Monday, 8 January 2018

سرمایہ داریت نے امریکی عوام کو کیسے جکڑا؟

سرمایہ داریت نے امریکی عوام کو کیسے جکڑا؟ لاس ویگاس سے۔۔۔ اکمل سومرو

امریکہ میں سرمایہ داریت بالکل اپنی خالص شکل میں موجود ہے اور اس کا مشاہدہ صرف یہاں کے بڑے بڑے شہروں میں رہ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ سرمایہ داریت نے امریکی عوام کو منظم پالیسی کے تحت کنٹرول کر رکھا ہے۔ سرمایہ داریت بے حس ہوتی ہے اور اس کا انسانی ہمدردی کے ساتھ کوئی سروکار نہیں، یہ دونوں چیزیں یہاں مشاہدہ کرنے کو ملی ہیں۔
امریکیوں کو بذریعہ سسٹم وہ تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں جو جدید معاشرے کی ضرورت ہوتی ہیں لیکن یہاں کچھ بھی مفت نہیں ہے اور نہ ہی سرمایہ داریت میں فلاحی ریاست کا کوئی نظریہ ہوتا ہے۔
میں اس وقت شگاگو میں ہوں یہ وہی شہر ہے جہاں کے مزدوروں نے 80 سال پہلے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی تھی، آج بھی یہ ظلم ویسے ہی قائم ہے لیکن انداز جدید ہوگیا ہے۔ امریکیوں پر بے جا ٹیکس یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اشیاء کی خریداری ہو یا پھر کھانے پینے کا سامان ٹیکس امیر و غریب کے لیے ایک جیسا ہی ہے۔ پیاس لگی ہے تو ایک ڈالر کی ہاف لیٹر بوتل ملتی ہے، ریاست نے نہ تو واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا رکھے ہیں اور نہ ہی پینے کو مفت پانی ملتا ہے۔
ویسے تو حکومت نے کام کرنے کے اوقات 8 گھنٹے مقرر کر رکھے ہیں لیکن زندگی مشکل ہونے کے باعث اوسطا یہ کام 12 سے 14 گھنٹے ہی کرنا پڑتا ہے۔ نسلی امتیاز خاص طور پر سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ جو فرق رکھا گیا ہے وہ جا بجا نظر آتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیورز ہوں یا پھر ہاٹلز میں صفائی کے کاموں پر معمور افراد سبھی سیاہ فام امریکی ہیں۔ پاکستان میں یہ کام عیسائیوں سے لیا جاتا ہے اور امریکہ میں یہ کام کالوں سے لیا جاتا ہے۔
یہ جو ہمیں تصاویر میں اور ویڈیوز میں نیو یارک، واشنگٹن اور شگاگو جیسے شہروں کی پُر شکوہ بلند وبالا عمارتیں نظر آتی ہیں یہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کے سیون سٹارز، فائیو سٹارز ہوٹلز ہیں یا پھر ارب پتی افراد کے کمرشل پلازے۔ ان عمارتوں میں اکثریت ہوٹلز کی ہے جہاں دُنیا بھر سے سیرو تفریح کی غرض سے آنے والے افراد عارضی رہائش اختیار کرتے ہیں۔
متوسط امریکی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ چھوٹے پیمانے پر اپنا ذاتی کاروبار شروع کر سکے۔ یہاں جو کچھ بھی ہے وہ صرف سرمایہ داروں کے لیے ہے۔ سرمایہ داریت نے عام امریکی کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے امریکیوں کو جو بھی سہولیات فراہم کی گئی ہیں وہ خود ان کے ٹیکس کی جمع کردہ رقم ہے۔ سرمایہ داریت کے سسٹم نے امریکیوں کو بری طرح جکڑ رکھا ہے جس کے باعث اس استحصالی نظام کے خلاف آواز اُٹھانے کے لیے عام آدمی کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
سرمایہ داریت نے پھر کمال یہ کیا کہ امریکیوں کو بذریعہ اوپن کلچر آزادی فراہم کی گئی یہاں جنس کی تفریق کو ویسے تو نظام نے اپنے مفاد کے لیے ختم کیا لیکن اس فرق ختم کر کے جو آزادی دی گئی ہے یہ جدید سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے اس آزادی سے امریکی نظام یعنی کیپٹل ازم کو ہی تحفظ پہنچتا ہے۔
بڑی بڑی کمپنیوں نے پر کشش پیکجنگ کے ذریعے ہر قسم کی اشیاء بڑے بڑے سٹورز پر رکھی ہیں کسی بھی چیز کو اُٹھا کر دیکھیں اس کی پشت پر
کسی بڑی کمپنی کا نام ہوتا ہے۔ امریکہ اس وقت ٹورازم کے ذریعے سالانہ اربوں ڈالرز کما رہا ہے ہر بڑے شہر میں بڑے بڑے ہوٹلز، تفریحی مقامات پھر ان سے جُڑی دیگر انڈسٹری کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
فوڈ انڈسٹری، ایک ریاست سے دوسری ریاست سفر کے لیے جہازوں کا کاروبار، ٹیکسیاں، شاپنگ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن قابل غور یہ ہے کہ ٹورازم سے جڑی انڈسٹری کے مالکان بھی یہاں کے بڑے سرمایہ دار ہیں۔ عام امریکیوں میں سکول ایجوکیشن سے آگے اعلیٰ تعلیم کا رجحان بہت محدود ہے سکولز ایجوکیشن کے بعد ہی روزگار کی تلاش شروع ہوجاتی ہے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضروریات اور سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ اداروں میں افرادی قوت کی کھپت دُنیا بھر سے یہاں آنے والے سائنسدانوں اور محقیقین سے ہی پوری ہوجاتی ہے اور ان اداروں کے لیے فنڈنگ یہاں کی بڑی بڑی کارپوریشنز کرتی ہیں۔
شگاگو سے ہمارا جہاز لاس ویگاس کے لیے اُڑان بھرتا ہے اور ٹھیک تین گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم لاس ویگاس پہنچتے ہیں۔ ایئر پورٹ کی حدود سے باہر نکل کر جب اپنے ہاٹل کی طرف روانہ تھے تو چمکتی دمکتی سڑکیں رات کو بھی دن کا سماں پیش کر رہی تھی۔ اپنے ہاٹل جیسے ہی پہنچے تو یہاں نائٹ پارٹی کا اہتمام کیا جارہا تھا، گلیمر کی بھرپور جھلک، کپڑوں سے جُدا پُرکشش نسوانی حُسن، مے خانے، کیسنوز وغیرہ دیکھ کر پہلے تو سب کچھ فلمی دُنیا لگی لیکن پھر احساس ہوا کہ نہیں یہ حقیقی زندگی ہے یہی لاس ویگاس کی عالمی سطح پر شہرت اور پہچان ہے۔مادیت میں ڈوبی زندگی میں مست نوجوانوں کو دیکھ کر بہت سارے سوالات ذہن میں پیدا ہوئے۔
امریکہ کا سماج آج سے 50 سال پہلے بھی ایسا تھا؟ کیا عالمی سطح پر کوئی تہذیب یافتہ سماج کی تاریخ کا کلچر بھی ایسا رہا؟ کیا عالمی سطح پر سرمایہ داریت کا راج ہونے سے پہلے انسانی بدن کو کپڑوں سے یوں ہی آزادی میسر تھی؟ پھر کیا خود یورپ کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ بھی ایسے کلچر کو پروان چڑھاتی رہی جس میں انسانی اقدار کا دائرہ مجموعی طور پر معاشرے میں صرف انسانی جسم کی نمائش کے گرد گھومتا تھا؟ لاس ویگاس کے دیوہیکل ہاٹلز میں کمروں کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار بتائی جاتی ہے اور ان کمروں میں سارا سال رونقیں برقرار رہتی ہیں۔شاید ایسا نہیں ہوگا اگر ماضی میں ایسا کچھ ہوگا بھی تو وہ انتہائی محدود پیمانے پر ہوگا۔ لیکن اب امریکی نوجوان کی زندگی گلیمر کے گرد کیوں گھوم رہی ہے یا اسے گھوما دیا گیا ہے؟ لاس ویگاس میں اپنے ہوٹل وائن سے باہر جب رات گئے تک اس شہر کی روشنیوں کو دیکھنے کو نکلے تو اندازہ ہوا کہ کیپٹل ازم نے کس طرح نوجوانوں کو اپنے فریب میں جکڑ رکھا ہے اور یہ مصنوعی زندگی صرف شہوت کے گرد ہی گھومتی ہے جس کا انسانی ہمدردی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔
بنیادی طور پر امریکہ کی نوجوان نسل جو 20 سال سے لے کر 40 سال تک کے پیٹے میں ہے اسے تفریح کے نام پر یوں مصروف کر دیا گیا ہے کہ وہ خود قابل رحم ہیں، سارا ہفتہ سرمایہ داریت کے اُصولوں کی غلامی میں محنت کش بن کر کام کرتے ہیں اور پھر ہفتے کے اختتام پر اسی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والی کمپنیوں کو اپنی کمائی واپس لوٹا دیتے ہیں یوں یہ چکر کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ نوجوان نسل جو بنیادی طور پر کسی بھی سماج میں ظلم کے خلاف مزاحمتی آواز بنتی ہے اور جبر کے خلاف جدوجہد کرتی ہے اس نسل کو جسمانی تفریح کے کاروبار میں مصروف کر کے اس نظام کو تقویت دی جارہی ہے۔ امریکیوں کو فلم انڈسٹری اور فیشن انڈسٹری کے ذریعے سے لبرل ازم کے اس قسم کے نظریات
سیکھائے گئے ہیں تاکہ وہ اسے اپنی زندگی کا مستقل حصہ تصور کر سکیں۔ پھر ان نظریات سے جُڑی عالمی سطح پر این جی اوز، سکالرز کو بھی پرموٹ کیا جاتا ہے تاکہ اس طرح کے آزاد سماج پر مبنی تصورات کا پھیلاؤ برقرار رکھا جائے۔
لاس ویگاس کی عالی شان عمارتوں کے مالکان میں بلین ڈالرز افراد شامل ہیں جن کی بڑی بڑی کارپوریشنز ہیں اور یہی کارپوریشنز ہی امریکیوں کو کنٹرول کر رہی ہیں۔ ان کارپوریشنز کے پاس امریکیوں کو بذریعہ لون قرض تلے دبانے سمیت قرض پر ہی ذاتی گھروں کی سہولت تک فراہم کرنے کے منصوبے موجود ہیں جن کا مقصد صرف امریکیوں کو اس استحصالی نظام میں قید کرنا ہے۔ بظاہر جسمانی آزادی دلکش نظر آتی ہے لیکن یہاں کی زندگی بہت کٹھن ہے جس کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد عام اور متوسط امریکیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا احساس ہوتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔