کیا زندگی گرم سمندروں میں خود بخود شروع ہوئ؟ مالیکیولر بیالوجی اور پروٹین مالیکیول کی ساخت کس طرح نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرتی ہے؟
نظریہ ارتقا کی سالمیاتی(مالیکیولر) بنیاد اور اس میں پائے جانے والے سائنسی نقائص
قسط:2
اقتباس:نظریہ ارتقا ،ایک فریب
مصنف:ترک سکالر ہارون یحیی
تلخیص و تزئین:احید حسن
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
لحمیات اتفاق کو للکارتے ہیں
خلیہ تو دور کی بات ہے نظریہ ارتقاءتو خلیہ کے تعمیراتی اجزاءکو بیان کرنے میں بھی ناکام ہے۔ قدرتی ماحول کے زیر ِاثر خلئے کے کئی ہزار تعمیراتی لحمی سالموں یعنی پروٹین مالیکیول میں سے کسی ایک لحمیہ یعنی پروٹین کے وجود میں آنے کا جواب دینا بھی ناممکن ہے۔ لحمیات یعنی پروٹین بہت بڑے سالمی وجود یا مالیکیول ہوتے ہیں جوکہ ”امینوترشے“(Amino acids) نامی مزید چھوٹے ارکان کا مرکب ہوتے ہیں جوکہ مخصوص سلسوں اور مخصوص تعداد اور ساخت کے حساب سے خلئے کے اندر ترتیب وار موجود ہوتے ہیں۔ ”امینو ترشوں“(Amino Acids) کے یہ ارکان جاندار لحمیوں(Living Organisms Proteins) کے تعمیراتی اجزاءہوتے ہیں۔ سب سے سادہ لحمیہ بھی 50 امینو ترشوں کا مرکب ہوتا ہے جبکہ کئی لحمیوں یعنی پروٹین کے اندر ہزاروں کی تعداد میں امینو ترشے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں پر ضروری نقطہ یہ ہے کہ کسی بھی لحمیہ کی ساخت میں ایک بھی امینو ترشے کی غیر موجودگی، اضافہ یا بے دخلی اس لحمیہ کو ایک بے کار سالمیاتی ڈھیر میں تبدیل کردیتا ہے۔ نظریہ ارتقاءجس کے دعوے کے مطابق زندگی محض اتفاق ہے وہ اس ترتیب کی حقیقت کے سامنے بے بس ہے کیونکہ یہ بے ترتیبی کسی اتفاقیہ واقعہ کے ذریعے بیان نہیں کی جاسکتی۔ (اس کے علاوہ یہ نظریہ لحمیات یا پروٹین کی اتفاقی ابتداءکو بھی بیان نہیں کرسکتا جیسے کہ آگے بتایا جائے گا)
ارتقاءکو سب سے زیادہ پریشانی زندگی کی ابتداءکو بیان کرنے میں پیش آتی ہے۔ اس کی وجہ نظریہ یہ ہے کہ مربوط سالمے یا مالیکیول اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کی تشکیل کو محض اتفاق کہہ دینا ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح مربوط خلئے کا بھی اتفاق اور حادثے کی بدولت وجود میں آجانا قطعی ناممکن ہے۔ارتقاءپسندوں کو زندگی کی ابتداءسے متعلق سوالوں کا سامنا 20 ویں صدی کی دوسری چوتھائی میں ہوا۔ روسی ارتقاءپسند ایلکسنرانڈر اوپارن سالمی ارتقاءکا ایک سربرآوردہ سائنسدان ہے۔ اس نے اپنی 1936 ءمیں چھپنے والی کتاب ”دااوریجن آف لائف“ یا ”زندگی کی ابتدائ“(The Origins Of Life) میں لکھا ہے:
ارتقاءکا تاریک ترین پہلو ”بدقسمتی سے خلئے کی ابتداءایک ایسا سوال ہے جوکہ بلاشبہ پورے نظریہ ہے۔“
جفری بادا( Jeffrey Bada )کے بقول ”سب سے بڑا غیر حل شدہ مسئلہ: ”زمین پر زندگی کی ابتداءکیسے ہوئی؟“
اوپارن کے بعد بھی کئی ارتقاءپسندوں نے لاتعداد تجربوں، ہر نوعیت کی تحقیق اور مشاہدوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خلیہ اتفاق سے وجود میں آیا ہے۔ لیکن ان کی ہر کوشش صرف اسکے برعکس خلئے کی انتہائی پیچیدہ ساخت کومزید واضح کرتی چلی گئی اور انکے ہر دعوے کی تردید مضبوط تر ہوتی گئی۔ یونیورسٹی آف جوہانس، گوٹنبرگ میں حیاتیاتی کیمیاء(Biochemistry)کے انسٹیٹیوٹ کا سربراہ پروفیسر کلاس دوس کہتا ہے:
”کیمیائی اور خردنامیاتی ارتقاء(Organic Evolution)کے شعبوں کے ذریعے زندگی کی ابتداءکے بارے میں 30 سے زائد سال کی تحقیق زمین پر زندگی کی ابتداءکے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس کو مزید الجھاتی چلی گئی ہے۔ آج اس موضوع پر تمام بنیادی نظریئے اور تحقیقات یاتو اس سوال کو تعطل میں ڈال دیتے ہیں یا پھر بے علمی کے اعتراف پر ختم ہوتے ہیں۔“
سان ڈیگو کے اسکرپس انسٹیٹیوٹ کے ارضیاتی کیمیا دان(Geological Chemist) جفری بادا اس تعطل کے متعلق ارتقاءپسندوں کی بے چارگی میں کہتا ہے:
”آج بیسویں صدی کو چھوڑتے ہوئے ہمارے سامنے وہی عظیم غیر حل شدہ سوال موجود ہے جوکہ بیسویں صدی میں داخل ہونے پر تھا۔ ”زمین پر زندگی کی ابتداءکس طرح ہوئی؟‘
حقیقت تو یہ ہے کہ لحمیات کی عملی ساخت کا اتفاق سے وجود میں آنا ایک سراسر ناممکن بات ہے ۔ اس کا ثبوت ایک سادہ سے حساب شمار کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے جس کو کوئی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک 288 امینوترشوں( Amino Acids) پر مبنی عام سالمی لحمیہ کی 12 مختلف امینو ترشوں کو 10300 مختلف طریقوں سے ترتیب دی جاسکتی ہے۔ (یہ ایک بے انتہا بڑی تعداد ہے جس میں 1 کے ہندسے کے بعد 300 صفر لگتے ہیں) یہ تمام ممکنہ ترتیبیں صرف ایک ہی مطلوبہ سالمی لحمیہ(Proteins Molecule) بناسکتی ہیں۔ باقی ساری امینوں ترشوں(Amino Acids) کی زنجیریں یا تو مکمل طور پر ناکارہ ہوں گی یا پھر جانداروں کے لئے مضر ۔
دوسرے الفاظ میں صرف ایک سالمی لحمیہ یا پروٹین مالیکیول بننے کا امکان 10300 میں 1 ہے۔ اس 1 کے واقع ہونے کا امکان تقریباً صفر ہے۔ (عملی طور پر اےسے کم امکانات جوکہ 1050 سے زیادہ ہوتے ہیں ان کو صفر امکان ہی سمجھا جاتا ہے) اس کے علاوہ وہ سالمیاتی لحمیہ جو کہ288 امینو ترشوں ( Amino Acids)کا مرکب ہوتا ہے ایک کافی پر تکلف صورتحال ہے کیونکہ کچھ بہت بڑے سالماتی لحمیات(Proteins Molecule) کے اندر ہزاروں کی مقدار میں امینو ترشے موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان زخیم سالمیاتی لحمیوں کے اوپر یہی حساب شمار کرکے اصول لاگو کئے جائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ صورتحال کو بیان کرنے کے لئے لفظ ”ناممکن“ نہایت غیر موزوں ہے۔ اگر ارتقائی زندگی کے لائحہ عمل میں ایک اور قدم آگے بڑھایا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ ایک واحد لحمیاتی جز کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سائٹو کروم۔ سی(Cytochrome C) کے ایک بھی لحمئے(Proteins) کی کیمیائی ساخت اسقدر پیچیدہ ہے کہ اس کی کسی بھی اتفاق کے ذریعے توضیح ناممکن ہے۔ ترکی کا ارتقاءپسند حیاتیات کا پروفیسر علی ڈیمرسوئے اعتراف کرتا ہے کہ واحد سائٹوکروم۔ سی سلسلے کی اتفاقی تشکیل بھی اس طرح ہے گویا ”کسی بندر کا ٹائپرائٹر استعمال کرتے ہوئے انسانیت کی پوری تاریخ بغیر ایک بھی غلطی کئے لکھنا۔“
سب سے چھوٹا دریافت ہونے والا جراثیم مائکروپلازمہ ہومینس ( Mycoplasma homimis)H میں اور اس کے اندر 600 مختلف طرح کے لحمیات(Proteins) موجود ہیں۔ اس صورتحال میں حساب و شمار کے اوپر بتائے گئے تمام اصولوں کو ہر لحمیات کے لئے دہرانا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ لفظ ’ناممکن ‘کے تمام عمومی تصورات کو شرمسار کردیتا ہے۔ ان تمام باتوں کو پڑھنے والے کچھ لوگ جنہوں نے نظریہ ارتقاءکو ایک سائنسی نظریہ کے طور پر قبول کرلیا ہے وہ شاید شک کریں کہ یہ تمام حسا ب و شمار کے اصول بڑھاچڑھاکر لکھے گئے ہیں اور سچائی کی صحیح عکاسی نہیں کرتے۔ لیکن اس حقیقت کو کوئی ارتقاءپسند بھی جھٹلانہیں سکتا۔ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ کسی واحد سالمیاتی لحمئے(Proteins Molecule) کا حادثتاً وجود میں آنے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے کہ جتنا ایک بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے بغیر کوئی غلطی کئے انسانی تاریخ کا لکھناہے۔ لیکن چونکہ دوسری صورت اللٰہ تعالٰی کی طرف سے تخلیق کا اعتراف ہے جس سے یہ ملحد ارتقائی سائنسدان مکمل طور پر منکر ہیں اسی لئے یہ لوگ اندھادھند اس ناممکنہ صورتحال کی حمایت کئے چلے جاتے ہیں۔
پھر بھی اس صورتحال کی سچائی کو کئی ارتقاءپسند مانتے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نامور ارتقائی سائنسدان ہیرلڈاےف۔ بلوم کہتا ہے ’ کسی دس سے زائد امائنی ترشوں(Amino acids) سے بننے والے مخلوطے کا بے ساختہ وجود میں آنا ممکنات کی ہر حدود سے باہر ہے‘۔ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے کہ سالمیاتی ارتقاء( Molecular Evolution)بہت لمبے عرصے پر محیط دورانئے میں پیش آیا اور اسی لئے ناممکن ممکن بن گیا۔ لیکن چاہے جتنے بھی عرصے کے دوران ارتقاءکا نام نہاد عمل وجود میں آیا ہو یہ پھر بھی امینو ترشوں کے لحمیات بننے کے لئے اتفاقی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ امریکی ماہرِ ارضیات ولیم اسٹوکس نے اپنی کتاب ”اسنشلز آف ارتھ ہسٹری“(Essentials Of Earth History) میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ:
”ایسا ہونے کے امکان اس قدر کم ہیں کہ یہ کروڑوں سالوں کے دوران ان کروڑوں سیاروں پر بھی نہیں ہوسکتا چاہے ان تمام سیاروں کو ایسے پانی کی چادر سے ڈھک دیا جائے جس کے اندر تمام ضروری امینو ترشے موجود ہوں۔“
پھر ان تمام باتوں کا کیا مطلب ہوا؟ کیمیا کے پروفیسر ہیری ریوواس سوال کا جواب دیتا ہے:
”اگر کوئی ان تمام وسیع ممکنہ مرکبات کا جائزہ لے جو کہ ایک قدیم سوکھتے ہوئے تالاب میں سادہ سے بے ترتیب امینو ترشوں کی یکجائی سے وجود میں آسکتے ہیں تو ذہن اس بات کو ماننے سے انکار کردیتا کہ زندگی کی ابتداءاس طرح ہوسکتی ہے۔ یہ صورتحال زیادہ قابل فہم ہے کہ ایک عظیم ٹھیکیدار نے ایک بہترین نقشے کے ذریعے اس کام کو انجام دیا ہے۔“
اگر ایک بھی لحمیہ یعنی پروٹین کا اتفاقاً وجود میں آنا ہی ناممکن ہے تو پھر یہ کروڑہا بار اور بھی ناممکن ہے کہ ایک لاکھ کے قریب یہ لحمیات یعنی پروٹین نہ صرف وجود میں آئیں بلکہ اتفاقاً مکمل ترتیب کے ساتھ ایک خلئے کی شکل دھارلیں۔لحمیات کے علاوہ خلئے کے اندر نیوکلیائی ترشے(نیوکلیئک ایسڈ)، پانی میں حل نہیں ہونے والے نامیاتی مرکبات(Organic Compounds)، حیاتین اور کئی دوسرے کیمیا مثلاً پگھلانے اور حل کرنے پر برقی توانائی ترسیل کرنے والا مادہ ساخت اور کارگزاری کی حیثیت سے ایک واضح تناسب، توازن اور نقشہ کی شکل میں ترتیب دئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر جز کئی طرح کے خلیوں کے ترکیبی حصوں میں تعمیراتی ٹکڑوں یا ذیلی سالمیات کا کام انجام دیتے ہیں۔
رابرٹ شاپیرو نیویارک یونیورسٹی میں کیمیا کا پروفیسر اور DNA کا ماہر ہے۔ شاپیرو نے ایک جراثیم کے اندر موجود 200 مختلف لحمیات کا ریاضی کے عمل کے ذریعے حادثتاً وجود میں آنے کی ممکنات کا اندازہ لگایا۔ (ایک انسانی خلئے میں دو لاکھ مختلف طرح کے لحمیات یعنی پروٹین موجود ہوتے ہیں) شاپےرو کا نتیجہ 102000 کے اوپر 1 تھا ۔۱۱۱ (یہ ایک ناقابلِ یقین ہندسہ ہے جس میں 1 کے بعد چالیس ہزار صفر ہیں) ویلنر کے یونیورسٹی کالج کارڈف کا عملی ریاضی اور علمِ ہیئت کا پروفیسر چندراوکراماسنگھے اس بارے میں کہتا ہے:
”غیر جاندار مادے سے اضطراری طور پر زندگی کے وجود میں آنے کا امکان کسی عدد کے آگے چالیس ہزار صفر لگانے کے بعد 1 ہے۔ یہ معاملہ اتنا بڑا ہے کہ ڈارون اور اس کا تمام نظریہ ارتقاءاس میں دفنایا جاسکتا ہے۔ نہ ہی کوئی ابتدائی یا قدیم سیال اس سیارے یا کسی بھی اور سیارے پر موجود تھا۔ اسی لئے اگر زندگی کی ابتداءبے ترتیب نہیں تھی تو یہ لازماً ایک عقلمند اور سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔“
سرفریڈ ہائل بھی ان حیران کن اعداد پر رائے زنی کرتا ہے:
”لازماً یہ نظریہ (کہ زندگی عقلمندی کا نتیجہ ہے) اس قدر واضح ہے کہ دماغ سوچ و بچار پر مجبور ہو جاتا ہے۔اگر اس نظریئے کو ایک ایسی حقیقت کے طور پر نہیں قبول کیا گیا جو کہ اپنے آپ کو خود منوالیتی ہے تواس کو قبول نہ کرنے کی وجہ سائنسی سے زیادہ نفسیاتی ہے۔
ہائل کا لفظ ’ نفسیاتی‘ استعمال کرنے کی وجہ ارتقاءپسندوں کا تحت الشعوری جذباتی رکاوٹ کے باعث اس حقیقت کی نفی کرنا ہے کہ زندگی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات کو مسترد کرنا ان کا بنیادی مقصد ہے۔ صرف اسی واحد وجہ کے لئے وہ ان تمام غیر منطقی نظریوں کی حمایت کرتے چلے جاتے ہیں جن کے ناممکن ہونے کا ان کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔
حوالہ جات:
1 Alexander I. Oparin, Origin of Life, (1936) NewYork: Dover Publications, 1953 (Re print), p..196
2 Klaus Dose, «The Origin of Life: More Questions Than Answers», Interdisciplinary Science Rewievs, Vol 13, No. 4 1988, p. 348
3 Jeffrey Bada, Earth, February ,1998 p. 40
4 Nicholas Wade, “Life’s Origins Get Murkier and Messier”, The New York Times, June 13, 2000, p. D1-D2
5:Ali Demirsoy, Kalıtım ve Evrim (Inheritance and Evolution), Ankara: Meteksan Publishing Co., 1984, p. 64.
6:W. R. Bird, The Origin of Species Revisited, Nashville: Thomas Nelson Co., 1991, p. 304.
7: Ibid, p. 305.
8: J. D. Thomas, Evolution and Faith, Abilene, TX, ACU Press, 1988. p. 81-82.
9: Robert Shapiro, Origins: A Sceptics Guide to the Creation of Life on Earth, New York, Summit Books, 1986. p.127.
10: Fred Hoyle, Chandra Wickramasinghe, Evolution from Space, New York, Simon & Schuster, 1984, p. 148.
11: Ibid, p. 130.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔