Monday, 8 January 2018

بل گیٹس کی بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن

بل گیٹس کی بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن لوگوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے علاوہ ایک ایسے بینک میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہے جہاں دنیا کا کوئی ارب پتی بھی اپنا اکاؤنٹ نہیں کھول سکتا۔

اس بینک میں سونا ، چاندی یا کرنسی کے بجائے " دیسی یا قدرتی بیجوں " کو جمع کیا جا رہا ہے۔
اس بینک کا آفیشل نام Svalbard Global Seed Vault ہے تاہم یہ Doomsday Seed Vault کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ڈومز ڈے سیڈ بینک Svalbard قطب شمالی سے 1100 کلو میٹر کے فاصلے پر آرکٹک نامی سمندر کے کنارے ایک بہت بڑی چٹان کے اندر واقع ہے۔ یہ علاقہ ناروے کے زیر ملکیت ہے۔

یہ غالباً دنیا کا محفوظ ترین بینک ہے۔ اس بینک کے دہرے بلاسٹ پروٖف دروازےہیں ۔ اسکے لاکر سخت ترین موٹے سٹیل کے بنے ہیں جبکہ بینک کی اندرونی دیواریں ایک میٹر کنکریٹ کی موٹی تہہ سے بنی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میں 30 لاکھ مختلف اقسام کے بیجوں کو محفوظ کیا جائیگا۔ اس بینک سے باہر ایسے سنسر لگے ہیں جو بینک سے باہر دور دور تک کسی بھی حرکت کو مانیٹر کر لیتے ہین۔

ایسا علاقہ جہاں بندہ نہ بندے کی ذات بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن اتنی بڑی سرمایہ کیوں کر رہی ہے وہ بھی اس پراجیکٹ میں ؟؟

شائد کچھ اور تفصیلات آپ کے گوش گزار کریں تو آپ کو معاملات سمجھنے میں آسانی ہو۔

اس بینک میں بل گیٹس کی پارٹنر جان ڈی راک فیلر کی کمپنی ہے۔ وہ جان ڈی راک فیلر جس کو بہت سے لوگ 31ویں درجے کا فری میسن قرار دیتے ہیں۔

بل گیٹس، راک فیلر کے علاوہ دنیا بھر میں جی ایم او بیج پیدا کرنے والی دنیا کی چند بڑی شخصیات اس بینک میں انکی پارٹنر ہیں۔ یہ سب ملکر آنے والے وقت کے لیے بیجوں کو محفوظ کر رہے ہیں جب دنیا سے "دیسی یا قدرتی بیج" ختم ہوجائیگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے دیسی یا قدرتی بیج کو ختم کرنے کی مہم کا روح رواں خود جان ڈی راک فیلر تھا اور اب اسکی کمپنی۔ نیز اسی بینک کے دوسرے دو پارٹننرز دوپانٹ اور سنگنٹا جی ایم او یا عرف عام میں " ھائی بریڈ" بیج کی دو دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں چلا رہے ہیں۔

ان کو توقع ہے کہ کچھ عرصے بعد دنیا بھر میں قدرتی بیج کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کے تمام کسان خود بیج پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاینگے۔ تب یہ دنیا بھر میں خوارک پر کنٹرول حاصل کر لینگے اور ان کے ڈومز ڈے بینک میں موجود بیجوں کے سامنے دنیا کی تمام سونا چاندی ہیچ ہوگی۔

بل گیٹس اور راک فیلر کے حوالے سے کچھ چیزیں اور بھی کافی دلچسپ ہیں۔ مثلاً

جان ڈی راک فیلر پر الزام تھا کہ وہ ایک ایسے پروگرام کو فنڈنگ کر رہا ہے جو جینیٹکلی انسانوں کی نئی نسل بنانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔

۔اس پراجیکٹ کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص کو سونپی گئی ہے اسکا نام Margaret Catley-Carlson ہے جو جان ڈی راک فیلر کے دنیا کی آبادی کم کرنے کے لیے بنائی گئ تنظیم کا چیرمین رہ چکا ہے جو 1952 سے دنیا بھر میں برتھ کنٹرول پر کام کر رہی ہے اور اس کا ہیڈ آفس نیویارک میں ہے ۔ یہ شخص ۔Suez Lyonnaise des Eaux نامی منرل واٹر بنانی والی دنیا کی ایک بہت بڑی کمپنی کا اہم عہدیدار بھی ہے۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنی والی ایک کمپنی Epicyte نے 2001 میں اعلان کیا کہ وہ مکئی کی ایسی قسم تیار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو مردوں پر اثر انداز ہو کربرتھ کنٹرول کر سکتی ہیں۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ اس پر مزید کام کرنا چاہتے ہیں تو جانتے ہیں ان کو یہ پراجیکٹ سپانسر کرنے کے لیے کون ملا ؟ DuPont اور Syngenta ۔۔ جو ڈومز ڈے سیڈ بینک کے پارٹنر ہیں ۔۔

ان کے علاوہ یو ایس ڈپارٹمنٹ آفس بھی انکی فنڈنگ کر رہا ہے۔

1990 میں ڈبیلو ایچ او نے ایک مہم چلائی جس میں Nicaragua, Mexico and the Philippines کی لاکھوں خواتین کو ٹیٹنس نامی بیماری کے خلاف ویکسین پلائی جو زنگ آلود کیل وغیرہ چبنے سے لگ سکتی ہے ۔ حیرت انگریز طور پر یہ ویکسین مردوں کو نہیں پلائی گئی حالانکہ مردوں کو بھی یہ بیماری لگنے کے اتنے ہی امکانات ہین ۔ بعد Comite Pro Vida de Mexico نامی ادارے نے ان ویکیسن کو ٹیسٹ کیا تو ان میں ایسے کیمیکل تھے جو خواتین میں پریگنینسی کے مسائل پیدا کر سکتے تھے۔

ان سب سے بڑھ کر بل گیٹس کی پولیو مہم ایک خطرناک عفریت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس پر بے شمار سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

صرف پاکستان میں دستوں کے امراض اور سانس کی تکلیف کے باعث ہر ایک منٹ میں ایک بچہ وفات پا جاتا ہے۔ ہیپا ٹائیٹس کے سبب ہر سال چار لاکھ بچے لقمہ اجل بنتے ہیں اور پاکستان میں دس ملین سے زائد لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کی تحقیق سن دو ہزار گیارہ کے مطابق پاکستان افغانستان اور نائیجیریہ میں پچیس کروڑ میں سے صرف چھ سو پچاس بچے پولیو کے مرض میں مبتلا تھے !

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن امراض کی وجہ سے لاکھوں انسان ہلاک ہو رہے ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آ رہے اور چھ سو پچاس بچوں میں پولیو کی وجہ سے یہ ویکسن زبردستی تمام ممالک میں بچوں کو پلائی جا رہی ہے اور اس پر بل گیٹس کی 60 ارب ڈالر کی دیوہیکل " فلاحی تنظیم " کام کر رہی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟

نائیجیرین فارماسیوٹیکل سائنٹسٹ ڈاکٹر ہارونا کائیٹا کے مطابق یہ لوگوں کو بانجھ بنانے کی مہم ہے۔

ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮈﺭﺍﭘﺲ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﯾﻮﻧﯿﺴﯿﻒ) UNICEF) ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﮦ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ 1985 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺳﻄﺢ ﭘﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮈﺭﺍﭘﺲ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ،ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﮩﻢ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ ﺗﮭﺎ ’’ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﻧﺪ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ‘‘ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻧﻌﺮﮦ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ’’ ﺩﻭ ﺑﻮﻧﺪ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮈﺭﺍﭖ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ‘‘ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺏ ﺳﺎﻝ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 40 ﺑﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﺍﺋﺪ ﯾﮧ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻼﺋﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ﺁﺧﺮﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ؟

امریکہ نے اپنے ملک میں انڈین بندر کی کلیجی سے بنائی جانے والے قطروں پر مجبوراً پابندی لگا دی کیونکہ ہو لوگوں میں دماغی کیسنر، فالج اور کئی طرح کے امراض پیدا کر رہی تھی۔ یہ ایک بہت ہی لمبا موضوع ہے اور صرف بل گیٹس کی پولیو مہم پر نیٹ پر بے شمار مواد دستیاب ہے۔

شائد بل گیٹس اور راک فیلر کچھ ایسا کررہے ہیں اور کچھ ایسا جانتے ہیں جو ہم نہیں جانتے۔

اب ذرا واپس آتے ہیں " ڈومز ڈے سیڈ بینک" کی طرف۔۔۔

سنا ہے کہ اس حوالے سے حضورﷺ کی ایک حدیث بھی موجود ہے جس کے مطابق قیامت قریب آئیگی تو ایک دانے کے لیے لڑائی ہوگی۔(صاحب علم حضرات سے تصحیح کی درخواست ہے) ذرا غور کجیے ایک دانے سے کسی انسان کی بھوک نہیں مٹ سکتی پھر اسکی اتنی اہمیت کیسے ہو سکتی ہے کہ اس کے لیے جنگ ہو ؟

شائد اس لیے کہ جنگ کرنے والوں کوعلم ہوگا کہ دانے کے حصول کی صورت میں وہ اناج کی ری پرڈکشن کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں جو ان کو " کسی" کی محتاجی سے نجات دلا سکتی ہے۔

اللہ ان کسانوں پر رحم کرے جو دیسی بیج اگاتے ہیں اور ان پر رحم کرے جو اس کو محفوظ کر رہے ہیں۔

ویسے ذرا سبزی والے کے پاس جائیے اور چیک کیجیے کہ کون کونسی " دیسی سبزی" دستیاب ہے۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔