کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے پاس زرہ رہن رکھ کر نعوذ بااللہ سود قرض لیا؟کیا رہن رکھنا سود ہے؟ ایک ملحد کا اعتراض اور اس کا جواب
اصطلاح شرع میں رہن کا معنی ہے : ۔دوسرے کے مال کو اپنے حق میں اس لیے روکنا‘ کہ اس کے ذریعہ سے اپنے حق یعنی قرض کووصول کرنا ممکن ہو‘ رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرہون‘ رہن رکھنے والے کو راہن اور جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے اس کو مرتہن کہتے ہیں‘ رہن رکھنا شریعت میں بالاجماع جائز ہے۔گرو ی کرنے والا جب تک گروی رکھنے والے کے ایک درہم کا بھی قرض دار رہے گا اپنی چیز واپس لینے کا مستحق نہیں ہوگا۔ چونکہ ایسا ہوتا ہی ہے کہ کاتب نہ ملنے کی صورت میں اعتماد کے لیے کوئی چیز رہن رکھ دی جاتی ہے۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث جو تمام کتب صحاح میں موجود ہے اورانس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث جس کو بخاری نے بیان کیا ہے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع جَو کے عوض رہن رکھی تھی یہ جَو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر والوں کے صرف کے لیے (قرض) لیے تھے اور وفات اقدس تک وہ زرہ اس یہودی کے پاس رہن رہی۔
ملحدین کے علم پہ حیرت ہے۔ملحد نے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراض پہ مبنی ویڈیو بنا کے ڈال دی لیکن اسے یہ نہیں پتہ کہ رہن اور سود میں کیا فرق ہے۔سچ کہتے ہیں اللہ تعالی کی ذات کے انکار کے بعد انسان کے پاس اللہ تعالی کی عطا کردہ عقل بھی باقی نہیں بچتی۔
رہن یہ ہے کہ آپ نے کسی بندے کا ادھار دینا ہے اور آپ اسے اس کا قرض ہوبہو یعنی بغیر کسی اضافی رقم یا سود کے ادا کریں گے لیکن اس کی گارنٹی اور قرض دینے والے کی تسلی لے لیے آپ اپنی کوئی چیز قرض دینے والے کو دیں گے اور وہ چیز تب تک اس کے پاس رہے گی جب تک آپ اس کا قرض واپس نہیں کریں گے۔جب آپ نے قرض واپس کر دیا آپ کی وہ چیز آپ کو واپس مل جائے گی اور قرض کی رقم آپ نے اتنی ادا کی جتنی آپ نے لی تھی۔اب اس سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رہن سود ہے جب کہ لی گئی رقم بغیر کسی اضافی رقم کے واپس کی گئ۔
ملحدین کہتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین تھے تو یہودی نے قرض زرہ رہن رکھنے کے بدلے میں کیوں دیا۔ملحدین کی عورتیں گندی عورتوں سے ملتی ہیں جن کا کام ہر بات پہ اعتراض ہوتا ہے۔اگر یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ ایمان نہ لے آتا؟ صادق اور امین تو مکہ کے کافر مانتے تھے جب کہ مدینہ کے یہودی ہمیشہ اسی کوشش میں رہے کہ کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی کریں۔
یہ تھا ایک جاہلانہ اعتراض کا جواب۔پتہ ان جاہلوں کو اردو کے الفاظ کے فرق کا بھی نہیں ہوتا لیکن پیدا یہ عربی پہ اعتراضات کا سارا علم لے کر ہوتے ہیں۔ اللہ سلامت رکھے اور برکت عطا فرمائے۔
اصطلاح شرع میں رہن کا معنی ہے : ۔دوسرے کے مال کو اپنے حق میں اس لیے روکنا‘ کہ اس کے ذریعہ سے اپنے حق یعنی قرض کووصول کرنا ممکن ہو‘ رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرہون‘ رہن رکھنے والے کو راہن اور جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے اس کو مرتہن کہتے ہیں‘ رہن رکھنا شریعت میں بالاجماع جائز ہے۔گرو ی کرنے والا جب تک گروی رکھنے والے کے ایک درہم کا بھی قرض دار رہے گا اپنی چیز واپس لینے کا مستحق نہیں ہوگا۔ چونکہ ایسا ہوتا ہی ہے کہ کاتب نہ ملنے کی صورت میں اعتماد کے لیے کوئی چیز رہن رکھ دی جاتی ہے۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث جو تمام کتب صحاح میں موجود ہے اورانس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث جس کو بخاری نے بیان کیا ہے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع جَو کے عوض رہن رکھی تھی یہ جَو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر والوں کے صرف کے لیے (قرض) لیے تھے اور وفات اقدس تک وہ زرہ اس یہودی کے پاس رہن رہی۔
ملحدین کے علم پہ حیرت ہے۔ملحد نے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراض پہ مبنی ویڈیو بنا کے ڈال دی لیکن اسے یہ نہیں پتہ کہ رہن اور سود میں کیا فرق ہے۔سچ کہتے ہیں اللہ تعالی کی ذات کے انکار کے بعد انسان کے پاس اللہ تعالی کی عطا کردہ عقل بھی باقی نہیں بچتی۔
رہن یہ ہے کہ آپ نے کسی بندے کا ادھار دینا ہے اور آپ اسے اس کا قرض ہوبہو یعنی بغیر کسی اضافی رقم یا سود کے ادا کریں گے لیکن اس کی گارنٹی اور قرض دینے والے کی تسلی لے لیے آپ اپنی کوئی چیز قرض دینے والے کو دیں گے اور وہ چیز تب تک اس کے پاس رہے گی جب تک آپ اس کا قرض واپس نہیں کریں گے۔جب آپ نے قرض واپس کر دیا آپ کی وہ چیز آپ کو واپس مل جائے گی اور قرض کی رقم آپ نے اتنی ادا کی جتنی آپ نے لی تھی۔اب اس سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رہن سود ہے جب کہ لی گئی رقم بغیر کسی اضافی رقم کے واپس کی گئ۔
ملحدین کہتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین تھے تو یہودی نے قرض زرہ رہن رکھنے کے بدلے میں کیوں دیا۔ملحدین کی عورتیں گندی عورتوں سے ملتی ہیں جن کا کام ہر بات پہ اعتراض ہوتا ہے۔اگر یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ ایمان نہ لے آتا؟ صادق اور امین تو مکہ کے کافر مانتے تھے جب کہ مدینہ کے یہودی ہمیشہ اسی کوشش میں رہے کہ کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی کریں۔
یہ تھا ایک جاہلانہ اعتراض کا جواب۔پتہ ان جاہلوں کو اردو کے الفاظ کے فرق کا بھی نہیں ہوتا لیکن پیدا یہ عربی پہ اعتراضات کا سارا علم لے کر ہوتے ہیں۔ اللہ سلامت رکھے اور برکت عطا فرمائے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔