Monday, 15 January 2018

کیا ’’ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ‘‘ فزیالوجسٹ ‘‘ تھے ، ’’نیورولوجسٹ‘‘ تھے یا پھر ’’ آرکیالوجسٹ ‘‘ تھے؟ منکرین حدیث و ملحدین کا حدیث پر اعتراض کا جواب

کیا ’’ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ‘‘ فزیالوجسٹ ‘‘ تھے ، ’’نیورولوجسٹ‘‘ تھے یا پھر ’’ آرکیالوجسٹ ‘‘ تھے؟
یہ سوال بہت اہم ہے۔!!!
جدید دور کی ’’ میڈیکل سائنس ‘‘ نے انسانی جسم کی ساخت اور طبیعت پر بہت تحقیق کی ہے۔ انسان کے جسم میں ’’ ریڑھ کی ہڈی ‘‘ یعنیBackbone بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ہڈی ایک ’’ Bone Chain ہے جس کی بیرونی ساخت کوVertebra کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ کی پچھلی جانب’’ سر کے نیچے سے  پیٹھ‘‘ تک جاتی ہے۔Vertebra کے عین وسط میںSpinal Cord روٹ چلتی ہے۔ جس کو چھوٹی چھوٹی آنتوں نماSpinal Nerves  نے گھیرا ہوتا ہے۔  میڈیکل سائنس کہتی ہے کہSpinal Cord دماغ میں بننے والے ارادوں کو جو ’’ ویژنری ‘‘ ہوتے ہیں  سگنلز کی شکل میںNerves کے ذریعے اس حصے تک پہنچاتا ہے جس کو کام کرنا ہوتا ہے۔
اگر یہSpinal Cord یعنی حرام مغزکسی بیماری یا حادثہ کی وجہ سے کمپریس ہو جائے تو یقیناً اس کی وجہ سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس میںMemory loss  یعنی یاد داشت کا چلے جانا ، پٹھوں یعنیMussels کا انتہائی کمزور ہو جانا ۔۔۔ اور قوت مدافعت کا ختم ہو جانا ہے۔ جس سے جسم لاغر ، کمزور اور بے جان ہونا شروع ہو جاتا ہے۔۔
……………
یہ ساری بات سمجھانے کا مقصد کیا ہے¿
دھریئے سوال کرتے ہیں کہ ’’ انسان کو کیسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا ، اور کیسے اس کے اعمال کے سارے ریکارڈ اس کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے¿
……………
یمن کی ’’صنعاء یونیورسٹی ‘‘ کے ’’ پروفیسر ڈاکٹر عثمان علی دجلانی ‘‘ اور ’’ شیخ عبدالماجد الزندانی‘‘ نے کچھ تجربات کیے۔ انہوں نےBack Bone کی دمچی جسےCoccyx  کہا جاتا ہے اور عربی زبان میں ’’عجب الذنب‘‘ کہا جاتا ہے۔ انکو ’’ برنر ‘‘ پر جلایا اور 10منٹ تک جلایا۔ اور اس کو ’’ صنعاء ‘‘ کی ’’ اولاکی لیبارٹری ‘‘ میں لے گئے اور ’’ پیتھولوجی ‘‘ کے ’’پروفیسر  صالح الاولاکی ‘‘ سے معائنہ کروایا گیا۔ تو حیران کن طور پرBONE TISSUES کے جو سیلCells تھے وہ شدید آگ کی وجہ سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئے۔  یہ تجربہ 2003کے رمضان المبارک کے مہینہ میں کیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ ریڑھ کی ہڈی ‘‘ کا نچلہ حصہ کبھی تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔ نہ اس کو گھن لگ سکتی ہے نہ ہی مٹی کھا سکتی ہے۔ اور اس کے ذریعے سے انسان کی پسند نہ پسند ، اعمال و افعال ، کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ جرمنی کے نوبل انعام یافتہ سائنسدانHans Spemann نے بھی 1933میں تجربات کیے تھے ۔ اور اس کا ماننا تھا کہ دماغ سے لیکر ’’دمچی ہڈی ‘‘ تک میں موجود مادہBone Tail  میں یہ صلاحیت پیدا کر دیتا ہے کہ اس میں ڈیٹا سٹوریج ہو ،اور انسان کی نفسیات کا معائنہ کیا جا سکے۔
اب اس حدیث پر غور کیجیئے!……
………………
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ""مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعُونَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعُونَ شَهْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعُونَ سَنَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً، ‏‏‏‏‏‏فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ، ‏‏‏‏‏‏لَيْسَ مِنَ الْإِنْسَانِ شَيْءٌ إِلَّا يَبْلَى إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"".
……………
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان چالیس فاصلہ ہو گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں پھر شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ شاگردوں نے پوچھا کیا چالیس سال مراد ہیں؟ کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ جس کی وجہ سے تمام مردے جی اٹھیں گے جیسے سبزیاں پانی سے اگ آتی ہیں۔ اس وقت انسان کا ہر حصہ گل چکا ہو گا۔ سوا ریڑھ کی ہڈی کے اور اس سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔
…………………
صحیح بخاری:4935
…………………
اب سوال یہ ہے ۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ ’’ راوی خود سے روایتیں گھڑتے تھے ‘‘ تو پھر یہ کیسا اتفاق ہے کہ انسان کے جسم کی سائنس کے متعلق اتنے اہم انکشافات 1400سال قبل کر دیئے گئے…¿  اور 1400سال بعد وہ باتیں سائنسی تحقیق میں سچ ثابت ہونے لگیں۔¿ کیا ابو ھریرہ ؓ فزیالوجسٹ ، آرکیالوجسٹ یا نیورولوجسٹ تھے¿
دھریوں سے سوال یہ ہے۔ کیا اتنی اہم سائنسی دریافت کو جسے سیدنا ابو ھریرہؓ نے رسول اللہ ﷺ سےمنسوب کیا یا روایت کی وہ کونسی ذات تھی جس نے انسانی جسم کے اندر موجود اتنی اہم معلومات رسول اللہ ﷺ کو بتا دیں۔¿ جبکہ تب میڈیکل سائنس بھی اتنی ترقی یافتہ نہ تھی¿¿ کہ انسانی جسم کو دفانے کے بعد مشاہدہ کیا جاتا کہ جسم کی کونسی ہڈی بچ جاتی ہے¿
قادیانیوں سے سوال ہے کہ اگر وہ قرب قیامت کی نشانیوں اور سائنسی انکشافات پر مبنی ابوھریرہ ؓ کی روایات کو دھریوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو ابو ھریرہ ؓ کی صحیح الاسناد روایات کو رد کرنے کی دلیل کیا ہے¿
ملحدین کو دعوت فکر!!!!!
ازقلم: عبدالسلام فیصل

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔