کائنات: ایک خالق کی نشانی
یہ کائنات اندھی قوتوں کے کسی عمل سے وجود میں نہیں آئی۔ اس کائنات کو ایک ایسی ہستی نے تخلیق کیا ہے جو نہایت ہی باتدبیر ہے۔ وہ ہستی صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ یہ مذہب کا بنیادی مقدمہ ہے۔ یہ ایسی حقیقت جس تک انسان اس کائنات ہی میں غور و فکر کر کے پہنچ سکتا ہے۔ ان آیات میں چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آئیے ان میں غور و فکر کریں:
آسمان و زمین کی ساخت
یہ کائنات چھوٹے بڑے بہت سے اجسام پر مشتمل ہے۔ ان اجسام میں بعض ایسے ہیں جو خود روشن ہیں، یہ ستارے (Stars) کہلاتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ان ستاروں سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ انہیں سیارے (Planets) کہا جاتا ہے۔ سیارے عام طور پر کسی خاص ستارے کے گرد گردش کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ستارے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy) بناتے ہیں۔ کائنات میں کروڑوں کہکشائیں ہیں جو مسلسل گردش میں ہیں۔
یہ کائنات اتنی بڑی ہے کہ اس کے فاصلوں کی پیمائش نوری سالوں میں کی جاتی ہے۔ ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ایک نوری سال تقریباً 9,460,800,000,000 کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ اس فاصلے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تیز ترین جیٹ جہاز کو بھی یہ فاصلہ طے کرنے کے لئے تقریباً ساڑھے تیرہ لاکھ سال درکار ہوں گے۔ اس کائنات میں ایسے ستارے بھی ہیں جو زمین سے لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں نوری سالوں کے فاصلوں پر مشتمل اس پوری کائنات کو پہلا آسمان کہا جاتا ہے۔ انسان ابھی تک ابھی پوری ترقی کے باوجود اتنی ہی کائنات دریافت کر سکا ہے۔ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کی چھ کائناتیں اور بھی موجود ہیں۔
یہ ستارے، سیارے اور کہکشائیں حرکت کر رہے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کسی ذہین اور جاندار مادے سے بنے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ سب کے سب بے جان مادے پر مشتمل ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر دس پندرہ موٹر کاروں کو بغیر ڈرائیوروں کے حرکت میں لا کر چھوڑ دیا جائے تو کیا ہو گا۔ تجربے کے طور پر آپ بچوں کی کھلونا کاروں کے ساتھ یہی معاملہ کر کے نتیجہ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہاں دس پندرہ نہیں بلکہ کروڑوں اربوں بے جان اجسام بے پناہ رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اربوں کی تعداد میں حرکت کرتے ہوئے یہ اجسام ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا؟ اس کے جواب پر غور فرمائیے۔ اگر یہ کائنات کسی اندھے اصول پر خود بخود وجود پذیر ہوئی ہوتی تو ایسا ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں!!!! آخر کیوں؟؟؟؟
سائنس دان یہ بیان کرتے ہیں کہ ان اجسام کی رفتار اور ان کے مابین کشش میں اتنا کامل (Perfect) تناسب موجود ہے کہ اگر رفتار کچھ زیادہ ہی ہو جائے تو یہ ستارے و سیارے گردش کرنے کی بجائے سیدھے نکل جائیں اور اگر کچھ کم ہو جائے تو کشش کے باعث ایک دوسرے سے جا ٹکرائیں۔ اتنا ناپ تول کر ان کی رفتار اور کشش کی قوت کس نے معین کر دی؟؟؟؟ کیا کسی اندھی قوت نے؟؟؟
اب آسمان سے اتر کر زمین پر آئیے۔ یہ زمین اسی کائنات کا ایک حصہ ہے جسے اگر سائز کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کی بظاہر کوئی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ایسی تیرہ لاکھ زمینیں تو محض ایک سورج سے ہی نکل سکتی ہیں۔ سائز کو نظر انداز کر کے اگر ایک اور پہلو سے دیکھیے تو یہ زمین ایک غیر معمولی حیثیت کی حامل ہے۔ دوسرے سیارے اور ستارے جن عناصر (Elements) سے مل کر بنے ہیں، زمین بھی انہی پر مشتمل ہے لیکن ان عناصر کی ترکیب (Composition) ایسی ہے جس کی بدولت زمین زندگی کے لئے موزوں ترین ہے۔
اس زمین پر آکسیجن موجود ہے جس کی اتنی بڑی مقدار ابھی تک کسی اور سیارے پر دریافت نہیں ہوئی۔ اس آکسیجن کے بغیر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ آکسیجن زمین کے فضائی دائرے میں بیس اکیس فیصد کے تناسب سے موجود ہے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ اگر یہ تھوڑی سی زیادہ ہو جاتی تو ہر چیز جلدی جلدی آگ پکڑنے لگتی۔ اگر یہ کم ہوتی تو جاندار اشیا کو پوری طرح میسر ہی نہ آتی اور زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ اگر یہ زمین بغیر کسی خالق کے خود بخود ہی بنی ہوئی ہے تو اتنا ناپ تول کر اس میں آکسیجن رکھنا کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔
اس زمین کا سورج سے فاصلہ بھی ایک عجیب فاصلہ ہے۔ زمین کو توانائی پہنچانے کا بنیادی ذریعہ سورج ہے جو زمین سے 1,496,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر یہ فاصلہ کچھ کم ہو جاتا تو ہم لوگ شدید گرمی سے جل بھن کر کباب ہو جاتے اور اگر کچھ زیادہ ہو جاتا تو ٹھٹھر کر مر جاتے۔ بڑی پیمائش سے یہ فاصلہ کیسے رکھ دیا گیا؟؟؟؟ یہ کم یا زیادہ کیوں نہیں ہوتا؟؟؟؟
گوگل کارپوریشن نے گوگل ارتھ کے نام سے جو سافٹ وئیر بنایا تھا، حال ہی میں اس میں گوگل اسکائی کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔ اب ہم زمین کے ساتھ ساتھ آسمان اور اس کے اجرام فلکی کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ www.earth.google.com سے اس سافٹ وئیر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اس کائنات کو ایکسپلور کر کے ذرا اس میں غور فرمائیے۔
رات اور دن کی گردش
یہ زمین اپنے محور کے گرد گردش میں ہے۔ اس کا جو حصہ سورج کے سامنے آ جاتا ہے وہاں دن نکل آتا ہے اور جو حصہ سورج سے دور ہوتا ہے وہاں رات ہو جاتی ہے۔ اگر زمین گیند کی طرح گول ہونے کی بجائے تھالی نما ہوتی تو اس کا ہر حصہ فوراً فوراً سورج کے سامنے آتا رہتا اور مسلسل دن کی سی کیفیت رہتی۔ اسی طرح اگر زمین گردش نہ کر رہی ہوتی تو اس کا ایک حصہ مسلسل روشنی میں اور دوسرا مسلسل تاریکی میں رہتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر مسلسل دن رہنے کے باعث زمین کا ایک حصہ حرارت جذب کر کر کے اتنا گرم ہو جاتا کہ وہاں زندگی ممکن نہ ہوتی اور دوسرے حصے میں مسلسل رات رہنے کے باعث اتنی سردی ہو جاتی کہ وہاں بھی کوئی زندہ نہ رہ پاتا۔ دن اور رات کی اس گردش کو کیوں قائم کیا گیا اور یہ کیسے ہوا؟؟؟؟
زمین کی گردش کی رفتار بھی بڑی عجیب ہے۔ اگر موجودہ رفتار کی بجائے یہ کچھ تیز ہو جاتی تو دن اور رات جلدی جلدی آنے لگتے اور ہمیں اتنی حرارت ہی نہ مل پاتی جتنی ہمیں چاہیے۔ اگر یہ رفتار کچھ سست ہو جاتی تو دن بہت طویل ہونے کے باعث بہت گرم ہو جاتا اور رات بھی نہایت طویل ہونے کے باعث ضرورت سے زیادہ سرد ہو جاتی۔ زمین کی رفتار کو اتنا منظم کر دیا گیا ہے کہ کروڑوں سالوں سے یہ اتنی ہی ہے جتنی ضرورت ہے۔ اتنی پیمائش کے ساتھ اس رفتار کو متعین کرنا کس کے بس کی بات ہے؟؟؟؟ کیا کوئی اندھی قوت ایسا کر سکتی ہے؟؟؟؟
سمندر، دریا اور بحری جہاز
سمندروں اور ان میں چلنے والے چھوٹے بڑے بحری جہازوں اور کشتیوں کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ انسان نے فضائی راستے تو ابھی ایک صدی پہلے ہی دریافت کئے ہیں۔ زمینی راستوں کا عالم یہ رہا ہے کہ سارا سال دنیا کے ایک خطے میں بسنے والے انسانوں کو دوسروں سے ملانے میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ دور قدیم سے انسانوں کو ایک دوسرے سے ملانے میں کلیدی کردار بحری راستوں کا ہے۔
یہ زمین کچھ اس طرح کی بنی ہوئی ہے کہ اس کے ہر حصے پر انسان کی ضرورت کی ہر چیز پیدا نہیں ہوتی۔ ایک جگہ پر ایک چیز پیدا ہوتی ہے اور دوسری جگہ پر دوسری۔ مختلف اقوام کی صلاحیتیں اور مہارتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوا کرتی ہیں۔ ایک قوم کسی ایک چیز میں ماہر ہوتی ہے اور دوسری کسی اور چیز میں۔ ایک خطے میں ایک چیز یا خدمت کی پیداواری لاگت (Cost of Production) کم ہوتی ہے اور دوسرے حصے میں دوسری چیز کی۔ انسان کو لازماً دنیا کے دوسرے حصوں میں بسنے والے انسانوں سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے تاکہ ضرورت کی اشیاء اور خدمات کا تبادلہ کیا جا سکے۔ اسی کو معاشیات میں Law of Comparative Advantage کہا جاتا ہے۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ زمین میں یہ مسئلہ رکھ کر اسے ایسے ہی چھوڑ نہیں دیا گیا بلکہ انسان کو یہ سکھا دیا گیا کہ وہ پانی کی مدد سے کیسے نقل و حرکت کر کے دنیا کے ایک خطے سے دوسرے خطے پر جا سکتا ہے۔ ایسا طبیعات (Physics) کے ایک قانون فطرت کے تحت ممکن ہو سکا ہے۔
اس قانون کے تحت ایسے مادے جن کی کثافت (Density) پانی سے کم ہوتی ہے، پانی پر تیرتے ہیں اور جن کی کثافت پانی سے زیادہ ہوتی ہے وہ اس میں ڈوب جاتے ہیں۔ نسبتاً لطیف چیزیں اوپر اٹھتی ہیں اور کثیف چیزیں نیچے بیٹھتی ہیں۔ اس کے پیچھے دراصل کشش ثقل کا قانون کار فرما ہے۔ لکڑی کی کثافت چونکہ پانی سے کم ہے اس لئے یہ نہ صرف پانی پر تیرتی ہے بلکہ اس پر اگر کچھ اور بھی رکھ دیا جائے تو یہ اسے بھی اپنے ساتھ تیرا لیتی ہے۔ اسی قانون کے تحت انسان نے کشتی اور بحری جہاز بنائے جن کی بدولت دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں اس کی نقل و حرکت دور قدیم ہی میں ممکن ہو سکی تھی۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو فزکس کا یہ قانون کثافت اور اکنامکس کا لاء آف کمپیریٹو ایڈوانٹج ایک دوسرے کے سپلیمنٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک قانون کے بغیر دوسرا بے معنی ہے۔ یہ دونوں مل کر ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں اور انسانی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اسی کی بدولت دنیا میں تمدن وجود میں آتا ہے۔ اقوام وجود پذیر ہوتی ہیں، ہر قوم مخصوص مختلف اشیاء اور خدمات میں اسپیشلسٹ بنتی ہے، قومیں ایک دوسرے سے اشیاء و خدمات کا تبادلہ کرتی ہیں، ان کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں اور اس طرح سے تمدن ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اگر یہ دنیا ایسے جزیروں پر مشتمل ہوتی جہاں کے رہنے والے کبھی دوسروں سے نہ ملے ہوتے تو تمدن کی یہ ترقی جس پر ہم فخر کرتے ہیں کبھی وجود پذیر نہ ہوتی۔ مثال کے طور پر امریکا کے ریڈ انڈینز اور آسٹریلیا کے ایب اوریجینز پر غور کیجیے۔
کائنات میں ایک اور قانون کار فرما ہے اور وہ ہے بے ترتیبی کا قانون۔ اگر اس دنیا کی چیزوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ منتشر اور بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ بغیر باغبان کے باغ بے ترتیب ہو کر اجڑ جاتے ہیں، بغیر گاڑی بان کے گاڑیاں ٹکرا کر تباہ ہو جاتی ہیں، بغیر حکمران کے انسان انتشار اور بد امنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کائنات کی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی ذہین قوت ایسی ہونی چاہیے جو چیزوں کو منظم کرنے کا فریضہ انجام دے سکے۔
جب یہ زمین تخلیق ہوئی، اس میں لاء آف کمپیریٹو ایڈوانٹج کے ساتھ ساتھ لطیف اشیاء کے تیرنے کا قانون بھی رکھ دیا گیا۔ اگر زمین کی تخلیق میں ایک مسئلہ ہو گیا تھا تو دوسرے طریقے سے اسے حل کیسے کر دیا گیا؟ بے ترتیبی کے قانون کے تحت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس زمین کے ڈیزائن میں بھی ایسی ہی بے ترتیبی ہوتی لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس زمین کی تخلیق میں ایسی ترتیب ہے کہ اگر ایک مسئلہ ہے تو اس کا حل بھی ہے اور وہ مسئلہ بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانی تمدن کی بنیاد ہے۔ ایسا کیوں ہوا، کیسے ہوا اور کس نے کیا؟؟؟؟
واٹر سائیکل
اس زمین میں زندگی کے لئے پانی ناگزیر ہے۔ پانی کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ زمین پر زندگی اسی وجہ سے ہے کہ یہاں 70% حصے پر پانی موجود ہے۔ انسان جانداروں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو پانی کی بجائے خشکی پر رہتے ہیں لیکن پانی انسان کی بھی اہم ترین ضرورت ہے۔ انسان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمندر کا پانی استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ یہ انتہائی نمکین ہے۔ اپنی بہت سی ضرورتوں کے باعث انسان کو زمین میں بکھر کر رہنا پڑتا ہے جہاں تک پانی پہنچانا اس کی ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں اس مسئلے کو اس طریقے سے حل کیا گیا ہے کہ سمندری پانی کو صاف کر کے پہلے قابل استعمال بنایا جاتا ہے اور پھر اسے بڑی بڑی موٹروں کے ذریعے پمپ کر کے پائپ لائنوں کے ذریعے سمندر سے دور دراز علاقوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ کارنامہ جدید انسان نے اپنی سائنسی ترقی کے باعث انجام دے لیا ہے لیکن اب سے سو سال پہلے کے انسان کے لئے تو یہ ممکن نہ تھا۔ پھر اس طریق کار پر اتنے وسائل صرف ہو جاتے ہیں کہ صاف سمندری پانی انتہائی مہنگا ہوتا ہے اور اگر اسے سمندر سے دور پہنچا لیا جائے تو اس میں ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
اس زمین کے ڈیزائن میں اس مسئلے کا حل پہلے سے ہی موجود ہے۔ سورج کی حدت سے سمندر سے پانی بخارات بن کر اڑتا ہے اور بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ پانی اسی مرحلے پر صاف اور انسان کے لئے قابل استعمال ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد پمپنگ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہواؤں کی گردش کا ایک عجیب نظام بنایا گیا ہے جو اس پانی کو لے کر سمندر سے دور دراز مقامات پر چلا جاتا ہے اور وہاں بارش اور برف کی صورت میں برس پڑتا ہے۔
زمین کے ڈیزائن میں ایک اور چیز رکھی گئی ہے کہ سمندر سے دور دراز مقامات بلند ہوتے ہیں اور سمندر نشیب میں واقع ہے۔ کشش ثقل کا قانون بھی بنا دیا گیا ہے جس کے باعث پانی اوپر سے نیچے آتا ہے۔ سورج کی حدت سے برف پگھلتی ہے، دریا بنتے ہیں، ان میں بارش کا پانی بھی شامل ہوتا ہے اور یہ پانی واپس سمندر کی طرف آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سارا عمل صدیوں کے تواتر سے جاری ہے اور واٹر سائیکل کہلاتا ہے۔
اسی واٹر سائیکل پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انسانوں اور دیگر جانداروں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے زمین بھر میں جگہ جگہ اسٹوریج ٹینک بھی بنا دیے گئے ہیں تاکہ اگر کبھی کسی اور مصلحت کے باعث اس واٹر سائیکل کی رفتار میں کمی بیشی کرنی پڑے تو اسٹور کیا ہوا یہ پانی انسان اور دیگر جانداروں کے کام آئے۔ یہ اسٹوریج ٹینک آسمان پر بادلوں، برف پوش چوٹیوں پر گلیشیئرز، پہاڑوں اور میدانوں میں جھیلوں اور زیر زمین پانی کے ذخیروں کی شکل میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر ان سب ذخیروں میں موجود پانی کو اکٹھا کیا جائے تو شاید یہ سمندری پانی کے آس پاس ہی ہو۔ اس پر مزید اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اتنی عقل دے گئی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لحاظ سے ان ذخیروں میں کمی بیشی کر سکتا ہے اور انہیں اپنے مفاد میں استعمال بھی کر سکتا ہے۔
ہم انسان بھی اپنی ضرورت کے تحت چھوٹے موٹے واٹر سائیکل بنا لیتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں گھروں میں کنویں موجود ہوتے ہیں، اس میں واٹر پمپ لگا کر پانی کو چھت پر ٹینکی میں پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ واپس نلوں میں آ جاتا ہے۔ شہروں میں یہ کام ذرا بڑے پیمانے پر کر لیا جاتا ہے۔ کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے کہ کسی گھر میں ایک کنواں خود بخود ہی کھد گیا، اس میں واٹر پمپ بھی خود ہی آ کر نصب ہو گیا، چھت پر ٹینکی بھی خود ہی بن گئی اور نل بھی خود ہی نصب ہو گئے اور پانی خود بخود بہنے لگا؟ اگر آپ اس بات پر یقین نہیں کرتے تو حیرت ہو گی اس بات پر کہ آپ اس بات پر یقین کر لیں کہ روئے زمین کا سب سے بڑا واٹر سائیکل جو سمندروں، بادلوں، ہواؤں، بارشوں، برف، جھیلوں، دریاؤں اور زیر زمین پانی کی شکل میں نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری طرح رواں دواں ہے، وہ خود بخود ہی کچھ اندرونی قوتوں کے تحت وجود پذیر ہو گیا؟؟؟؟
ایکو سسٹم
اس واٹر سائیکل کا ایک اور حیرت انگیز نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ جہاں جہاں یہ پانی پہنچتا ہے وہاں زمین سے نباتات نکلنے لگتی ہیں۔ اس سے پہلے یہ زمین زندگی سے خالی ہوتی ہے۔ زمین کے اندر مختلف کیمیکل اور نمکیات رکھ دیے گئے ہیں۔ پانی اور ان کیمیکلز پر نشوونما پا کر پودے بڑے ہونے لگتے ہیں۔ ان نباتات کو جانور کھاتے ہیں اور پھر ان جانوروں کو بڑے جانور اور انسان کھا جاتے ہیں۔ یہ تمام پودے، جانور اور انسان بالآخر مر کر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ان کے جسم بے شمار کیمیکلز سے بنے ہوتے ہیں جو سب کے سب مٹی میں مل کر وہی کیمیکلز اور نمکیات پیدا کر دیتے ہیں جو پودوں کی ضرورت ہیں۔ یہ پورا سائیکل ایکو سسٹم کہلاتا ہے اور بائیولوجی کی شاخ ایکولوجی کا موضوع ہے۔ بعینہ ایسا ہی ایکو سائیکل پانی میں پایا جاتا ہے۔
ہمیشہ سے اس ایکو سسٹم میں ایک خاص تناسب موجود ہے۔ اگر اس سسٹم میں کوئی رخنہ پیدا کر دیا جائے تو اس کے نتیجے میں پورا ایکو سسٹم تباہ و برباد ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر پودوں کی کوئی قسم ختم ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ان پر پلنے والے جانور بھی فنا ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں وہ جانور بھی مرنا شروع ہو جائیں گے جو ان جانوروں کو کھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور انسانوں کی موت تک آ پہنچے گا۔ دور جدید میں انسان کی پھیلائی ہوئی صنعتی آلودگی کے باعث ایکو سسٹم پر جو مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کے نتائج انسان تک پہنچنا بھی شروع ہو چکے ہیں۔
یہ پورا ایکو سسٹم اتنی ذہانت سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں کروڑوں کی تعداد میں پودوں اور جانوروں کی نسلیں دنیا میں موجود ہیں ۔ ایک دوسرے کو کھانے کے باوجود یہ جاندار ختم نہیں ہوتے اور یہ سلسلہ لاکھوں سال سے چلا آ رہا ہے۔ کیا اتنا خوبصورت ڈیزائن خود بخود تخلیق پا گیا؟؟؟؟
اہل عقل
ان آیات میں کائنات کی ان نشانیوں کو اجمالاً بیان کیا گیا ہے۔ نزول قرآن سے لے کر آج تک لوگ اپنے اپنے دور کی علمی سطح کے مطابق ان نشانیوں پر غور کرتے آئے ہیں۔ ہمارے دور میں علم کی سطح قدیم ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہو چکی ہے جس کے باعث ہم ان نشانیوں میں اپنے آباؤ اجداد کے مقابلے میں زیادہ گہرائی میں غور کر سکتے ہیں۔
درج بالا بحث میں، میں نے آپ کی خدمت میں جو سوالات رکھے ہیں، کوئی بھی عقل مند انسان ان کا ایک ہی جواب دے سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات اور زمین پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور وہ صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ جو انسان اس کے علاوہ کسی اور نتیجے پر پہنچتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس پورے نظام کا کوئی خالق نہیں اور یہ خود بخود ہی بن گئی، وہ ایسا اپنی عقل نہیں بلکہ جذبات سے مغلوب ہو کر کرتا ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے کسی برتر ہستی کو مان لیا تو اس کے نتیجے میں اسے کچھ اخلاقیات کا پابند ہونا پڑے گا جبکہ وہ ایسا ہونا نہیں چاہتا۔
خود کو اخلاقی پابندیوں سے آزاد کروانے کی خواہش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی اور وہ شتر بے مہار بن کر اپنی خواہشات کا غلام بنتا چلا جاتا ہے جس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ زمین ظلم اور فساد سے بھر جاتی ہے۔
ایک عقل مند انسان ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنا سر اپنے رب کے حضور جھکا دیتا ہے اور اس کی اطاعت میں سرگرداں ہو جاتا ہے۔ خود پر لگائی ہوئی ان اخلاقی پابندیوں کے باعث اس کی آزادی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتیجے میں وہ رب کائنات کی بنائی ہوئی اس عظیم کائنات سے ہم آہنگ (Harmonize) ہو جاتا ہے جو پکار پکار کر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے زبان حال سے یہ کہہ رہی ہے کہ تبارک اللہ احسن الخالقین۔
ایک طرف تو معاملہ یہ ہے کہ انسان کائنات میں غور و فکر کرتا ہوا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے۔ دوسری طرف اسی غور و فکر سے خود بخود یہ بات بھی سامنے آ جاتی ہے کہ وہ خالق صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں ایک عظیم ہم آہنگی (Harmony) پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہم اوپر لاء آف کمپیریٹو ایڈوانٹج اور کشتی کے تیرنے کے قانون میں ہم آہنگی سے دیکھ چکے ہیں۔ اسی طرح اجرام فلکی کی رفتار اور ان کے مابین کشش کی قوت کی ہم آہنگی بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سیاروں کی گردشی حرکت اور ایک چھوٹے سے ایٹم میں موجود الیکٹران کی حرکت میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح مختلف جانوروں کے نظام جسم میں بھی اتنی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ انسانی عقل یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ان سب کا خالق ایک ہی ہے۔
یہ بات اتنی منطقی ہے کہ دور قدیم میں جب شرک کا غلبہ ہوا تب بھی انسانوں کی عظیم اکثریت دو یا دو سے زائد ایک جتنے طاقتور خداؤں کے وجود کی قائل نہ ہو سکی۔ ان کے ہاں دیوتاؤں کی ایک تنظیم (Hierarchy) کے تصور نے جنم لیا۔ اس تنظیم میں چھوٹے دیوتا بڑے دیوتاؤں کے ماتحت مانے گئے اور ان سب کے اوپر ایک عظیم خدا کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا گیا۔ اس طرح کم و بیش تمام نسل انسانی ایک سپریم خدا کے وجود کی ہمیشہ سے قائل رہی ہے۔ اللہ تعالی کی جو ہدایت انبیاء کرام اور الہامی کتب کے ذریعے انسان کو دی گئی اس میں یہ صاف صاف بتا دیا گیا کہ دیوتاؤں کی اس تنظیم کا تصور بالکل غلط ہے۔ خدا صرف اور صرف ایک ہی ہے، وہی سپریم ہے اور کوئی مخلوق اس کے خدا ہونے میں کسی درجے میں بھی شریک نہیں ہے۔
محمد مبشر نذیر
یہ کائنات اندھی قوتوں کے کسی عمل سے وجود میں نہیں آئی۔ اس کائنات کو ایک ایسی ہستی نے تخلیق کیا ہے جو نہایت ہی باتدبیر ہے۔ وہ ہستی صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ یہ مذہب کا بنیادی مقدمہ ہے۔ یہ ایسی حقیقت جس تک انسان اس کائنات ہی میں غور و فکر کر کے پہنچ سکتا ہے۔ ان آیات میں چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آئیے ان میں غور و فکر کریں:
آسمان و زمین کی ساخت
یہ کائنات چھوٹے بڑے بہت سے اجسام پر مشتمل ہے۔ ان اجسام میں بعض ایسے ہیں جو خود روشن ہیں، یہ ستارے (Stars) کہلاتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ان ستاروں سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ انہیں سیارے (Planets) کہا جاتا ہے۔ سیارے عام طور پر کسی خاص ستارے کے گرد گردش کرتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ستارے مل کر ایک کہکشاں (Galaxy) بناتے ہیں۔ کائنات میں کروڑوں کہکشائیں ہیں جو مسلسل گردش میں ہیں۔
یہ کائنات اتنی بڑی ہے کہ اس کے فاصلوں کی پیمائش نوری سالوں میں کی جاتی ہے۔ ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ایک نوری سال تقریباً 9,460,800,000,000 کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ اس فاصلے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تیز ترین جیٹ جہاز کو بھی یہ فاصلہ طے کرنے کے لئے تقریباً ساڑھے تیرہ لاکھ سال درکار ہوں گے۔ اس کائنات میں ایسے ستارے بھی ہیں جو زمین سے لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں نوری سالوں کے فاصلوں پر مشتمل اس پوری کائنات کو پہلا آسمان کہا جاتا ہے۔ انسان ابھی تک ابھی پوری ترقی کے باوجود اتنی ہی کائنات دریافت کر سکا ہے۔ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کی چھ کائناتیں اور بھی موجود ہیں۔
یہ ستارے، سیارے اور کہکشائیں حرکت کر رہے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کسی ذہین اور جاندار مادے سے بنے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ سب کے سب بے جان مادے پر مشتمل ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر دس پندرہ موٹر کاروں کو بغیر ڈرائیوروں کے حرکت میں لا کر چھوڑ دیا جائے تو کیا ہو گا۔ تجربے کے طور پر آپ بچوں کی کھلونا کاروں کے ساتھ یہی معاملہ کر کے نتیجہ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہاں دس پندرہ نہیں بلکہ کروڑوں اربوں بے جان اجسام بے پناہ رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اربوں کی تعداد میں حرکت کرتے ہوئے یہ اجسام ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا؟ اس کے جواب پر غور فرمائیے۔ اگر یہ کائنات کسی اندھے اصول پر خود بخود وجود پذیر ہوئی ہوتی تو ایسا ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں!!!! آخر کیوں؟؟؟؟
سائنس دان یہ بیان کرتے ہیں کہ ان اجسام کی رفتار اور ان کے مابین کشش میں اتنا کامل (Perfect) تناسب موجود ہے کہ اگر رفتار کچھ زیادہ ہی ہو جائے تو یہ ستارے و سیارے گردش کرنے کی بجائے سیدھے نکل جائیں اور اگر کچھ کم ہو جائے تو کشش کے باعث ایک دوسرے سے جا ٹکرائیں۔ اتنا ناپ تول کر ان کی رفتار اور کشش کی قوت کس نے معین کر دی؟؟؟؟ کیا کسی اندھی قوت نے؟؟؟
اب آسمان سے اتر کر زمین پر آئیے۔ یہ زمین اسی کائنات کا ایک حصہ ہے جسے اگر سائز کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کی بظاہر کوئی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ایسی تیرہ لاکھ زمینیں تو محض ایک سورج سے ہی نکل سکتی ہیں۔ سائز کو نظر انداز کر کے اگر ایک اور پہلو سے دیکھیے تو یہ زمین ایک غیر معمولی حیثیت کی حامل ہے۔ دوسرے سیارے اور ستارے جن عناصر (Elements) سے مل کر بنے ہیں، زمین بھی انہی پر مشتمل ہے لیکن ان عناصر کی ترکیب (Composition) ایسی ہے جس کی بدولت زمین زندگی کے لئے موزوں ترین ہے۔
اس زمین پر آکسیجن موجود ہے جس کی اتنی بڑی مقدار ابھی تک کسی اور سیارے پر دریافت نہیں ہوئی۔ اس آکسیجن کے بغیر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ آکسیجن زمین کے فضائی دائرے میں بیس اکیس فیصد کے تناسب سے موجود ہے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ اگر یہ تھوڑی سی زیادہ ہو جاتی تو ہر چیز جلدی جلدی آگ پکڑنے لگتی۔ اگر یہ کم ہوتی تو جاندار اشیا کو پوری طرح میسر ہی نہ آتی اور زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ اگر یہ زمین بغیر کسی خالق کے خود بخود ہی بنی ہوئی ہے تو اتنا ناپ تول کر اس میں آکسیجن رکھنا کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔
اس زمین کا سورج سے فاصلہ بھی ایک عجیب فاصلہ ہے۔ زمین کو توانائی پہنچانے کا بنیادی ذریعہ سورج ہے جو زمین سے 1,496,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر یہ فاصلہ کچھ کم ہو جاتا تو ہم لوگ شدید گرمی سے جل بھن کر کباب ہو جاتے اور اگر کچھ زیادہ ہو جاتا تو ٹھٹھر کر مر جاتے۔ بڑی پیمائش سے یہ فاصلہ کیسے رکھ دیا گیا؟؟؟؟ یہ کم یا زیادہ کیوں نہیں ہوتا؟؟؟؟
گوگل کارپوریشن نے گوگل ارتھ کے نام سے جو سافٹ وئیر بنایا تھا، حال ہی میں اس میں گوگل اسکائی کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔ اب ہم زمین کے ساتھ ساتھ آسمان اور اس کے اجرام فلکی کا مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ www.earth.google.com سے اس سافٹ وئیر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اس کائنات کو ایکسپلور کر کے ذرا اس میں غور فرمائیے۔
رات اور دن کی گردش
یہ زمین اپنے محور کے گرد گردش میں ہے۔ اس کا جو حصہ سورج کے سامنے آ جاتا ہے وہاں دن نکل آتا ہے اور جو حصہ سورج سے دور ہوتا ہے وہاں رات ہو جاتی ہے۔ اگر زمین گیند کی طرح گول ہونے کی بجائے تھالی نما ہوتی تو اس کا ہر حصہ فوراً فوراً سورج کے سامنے آتا رہتا اور مسلسل دن کی سی کیفیت رہتی۔ اسی طرح اگر زمین گردش نہ کر رہی ہوتی تو اس کا ایک حصہ مسلسل روشنی میں اور دوسرا مسلسل تاریکی میں رہتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر مسلسل دن رہنے کے باعث زمین کا ایک حصہ حرارت جذب کر کر کے اتنا گرم ہو جاتا کہ وہاں زندگی ممکن نہ ہوتی اور دوسرے حصے میں مسلسل رات رہنے کے باعث اتنی سردی ہو جاتی کہ وہاں بھی کوئی زندہ نہ رہ پاتا۔ دن اور رات کی اس گردش کو کیوں قائم کیا گیا اور یہ کیسے ہوا؟؟؟؟
زمین کی گردش کی رفتار بھی بڑی عجیب ہے۔ اگر موجودہ رفتار کی بجائے یہ کچھ تیز ہو جاتی تو دن اور رات جلدی جلدی آنے لگتے اور ہمیں اتنی حرارت ہی نہ مل پاتی جتنی ہمیں چاہیے۔ اگر یہ رفتار کچھ سست ہو جاتی تو دن بہت طویل ہونے کے باعث بہت گرم ہو جاتا اور رات بھی نہایت طویل ہونے کے باعث ضرورت سے زیادہ سرد ہو جاتی۔ زمین کی رفتار کو اتنا منظم کر دیا گیا ہے کہ کروڑوں سالوں سے یہ اتنی ہی ہے جتنی ضرورت ہے۔ اتنی پیمائش کے ساتھ اس رفتار کو متعین کرنا کس کے بس کی بات ہے؟؟؟؟ کیا کوئی اندھی قوت ایسا کر سکتی ہے؟؟؟؟
سمندر، دریا اور بحری جہاز
سمندروں اور ان میں چلنے والے چھوٹے بڑے بحری جہازوں اور کشتیوں کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ انسان نے فضائی راستے تو ابھی ایک صدی پہلے ہی دریافت کئے ہیں۔ زمینی راستوں کا عالم یہ رہا ہے کہ سارا سال دنیا کے ایک خطے میں بسنے والے انسانوں کو دوسروں سے ملانے میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ دور قدیم سے انسانوں کو ایک دوسرے سے ملانے میں کلیدی کردار بحری راستوں کا ہے۔
یہ زمین کچھ اس طرح کی بنی ہوئی ہے کہ اس کے ہر حصے پر انسان کی ضرورت کی ہر چیز پیدا نہیں ہوتی۔ ایک جگہ پر ایک چیز پیدا ہوتی ہے اور دوسری جگہ پر دوسری۔ مختلف اقوام کی صلاحیتیں اور مہارتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوا کرتی ہیں۔ ایک قوم کسی ایک چیز میں ماہر ہوتی ہے اور دوسری کسی اور چیز میں۔ ایک خطے میں ایک چیز یا خدمت کی پیداواری لاگت (Cost of Production) کم ہوتی ہے اور دوسرے حصے میں دوسری چیز کی۔ انسان کو لازماً دنیا کے دوسرے حصوں میں بسنے والے انسانوں سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے تاکہ ضرورت کی اشیاء اور خدمات کا تبادلہ کیا جا سکے۔ اسی کو معاشیات میں Law of Comparative Advantage کہا جاتا ہے۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ زمین میں یہ مسئلہ رکھ کر اسے ایسے ہی چھوڑ نہیں دیا گیا بلکہ انسان کو یہ سکھا دیا گیا کہ وہ پانی کی مدد سے کیسے نقل و حرکت کر کے دنیا کے ایک خطے سے دوسرے خطے پر جا سکتا ہے۔ ایسا طبیعات (Physics) کے ایک قانون فطرت کے تحت ممکن ہو سکا ہے۔
اس قانون کے تحت ایسے مادے جن کی کثافت (Density) پانی سے کم ہوتی ہے، پانی پر تیرتے ہیں اور جن کی کثافت پانی سے زیادہ ہوتی ہے وہ اس میں ڈوب جاتے ہیں۔ نسبتاً لطیف چیزیں اوپر اٹھتی ہیں اور کثیف چیزیں نیچے بیٹھتی ہیں۔ اس کے پیچھے دراصل کشش ثقل کا قانون کار فرما ہے۔ لکڑی کی کثافت چونکہ پانی سے کم ہے اس لئے یہ نہ صرف پانی پر تیرتی ہے بلکہ اس پر اگر کچھ اور بھی رکھ دیا جائے تو یہ اسے بھی اپنے ساتھ تیرا لیتی ہے۔ اسی قانون کے تحت انسان نے کشتی اور بحری جہاز بنائے جن کی بدولت دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں اس کی نقل و حرکت دور قدیم ہی میں ممکن ہو سکی تھی۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو فزکس کا یہ قانون کثافت اور اکنامکس کا لاء آف کمپیریٹو ایڈوانٹج ایک دوسرے کے سپلیمنٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک قانون کے بغیر دوسرا بے معنی ہے۔ یہ دونوں مل کر ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں اور انسانی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اسی کی بدولت دنیا میں تمدن وجود میں آتا ہے۔ اقوام وجود پذیر ہوتی ہیں، ہر قوم مخصوص مختلف اشیاء اور خدمات میں اسپیشلسٹ بنتی ہے، قومیں ایک دوسرے سے اشیاء و خدمات کا تبادلہ کرتی ہیں، ان کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں اور اس طرح سے تمدن ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اگر یہ دنیا ایسے جزیروں پر مشتمل ہوتی جہاں کے رہنے والے کبھی دوسروں سے نہ ملے ہوتے تو تمدن کی یہ ترقی جس پر ہم فخر کرتے ہیں کبھی وجود پذیر نہ ہوتی۔ مثال کے طور پر امریکا کے ریڈ انڈینز اور آسٹریلیا کے ایب اوریجینز پر غور کیجیے۔
کائنات میں ایک اور قانون کار فرما ہے اور وہ ہے بے ترتیبی کا قانون۔ اگر اس دنیا کی چیزوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ منتشر اور بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ بغیر باغبان کے باغ بے ترتیب ہو کر اجڑ جاتے ہیں، بغیر گاڑی بان کے گاڑیاں ٹکرا کر تباہ ہو جاتی ہیں، بغیر حکمران کے انسان انتشار اور بد امنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کائنات کی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی ذہین قوت ایسی ہونی چاہیے جو چیزوں کو منظم کرنے کا فریضہ انجام دے سکے۔
جب یہ زمین تخلیق ہوئی، اس میں لاء آف کمپیریٹو ایڈوانٹج کے ساتھ ساتھ لطیف اشیاء کے تیرنے کا قانون بھی رکھ دیا گیا۔ اگر زمین کی تخلیق میں ایک مسئلہ ہو گیا تھا تو دوسرے طریقے سے اسے حل کیسے کر دیا گیا؟ بے ترتیبی کے قانون کے تحت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس زمین کے ڈیزائن میں بھی ایسی ہی بے ترتیبی ہوتی لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس زمین کی تخلیق میں ایسی ترتیب ہے کہ اگر ایک مسئلہ ہے تو اس کا حل بھی ہے اور وہ مسئلہ بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانی تمدن کی بنیاد ہے۔ ایسا کیوں ہوا، کیسے ہوا اور کس نے کیا؟؟؟؟
واٹر سائیکل
اس زمین میں زندگی کے لئے پانی ناگزیر ہے۔ پانی کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ زمین پر زندگی اسی وجہ سے ہے کہ یہاں 70% حصے پر پانی موجود ہے۔ انسان جانداروں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو پانی کی بجائے خشکی پر رہتے ہیں لیکن پانی انسان کی بھی اہم ترین ضرورت ہے۔ انسان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمندر کا پانی استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ یہ انتہائی نمکین ہے۔ اپنی بہت سی ضرورتوں کے باعث انسان کو زمین میں بکھر کر رہنا پڑتا ہے جہاں تک پانی پہنچانا اس کی ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں اس مسئلے کو اس طریقے سے حل کیا گیا ہے کہ سمندری پانی کو صاف کر کے پہلے قابل استعمال بنایا جاتا ہے اور پھر اسے بڑی بڑی موٹروں کے ذریعے پمپ کر کے پائپ لائنوں کے ذریعے سمندر سے دور دراز علاقوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ کارنامہ جدید انسان نے اپنی سائنسی ترقی کے باعث انجام دے لیا ہے لیکن اب سے سو سال پہلے کے انسان کے لئے تو یہ ممکن نہ تھا۔ پھر اس طریق کار پر اتنے وسائل صرف ہو جاتے ہیں کہ صاف سمندری پانی انتہائی مہنگا ہوتا ہے اور اگر اسے سمندر سے دور پہنچا لیا جائے تو اس میں ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
اس زمین کے ڈیزائن میں اس مسئلے کا حل پہلے سے ہی موجود ہے۔ سورج کی حدت سے سمندر سے پانی بخارات بن کر اڑتا ہے اور بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ پانی اسی مرحلے پر صاف اور انسان کے لئے قابل استعمال ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد پمپنگ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہواؤں کی گردش کا ایک عجیب نظام بنایا گیا ہے جو اس پانی کو لے کر سمندر سے دور دراز مقامات پر چلا جاتا ہے اور وہاں بارش اور برف کی صورت میں برس پڑتا ہے۔
زمین کے ڈیزائن میں ایک اور چیز رکھی گئی ہے کہ سمندر سے دور دراز مقامات بلند ہوتے ہیں اور سمندر نشیب میں واقع ہے۔ کشش ثقل کا قانون بھی بنا دیا گیا ہے جس کے باعث پانی اوپر سے نیچے آتا ہے۔ سورج کی حدت سے برف پگھلتی ہے، دریا بنتے ہیں، ان میں بارش کا پانی بھی شامل ہوتا ہے اور یہ پانی واپس سمندر کی طرف آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سارا عمل صدیوں کے تواتر سے جاری ہے اور واٹر سائیکل کہلاتا ہے۔
اسی واٹر سائیکل پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انسانوں اور دیگر جانداروں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے زمین بھر میں جگہ جگہ اسٹوریج ٹینک بھی بنا دیے گئے ہیں تاکہ اگر کبھی کسی اور مصلحت کے باعث اس واٹر سائیکل کی رفتار میں کمی بیشی کرنی پڑے تو اسٹور کیا ہوا یہ پانی انسان اور دیگر جانداروں کے کام آئے۔ یہ اسٹوریج ٹینک آسمان پر بادلوں، برف پوش چوٹیوں پر گلیشیئرز، پہاڑوں اور میدانوں میں جھیلوں اور زیر زمین پانی کے ذخیروں کی شکل میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر ان سب ذخیروں میں موجود پانی کو اکٹھا کیا جائے تو شاید یہ سمندری پانی کے آس پاس ہی ہو۔ اس پر مزید اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اتنی عقل دے گئی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لحاظ سے ان ذخیروں میں کمی بیشی کر سکتا ہے اور انہیں اپنے مفاد میں استعمال بھی کر سکتا ہے۔
ہم انسان بھی اپنی ضرورت کے تحت چھوٹے موٹے واٹر سائیکل بنا لیتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں گھروں میں کنویں موجود ہوتے ہیں، اس میں واٹر پمپ لگا کر پانی کو چھت پر ٹینکی میں پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ واپس نلوں میں آ جاتا ہے۔ شہروں میں یہ کام ذرا بڑے پیمانے پر کر لیا جاتا ہے۔ کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے کہ کسی گھر میں ایک کنواں خود بخود ہی کھد گیا، اس میں واٹر پمپ بھی خود ہی آ کر نصب ہو گیا، چھت پر ٹینکی بھی خود ہی بن گئی اور نل بھی خود ہی نصب ہو گئے اور پانی خود بخود بہنے لگا؟ اگر آپ اس بات پر یقین نہیں کرتے تو حیرت ہو گی اس بات پر کہ آپ اس بات پر یقین کر لیں کہ روئے زمین کا سب سے بڑا واٹر سائیکل جو سمندروں، بادلوں، ہواؤں، بارشوں، برف، جھیلوں، دریاؤں اور زیر زمین پانی کی شکل میں نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری طرح رواں دواں ہے، وہ خود بخود ہی کچھ اندرونی قوتوں کے تحت وجود پذیر ہو گیا؟؟؟؟
ایکو سسٹم
اس واٹر سائیکل کا ایک اور حیرت انگیز نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ جہاں جہاں یہ پانی پہنچتا ہے وہاں زمین سے نباتات نکلنے لگتی ہیں۔ اس سے پہلے یہ زمین زندگی سے خالی ہوتی ہے۔ زمین کے اندر مختلف کیمیکل اور نمکیات رکھ دیے گئے ہیں۔ پانی اور ان کیمیکلز پر نشوونما پا کر پودے بڑے ہونے لگتے ہیں۔ ان نباتات کو جانور کھاتے ہیں اور پھر ان جانوروں کو بڑے جانور اور انسان کھا جاتے ہیں۔ یہ تمام پودے، جانور اور انسان بالآخر مر کر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ان کے جسم بے شمار کیمیکلز سے بنے ہوتے ہیں جو سب کے سب مٹی میں مل کر وہی کیمیکلز اور نمکیات پیدا کر دیتے ہیں جو پودوں کی ضرورت ہیں۔ یہ پورا سائیکل ایکو سسٹم کہلاتا ہے اور بائیولوجی کی شاخ ایکولوجی کا موضوع ہے۔ بعینہ ایسا ہی ایکو سائیکل پانی میں پایا جاتا ہے۔
ہمیشہ سے اس ایکو سسٹم میں ایک خاص تناسب موجود ہے۔ اگر اس سسٹم میں کوئی رخنہ پیدا کر دیا جائے تو اس کے نتیجے میں پورا ایکو سسٹم تباہ و برباد ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر پودوں کی کوئی قسم ختم ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ان پر پلنے والے جانور بھی فنا ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں وہ جانور بھی مرنا شروع ہو جائیں گے جو ان جانوروں کو کھاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور انسانوں کی موت تک آ پہنچے گا۔ دور جدید میں انسان کی پھیلائی ہوئی صنعتی آلودگی کے باعث ایکو سسٹم پر جو مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کے نتائج انسان تک پہنچنا بھی شروع ہو چکے ہیں۔
یہ پورا ایکو سسٹم اتنی ذہانت سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں کروڑوں کی تعداد میں پودوں اور جانوروں کی نسلیں دنیا میں موجود ہیں ۔ ایک دوسرے کو کھانے کے باوجود یہ جاندار ختم نہیں ہوتے اور یہ سلسلہ لاکھوں سال سے چلا آ رہا ہے۔ کیا اتنا خوبصورت ڈیزائن خود بخود تخلیق پا گیا؟؟؟؟
اہل عقل
ان آیات میں کائنات کی ان نشانیوں کو اجمالاً بیان کیا گیا ہے۔ نزول قرآن سے لے کر آج تک لوگ اپنے اپنے دور کی علمی سطح کے مطابق ان نشانیوں پر غور کرتے آئے ہیں۔ ہمارے دور میں علم کی سطح قدیم ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہو چکی ہے جس کے باعث ہم ان نشانیوں میں اپنے آباؤ اجداد کے مقابلے میں زیادہ گہرائی میں غور کر سکتے ہیں۔
درج بالا بحث میں، میں نے آپ کی خدمت میں جو سوالات رکھے ہیں، کوئی بھی عقل مند انسان ان کا ایک ہی جواب دے سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات اور زمین پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور وہ صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ جو انسان اس کے علاوہ کسی اور نتیجے پر پہنچتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس پورے نظام کا کوئی خالق نہیں اور یہ خود بخود ہی بن گئی، وہ ایسا اپنی عقل نہیں بلکہ جذبات سے مغلوب ہو کر کرتا ہے۔ اس کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے کسی برتر ہستی کو مان لیا تو اس کے نتیجے میں اسے کچھ اخلاقیات کا پابند ہونا پڑے گا جبکہ وہ ایسا ہونا نہیں چاہتا۔
خود کو اخلاقی پابندیوں سے آزاد کروانے کی خواہش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی اور وہ شتر بے مہار بن کر اپنی خواہشات کا غلام بنتا چلا جاتا ہے جس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ زمین ظلم اور فساد سے بھر جاتی ہے۔
ایک عقل مند انسان ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنا سر اپنے رب کے حضور جھکا دیتا ہے اور اس کی اطاعت میں سرگرداں ہو جاتا ہے۔ خود پر لگائی ہوئی ان اخلاقی پابندیوں کے باعث اس کی آزادی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتیجے میں وہ رب کائنات کی بنائی ہوئی اس عظیم کائنات سے ہم آہنگ (Harmonize) ہو جاتا ہے جو پکار پکار کر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے زبان حال سے یہ کہہ رہی ہے کہ تبارک اللہ احسن الخالقین۔
ایک طرف تو معاملہ یہ ہے کہ انسان کائنات میں غور و فکر کرتا ہوا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے۔ دوسری طرف اسی غور و فکر سے خود بخود یہ بات بھی سامنے آ جاتی ہے کہ وہ خالق صرف اور صرف ایک ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں ایک عظیم ہم آہنگی (Harmony) پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہم اوپر لاء آف کمپیریٹو ایڈوانٹج اور کشتی کے تیرنے کے قانون میں ہم آہنگی سے دیکھ چکے ہیں۔ اسی طرح اجرام فلکی کی رفتار اور ان کے مابین کشش کی قوت کی ہم آہنگی بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سیاروں کی گردشی حرکت اور ایک چھوٹے سے ایٹم میں موجود الیکٹران کی حرکت میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح مختلف جانوروں کے نظام جسم میں بھی اتنی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ انسانی عقل یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ان سب کا خالق ایک ہی ہے۔
یہ بات اتنی منطقی ہے کہ دور قدیم میں جب شرک کا غلبہ ہوا تب بھی انسانوں کی عظیم اکثریت دو یا دو سے زائد ایک جتنے طاقتور خداؤں کے وجود کی قائل نہ ہو سکی۔ ان کے ہاں دیوتاؤں کی ایک تنظیم (Hierarchy) کے تصور نے جنم لیا۔ اس تنظیم میں چھوٹے دیوتا بڑے دیوتاؤں کے ماتحت مانے گئے اور ان سب کے اوپر ایک عظیم خدا کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا گیا۔ اس طرح کم و بیش تمام نسل انسانی ایک سپریم خدا کے وجود کی ہمیشہ سے قائل رہی ہے۔ اللہ تعالی کی جو ہدایت انبیاء کرام اور الہامی کتب کے ذریعے انسان کو دی گئی اس میں یہ صاف صاف بتا دیا گیا کہ دیوتاؤں کی اس تنظیم کا تصور بالکل غلط ہے۔ خدا صرف اور صرف ایک ہی ہے، وہی سپریم ہے اور کوئی مخلوق اس کے خدا ہونے میں کسی درجے میں بھی شریک نہیں ہے۔
محمد مبشر نذیر
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔