Thursday, 11 January 2018

قرآن و آحادیث میں مخصوص اعداد کیوں بیان کیے گیے ہیں ؟

 قرآن و آحادیث میں مخصوص اعداد کیوں بیان کیے گیے ہیں ؟

قرآن و حدیث کا جب ہم مطالعہ کریں تو ہمیں بعض چیزوں کے مخصوص اعداد ملتے ہیں ،

مثال کے طور پر:

عرش کو چار فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے ،
بروز قیامت عرش کو آٹھ فرشتوں نے اٹھا رکھا ہوگا ،
سات آسمان ،
سات زمینیں ،
جنت کے آٹھ دروازے ،
جہنم کے درجے ،
جنت کے سو درجے ،
جنت میں بہتر حوریں ،
جہنم پر انیس فرشتوں کا  مقرر ہونا ،
بروز قیامت جہنم ستر ہزار لگاموں میں لپٹی ہوگی اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتوں نے تھاما ہوگا ،
جہنم کے سات دروازے ،
ایک پتھر کا جہنم کی تہ تک ستر سال کے عرصہ میں پوہنچتا ہے ،

غرض اس طرح کی کثیر مثالیں ملتی ہیں __ اگر قرآن پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان  مخصوص اعداد کو بیان کرنے یا مقرر کرنے کا مقصد آزمائش ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ اہل ایمان تو کسی بھی مخصوص تعداد پر ایمان لے آئیں گے مگر جن کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں ساتھ ہی عجیب و غریب قسم کے فضول سوالات پوچھتے ہیں کہ جنت کے دروازے آٹھ ہی کیوں ہیں ؟ 72حوریں ہی کیوں ملیں گی ؟ جہنم کے دروازے سات ہی کیوں ، جہنم پر مقرر فرشتے 19ہی کیوں ؟ وغیرہ وغیرہ غرض انکا  مقصد حق جاننا نہیں بلکہ  اعتراض کرنا ہوتا ہے  _ اللہ تعالیٰ کو چونکہ ان کے اعتراضات کا پہلے ہی علم تھا چناچہ پہلے ہی ہمیں خبر دے دی_
چناچہ ارشاد فرمایا:

( 26 ) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ
اور تمہیں کیا خبر کہ دوزخ کیا چیز ہے ؟

﴿27﴾ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ
27) وہ رحم نہیں کرتی اور نہیں چھوڑتی

﴿28﴾ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ
(28) وہ کھالوں کو جلا کر سیاہ کر دینے والی

﴿29﴾ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ
(29) اور پر انیس (فرشتے ) مقرر ہیں

یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے جہنم سے ڈرایا ، پھر فرمایا کہ جہنم پر 19فرشتے مقرر ہیں ، اب اللہ تعالیٰ اس مخصوص تعداد
کے مقرر کرنے کی وجہ بتاتے ہیں_

فرمایا:

﴿30﴾ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ

اور ہم نے دوزخ کے دروغے صرف فرشتے رکھے ہیں . اور ہم نے انکی تعداد صرف کافروں (ملحدوں) کی آزمائش کے لئیے مقرر کی ہے   تاکہ  اہل کتاب  ( مسلمان )  یقین کر لیں  اور اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے اور اہل  کتاب اور اہل ایمان شک نا کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اور کافر ( ملحد ) کہیں کے اس بیان سے اللہ کی کیا مراد ہے (؟ )  اور اسی طرح اللہ جسے چاحتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے  ، تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوی نہیں جانتا ،  یہ ( قرآن ) تو کل بنی آدم کے لئیے نصیحت ہے.

معلوم ہوا کے اعداد کا مخصوص کیا جانا آزمائش کے لیے ہوتا ہے کہ اہل ایمان تو اپنے رب کا فرمان سمجھ کر مان لیں اور ان کے ایمان بڑھ جائیں جبکہ جن کے دل میں مرض ہے انکا مرض اور بڑھ جائے_

بیشک جب ہم ملحدوں سے ایسے
مضحکہ خیز اور لایعنی اعترضات سنتے ہیں تو ہمارا ایمان اور بڑھ جاتا ہے کے اللہ نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ یہ تعداد صرف آزمائش کے لیے مخصوص کی جاتی ہے _ نیز ان سوالات سے وجود باری تعالیٰ اور قرآن کا حق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے ہی خبر کردی_

عبدالله عمر عبدالرحمان

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔