہ بھی سیدھے ہاتھ والا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایسا کوئی قدرتی انتخابی نظام موجود نہیں ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرسکے کہ غلطی سے سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے کا شمار سلسلے میں ہوگیا ہے اور اب اس کو امینو ترشوں کے سلسلے یا زنجیر سے نکالنا ضروری ہے۔ یہ صورتحال ہمیشہ کے لئے اتفاق اور حادثے کے امکان کو زائل کردیتی ہے۔
بریٹانیکا سائنس انسائکلوپیڈیا ارتقاءکی منہ پھٹ حمایتی ہے اور اس کا بیان ہے کہ زمین پر رہنے والے تمام جانداروں کے امینو ترشے اور لحمیات یا پروٹین کے تعمیراتی اجزاءکے اندر ایک ہی طرح کی ناموزونیت موجود ہے۔ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اس طرح ہے کہ جس طرح کسی سکے کو ایک لاکھ دفعہ اچھالا جائے اور ہر دفعہ سر ہی آئے۔ اسی انسائکلوپیڈیا کے مطابق یہ سمجھنا بہت ہی ناممکن ہے کہ سالمیہ یا مالیکیول کس طرح چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے بن جاتے ہیں اور اس انتخاب کا زمین پر زندگی کی ابتداءسے حیرت انگیز طور پر تعلق بھی ہے۔1
اگر ایک سکہ ہمیشہ ہی سر کے بل گرے تو کیا اس کو اتفاق قراردینا زیادہ منطقی بات ہے یا پھر اس بات کو مان لینا زیادہ عقلمندی کی علامت ہے کہ اس تمام معاملے میں ایک شعوری عمل و دخل موجود ہے؟جواب بہت واضح ہونا چاہئے۔ لیکن جواب چاہے جتنا بھی واضح کیوں نہ ہو ارتقاءپسند پھر بھی اتفاق کی چادر میں منہ چھپانا زیادہ پسند کرتے ہیں صرف اس لئے کیونکہ وہ منطقی عمل و دخل کی موجودگی اور اللٰہ تعالٰی کی ذات کی طرف سے تمام ممخلوق کی تخلیق کا اقرار کرنا ہی نہیں چاہتے۔
امینو ترشوں کی چپ دستی سے ملتی جلتی صورتحال نیوکلیوٹائڈ یا فاسفوری گروپ سے منسلک نیوکلیو سائڈ پر مشتمل ایک نامیاتی مرکب کے متعلق بھی موجود ہے ۔نیوکلیوٹائڈ DNA اور RNA یا کروموسومی جز کا سب سے چھوٹا جز ہوتا ہے۔ لحمیات یا پروٹین کے مقابلے میں، جس میں صرف چپ دست امینو ترشوں کا ہی انتخاب ہوتا ہے، نیوکلیوئڈ کے لئے پسندیدہ اجزاءہمیشہ سیدھے ہاتھ والے(D Ribonucleotides) ہوتے ہیں۔ یہ ایک اور ایسی حقیقت ہے جس کو اتفاق کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصے کے طور پر یہ کہ کسی بھی شک و شبہ کے بغیر تمام ممکنات کے ذریعے ثابت کیا جاچکا ہے کہ زندگی کی ابتداءکو اتفاق کہہ کر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حساب و شمار کے ذریعے ایک عام ناپ کے 600 امینو ترشوں پر مشتمل عام ناپ کے لحمیہ یا پروٹین کا صرف ایک چپ دست امینوترشوں( L Amino ) سے انتخاب کا امکان کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ
20
یہ امکان 2600 میں سے 1 یا 10 میں 1 ہے۔ موازنے کے طور پر یا درکھنا ضروری ہے کہ پوری کائنات میں الیکٹروں یا منفی بار کے حامل مستقل ابتدائی ذروں کی تعداد اندازاً
79
10 ہے جو کہ کافی بڑا ہندسہ ہے مگر پھر بھی اتنا بڑا نہیں۔ ان امینو ترشوں کا قابلِ ضرورت سلسلہ اور عملی شکل اختیار کرنے کا امکان اس سے بھی بڑے ہندسوں کی شکل میں ہوگا۔ اگر ان تمام امکانات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملادیا جائے اور اگر اس سے بھی زیادہ بڑے ہندسوں اور لحمیات کی مختلف اشکال کے امکانات کے اوپر کام کیا جائے تو اس حساب و شمار کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
لحمیوں یا پروٹین کو تشکیل کرنے والے امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز سالمے یعنی مالیکیول ایک دوسرے کے ساتھ ”پیپٹائڈ جوڑ“(Peptide Bond) کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ جوڑ کا طریقہ قدرت میں موجود کئی ممکنہ جوڑوں میں سے ایک ہے۔ اگر یہ جوڑ نہ ہو تو امینو ترشوں کی زنجیریں ناکارہ ہوجاتی ہیں اور کوئی لحمیات یا پروٹین وجود میں نہیں آسکتے۔اور یہ سب ایک اتفاق کے ذریعے عین ناممکن ہےہے جو کہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ زندگی ارتقا پذیر ہونے کی بجائے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے تخلیق کی گئ۔
حوالہ:
1:Fabbri Britannica Bilim Ansiklopedisi (Fabbri Britannica Science Encyclopaedia), vol 2, No 22, p. 519.
اقتباس:نظریہ ارتقا ،ایک فریب
مصنف:ترک سکالر ہارون یحیی
تلخیص و تزئین:احید حسن
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
چپ دست لحمیات(L _ Proteins):
اب اس بات کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں کہ لحمیات یا پروٹین کی تشکیل کا ارتقائی منظر نامہ ناممکن کیوں ہے۔ امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز کی بالکل مکمل اور درست ترتیب بھی ایک عملی طور پر درست سالمیاتی لحمیہ یا پروٹین مالیکیول کی تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے۔ ان تمام ضروریات کے پورا ہونے کے علاوہ لحمیات یا پروٹین کی تشکیل کے لئے جن 20 مختلف طرح کے امینو ترشوں کا ہونا ضروری ہے ان کا چپ دست ہونا بھی لازم ہے۔ تمام عضوی سالمیات کی طرح امینو ترشے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں چپ دست یا الٹے ہاتھ والے(L-Amino Acids) یا سیدھے ہاتھ والے(D-Amino Acids) امینو ترشے۔ ان کے درمیان فرق کسی انسان کے سیدھے اور الٹے ہاتھ کے درمیان سہ ابعادی ساخت(Three Dimensional Structure) میں اصل اور عکس کا باہمی توافق کی طرح ہے جس سے یہ دو طرح کے امینو ترشے آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاتے ہیں۔ لیکن تحقیق کے ذریعے لحمیات یا پروٹین کی ایک حیرت انگیز صفت سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ اس سےارے کے تمام حیوانی اور نباتاتی لحمیات،سب سے سادہ جاندار سے لے کرسب سے پیچیدہ ساخت والے جانداروں تک ،چپ دست امینو ترشوں(L Amino Acids) سے بنے ہوئے ہیں۔ اگرایک بھی سیدھے ہاتھ والاامینو ترشہ کسی لحمیہ کی ساخت سے جڑ جائے تو وہ لحمیہ(Proteins) ناکارہ ہوجاتا ہے۔ کئی سلسلہ و ار تجربوں سے حیرت انگیز طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ جراثیم جو کہ سیدھے ہاتھ والے امینو ترشوں(D Amino Acids) کے ساتھ جوڑے گئے تھے انہوں نے امینو ترشوں کو ہلاک کردیا۔ صرف چند حالات میں ٹوٹے پھوٹے اجزاءسے ان جراثیم نے استعمال کے لائق چپ دست امینو ترشے(L Amino Acids) تشکیل کرلئے۔
ایک لمحے کے لئے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ زندگی ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق اتفاق کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال میں چپ دست(L Amino Acids) اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے جو کہ اتفاقاً وجود میں آئے ہیں وہ بھی قدرت میں تقریباً برابر تناسب میں موجود ہونے چاہئیں۔ اس لئے تمام جانداروں کے اندر چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے موجود ہونا چاہئیں کیونکہ ارتقاءکے حساب سے دونوں طرح کے امینو ترشوں کا کیمیائی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جانا ممکن ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل دنیا میں تمام جاندار اجسام کے اندر موجود لحمیات یا پروٹین صرف چپ دست امینو ترشوں(L Amino Acids) سے بنے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لحمیات یا پروٹین سارے امینو ترشوں میں سے صرف چپ دست امینو ترشوں(L Amino Acids) کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں اور ایک بھی سیدھے ہاتھ والا امینو ترشہ زندگی کے عمل میں شامل کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ایک ایسی پریشانی ہے جس کا حل ارتقاءپسند آج تک تلاش کررہے ہیں۔ اتنا مخصوص اور باشعور انتخاب نظریہ ارتقاءکے لئے ایک اور بہت بڑا تعطل ہے کیونکہ لحمیات یا پروٹین کی یہ صفت ارتقاءپسندوں کے ”اتفاق“ سے متعلق مسئلے کو اور پیچیدہ بنادیتی ہے۔ کسی پر معنی لحمیہ یا پروٹین کی تشکیل کے لئے اس کے اندر امینو ترشوں کا مخصوص اعداد اور سلسلے میں ہی موجود ہونا ہی کافی نہیں اور نہ ہی اس کا سہ ابعادی شکل(Three Dimensional Structure) میں ہونا کافی ہے بلکہ اس کے علاوہ ان تمام امینو ترشوں کا چپ دست(L Amino Acids) ہونا بھی لازم ہے۔ ان میں سے ایک امینو ترشہ بھی سیدھے ہاتھ والا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایسا کوئی قدرتی انتخابی نظام موجود نہیں ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرسکے کہ غلطی سے سیدھے ہاتھ والے امینو ترشے کا شمار سلسلے میں ہوگیا ہے اور اب اس کو امینو ترشوں کے سلسلے یا زنجیر سے نکالنا ضروری ہے۔ یہ صورتحال ہمیشہ کے لئے اتفاق اور حادثے کے امکان کو زائل کردیتی ہے۔
بریٹانیکا سائنس انسائکلوپیڈیا ارتقاءکی منہ پھٹ حمایتی ہے اور اس کا بیان ہے کہ زمین پر رہنے والے تمام جانداروں کے امینو ترشے اور لحمیات یا پروٹین کے تعمیراتی اجزاءکے اندر ایک ہی طرح کی ناموزونیت موجود ہے۔ مزید یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اس طرح ہے کہ جس طرح کسی سکے کو ایک لاکھ دفعہ اچھالا جائے اور ہر دفعہ سر ہی آئے۔ اسی انسائکلوپیڈیا کے مطابق یہ سمجھنا بہت ہی ناممکن ہے کہ سالمیہ یا مالیکیول کس طرح چپ دست اور سیدھے ہاتھ والے بن جاتے ہیں اور اس انتخاب کا زمین پر زندگی کی ابتداءسے حیرت انگیز طور پر تعلق بھی ہے۔1
اگر ایک سکہ ہمیشہ ہی سر کے بل گرے تو کیا اس کو اتفاق قراردینا زیادہ منطقی بات ہے یا پھر اس بات کو مان لینا زیادہ عقلمندی کی علامت ہے کہ اس تمام معاملے میں ایک شعوری عمل و دخل موجود ہے؟جواب بہت واضح ہونا چاہئے۔ لیکن جواب چاہے جتنا بھی واضح کیوں نہ ہو ارتقاءپسند پھر بھی اتفاق کی چادر میں منہ چھپانا زیادہ پسند کرتے ہیں صرف اس لئے کیونکہ وہ منطقی عمل و دخل کی موجودگی اور اللٰہ تعالٰی کی ذات کی طرف سے تمام ممخلوق کی تخلیق کا اقرار کرنا ہی نہیں چاہتے۔
امینو ترشوں کی چپ دستی سے ملتی جلتی صورتحال نیوکلیوٹائڈ یا فاسفوری گروپ سے منسلک نیوکلیو سائڈ پر مشتمل ایک نامیاتی مرکب کے متعلق بھی موجود ہے ۔نیوکلیوٹائڈ DNA اور RNA یا کروموسومی جز کا سب سے چھوٹا جز ہوتا ہے۔ لحمیات یا پروٹین کے مقابلے میں، جس میں صرف چپ دست امینو ترشوں کا ہی انتخاب ہوتا ہے، نیوکلیوئڈ کے لئے پسندیدہ اجزاءہمیشہ سیدھے ہاتھ والے(D Ribonucleotides) ہوتے ہیں۔ یہ ایک اور ایسی حقیقت ہے جس کو اتفاق کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصے کے طور پر یہ کہ کسی بھی شک و شبہ کے بغیر تمام ممکنات کے ذریعے ثابت کیا جاچکا ہے کہ زندگی کی ابتداءکو اتفاق کہہ کر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حساب و شمار کے ذریعے ایک عام ناپ کے 600 امینو ترشوں پر مشتمل عام ناپ کے لحمیہ یا پروٹین کا صرف ایک چپ دست امینوترشوں( L Amino ) سے انتخاب کا امکان کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ
20
یہ امکان 2600 میں سے 1 یا 10 میں 1 ہے۔ موازنے کے طور پر یا درکھنا ضروری ہے کہ پوری کائنات میں الیکٹروں یا منفی بار کے حامل مستقل ابتدائی ذروں کی تعداد اندازاً
79
10 ہے جو کہ کافی بڑا ہندسہ ہے مگر پھر بھی اتنا بڑا نہیں۔ ان امینو ترشوں کا قابلِ ضرورت سلسلہ اور عملی شکل اختیار کرنے کا امکان اس سے بھی بڑے ہندسوں کی شکل میں ہوگا۔ اگر ان تمام امکانات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملادیا جائے اور اگر اس سے بھی زیادہ بڑے ہندسوں اور لحمیات کی مختلف اشکال کے امکانات کے اوپر کام کیا جائے تو اس حساب و شمار کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
لحمیوں یا پروٹین کو تشکیل کرنے والے امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز سالمے یعنی مالیکیول ایک دوسرے کے ساتھ ”پیپٹائڈ جوڑ“(Peptide Bond) کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ جوڑ کا طریقہ قدرت میں موجود کئی ممکنہ جوڑوں میں سے ایک ہے۔ اگر یہ جوڑ نہ ہو تو امینو ترشوں کی زنجیریں ناکارہ ہوجاتی ہیں اور کوئی لحمیات یا پروٹین وجود میں نہیں آسکتے۔اور یہ سب ایک اتفاق کے ذریعے عین ناممکن ہےہے جو کہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ زندگی ارتقا پذیر ہونے کی بجائے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے تخلیق کی گئ۔
حوالہ:
1:Fabbri Britannica Bilim Ansiklopedisi (Fabbri Britannica Science Encyclopaedia), vol 2, No 22, p. 519.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔