تدوین و ترتیب۔۔احید حسن
اصل تحریر تاریخ۔۔۔جنوری 2017ء
مذید اضافہ کتاب نظریہ ارتقا ، ایک فریب سے:2 جون 2017ء
انسانی ارتقاء کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ
اصل تحریر تاریخ۔۔۔جنوری 2017ء
مذید اضافہ کتاب نظریہ ارتقا ، ایک فریب سے:2 جون 2017ء
انسانی ارتقاء کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ
لیوسی کی کہانی
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسل اسٹرالو پیتھی کس(Australopithecus) کی اصل داستان
لیوسی کی کہانی۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ارتقائی شجرہ نصب کا پہلا گروہ آسٹرالوپتھیکس کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں جنوبی گوریلا \قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوق 6 لاکھ سال پہلے افریقہ میں نمودار ہوئی اور 1 لاکھ سال تک موجود رہی۔ اس گروہ کے اندر کئی نسلیں آتی ہیں۔ ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ اس گروہ کی سب سے پرانی نسل اے۔ افارنسس ہے- اس کے بعد اے۔ افریکانس ہے اور پھر اے۔ روبسٹس ہے جس کی ہڈیاں نسبتاً بڑی ہیں۔ اے۔بوئے سائے نامی نسل کو کچھ تحقیق دان مختلف نسل گردانتے ہیں جبکہ کچھ اس کو اے۔ روبسٹس کی ذیلی نسل ہی قرار دیتے ہیں۔
ڈونلڈ جانسن نے 1974ء میں ایتھوپیا میں ایک ڈھانچہ دریافت کیا جو کہ محض 40%مکمل تھا۔اس کے بارے میں اندازہ لگایا گیا کہ یہ 2۔3 ملین سال قدیم ہے۔اس کے قد کا اندازہ تین اعشاریہ چھ انچ اور وزن کا اندازہ پچاس پاؤنڈ لگایا گیا۔جانسن نے دعوی کیا کہ یہ جانور سیدھا چل سکتا تھا۔لہذا اس کا انسان میں ارتقا ہورہا تھا اور بعد میں یہی جانور انسانی نسل میں تبدیل ہوا۔ایک انٹرویو میں جانسن نے کہا کہ میں نے دیکھا زمین پر ایک کہنی کی ہڈی پڑی ہے،پھر میں نے اپنے دائیں کندھے کو دیکھا اور فوری نتیجہ اخذ کیا کہ یہ انسان کا جد امجد ہے جس سے انسان کی نسل کا ارتقاء ہوا۔اب صرف کہنی کی ہڈی سے جانسن نے یہ جواب دریافت کرلیا کہ یہ انسان کا جد امجد ہے جیسے جانسن کوئ مافوق الفطرتی ذہانت رکھتا ہو۔محض ایک ہڈی پر نظر ڈال کر آپ اسے کیسے انسانی ارتقاء کی نشانی کہ سکتے ہیں۔اتنا بڑا سائنسی اندازہ محض ایک ایسے ڈھانچے کی صرف ایک ہڈی کی بنیاد پر لگانا جس کا ڈھانچہ مکمل ہی نہیں،تو یہ بات غیر سائنسی و غیر منطقی ہے۔
لیوسی ارتقاء والوں کے مطابق انسانی ارتقا میں ایک جانور کی سپی شیز میں سے ہے جسے وہ australopithecus کہتے ہیں۔یہ جانور ارتقاء کے حوالے سے انتہائ متنازعہ ہے۔دیگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لیوسی انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ نہیں بلکہ قدیم بن مانس کی ایک معدوم نسل سے تعلق رکھنے والی مادہ بن مانس ہے اور اسے انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ قرار دینا غلط ہے۔ان کے مطابق یہ جانور چلنے کی بجائے زیادہ تر وقت درختوں پر گزارتی۔
لیوسی کا گردن سے اوپر تک کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک بن مانس یا گوریلا کی طرح تھی۔اس کا دماغ انسانی دماغ کا ایک چوتھائی تھا،اس کے جبڑے انگریزی حرف یو کی شکل کے ہیں جو کہ ایک گوریلا کی خصوصیت ہے۔اس کے دانت انسانی دانتوں سے بڑے تھے۔
آسٹرالوپتھیکس کی تمام نسلیں درحقیقت معدوم گوریلے ہیں جو کہ دورِ حاضر کے گوریلوں سے مشابہ ہیں۔ ان کی کھوپڑیاں موجودہ وقت کے چمپانزی بندروں کی ہو بہو یا تھوڑی سی چھوٹی ہیں۔ چمپانزی کی طرح ہی ان کے ہاتھوں اور پیروں میں کچھ حصے باہر کو نکلتے ہوئے ہیں جن کی مدد سے وہ درخت پر چڑھتے ہیں اور ان کے پیروں کی ساخت ان کو ٹہنیوں پر لٹکنے کے لئے مدد دیتی ہے۔ ان کا قد چمپانزی ہی کی طرح چھوٹا ہوتا ہے۔ (زیادہ سے زیادہ 130 سینٹی میٹر یا 15 انچ) ۔ نرآسٹرالوپتھیکس مادہ کی نسبت بڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی دوسری خصوصیات بھی ثابت کرتی ہیں کہ یہ آج کے گوریلا سے بالکل مختلف نہیں مثلاً کھوپڑی کی تفصیلات، آنکھوں کا قریب قریب واقع ہونا، تیز داڑھ ، جبڑے کی ساخت، لمبے بازو اور گڈی ٹانگیں۔ پھر بھی ارتقاءپسند یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گوریلوں کی طرح ہونے کے باوجود یہ گوریلوں سے مختلف تھے اور انسانوں کی طرح سیدھا ہوکر چلتے تھے۔ ان کے اس دعوے کو کئی دہائیوں سے ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist) رچرڈ لیکی اور ڈانلڈسی۔ جوہانسن کی مضبوط پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ لیکن کئی سائنسدانوں نے گروہ آسٹرالوپتھیکس کے ڈھانچوں پر تفصیلی تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ یہ نظریہ ناقص ہے۔
آسٹرالوپتھیکس کے نمونے کے اوپر تفصیلی تحقیق کرنے والے عالمی شہرت کے حامل ماہرِ تشریح البدن انگلستان کا لارڈ سولی زکر مین اور امریکہ کا پروفیسر چارلس آکسنارڈ نے واضح کردیا ہے کہ یہ مخلوق ہرگز انسانی طریقے سے سیدھا ہوکر نہیں چلتی تھی۔ لارڈ زکزمین اور اس کے ساتھ پانچ ماہر تحقیق دانوں نے انگلستان کی حکومت سے حاصل کی گئی مالی امداد کے ذریعے پندرہ سال کے عرصے کے دوران ان فوصلوں کا معائنہ کیا اور یہ حتمی نتیجہ اخذ کیا کہ آسٹرالوپتھیکس ایک عام گوریلے کی نسل تھی جو کہ ہرگز انسان کی طرح دو پاؤں پہ چل نہیں سکتی تھی۔
جس بنیاد پر جانسن نے اس کے انسان کی طرح سیدھا کھڑا ہونے اور چلنے کادعوی کیا اس میں اس کے کولہے اور گھٹنے کے جوڑ بھی شامل ہیں۔لیکن کئ تحقیقات جانسن کے اس دعوے کے خلاف جاتی ہیں۔ آکسنارڈ نے 1987ء میں اپنی کتاب Fossil,teeth and sex میں کہا کہ یہ فوسل انسان اور بن مانس کے آپس کے فرق سے بھی کہیں زیادہ مختلف ہیں۔لہذا جانوروں کا یہ گروہ آسٹرالو پیتھی کس جس میں کیسی بھی شامل ہے ایک بالکل الگ قسم ہے۔(صفحہ 227)
یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ لیوسی انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ نہیں بلکہ جانوروں کی ایک الگ قسم سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ ہوسکتا ہے کہ لیوسی حسب ضرورت سیدھا کھڑی ہو سکتی ہو جیسا کہ اج کے بن مانس جو ضرورت پڑنے پر سیدھے کھڑے ہوسکتے ہیں لیکن یہ بالکل انسان کی طرح کھڑے ہونے اور چلنے کی صلاحیت سے محروم تھی۔مزید یہ کہ جانسن نے گھٹنے کے جوڑ کی ہڈیاں اصل فوسل سے دو سے تین کلومیٹر دور دریافت کی جو کہ ایک چٹان میں 200 فٹ نیچے تھیں۔یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ ہڈیاں اس جانور سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔اب انسان کی طرح سیدھا چلنے کا یہ ثبوت بھی انتہائ کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور اگر اس کو باہم ملا بھی دیا جائے تو بھی یہ انسان کی طرح بالکل سیدھا نہیں۔جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ اس جانور کے انسان سے بہت مختلف ہونے کا آکسنارڈ اور باقی سائنسدانوں کا دعوی درست ہے۔
اے۔ ایفیرنسس, اے۔ بوٹسی اور اکثر فوسل کی تمام تصویریں مکمل طور پر خیالی ہیں۔ آسٹرالوپتھیسینز درحقیقت گوریلوں کی ایک معدوم شکل ہیں۔
زکر مین خود بھی ایک ارتقاءپسند ہے لیکن اس کا تجربہ اس کے ذاتی کٹر نظریات کی بجائے سائنسی تحقیق پر مبنی تھا ۔
چارلس آکسنارڈ بھی ارتقاءپسند تھا جو کہ اس موضوع پر اپنی تحقیق کے لئے مشہور تھا اور اس کا بھی یہی نتیجہ تھا کہ آسٹرالو پتھیسینز کا ڈھانچہ آج کے اورنگوٹان بندر کی طرح ہے۔2
قصہ مختصر یہ کہ آسٹرالوپتھیسینز کا انسانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف ایک معدوم گوریلوں کی نسل ہیں۔
اس گروہ کا انسانی جد امجد نہ ہونے کی حقیقت کو مختلف ارتقائی ذرائع بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مشہور فرانسیسی رسالے ’سائنس اٹ وی ‘ نے مئی 1999ء میں اس کہانی کو اپنے سرورق کی زینت بنایا۔ اس رسالے کی کہانی خاص طور پر’ لیوُسی‘ کے بارے میں تھی جو کہ آسٹرالوپتھیکس افارنسس کا سب سے مشہور فوصلی نمونہ ہے۔ کہانی کا عنوان تھا ’اڈولوسی‘ یا خدا حافظ لیوسی ۔اس کہانی میں اس بات پر زوردیا گیا کہ تمام تحقیقات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسٹرالوپتھیکس کو انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیا جائے۔ مضمون ایک نئی اسٹرالوپتھیکس کی دریافت نمبر STW573 پر مبنی تھا۔1
”ایک نئے نظریئے کے مطابق جنس آسٹرالوپتھییکس انسانی نسل کی جڑ نہیں ہے۔ STW573 کا معائنہ کرنے کی اجازت پانے والی واحد خاتون نے جو نتیجہ اخز کیا ہے وہ انسانی جد امجد سے متعلق عام نظریوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس نتیجہ کی روشنی میں انسانی شجرہ نسب تباہ ہوجاتاہے۔ بڑے بڑے حیوانِ رئیسہ جن کو انسان کے جد امجد سمجھا جاتا رہا تھا وہ انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیئے گئے ہیں۔ آسٹرالوپتھییکس اور ہومو یا انسانی نسل ایک ہی شاخ پر نظر نہیں آتے۔
(Isabelle Bourdial,”Adieu Lucy, “Science et Vie, May 1999, no. 980, pp. 52-62)
ارتقاءپسند بہت عرصے تک اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ لیوسی سیدھا چل سکتی تھی لیکن جدید تحقیق نے واضح کردیا ہے کہ لیوسی نامی یہ مخلوق ایک عام گوریلا تھا جوکہ گوریلوں کی طرح ہی جھک کر چلتا تھا۔
نیچے نظر آنے والا آسٹرالوپیتھیکس کا فوصل اسی نسل AL333- ایفیرنسس 105 کے ایک جوان گوریلے کا ہے۔ اسی لئے اس کی کھوپڑی پر گوریلوں کی مخصوص ہڈی کا ابھار نمایاں نہیں ہے۔
اوپر والی تصویر میں آسٹرالوپیتہی کس 2-444 کی کہوپڑی AL افیرنسس کا فوصل نظر آ رہا ہے اور نیچے ایک دورِ حاظر کا گوریلا ہے، ان دونوں کے درمیان واضع مشابہت ثابت کرتی یے کی آسٹرالوپیتہیکس افیرنسس ایک عام گوریلے کی نسل تھی جس کا انسانوں سے کویُ تعلق نہیں تھا۔
رچرڈ لیکی سمیت کئ تحقیقات کے مطابق دو یا مختلف جانوروں کی سپی شیز کو غلطی سے لیوسی میں شمار کر لیا گیا ہے۔لہزا لیوسی انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ نہیں بلکہ ایک معدوم بن مانس یا گوریلا تھی۔ارتقاء والے ان سب حقائق کے باوجود اس کو ارتقاء کی ایک نشانی قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ارتقائ ماہر حجریات و بشریات۔۔۔۔Evolutionary Palaeoanthropology....ڈیوڈ پلبیم۔۔۔David pilbeam....کے مطابق حجری علم بشریات انسانی ارتقاء کی بجائے انسان کے اپنے بارے میں نقطہ نظر کی زیادہ وضاحت کرتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے کچھ مذموم ہاتھوں میں قید نصاب،میڈیا،میوزیم اب تک انسان کو ارتقاء کی پیداوار کہنے میں لگے ہوئے ہیں۔
حوالہ جات:
1: Solly Zuckerman, Beyond The Ivory Tower, New York: Toplinger Publications, 1970, pp. 75-94.
2: Charles E. Oxnard, "The Place of Australopithecines in Human Evolution: Grounds for Doubt", Nature, Vol 258, p. 389.
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسل اسٹرالو پیتھی کس(Australopithecus) کی اصل داستان
لیوسی کی کہانی۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ارتقائی شجرہ نصب کا پہلا گروہ آسٹرالوپتھیکس کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں جنوبی گوریلا \قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوق 6 لاکھ سال پہلے افریقہ میں نمودار ہوئی اور 1 لاکھ سال تک موجود رہی۔ اس گروہ کے اندر کئی نسلیں آتی ہیں۔ ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ اس گروہ کی سب سے پرانی نسل اے۔ افارنسس ہے- اس کے بعد اے۔ افریکانس ہے اور پھر اے۔ روبسٹس ہے جس کی ہڈیاں نسبتاً بڑی ہیں۔ اے۔بوئے سائے نامی نسل کو کچھ تحقیق دان مختلف نسل گردانتے ہیں جبکہ کچھ اس کو اے۔ روبسٹس کی ذیلی نسل ہی قرار دیتے ہیں۔
ڈونلڈ جانسن نے 1974ء میں ایتھوپیا میں ایک ڈھانچہ دریافت کیا جو کہ محض 40%مکمل تھا۔اس کے بارے میں اندازہ لگایا گیا کہ یہ 2۔3 ملین سال قدیم ہے۔اس کے قد کا اندازہ تین اعشاریہ چھ انچ اور وزن کا اندازہ پچاس پاؤنڈ لگایا گیا۔جانسن نے دعوی کیا کہ یہ جانور سیدھا چل سکتا تھا۔لہذا اس کا انسان میں ارتقا ہورہا تھا اور بعد میں یہی جانور انسانی نسل میں تبدیل ہوا۔ایک انٹرویو میں جانسن نے کہا کہ میں نے دیکھا زمین پر ایک کہنی کی ہڈی پڑی ہے،پھر میں نے اپنے دائیں کندھے کو دیکھا اور فوری نتیجہ اخذ کیا کہ یہ انسان کا جد امجد ہے جس سے انسان کی نسل کا ارتقاء ہوا۔اب صرف کہنی کی ہڈی سے جانسن نے یہ جواب دریافت کرلیا کہ یہ انسان کا جد امجد ہے جیسے جانسن کوئ مافوق الفطرتی ذہانت رکھتا ہو۔محض ایک ہڈی پر نظر ڈال کر آپ اسے کیسے انسانی ارتقاء کی نشانی کہ سکتے ہیں۔اتنا بڑا سائنسی اندازہ محض ایک ایسے ڈھانچے کی صرف ایک ہڈی کی بنیاد پر لگانا جس کا ڈھانچہ مکمل ہی نہیں،تو یہ بات غیر سائنسی و غیر منطقی ہے۔
لیوسی ارتقاء والوں کے مطابق انسانی ارتقا میں ایک جانور کی سپی شیز میں سے ہے جسے وہ australopithecus کہتے ہیں۔یہ جانور ارتقاء کے حوالے سے انتہائ متنازعہ ہے۔دیگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لیوسی انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ نہیں بلکہ قدیم بن مانس کی ایک معدوم نسل سے تعلق رکھنے والی مادہ بن مانس ہے اور اسے انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ قرار دینا غلط ہے۔ان کے مطابق یہ جانور چلنے کی بجائے زیادہ تر وقت درختوں پر گزارتی۔
لیوسی کا گردن سے اوپر تک کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک بن مانس یا گوریلا کی طرح تھی۔اس کا دماغ انسانی دماغ کا ایک چوتھائی تھا،اس کے جبڑے انگریزی حرف یو کی شکل کے ہیں جو کہ ایک گوریلا کی خصوصیت ہے۔اس کے دانت انسانی دانتوں سے بڑے تھے۔
آسٹرالوپتھیکس کی تمام نسلیں درحقیقت معدوم گوریلے ہیں جو کہ دورِ حاضر کے گوریلوں سے مشابہ ہیں۔ ان کی کھوپڑیاں موجودہ وقت کے چمپانزی بندروں کی ہو بہو یا تھوڑی سی چھوٹی ہیں۔ چمپانزی کی طرح ہی ان کے ہاتھوں اور پیروں میں کچھ حصے باہر کو نکلتے ہوئے ہیں جن کی مدد سے وہ درخت پر چڑھتے ہیں اور ان کے پیروں کی ساخت ان کو ٹہنیوں پر لٹکنے کے لئے مدد دیتی ہے۔ ان کا قد چمپانزی ہی کی طرح چھوٹا ہوتا ہے۔ (زیادہ سے زیادہ 130 سینٹی میٹر یا 15 انچ) ۔ نرآسٹرالوپتھیکس مادہ کی نسبت بڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی دوسری خصوصیات بھی ثابت کرتی ہیں کہ یہ آج کے گوریلا سے بالکل مختلف نہیں مثلاً کھوپڑی کی تفصیلات، آنکھوں کا قریب قریب واقع ہونا، تیز داڑھ ، جبڑے کی ساخت، لمبے بازو اور گڈی ٹانگیں۔ پھر بھی ارتقاءپسند یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گوریلوں کی طرح ہونے کے باوجود یہ گوریلوں سے مختلف تھے اور انسانوں کی طرح سیدھا ہوکر چلتے تھے۔ ان کے اس دعوے کو کئی دہائیوں سے ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist) رچرڈ لیکی اور ڈانلڈسی۔ جوہانسن کی مضبوط پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ لیکن کئی سائنسدانوں نے گروہ آسٹرالوپتھیکس کے ڈھانچوں پر تفصیلی تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ یہ نظریہ ناقص ہے۔
آسٹرالوپتھیکس کے نمونے کے اوپر تفصیلی تحقیق کرنے والے عالمی شہرت کے حامل ماہرِ تشریح البدن انگلستان کا لارڈ سولی زکر مین اور امریکہ کا پروفیسر چارلس آکسنارڈ نے واضح کردیا ہے کہ یہ مخلوق ہرگز انسانی طریقے سے سیدھا ہوکر نہیں چلتی تھی۔ لارڈ زکزمین اور اس کے ساتھ پانچ ماہر تحقیق دانوں نے انگلستان کی حکومت سے حاصل کی گئی مالی امداد کے ذریعے پندرہ سال کے عرصے کے دوران ان فوصلوں کا معائنہ کیا اور یہ حتمی نتیجہ اخذ کیا کہ آسٹرالوپتھیکس ایک عام گوریلے کی نسل تھی جو کہ ہرگز انسان کی طرح دو پاؤں پہ چل نہیں سکتی تھی۔
جس بنیاد پر جانسن نے اس کے انسان کی طرح سیدھا کھڑا ہونے اور چلنے کادعوی کیا اس میں اس کے کولہے اور گھٹنے کے جوڑ بھی شامل ہیں۔لیکن کئ تحقیقات جانسن کے اس دعوے کے خلاف جاتی ہیں۔ آکسنارڈ نے 1987ء میں اپنی کتاب Fossil,teeth and sex میں کہا کہ یہ فوسل انسان اور بن مانس کے آپس کے فرق سے بھی کہیں زیادہ مختلف ہیں۔لہذا جانوروں کا یہ گروہ آسٹرالو پیتھی کس جس میں کیسی بھی شامل ہے ایک بالکل الگ قسم ہے۔(صفحہ 227)
یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ لیوسی انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ نہیں بلکہ جانوروں کی ایک الگ قسم سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ ہوسکتا ہے کہ لیوسی حسب ضرورت سیدھا کھڑی ہو سکتی ہو جیسا کہ اج کے بن مانس جو ضرورت پڑنے پر سیدھے کھڑے ہوسکتے ہیں لیکن یہ بالکل انسان کی طرح کھڑے ہونے اور چلنے کی صلاحیت سے محروم تھی۔مزید یہ کہ جانسن نے گھٹنے کے جوڑ کی ہڈیاں اصل فوسل سے دو سے تین کلومیٹر دور دریافت کی جو کہ ایک چٹان میں 200 فٹ نیچے تھیں۔یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ ہڈیاں اس جانور سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔اب انسان کی طرح سیدھا چلنے کا یہ ثبوت بھی انتہائ کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور اگر اس کو باہم ملا بھی دیا جائے تو بھی یہ انسان کی طرح بالکل سیدھا نہیں۔جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ اس جانور کے انسان سے بہت مختلف ہونے کا آکسنارڈ اور باقی سائنسدانوں کا دعوی درست ہے۔
اے۔ ایفیرنسس, اے۔ بوٹسی اور اکثر فوسل کی تمام تصویریں مکمل طور پر خیالی ہیں۔ آسٹرالوپتھیسینز درحقیقت گوریلوں کی ایک معدوم شکل ہیں۔
زکر مین خود بھی ایک ارتقاءپسند ہے لیکن اس کا تجربہ اس کے ذاتی کٹر نظریات کی بجائے سائنسی تحقیق پر مبنی تھا ۔
چارلس آکسنارڈ بھی ارتقاءپسند تھا جو کہ اس موضوع پر اپنی تحقیق کے لئے مشہور تھا اور اس کا بھی یہی نتیجہ تھا کہ آسٹرالو پتھیسینز کا ڈھانچہ آج کے اورنگوٹان بندر کی طرح ہے۔2
قصہ مختصر یہ کہ آسٹرالوپتھیسینز کا انسانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف ایک معدوم گوریلوں کی نسل ہیں۔
اس گروہ کا انسانی جد امجد نہ ہونے کی حقیقت کو مختلف ارتقائی ذرائع بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مشہور فرانسیسی رسالے ’سائنس اٹ وی ‘ نے مئی 1999ء میں اس کہانی کو اپنے سرورق کی زینت بنایا۔ اس رسالے کی کہانی خاص طور پر’ لیوُسی‘ کے بارے میں تھی جو کہ آسٹرالوپتھیکس افارنسس کا سب سے مشہور فوصلی نمونہ ہے۔ کہانی کا عنوان تھا ’اڈولوسی‘ یا خدا حافظ لیوسی ۔اس کہانی میں اس بات پر زوردیا گیا کہ تمام تحقیقات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسٹرالوپتھیکس کو انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیا جائے۔ مضمون ایک نئی اسٹرالوپتھیکس کی دریافت نمبر STW573 پر مبنی تھا۔1
”ایک نئے نظریئے کے مطابق جنس آسٹرالوپتھییکس انسانی نسل کی جڑ نہیں ہے۔ STW573 کا معائنہ کرنے کی اجازت پانے والی واحد خاتون نے جو نتیجہ اخز کیا ہے وہ انسانی جد امجد سے متعلق عام نظریوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس نتیجہ کی روشنی میں انسانی شجرہ نسب تباہ ہوجاتاہے۔ بڑے بڑے حیوانِ رئیسہ جن کو انسان کے جد امجد سمجھا جاتا رہا تھا وہ انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیئے گئے ہیں۔ آسٹرالوپتھییکس اور ہومو یا انسانی نسل ایک ہی شاخ پر نظر نہیں آتے۔
(Isabelle Bourdial,”Adieu Lucy, “Science et Vie, May 1999, no. 980, pp. 52-62)
ارتقاءپسند بہت عرصے تک اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ لیوسی سیدھا چل سکتی تھی لیکن جدید تحقیق نے واضح کردیا ہے کہ لیوسی نامی یہ مخلوق ایک عام گوریلا تھا جوکہ گوریلوں کی طرح ہی جھک کر چلتا تھا۔
نیچے نظر آنے والا آسٹرالوپیتھیکس کا فوصل اسی نسل AL333- ایفیرنسس 105 کے ایک جوان گوریلے کا ہے۔ اسی لئے اس کی کھوپڑی پر گوریلوں کی مخصوص ہڈی کا ابھار نمایاں نہیں ہے۔
اوپر والی تصویر میں آسٹرالوپیتہی کس 2-444 کی کہوپڑی AL افیرنسس کا فوصل نظر آ رہا ہے اور نیچے ایک دورِ حاظر کا گوریلا ہے، ان دونوں کے درمیان واضع مشابہت ثابت کرتی یے کی آسٹرالوپیتہیکس افیرنسس ایک عام گوریلے کی نسل تھی جس کا انسانوں سے کویُ تعلق نہیں تھا۔
رچرڈ لیکی سمیت کئ تحقیقات کے مطابق دو یا مختلف جانوروں کی سپی شیز کو غلطی سے لیوسی میں شمار کر لیا گیا ہے۔لہزا لیوسی انسانی ارتقاء کا کوئ سلسلہ نہیں بلکہ ایک معدوم بن مانس یا گوریلا تھی۔ارتقاء والے ان سب حقائق کے باوجود اس کو ارتقاء کی ایک نشانی قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ارتقائ ماہر حجریات و بشریات۔۔۔۔Evolutionary Palaeoanthropology....ڈیوڈ پلبیم۔۔۔David pilbeam....کے مطابق حجری علم بشریات انسانی ارتقاء کی بجائے انسان کے اپنے بارے میں نقطہ نظر کی زیادہ وضاحت کرتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے کچھ مذموم ہاتھوں میں قید نصاب،میڈیا،میوزیم اب تک انسان کو ارتقاء کی پیداوار کہنے میں لگے ہوئے ہیں۔
حوالہ جات:
1: Solly Zuckerman, Beyond The Ivory Tower, New York: Toplinger Publications, 1970, pp. 75-94.
2: Charles E. Oxnard, "The Place of Australopithecines in Human Evolution: Grounds for Doubt", Nature, Vol 258, p. 389.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔