Saturday 27 January 2018

ہومو ایرکٹس، ہومو ارگسٹراور ہومو اینٹی سسر اور ان کے نام نہاد انسانی ارتقا سے تعلق کے بارے میں ماہرین ارتقاء کی خام خیالی تحریر: احید حسن

ہومو ایرکٹس، ہومو ارگسٹراور ہومو اینٹی سسر اور ان کے نام نہاد انسانی ارتقا سے تعلق کے بارے میں ماہرین ارتقاء کی خام خیالی

تحریر: احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظریہ ارتقا کے حامیوں کے بقول ہومو ارگسٹر یا عامل انسان۔۔۔۔Working man....نام نہاد خاندان یا جینس ہومو یا انسان کی ایک نوع یا سپی شیز ہے جو آج سے 1.9 سے 1.4 ملین سال پہلے مشرقی اور جنوبی افریقہ میں رہتی تھی جب کہ کچھ ارتقائی اس کو ہومینڈ۔۔۔Hominid...یعنی بن مانس کے خاندان میں شمار کرتے ہیں۔یہاں ارتقائی ماہرین عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ہومو ارگسٹر بڑے بن مانس نہیں بلکہ حقیقی انسانی نسل تھی لیکن ارتقائی ماہرین اپنے نام نہاد انسانی ارتقا کے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے مختلف جانوروں کو مختلف غلط سپی شیز یا اقسام میں تبدیل کرکے اپنے نام نہاد ارتقائی سلسلے۔۔۔Evolutionary tree....کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ہومو ارگسٹر کا تقریبا مکمل ڈھانچہ جسے کے این ایم ڈبلیو ٹی 15000 یا ترکانہ بوائے کا نام دیا گیا تھا،کمویا کیمیو اور ایلن واکر نے 1984ء میں دریافت کیا اور اس کی عمر کا اندازہ 1.6 ملین سال قدیم لگایا گیا اور یہ آج تک دریافت ہونے والے ابتدائی انسانی رکاز یا حجری حیاتیات یا فوسلز میں سب سے مکمل ڈھانچوں میں سے ہے۔جس جگہ سے یہ رکاز دریافت کیے گئے اس جگہ سے کئی بن مانسوں اور انسانوں کے فوسل دریافت ہوچکے ہیں اور یہ بات ہمارے اس نظریے کی تائید کرتی ہے کہ ماضی میں انسان اور بن مانس ایک ہی ماحول میں رہتے تھے جیسا کہ آج کل افریقہ کے کچھ علاقوں میں ہے۔ ارتقائیوں کے بقول ہومو ارگسٹر ابتدائی ترین نام نہاد ہومینن۔۔۔Hominin۔۔۔ میں سے ہے جو کہ وہ خاندان یا جینس۔۔۔Genus۔۔۔۔ ہے جس میں بن مانس سے الگ ہوکر اصل انسانی شکل اختیار کرنے والے جاندار شامل ہیں۔اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ارتقائی مفروضے ہیں اور آج تک کوئی غیر متنازعہ فوسل ریکارڈ اور جدید سائنسی علم وراثت یا جینیٹکس اس تصور کی تائید نہیں کرتی۔اس کی مزید تفصیل آپ درج ذیل لنکس پہ پڑھ سکتے ہیں
http://www.icr.org/article/new-research-debunks-human-chromosome/
http://www.icr.org/article/more-dna-evidence-against-human-chromosome/
ارتقائیوں کے بقول ہومو ارگسٹر یا ہومو ایرکٹس ( جو کہ حقیقت میں ایک انسانی نسل تھی) کا جد امجد ہے یا دونوں ایک ہی جد امجد کی اولاد ہیں۔چونکہ ہومو ایرکٹس حقیقت میں انسان تھے لہذا اگر ہومو ارگسٹر ہومو ایرکٹس کے جد امجد ہیں تو پھر یہ بھی انسان ہی ہیں نہ کہ کوئی نام نہاد ارتقائی مسنگ لنک۔اور ارتقائیوں کا یہ قول خود ہمارے یا یعنی سائنسی نظریہ تخلیق کے اس تصور کی تائید کرتا ہے کہ دونوں انسان ہی تھے۔ان میں سے دوسرے کا جد امجد ہوسکتا ہے لیکن یہ بات بالکل تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ یہ دونوں یا ایک کسی بن مانس جیسے جانور سے ارتقا پذیر ہوئے کیونکہ فوسل ریکارڈ اور جینیٹکس اس تصور کی تردید کرتی ہے۔
کچھ ارتقائی ماہرین علم البشریات یا Evolutionary Palaoeoanthropologist کہتے ہیں کہ حقیقت میں ہومو ارگسٹر افریقہ میں مقیم ہومو ایرکٹس ہیں اور کچھ نہیں جب کہ خود کئی دیگر ماہرین ارتقا کے بقول ہومو ارگسٹر نام کی کسی سپی شیز یا قسم کا وجود ہی غلط ہے کیونکہ ہومو ارگسٹر کہے جانے والے فوسل حقیقت میں ہومو ایرکٹس تھے۔اس بات سے اندازہ کر لیجیے کہ خود ارتقائی ماہرین ان نام نہاد انسانی سپی شیز یا اقسام کے بارے میں کس قدر تذبذب کا شکار ہیں اور ہم تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ یہ ہومو ایرکٹس ہو یا ہومو ارگسٹر،دراصل یہ سب قدیم انسانی نسلیں تھیں جن کو ارتقائیوں نے اپنے نام نہاد انسانی ارتقا کو زبردستی ثابت کرنے کے لیے مختلف سپی شیز یا اقسام میں تبدیل کر دیا جب کہ یہ ایک ہی سپی شیز یا قسم یعنی انسان یا Homo sapiens تھے۔بعد میں دمانیسی، جارجیا۔۔۔Dmanisi۔۔۔ میں ہونے والی دریافتیں بھی ہمارے یعنی نظریہ تخلیق کے قائلین کے اس تصور کی تائید کرتی ہیں کہ حقیقت میں ہومو ارگسٹر الگ کچھ نہیں اور یہ ہومو ایرکٹس ہی ہیں اور ہم یہ بات پہلے ہی کہتے تھے کہ تمام نام نہاد ہومو سپی شیز حقیقت میں ایک ہی سپی شیز یعنی انسان ہیں نہ کہ الگ الگ مختلف سپی شیز جن کو ارتقائی ماہرین نے اپنا لولا لنگڑا ارتقا ثابت کرنے کے لیے مختلف سپی شیز یا اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
ارتقائیوں کے بقول ہومو ارگسٹر ہومو ایرکٹس کے مقابلے میں پتلی کھوپڑی کے حامل تھے اور ان میں فوق محجری منفذ یا Supraorbital foramen نہیں تھا جو کہ آنکھ سے اوپر ہڈی میں اعصاب کے گزرنے کے لیے ایک سوراخ ہوتا ہے۔ارتقائیوں کے بقول ہومو ارگسٹر ہومو ہیڈلبرگنسس۔۔۔Homo heidelbergensis۔۔۔ کے مقابلے میں پتلی ہڈیوں، نمایاں یا آگے کو نکلے ہوئے چہرے۔۔۔Protrusive face۔۔۔ اور کم بلند پیشانی کے حامل تھے۔ارتقائیوں کے اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ کھوپڑی اور چہرے میں یہ نام نہاد ارتقائی فرق وہ فرق ہیں جو آج بھی کئی انسانی نسلوں میں باہم موجود ہیں اور یہ کسی نام نہاد انسانی ارتقا کا ثبوت نہیں اور ہمارے اس تصور کی تائید لاؤس اور دیگر قدیم انسانی نسلوں پہ ہونے والی تحقیقات کر چکی ہیں اور ان کو ہم اپنی پچھلی قسطوں میں بیان کر چکے ہیں۔
ترکانہ بوائے یا نام نہاد ہومو ارگسٹر کے گردن کے مہرے یا Cervical vertebrae بعد کے انسانوں کے مقابلے میں تنگ تھے۔لہذا یہ سوچا گیا کہ ہومو ارگسٹر محدود طبعی صلاحیتوں کے مالک تھے اور لہذا پیچیدہ آوازیں پیدا نہیں کر سکتے تھے۔لیکن بعد میں دمانیسی ،جارجیا میں ہونے والی دریافتوں نے  ارتقائیوں کے اس تصور کی تردید کردی کیونکہ وہاں ہومو ارگسٹر سے بھی تین لاکھ سال پہلے کے دریافت ہونے والے گردن کے مہرے بالکل انسانی ہیں اور ارتقائی ماہرین کا ہومو ارگسٹر کو عام انسانوں کے مقابلے میں محدود صلاحیتوں کا حامل قرار دینا بالکل غلط تھا۔تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ ترکانہ بوائے یا ہومو ارگسٹر ریڑھ کی ہڈی یعنی Spinal cloumn کی ایک بیماری کا شکار تھا جس کی وجہ سے اس کی گردن کے مہرے آج کے انسانوں کے مقابلے میں تنگ تھے۔یہ بات ہمارے یعنی نظریہ تخلیق کے حامیوں کے اس تصور کی تائید کرتی ہے کہ ارتقا کے حامیوں کا انسانی ساخت میں موجود تنوع اور بیماریوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز کرکے ہر فوسل کو الگ سپی شیز یا قسم قرار دینا بالکل غلط ہے۔یہ بات ہمارے اس قول کی بھی تائید کرتی ہے کہ کس طرح ارتقائی ماہرین فوسلز میں موجود ساختی تبدیلیوں اور تنوع کو غلط بیان کرکے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔جارجیا کے علاقے دمانیسی میں ہونے والی دریافتیں ہمارے یعنی نظریہ تخلیق کے حامیوں کے اس تصور کی تائید کرتی ہیں جس کے مطابق افریقہ میں موجود نام نہاد ہومو ہیبیلس، ہومو روڈولفنسس، ہومو روڈیسی انسس، ہومو ارگسٹر اور ہومو ایرکٹس ایک ہی سپی شیز یا قسم یعنی انسان ہیں اور الگ کچھ نہیں جو کہ آج سے 1.9 ملین سال پہلے ظاھر ہوئے اور یوریشیا یعنی ایشیا اور یورپ میں دوردراز جاوا اور چین تک پھیل گئے۔لہذا ارتقائیوں کی یہ ہومو سپی شیز کی یہ تمام تقسیم بالکل غلط اور غیر سائنسی ہے جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ارتقائی ماہرین اپنے تصورات کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی حقائق بڑھا چڑھا کر اور تبدیل کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جارجیا کے علاقے دمانیسی میں ہونے والی دریافتیں ہمارے اس تصور کی تائید کرتی ہیں جس کے مطابق تمام ابتدائی نام نہاد ہومو سپی شیز یا اقسام حقیقت میں ہومو ایرکٹس یا ایک ہی سپی شیز ہیں جسے ہم ہومو ایرکٹس کی جگہ ہومو سیپی انز کہنا چاہیں گے کیونکہ تحقیقات ثابت کرچکی ہیں کہ ہومو ایرکٹس کچھ ساختی تبدیلیوں کے فرق کے ساتھ انسان ہی تھے اور کچھ نہیں  اور یہ وہ ساختی تبدیلیاں ہیں جو آج بھی مختلف  انسانی نسلوں میں باہم موجود ہیں اور ان کی بنیاد پہ ہر انسانی نسل کو الگ الگ سپی شیز یا اقسام میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔البتہ ان کے لیے نسل یا Subspecies کی اصطلاح سائنسی طور پہ بالکل ٹھیک ہوگی ہماری نظر میں۔یہاں تک جدید سائنسی تحقیقات ثابت کرچکی ہیں کہ نام نہاد ہومو ہیبیلس اور ہومو ارگسٹر پانچ لاکھ سال تک مشرقی افریقہ میں ایک ساتھ موجود تھے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ارتقائیوں کی طرف سے ہومو ہیبیلس کی تقسیم بھی بالکل غلط ہے بلکہ یہ مختلف انسانی نسلیں الگ الگ سپی شیز یا قسمیں نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں موجود مختلف انسانی نسلیں تھیں جیسا کہ آج موجود افریقی،یورپی،ہندوستانی اور چینی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نام نہاد ہومو ہیبیلس، ہومو ارگسٹر، ہومو ایرکٹس، ہومو اینٹی سسر، ہومو نیلیڈی اور تمام دیگر نام نہاد ہومو سپی شیز کو ارتقائی ماہرین اپنے نام نہاد انسانی ارتقا کو زبردستی ثابت کرنے کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جب کہ یہ مختکف نام نہاد ہومو سپی شیز یا اقسام ایک ہی وقت میں دنیا کے مختلف علاقوں میں مقیم انسانی نسلیں تھیں اور کچھ نہیں اور ان کے مابین کچھ ساختی تبدیلیوں کا فرق اتنا ہی تھا جتنا آج مختلف  انسانی نسلوں کے مابین ہے۔
ہومو ارگسٹر زیادہ تنوع اور زیادہ بہتر اوزار جیسا کہ دومنہ والی پتھر کی بنی کلہاڑی استعمال کرتے تھے۔یہ ہمارے اس تصور کی تائید ہے کہ نہ صرف نام نہاد ہومو ارگسٹر اپنی ذہانت میں جدید انسان کے مقابل تھے بلکہ اپنی سماجی تنظیم میں بھی اعلیٰ مرتبے پہ فائز تھے۔کچھ ماہرین کے نزدیک وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے آگ کا استعمال کرنا سیکھ لیا تھا۔لیکن اگر ہومو ارگسٹر نام نہاد ہومو ہیبیلس سے زیادہ بہتر اوزار استعمال کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہومو ہیبیلس سے ارتقا پذیر ہوئے بلکہ یہ بات نسل درنسل اس انسانی ترقی کی علامت ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور تحقیق کے مطابق ہومو ارگسٹر اور ہومو ہیبیلس حقیقت میں ایک ہی وقت میں موجود تھے۔
یہ بات ہم نظریہ تخلیق کے حامیوں کے اس تصور کی زبردست حمایت ہے جس کے مطابق نظریہ ارتقا انسانی اور حیوانی ارتقا کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک ناکام ہے اور انسان اور حیوانی اجسام میں موجود زبردست اور حیران کن پیچیدگیاں اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ یہ جاندار خودبخود پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایک عظیم اور ذہین خالق کی طرف سے تخلیق کیے گئے اور ساینس کے پاس ایک صدی سے زیادہ کی کوشش کے بعد اس کے علاؤہ کوئی حل نہیں بچا کہ وہ اس بات پہ یقین کرلے۔
ہومو اینٹی سسر۔۔۔ Homo antecessor۔۔۔۔ایک نام نہاد انسانی سپی شیز یا قسم تھی جو آج سے 1.2 ملین سال سے آٹھ لاکھ سال پہلے موجود تھی جسے ایڈوالڈ کاربونل ،جان لوئس آرسواگا،جے ایم برمودیز ڈی کاسترو نے دریافت کیا۔ہومو اینٹی سسر کا مطلب ابتدائی مقیم یا رہائش پذیر ہے جس کا مطلب ہے یہ وہ انسان تھے جو یورپ میں کہیں اور دریافت نہیں ہوسکے۔خود ارتقائیوں کے اس قول سے یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ باقی ہومو سپی شیز کی طرح یہ نام نہاد سپی شیز یا قسم بھی درحقیقت ایک انسانی نسل تھی جو یورپ میں سب سے پہلے پہنچنے والے انسانوں میں شامل ہے نہ کہ کوئی نام نہاد ارتقائی مسنگ لنک۔ارتقائیوں کے بقول ہومو اینٹی سسر موجودہ انسانوں اور نینڈر تھال کا جد امجد ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خود ہومو اینٹی سسر ہوں یا نینڈرتھل دونوں انسان  ہی تھے اور کچھ نہیں۔لہذا نام نہاد ہومو اینٹی سسر نینڈرتھل  انسانوں اور آج موجود انسانوں کے نسلی جد امجد تو ہوسکتے ہیں لیکن ارتقائی جد امجد کبھی بھی نہیں۔ نینڈرتھل کس طرح انسان کہے جاتے ہیں اس پہ ہم پہلے ہی تین قسطوں پہ مشتمل ایک مضمون دے چکے ہیں۔انگریزی میں نینڈرتھل کے انسان ہونے کے سائنسی شواہد پہ مضمون درج ذیل لنک پہ پڑھا جا سکتا ہے
http://www.icr.org/article/neanderthals-are-still-human/
ارتقائی سائنسدان آرتھر رچرڈ کلین کے مطابق ہومو اینٹی سسر ایک الگ سپی شیز یا قسم تھی جو کہ ہومو ارگسٹر سے ارتقا پذیر ہوئی۔ اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ بذات خود ہومو اینٹی سسر اور ہومو ارگسٹر دونوں انسانی نسلیں ہی ہیں اور ان کے مابین جسمانی ساخت کا فرق اتنا ہے جتنا آج موجود انسانی نسلوں میں۔لہذا ہومو ارگسٹر نام نہاد ہومو اینٹی سسر کے نسلی جد امجد تو ہوسکتے ہیں لیکن ارتقائی جد امجد بالکل نہیں۔ کچھ ارتقائی سائنسدانوں کے مطابق ہومو اینٹی سسر اور ہومو ہیڈلبرگنسس اصل میں ہی ایک ہی سپی شیز یا قسم ہیں۔یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کیونکہ نام نہاد ہومو اینٹی سسر کی الگ سپی شیز یا قسم کی حیثیت خود کچھ ارتقائی ماہرین تسلیم نہیں کرتے اور ہم تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ نام نہاد ہومو ایرکٹس ہو یا ہومو اینٹی سسر یا ہومو ہیڈلبرگنسس سب حقیقت میں قدیم انسانی نسلیں ہی ہیں نہ کہ الگ الگ نام نہاد ارتقائی سپی شیز یا قسمیں۔
آج تک نام نہاد ہومو اینٹی سسر کا سب سے محفوظ رکاز یا فوسل فک اعلیٰ یا جبڑے کی بالائی ہڈی۔۔۔Maxilla۔۔۔ ہےجو کہ دس سال کی عمر کے ایک ایسے بچے کی ہڈی ہے جسے سپین میں دریافت کیا گیا تھا۔اس کی عمر کا اندازہ آٹھ لاکھ ستاون ہزار سال سے سات لاکھ اسی ہزار سال قدیم لگایا گیا ہے۔اج تک ان کی مکمل کھوپڑی دریافت نہیں ہوسکی۔ صرف چودہ ٹکڑے اور زیریں جبڑا موجود ہیں اور کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سب فوسل بچوں کے ہیں کیونکہ ہومو اینٹی سسر کو انسانوں سے ظاہر کرنے والی خصوصیات جوانوں میں موجود تھیں۔اب تک اسی فوسل دریافت ہوچکے ہیں جو کہ 1994 اور 1995ء میں شمالی سپین کے علاقے تاراگونا میں دریافت کیے گئے۔
ارتقائیوں کے بقول یہ افریقہ میں مقیم ہومو ایرکٹس سے ارتقا پذیر ہوئے اور بعد میں یورپ کی طرف ہجرت کر گئے اور ان سے بعد میں ہومو ہیڈلبرگنسس اور ان سے پھر نینڈرتھل ارتقا پذیر ہوئے۔ ارتقائیوں کے اس دعوے کی اصلیت یہ ہے کہ خود ہومو اینٹی سسر ہوں یا ہومو ہیڈلبرگنسس یا نینڈرتھل سب حقیقت میں انسان ہی تھے اور اس کی وضاحت ہم پہلے ہی کر چکے ہیں اور کئی تحققیات کے مطابق یہ سب ایک ہی زمانے میں موجود تھے لہذا ایک کا دوسرے سے ارتقا پذیر ہونے کا تصور ہی غلط ہے۔ارتقائیوں کے تصورات میں موجود انہی غلطیوں کی وجہ سے ان میں بہت تضاد موجود ہیں۔2013 ء میں ہومو اینٹی سسر کے ایک چار لاکھ سال قدیم فرد کی ران کی ہڈی یا Femur  سے ڈی این اے لیا گیا جو کہ آج تک کسی بھی قدیم ترین انسانی نسل کا لیا جانے والا قدیم ترین ڈی این اے نمونہ ہے۔اس پہ ہونے والی تحقیق نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اس تحقیق کے مطابق یہ افراد نہ ہی کوئی نام نہاد ہومو اینٹی سسر تھے اور نہ ہی ہومو ہیڈلبرگنسس کے نام نہاد ارتقائی جد امجد اور نہ ہی نینڈرتھل کے اجداد بلکہ یہ یورپ کے قدیم انسانوں میں سے تھے جن کو ڈینی سوونز۔۔۔ Denisovans۔۔۔ کہا جاتا ہے۔ جینیٹکس کی یہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ کس طرح ارتقائی ماہرین اپنے تصورات کو زبردستی ثابت کرنے کے لیے حیاتیاتی عرصے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور فوسل کی غلط سپی شیز میں تقسیم کرتے ہیں۔یہ تحقیق ایک اور سب سے اہم بات یہ بتاتی ہے کہ ملحدین یعنی ارتقائی ماہرین کا یہ دعویٰ کہ انسان حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام سے پہلے بھی زمین پہ موجود تھے ،مکمل طور پہ غلط ہے کیونکہ آج تک جس قدیم ترین انسانی نسل کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا ہے وہ نام نہاد ہومو اینٹی سسر ہے اور اس کا ڈی این اے سلسلہ وہی ہے جو کہ جدید انسانوں کا ہے اور یہ جینیٹکس کے مطابق ایک مرد حضرت آدم علیہ السلام اور ایک خاتون یعنی حضرت حوا علیہا السلام تک پہنچتا ہے اور آج تک اس کے علاؤہ کسی بھی قدیم ترین انسانی فوسل جیسا کہ نام نہاد ہومو ہیبیلس، ہومو ایرکٹس ،ہومو ارگسٹر پہ ایسی تحقیق نہیں  آئی جو ثابت کر سکے کہ ان انسانوں کا سلسلہ آج کے انسانوں کی طرح حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام تک نہیں پہنچتا۔
نام نہاد ہومو اینٹی سسر 1.6 سے 1.8 میٹر قد کے تھے اور ان کے دماغ کی جسامت 1000 سے 1150 مکعب سینٹی میٹر تھی جو کہ آج کے جدید انسانوں کے دماغ کی جسامت کی حد یعنی 1000 سے 1450 مکعب سینٹی میٹر میں ہے۔ انسانی دماغ کی جسامت پہ تحقیقات بنیادی طور پہ یورپی نسل کے افراد میں ہوئی ہیں اور ان کے مطابق مردوں کے دماغ کی اوسط جسامت 1260 مکعب یا کیوبک سینٹی میٹر اور عورتوں کے دماغ کی جسامت 1130 مکعب یا کیوبک سینٹی میٹر ہوتی ہے۔لیکن افراد کے درمیان باہمی فرق بہت زیادہ ہوتا ہے۔ 46 یورپی افراد پہ کی گئی تحقیق کے مطابق مرد کے  انسانی دماغ کی جسامت کی حد 1052 سے 1498 مکعب یا کیوبک سینٹی میٹر اور خواتین کے دماغ کی جسامت کی حد 974 سے 1398 مکعب یا کیوبک سینٹی میٹر ہے۔اس تحقیق کے مطابق نام نہاد ہومو اینٹی سسر کے دماغ کی جسامت مکمل طور پہ انسانی حدود میں ہے۔تحقیقات کے مطابق آج بھی مختلف علاقوں اور انسانی نسلوں کے درمیان دماغ کی جسامت یا سائز مختلف ہے۔ اس کے مطابق ٹھنڈے علاقوں کے لوگوں کے سر گول اور بڑے ہوتے ہیں تاکہ وہ حرارت کو محفوظ کر سکیں اور خط استوا کے گرم علاقوں کے قریب رہنے والے لوگوں کے سر کم گولائی کے ہوتے ہیں۔
دانتوں پہ کی گئی تحقیقات کے مطابق نام نہاد ہومو اینٹی سسر نشوونما کے انہی مراحل سے گزرتے تھے جن سے آج کے انسان گزرتے ہیں۔ان کے کچھ فوسل یا رکاز تو ایسے ہیں جن کو ہومو ارگسٹر سے شناخت کرنا مشکل ہے اور یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ دونوں انسانی نسلیں ہی ہیں اور کچھ نہیں۔
1994ء میں ٹائم میگزین نے لکھا 
" ایک صدی سے زیادہ کی فوسل تحقیقات کے باوجود انسانی ارتقا کا فوسل ریکارڈ حیران کن انداز میں غیر موجود ہے۔ اس کے ثبوت اتنے کم ہیں کہ صرف ایک بھی ہڈی جو کہیں درست نہ منتقل ہو اس ساری۔۔۔نام نہاد انسانی ارتقائی تصویر۔۔۔ کو غلط کر دیتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج تک کی ہر بڑی دریافت نے اس تصوراتی ارتقائی دانش میں مزید شگاف پیدا کیا ہے اور سائنسدانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان متنازعہ تصورات کی بجائے نئے سائنسی نظریات کی طرف متوجہ ہوں۔"
1995ء میں Annual review of ecology and systematics میں ڈاکٹر تاکاہاتہ نے اپنے مضمون A genetic perspective on the origin and history of humans میں لکھا 
"یہاں تک کہ ڈی این اے کے سلسلوں کی معلومات یا DNA sequence data کے باوجود ہمیں آج تک ارتقا کے عمل کی کوئی رسائی حاصل نہیں  لہزا ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نظریہ تخلیق پہ یقین کر لیں".
1992ء میں برنارڈ وڈ نے نیچر میگزین میں لکھا
"یہ بات قابل غور ہے کہ ہمارے یعنی انسان کے اپنے خاندان یا جینس ہومو کے اصول صنف بندی یا Taxonomy اور نسلی نوعی یا Phylogenetic ثبوت بالکل غیر واضح ہیں۔دریافت کیے گئے فوسل یا رکاز کے عرصے کی دوبارہ تحقیق اور یہ رکاز بذات خود اس انسانی ارتقا کو غلط اور غیر مستحکم ثابت کر چکے ہیں جس کے مطابق انسان اسٹرالو پیتھی کس بن مانسوں سے بذریعہ ہومو ایرکٹس ارتقا پذیر ہوا۔"
لہذا اب تک کی ہماری ساری تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ نام نہاد ہومو سپی شیز یا اقسام کے بارے میں ارتقائیوں کے تصورات غیر سائنسی مفروضوں پہ مبنی ہیں اور یہاں تک کہ اب خود کئی ماہرین ارتقا اس بات جو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انسانی ارتقا ثابت نہیں کیا جا سکتا اور ان کو اب خدائی تخلیق کے نظریے پہ یقین کرنا پڑے گا۔
ھذا ما عندی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ الحمدللہ

حوالہ جات:

ScienceDaily. Retrieved 29 October 2015
Hazarika, Manjil. "Homo erectus/ergaster and Out of Africa: Recent Developments in Paleoanthropology and Prehistoric Archaeology" (PDF). Universitat Rovira i Virgili, Tarragona, Spain. Retrieved 26 December 2015
"An Overview of the Siwalik Acheulian & Reconsidering Its Chronological Relationship with the Soanian – A Theoretical Perspective". Research School of Archaeology and Archaeological Sciences University of Sheffield. Archived from the original on 4 January 2012. Retrieved 26 December2015.
ArchaeologyInfo.com. Retrieved 30 October 2015
http://www.icr.org/article/human-evolution-update/
Bruce Bower (6 May 2006). "Evolutionary Back Story: Thoroughly Modern Spine Supported Human Ancestor". Science News Online. 169 (18): 275. doi:10.2307/4019325.^ Wong, Kate (November 2003). "Stranger in a new land". Scientific American. 289 (5): 74–83. Bibcode:2003SciAm.289e..74W. doi:10.1038/scientificamerican1103-74. PMID 14564816.
Goren-Inbar, Naama; Alperson, N; Kislev, ME; Simchoni, O; Melamed, Y; Ben-Nun, A; Werker, E; et al. (30 April 2004). "Evidence of Hominin Control of Fire at Gesher Benot Ya 'aqov, Israel". Science. 304 (5671): 725–727.Bibcode:2004Sci...304..725G. doi:10.1126/science.1095443.PMID 15118160.
 F. Spoor; M. G. Leakey; P. N. Gathogo; F. H. Brown; S. C. Antón; I. McDougall; C. Kiarie; F. K. Manthi; L. N. Leakey (9 August 2007). "Implications of new early Homo fossils from Ileret, east of Lake Turkana, Kenya". Nature. 448 (7154): 688–691. doi:10.1038/nature05986. PMID 17687323. "A partial maxilla assigned to H. habilis reliably demonstrates that this species survived until later than previously recognized, making an anagenetic relationship with H. erectus unlikely."  "... these two early taxa were living broadly sympatrically in the same lake basin for almost half a million years." (Emphasis added).
Urquhart, James (8 August 2007). Finds Test Human Origins Theory. news.bbc.co.uk.
Rightmire, G. P.; Lordkipanidze, D.; Vekua, A. (2006). "Anatomical descriptions, comparative studies and evolutionary significance of the hominin skulls from Dmanisi, Republic of Georgia". Journal of Human Evolution. 50 (2): 115–141. doi:10.1016/j.jhevol.2005.07.009. PMID 16271745.
Gabunia, L.; Vekua, A.; Lordkipanidze, D.; Swisher Cc, 3.; Ferring, R.; Justus, A.; Nioradze, M.; Tvalchrelidze, M.; Antón, S. C.; Bosinski, G.; Jöris, O.; Lumley, M. A.; Majsuradze, G.; Mouskhelishvili, A. (2000). "Earliest Pleistocene hominid cranial remains from Dmanisi, Republic of Georgia: Taxonomy, geological setting, and age". Science. 288 (5468): 1019–1025. doi:10.1126/science.288.5468.1019. PMID 10807567
Suwa G, Asfaw B, Haile-Selassie Y, White T, Katoh S, WoldeGabriel G, Hart W, Nakaya H, Beyene Y (2007). "Early Pleistocene Homo erectus fossils from Konso, southern Ethiopia". Anthropological Science. 115 (2): 133.doi:10.1537/ase.061203
"Morphological Adaptation to Climate in Modern Homo sapiens Crania: The Importance of Basicranial Breadth". Wioletta Nowaczewska, Pawe D browski1 and Lukasz KuŸmiñski.
Brain Size, Cranial Morphology, Climate, and Time Machines" (PDF). Kenneth L. Beals, Courtland L. Smith, and Stephen M. Dodd. 3 June 1984
Allen et al., 2002
Cosgrove KP; Mazure CM; Staley JK (2007). "Evolving knowledge of sex differences in brain structure, function, and chemistry". Biol Psychiatry. 62 (8): 847–55. doi:10.1016/j.biopsych.2007.03.001. PMC 2711771  . PMID 17544382.
El Mundo newspaper (in Spanish)
Bermúdez-de-Castro, José-María (May 23, 2015). "Homo antecessor: The state of the art eighteen years later".Quaternary International. Science Direct.doi:10.1016/j.quaint.2015.03.049. Retrieved December 10,2015.
Hominin DNA baffles experts Analysis of oldest sequence from a human ancestor suggests link to mystery population". Nature Publishing Group. December 4, 2013. RetrievedDecember 10, 2015
Falguères, Christophe; Bahain, J.; Yokoyama, Y.; Arsuaga, J.; Bermudez de Castro, J.; Carbonell, E.; Bischoff, J.; Dolo, J. (1999). "Earliest humans in Europe: the age of TD6 Gran Dolina, Atapuerca, Spain". Journal of Human Evolution. 37 (3–4): 343–352 [351]. doi:10.1006/jhev.1999.0326.PMID 10496991.
"The Last Human: A Guide to Twenty-two Species of Extinct Humans By Esteban E. Sarmiento, Gary J. Sawyer, Richard Milner, Viktor Deak, Ian Tattersall". Google Books. RetrievedDecember 10, 2015.
Homo antecessor: Common Ancestor of Humans and Neanderthals?". Smithsonian. November 26, 2011. RetrievedDecember 9, 2015
Homo antecessor". Australian Museum. November 26, 2011. Retrieved December 9, 2015.
Klein, Richard. 2009. "Hominin Disperals in the Old World" inThe Human Past, ed. Chris Scarre, 2nd ed., p. 108.
Bermudez de Castro; Arsuaga; Carbonell; Rosas; Martinez; Mosquera (1997). "A hominid from the Lower Pleistocene of Atapuerca, Spain: possible ancestor to neandertals and modern humans". Science. 276: 1392–1395.doi:10.1126/science.276.5317.1392. PMID 9162001.
Homo antecessor: Common Ancestor of Humans and Neanderthals?". Smithsonian. November 26, 2011. RetrievedDecember 9, 2015

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔