انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 6
نینڈر تھال، ہومو ہیڈل برگنسس اورکرومیگنن، بن مانس اور انسان کی مشترکہ ارتقائی خصوصیات والے قرار دیا جانے والےحقیقی انسان
انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحیی
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
نیانڈر تھال وہ انسان تھے جو کہ اچانک ایک لاکھ سال پہلے یورپ میں نمودار ہوئے اور جو کہ یا تو وقت کے ساتھ مکمل طور پر غائب ہوگئے یا پھر دوسری نسلوں میں 35 ہزار سال پہلے جذب ہوگئے۔ دورِ حاضر کے انسان اور ان میں صرف یہ فرق تھا کہ نیانڈر تھال کے ڈھانچے زیادہ مضبوط اور ان کی کھوپڑی تھوڑی اور بڑی تھی۔
نیانڈر تھال کا انسانی نسل ہونے کا اعتراف آج تقریباً ہر کوئی کرتا ہے۔ اگرچہ ارتقاءپسندوں ایڑی چوٹی کا زور لگاکر ان کو ایک ”قدیم نسل“ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہےں لیکن تمام تحقیق صرف ان کو دورِ حاضر کا ایک جسمانی طور پر مضبوط آدمی ہونا ہی ثابت کرتی ہے۔ نیومیکسیکو یونیورسٹی کا ایرک ٹرنکاس جو کہ ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist) ہونے کے علاوہ اس مخصوص موضوع پر بھی ماہر ہے وہ لکھتا ہے:
”نیانڈرتھال کے ڈھانچے اور جدید انسانوں کے درمیان تفصیلی موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ نیانڈر تھال کے تشریح البدن میں کوئی ایسی خود حرکتی، لسانیاتی، چابک دستی یا عقل و فہم سے متعلق کمی نہیں تھی جوکہ اس کو جدید انسان سے کسی طور پر کمتر ثابت کرے۔“ 1
کئی جدید تحقیق دان نیانڈرتھال انسان کو جدید انسان کی ذیلی نسل کہتے ہیں اور اس کو ہوموسیپین نیانڈرتھالنسس(Homosapiens neadethalensis) کے نام سے پکارتے ہیں۔ تمام تحقیق کے مطابق نیانڈر تھال بھی اپنے مرے ہوﺅں کو دفناتے تھے، موسیقی کے آلے بناتے تھے اور ان کے اور اسی دور میں موجود ہوموسیپین انسانوں کے درمیان کئی تہذیبی اور ثقافتی مماثلت تھی۔ یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ نیانڈر تھال ایک مضبوط اور تنومند انسانی نسل تھی جو کہ وقت کے ساتھ غائب ہوگئی۔
نیچے تصویر میں اسرائیل سے دریافت ہونے والی ہوموسیپین نیانڈ رتھالنسس، ۱ کی کھوپڑی ہے۔ نیانڈر تھال آدمی عمومی طور پر مضبوط لیکن گٹا تھا لیکن اندازہ ہے کہ اس کا قد لمبا تھا۔ ان تمام وجوہات کی بناءپر نیانڈرتھال کو قدیم ، غیر ترقی یافتہ نسل کہتے تمام دعوؤں کی تردید کے لئے یہ فوصل اہم شواہد میں سے ایک ہے۔
خیالی ارتقائی منصوبے میں آرکائک ہومو سیپین(Archaic Humans) جدید انسان سے پہلے آخری مرحلہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ارتقاءپسند ان فوصلوں کے بارے میں کچھ بولنے کے لائق ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کے اور آج کے انسان کے بیچ بہت معمولی فرق ہے۔ کچھ تحقیق دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس نسل کے نمائندے مقامی آسٹریلوی باشندوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ ہوموسیپین آرکائک کی طرح ان آسٹریلوی مقامی باشندوں کی بھنویں بھی گھنی باہر کو نکلتی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کا جبڑا تھوڑا اندر کو دھنساہوا ہوتا ہے اور ان کی کھوپڑی کا ناپ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے۔ ہوموہائلڈلبرگنسس(Homo heidelbergensis) نامی ارتقائی ادب کا گروہ آرکائک ہومو سیپین کا مشابہہ ہے۔ ایک ہی نسل کے دو نام اس لئے رکھے گئے کیونکہ ارتقاءپسندوں کاا س موضوع پر اختلاف رائے تھا۔ ہوموہائلڈر برگنسس درجہ بندی کے تمام فوصل ان لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جوکہ تشریح الاعضاء یعنی اناٹومی کے حساب سے ناصرف دورِ حاضر کے یورپی لوگوں سے مشابہ ہیں بلکہ ان یورپیوں سے بھی مشابہ ہیں جو کہ انگلستان اور اسپین میں 50 ہزار سال اور 37000سال پہلے زندہ تھے۔
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کرومیگنون(Cromagnon) انسان 30ہزار سال پہلے زندہ تھا۔ ان کی کھوپڑی گنبد کی شکل کی اور ماتھا چوڑا تھا۔ اس کی شکل پر گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنویں تھیں اور کھوپڑی کے پیچھے کی ہڈی تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ یہ خاصیت نیانڈر تھال انسان(Neanderthal) اور ہوموارکٹس(Homo erectus) میں بھی موجود تھی۔ گوکہ کرومیگنون انسان کو ایک یورپی نسل سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی کھوپڑی کی ساخت اور ناپ افریقہ اور مدارینی علاقوں کے دورِ حاضر کے باشندوں سے مشابہ ہے۔ اس مماثلت پر انحصار کرتےہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کرومیگنون انسان ایک آرکائک یا قدیم افریقی نسل تھی۔ کچھ اور قدیم بشری رکازیات کی تحقیق کے ذریعے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ کرومیگنون انسان اور نیانڈر تھال نسلیں آپس میں مل گئیں اور دورِ حاضر کی جدید نسل کی بنیاد ڈل گئی۔ ان سب میں سے کوئی بھی انسان غیر ترقی یافتہ نسلیں نہیں تھیں۔ وہ صرف الگ نسلیں تھیں جوکہ پرانے وقت میں زندہ رہیں اور یاتو دوسری نسلوں میں جذب ہوکر کوئی اور شکل اختیار کرگئیں یا پھر معدوم ہوکر تاریخ سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئیں۔
نیچے تصویر میں دی گئ 26 ہزار سال پرانی سوئی
ایک بیحد اہم فوصل ہے جو ثابت کرتا ہے کہ نیانڈر تھال لوگوں کو کپڑوں کی سلائی کی بھی سمجھ بوجھ تھی۔ ( ڈی لننسن، بی۔ ایڈگر ) ”لوسی سے زبان تک“ ، صفحہ 99 )
اب تک جس تحقیق کا جائزہ لیا گیا ہے وہ ایک واضح منظر پیش کرتی ہے۔ انسانی ارتقاءکا منظر نامہ ایک خیالی کہانی ہے۔ کسی بھی ایسے شجرہ نسب کے وجود میں آنے کے لئے گوریلے کا آدمی تک ارتقاءایک سلسلہ وار تدریجی ترقی پر مبنی ہونا چاہئے تھا جس کا ہر ثبوت فوصلی شکل میں موجود ہونا چاہئے تھا۔ لیکن گوریلے اور انسان کے درمیان ایک لامحدود خلاہے۔ ڈھانچوں کی ساخت، کھوپڑیوں کی پیمائش اور سیدھاچلنے کی صلاحیت انسانوں کو گوریلوں سے الگ کرتی ہے۔ (اس بات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ 1993ء میں کی جانے والی کان کی اندرونی ساخت کی تحقیق کی بنیاد پر آسٹرالوپتھیکس اور ہوموہابلس کا شمار گوریلو ں میں کیا گیا تھاجبکہ ہومو ارکٹس کو انسان کا درجہ دیا گیا تھا)
ایک اور بے حد قابل ذکر دریافت جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام مختلف نسلوں کے درمیان کسی بھی شجرہ نسب کے اعتبار سے تعلق ناممکن ہے وہ یہ کہ جن نسلوں کو ایک دوسرے کے جد امجد کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے وہ درحقیقت تاریخ کے ایک ہی دور میں زندہ تھےں۔ اگر ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہومو ہابلس میں تبدیل ہوگئے اور ہومو ہابلس ہومو ارکٹس میں بدل گئے تو ان کی زندگی کے دور اور اوقات بھی بدل جانے چاہئے تھے۔ لیکن فوصلی ریکارڈ میں ایسی کسی بھی تاریخی ترتیب کا نشان نہیں ملتا۔ ارتقائی اندازوں کے مطابق آسٹرالوپتھیکس 6 لاکھ سال پہلے نمودار ہوا اور 1 لاکھ سال پہلے معدوم ہوگیا۔ ہوموہابلس نامی مخلوق اندازاً 17 سے 19 لاکھ سال پہلے بھی موجود تھی۔ ہوموہابلس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ نسل ہومو روڈولفنسس سے 28 لاکھ سال پہلے زندہ تھی۔ اس حساب سے ہوموروڈولفنسس ہومو ہابلس سے تقریباً ۱ لاکھ سال بڑی ہے جس کا اس کو جد امجد کہا جاتا ہے۔ ہومو ارکٹس 16 سے 18 لاکھ سال پہلے زندہ تھے جس کے حساب سے ہومو ارکٹس زمین پر وقت کے اسی دورانیئے میں نمودار ہوئے جس دورانیئے میں ان کے نام نہاد جد امجد ہوموہابلس وجود میں آئے تھے۔
ایلن والکر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے
”مشرقی افریقہ سے ثبوت ملا ہے کہ دنیا میں نسبتاً چھوٹے آسٹرالوپتھیکس انسان وقت کے ایک ہی دور میں پہلے ہوموہابلس کے ساتھ اور پھر ہوکو ارکٹس کے ساتھ موجود تھے۔“ 2
لوئس لیکی نے بھی آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس کے فوصل تقریباً ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہی تنزانیہ کے اولڈ ووائی گورج خطے میں سطح IIمیں دریافت کئے ہیں۔3
ایسے کسی بھی شجرہ نسب کا کوئی وجود نہیں ہے جس کا ذکر ارتقاءپسند کرتے رہتے ہیں۔ اسٹیفن جے گولڈ ہارورڈ یونیورسٹی کا ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ارتقاءپسند ہے۔ وہ ارتقاءکو پیش آنے والا یہ تعطل ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:4
”ہماری ارتقائی سیڑھی کا کیا بنا اگر ایک ہی وقت کے دور میں تینوں آسٹرالوپتھیکس افراکانس، مضبوط آسٹرالوپتھیسینز اور ہوموہابلس نسلیں جد امجد ساتھ ہی موجود ہوں اور کوئی بھی ایک دوسرے کا پرکھا نہ ہو؟ اس کے علاوہ ان تےنوں کے اندر کسی بھی طرح کے ارتقائی اوصاف ان کی ارضی زندگی کے دوران موجود نہیں تھے۔“
جب ہومو ارکٹس سے ہومو سیپین کی طرف آتے ہیں تو یہاں بھی کسی بھی طرح کے شجرہ نسب کی عدم موجودگی ہے۔ تحقیقی ثبوت کے مطابق ہومو ارکٹس اور ارکائک ہومو سیپین 27 ہزار سال تک زندہ رہے اور دورِ حاضر سے 10 ہزار سال پہلےتک بھی موجود تھے۔ آسٹریلیا کی کوﺅ سوانپ یا جھیل سے 13 ہزار سال پرانی ہومو ارکٹس کھوپڑیاں ملی ہیں۔ جاوا کے جزیرے پر ملنے والے ہومو ارکٹس کے بقایاجات 27 ہزار سال پرانے ہیں ۔5
یہ ساری باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ انسان کے کسی بن مانس نما مخلوق سے ارتقا پذیر ہونے کی ساری کہانی ایک جھوٹ،فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں جس میں ہزاروں سائنسی غلطیاں ہیں اور یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انسان کسی حیوان سے ارتقا پذیر ہونے کی بجائے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے اسی حالت میں تخلیق کیا گیا۔
حوالہ جات:
1: Erik Trinkaus, "Hard Times Among the Neanderthals", Natural History, vol 87, December 1978, p. 10; R. L. Holloway, "The Neanderthal Brain: What Was Primitive", American Journal of Physical Anthropology Supplement, Vol 12, 1991, p. 94.
2: Alan Walker, Science, vol 207, 1980, p. 1103.
3: A. J. Kelso, Physical Antropology, 1st ed., New York: J. B. Lipincott Co., 1970, p. 221; M. D. Leakey, Olduvai Gorge, Vol 3, Cambridge: Cambridge University Press, 1971, p. 272.
4: S. J. Gould, Natural History, Vol 85, 1976, p. 30.
5: Time, November 1996.
نینڈر تھال، ہومو ہیڈل برگنسس اورکرومیگنن، بن مانس اور انسان کی مشترکہ ارتقائی خصوصیات والے قرار دیا جانے والےحقیقی انسان
انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحیی
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
نیانڈر تھال وہ انسان تھے جو کہ اچانک ایک لاکھ سال پہلے یورپ میں نمودار ہوئے اور جو کہ یا تو وقت کے ساتھ مکمل طور پر غائب ہوگئے یا پھر دوسری نسلوں میں 35 ہزار سال پہلے جذب ہوگئے۔ دورِ حاضر کے انسان اور ان میں صرف یہ فرق تھا کہ نیانڈر تھال کے ڈھانچے زیادہ مضبوط اور ان کی کھوپڑی تھوڑی اور بڑی تھی۔
نیانڈر تھال کا انسانی نسل ہونے کا اعتراف آج تقریباً ہر کوئی کرتا ہے۔ اگرچہ ارتقاءپسندوں ایڑی چوٹی کا زور لگاکر ان کو ایک ”قدیم نسل“ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہےں لیکن تمام تحقیق صرف ان کو دورِ حاضر کا ایک جسمانی طور پر مضبوط آدمی ہونا ہی ثابت کرتی ہے۔ نیومیکسیکو یونیورسٹی کا ایرک ٹرنکاس جو کہ ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist) ہونے کے علاوہ اس مخصوص موضوع پر بھی ماہر ہے وہ لکھتا ہے:
”نیانڈرتھال کے ڈھانچے اور جدید انسانوں کے درمیان تفصیلی موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ نیانڈر تھال کے تشریح البدن میں کوئی ایسی خود حرکتی، لسانیاتی، چابک دستی یا عقل و فہم سے متعلق کمی نہیں تھی جوکہ اس کو جدید انسان سے کسی طور پر کمتر ثابت کرے۔“ 1
کئی جدید تحقیق دان نیانڈرتھال انسان کو جدید انسان کی ذیلی نسل کہتے ہیں اور اس کو ہوموسیپین نیانڈرتھالنسس(Homosapiens neadethalensis) کے نام سے پکارتے ہیں۔ تمام تحقیق کے مطابق نیانڈر تھال بھی اپنے مرے ہوﺅں کو دفناتے تھے، موسیقی کے آلے بناتے تھے اور ان کے اور اسی دور میں موجود ہوموسیپین انسانوں کے درمیان کئی تہذیبی اور ثقافتی مماثلت تھی۔ یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ نیانڈر تھال ایک مضبوط اور تنومند انسانی نسل تھی جو کہ وقت کے ساتھ غائب ہوگئی۔
نیچے تصویر میں اسرائیل سے دریافت ہونے والی ہوموسیپین نیانڈ رتھالنسس، ۱ کی کھوپڑی ہے۔ نیانڈر تھال آدمی عمومی طور پر مضبوط لیکن گٹا تھا لیکن اندازہ ہے کہ اس کا قد لمبا تھا۔ ان تمام وجوہات کی بناءپر نیانڈرتھال کو قدیم ، غیر ترقی یافتہ نسل کہتے تمام دعوؤں کی تردید کے لئے یہ فوصل اہم شواہد میں سے ایک ہے۔
خیالی ارتقائی منصوبے میں آرکائک ہومو سیپین(Archaic Humans) جدید انسان سے پہلے آخری مرحلہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ارتقاءپسند ان فوصلوں کے بارے میں کچھ بولنے کے لائق ہی نہیں ہیں کیونکہ ان کے اور آج کے انسان کے بیچ بہت معمولی فرق ہے۔ کچھ تحقیق دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس نسل کے نمائندے مقامی آسٹریلوی باشندوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ ہوموسیپین آرکائک کی طرح ان آسٹریلوی مقامی باشندوں کی بھنویں بھی گھنی باہر کو نکلتی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کا جبڑا تھوڑا اندر کو دھنساہوا ہوتا ہے اور ان کی کھوپڑی کا ناپ نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے۔ ہوموہائلڈلبرگنسس(Homo heidelbergensis) نامی ارتقائی ادب کا گروہ آرکائک ہومو سیپین کا مشابہہ ہے۔ ایک ہی نسل کے دو نام اس لئے رکھے گئے کیونکہ ارتقاءپسندوں کاا س موضوع پر اختلاف رائے تھا۔ ہوموہائلڈر برگنسس درجہ بندی کے تمام فوصل ان لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جوکہ تشریح الاعضاء یعنی اناٹومی کے حساب سے ناصرف دورِ حاضر کے یورپی لوگوں سے مشابہ ہیں بلکہ ان یورپیوں سے بھی مشابہ ہیں جو کہ انگلستان اور اسپین میں 50 ہزار سال اور 37000سال پہلے زندہ تھے۔
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کرومیگنون(Cromagnon) انسان 30ہزار سال پہلے زندہ تھا۔ ان کی کھوپڑی گنبد کی شکل کی اور ماتھا چوڑا تھا۔ اس کی شکل پر گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنویں تھیں اور کھوپڑی کے پیچھے کی ہڈی تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ یہ خاصیت نیانڈر تھال انسان(Neanderthal) اور ہوموارکٹس(Homo erectus) میں بھی موجود تھی۔ گوکہ کرومیگنون انسان کو ایک یورپی نسل سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی کھوپڑی کی ساخت اور ناپ افریقہ اور مدارینی علاقوں کے دورِ حاضر کے باشندوں سے مشابہ ہے۔ اس مماثلت پر انحصار کرتےہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کرومیگنون انسان ایک آرکائک یا قدیم افریقی نسل تھی۔ کچھ اور قدیم بشری رکازیات کی تحقیق کے ذریعے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ کرومیگنون انسان اور نیانڈر تھال نسلیں آپس میں مل گئیں اور دورِ حاضر کی جدید نسل کی بنیاد ڈل گئی۔ ان سب میں سے کوئی بھی انسان غیر ترقی یافتہ نسلیں نہیں تھیں۔ وہ صرف الگ نسلیں تھیں جوکہ پرانے وقت میں زندہ رہیں اور یاتو دوسری نسلوں میں جذب ہوکر کوئی اور شکل اختیار کرگئیں یا پھر معدوم ہوکر تاریخ سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئیں۔
نیچے تصویر میں دی گئ 26 ہزار سال پرانی سوئی
ایک بیحد اہم فوصل ہے جو ثابت کرتا ہے کہ نیانڈر تھال لوگوں کو کپڑوں کی سلائی کی بھی سمجھ بوجھ تھی۔ ( ڈی لننسن، بی۔ ایڈگر ) ”لوسی سے زبان تک“ ، صفحہ 99 )
اب تک جس تحقیق کا جائزہ لیا گیا ہے وہ ایک واضح منظر پیش کرتی ہے۔ انسانی ارتقاءکا منظر نامہ ایک خیالی کہانی ہے۔ کسی بھی ایسے شجرہ نسب کے وجود میں آنے کے لئے گوریلے کا آدمی تک ارتقاءایک سلسلہ وار تدریجی ترقی پر مبنی ہونا چاہئے تھا جس کا ہر ثبوت فوصلی شکل میں موجود ہونا چاہئے تھا۔ لیکن گوریلے اور انسان کے درمیان ایک لامحدود خلاہے۔ ڈھانچوں کی ساخت، کھوپڑیوں کی پیمائش اور سیدھاچلنے کی صلاحیت انسانوں کو گوریلوں سے الگ کرتی ہے۔ (اس بات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ 1993ء میں کی جانے والی کان کی اندرونی ساخت کی تحقیق کی بنیاد پر آسٹرالوپتھیکس اور ہوموہابلس کا شمار گوریلو ں میں کیا گیا تھاجبکہ ہومو ارکٹس کو انسان کا درجہ دیا گیا تھا)
ایک اور بے حد قابل ذکر دریافت جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام مختلف نسلوں کے درمیان کسی بھی شجرہ نسب کے اعتبار سے تعلق ناممکن ہے وہ یہ کہ جن نسلوں کو ایک دوسرے کے جد امجد کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے وہ درحقیقت تاریخ کے ایک ہی دور میں زندہ تھےں۔ اگر ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہومو ہابلس میں تبدیل ہوگئے اور ہومو ہابلس ہومو ارکٹس میں بدل گئے تو ان کی زندگی کے دور اور اوقات بھی بدل جانے چاہئے تھے۔ لیکن فوصلی ریکارڈ میں ایسی کسی بھی تاریخی ترتیب کا نشان نہیں ملتا۔ ارتقائی اندازوں کے مطابق آسٹرالوپتھیکس 6 لاکھ سال پہلے نمودار ہوا اور 1 لاکھ سال پہلے معدوم ہوگیا۔ ہوموہابلس نامی مخلوق اندازاً 17 سے 19 لاکھ سال پہلے بھی موجود تھی۔ ہوموہابلس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ نسل ہومو روڈولفنسس سے 28 لاکھ سال پہلے زندہ تھی۔ اس حساب سے ہوموروڈولفنسس ہومو ہابلس سے تقریباً ۱ لاکھ سال بڑی ہے جس کا اس کو جد امجد کہا جاتا ہے۔ ہومو ارکٹس 16 سے 18 لاکھ سال پہلے زندہ تھے جس کے حساب سے ہومو ارکٹس زمین پر وقت کے اسی دورانیئے میں نمودار ہوئے جس دورانیئے میں ان کے نام نہاد جد امجد ہوموہابلس وجود میں آئے تھے۔
ایلن والکر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے
”مشرقی افریقہ سے ثبوت ملا ہے کہ دنیا میں نسبتاً چھوٹے آسٹرالوپتھیکس انسان وقت کے ایک ہی دور میں پہلے ہوموہابلس کے ساتھ اور پھر ہوکو ارکٹس کے ساتھ موجود تھے۔“ 2
لوئس لیکی نے بھی آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس کے فوصل تقریباً ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہی تنزانیہ کے اولڈ ووائی گورج خطے میں سطح IIمیں دریافت کئے ہیں۔3
ایسے کسی بھی شجرہ نسب کا کوئی وجود نہیں ہے جس کا ذکر ارتقاءپسند کرتے رہتے ہیں۔ اسٹیفن جے گولڈ ہارورڈ یونیورسٹی کا ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ارتقاءپسند ہے۔ وہ ارتقاءکو پیش آنے والا یہ تعطل ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:4
”ہماری ارتقائی سیڑھی کا کیا بنا اگر ایک ہی وقت کے دور میں تینوں آسٹرالوپتھیکس افراکانس، مضبوط آسٹرالوپتھیسینز اور ہوموہابلس نسلیں جد امجد ساتھ ہی موجود ہوں اور کوئی بھی ایک دوسرے کا پرکھا نہ ہو؟ اس کے علاوہ ان تےنوں کے اندر کسی بھی طرح کے ارتقائی اوصاف ان کی ارضی زندگی کے دوران موجود نہیں تھے۔“
جب ہومو ارکٹس سے ہومو سیپین کی طرف آتے ہیں تو یہاں بھی کسی بھی طرح کے شجرہ نسب کی عدم موجودگی ہے۔ تحقیقی ثبوت کے مطابق ہومو ارکٹس اور ارکائک ہومو سیپین 27 ہزار سال تک زندہ رہے اور دورِ حاضر سے 10 ہزار سال پہلےتک بھی موجود تھے۔ آسٹریلیا کی کوﺅ سوانپ یا جھیل سے 13 ہزار سال پرانی ہومو ارکٹس کھوپڑیاں ملی ہیں۔ جاوا کے جزیرے پر ملنے والے ہومو ارکٹس کے بقایاجات 27 ہزار سال پرانے ہیں ۔5
یہ ساری باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ انسان کے کسی بن مانس نما مخلوق سے ارتقا پذیر ہونے کی ساری کہانی ایک جھوٹ،فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں جس میں ہزاروں سائنسی غلطیاں ہیں اور یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انسان کسی حیوان سے ارتقا پذیر ہونے کی بجائے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے اسی حالت میں تخلیق کیا گیا۔
حوالہ جات:
1: Erik Trinkaus, "Hard Times Among the Neanderthals", Natural History, vol 87, December 1978, p. 10; R. L. Holloway, "The Neanderthal Brain: What Was Primitive", American Journal of Physical Anthropology Supplement, Vol 12, 1991, p. 94.
2: Alan Walker, Science, vol 207, 1980, p. 1103.
3: A. J. Kelso, Physical Antropology, 1st ed., New York: J. B. Lipincott Co., 1970, p. 221; M. D. Leakey, Olduvai Gorge, Vol 3, Cambridge: Cambridge University Press, 1971, p. 272.
4: S. J. Gould, Natural History, Vol 85, 1976, p. 30.
5: Time, November 1996.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔