Tuesday, 9 January 2018

خالد تھتھال کا آپریشن

 ﺁﭘﺮﯾﺸﻦﺍﺭﺗﻘﺎﺋﮯ ﻓﮩﻢ ﻭ ﺩﺍﻧﺶ
٭ مجھے انتہائی خوشی ہوگی اگر خالد تھتھال اس پوسٹ کے جواب میں ہم پر قانونی کارروائی کرے ، کم از کم اس طرح کوئی چوہا تو اپنے بل سے نکل کر ہمارے سامنے آئے گا :) ۔
٭٭ اس پوسٹ کو گروپ کے 40ہزار ممبرز مکمل ہونے کا پیشگی تحفہ سمجھا جائے:)
٭٭٭ پوسٹ تقریباً 3ماہ پہلے ڈیزائن کی گئی تھی اس لیے موجودہ منظر نامے سے کچھ ہٹ کر لگے گی۔
٭٭٭٭ اپلوڈ کی گئی کسی تصویر پر علیحدہ سے کمنٹ نہ کریں بلکہ صرف پوسٹ پر کمنٹ کریں جہاں تمام تصاویر اور کمنٹس نظر آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭ 7امیجز پوسٹ میں جبکہ بقیہ کافی سارے کمنٹس میں اپلوڈ کیے جائیں گے اس لیے تسلی سے دیکھیں ۔
٭٭٭٭٭٭ نوٹ : ہم خالد تھتھال کی بیٹی دیپیکا تھتھال کی کچھ فحش تصاویر یہاں پر ضرور جاری کریں گے کیونکہ یہ خبیث اور ارذل الخلائق شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نیز حوروں کے نام پر ہمیشہ گندی تصاویر اپلوڈ کرتا اور اپنے فعل کو جائز قرار دیتا رہا ہے ، چنانچہ اب ہم اسے دکھائیں گے کہ جب اپنی محبوب ہستی کو سرعام رسوا کیا جائے تو دل پر کیا بیتتی ہے ؟؟ نیز جب اس کی اسلام دشمن بیٹی کی تصاویر دیکھ کر ملحد نوجوان خود کو "ہلکا"کریں گے تو یقیناً خالد کو اچھے سے اندازہ ہوگا کہ کسی کی تضحیک اور دل آزاری کے لیے فحش مواد اپلوڈ کرنے سے دوسرے کے جگر کے کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔
چنانچہ مسلم بھائیوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ ہمیں اخلاقیات کے بھاشن ہرگز نہ سنائے جائیں کیونکہ یہاں فیس بک پر دودھ پیتے بچے نہیں بیٹھے جو تصاویر دیکھ کر بگڑ جائیں گے اور جنہوں نے ایسا مواد دیکھنا ہوتا ہے وہ یقیناً ہماری پوسٹ کے منتظر نہیں ، ان کے لیے پہلے سے انٹرنیٹ پر بہت کچھ موجود ہے ۔بس اتنا یاد رکھیں کہ یہ ایک جنگ ہے اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ۔
میں نے جب پہلی بار اس کی شکل دیکھی تھی تو دل نے بےاختیار گواہی دی کہ یہی وہ رذیل فطرت آدمی ہے جس نے سوشل میڈیا پر نئی مسلمان نسل کو کافر بنانے اور محمد الرسول اللہ ﷺ و اللہ عزوجل کی گستاخیوں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ۔ اس یقین کی وجہ میرا اس کے بارے میں پہلے سے قائم تصور تھا جو کہ اس سے پنجہ آزمائی کے دوران ملنے والی معلومات سے قائم ہوا تھا۔ اتفاق سے یہ تصور سو فیصد درست ثابت ہوا تھا یعنی ادھیڑ عمر کا گٹھے ہوئے اور جم جوائن کرنے کی وجہ سے مضبوط جسم والا گنجا شخص ، نحوست جس کے بشرے سے عیاں ہو اور وہ جوان بچوں کا باپ بھی ہو ۔
جی ہاں !!! آج ہم آپ کو اردو زبان میں فیس بکی ملحدین کے اہم پیشوا "خالد تھتھال عرف غلام رسول عرف گاما میراثی "سے متعارف کروائیں گے ۔
اس کا اصل نام خالد تھتھال ہے جس کا آبائی گاؤں کھاریاں سے 4کلومیٹر دور ایک گاؤں "مہمند چک"ہے جبکہ ایک مکان کھاریاں کینٹ میں تھا جسے یہ 1970میں چھوڑ کر کینیڈا شفٹ ہوگیا ۔ ایک فلیٹ ترکی اور ڈنمارک میں جبکہ موجودہ رہائش 'ناروے 'کے شہر'اوسلو 'کے انتہائی پرفضا مقام یعنیBrekkeveien 14,088 , Oslo میں ہے نیز رہائش گاہ کے دو نمبرز یعنی
4796623570+ (غلام رسول والی آئی ڈی اسی نمبر پر بنائی گئی ہے) جبکہ دوسرا 4741476722+ ہیں (گھر کی لوکیشن اور فضائی منظر کی تصاویر ساتھ ہی اپلوڈڈ ہیں جبکہ بقیہ کمنٹس میں)۔
اس کی بیوی ایک افغانی ہے جبکہ اوسلو میں ایک گرل فرینڈ ہے البتہ انتہائی عیاش فطرت آدمی ہے اس لیے آئے دن انگریزنیوں کے ساتھ منہ کالا کرنا اس کی روٹین میں شامل ہے ۔ خالد جب پاکستا ن سے گیا تو اس نے کینیڈا میں مشرقی ثقافت کا نمائندہ بن کر سوشل ایکٹویٹیز اختیار کیں اور مشرقی کلچر جیسا کہ میوزک یا فلم وغیرہ کو پروموٹ کرنا شروع کیا۔
اس کے ابھی تک چارفیس بک اکاؤنٹس نظر آئے ہیں جن میں سے ایک اکاؤنٹ بنام "پیر مغاں "بند ہوچکا ہے جبکہ بقیہ تین کے لنکس یہ ہیں:
اصلی اکاؤنٹ بنام "خالد تھتھال "۔https://www.facebook.com/khalid.thathaal
گستاخیاں کرنے کے لیے بنایا گیا مشہور اکاؤنٹ "غلام رسول "۔https://www.facebook.com/Maharishi4
جبکہ تیسرے اکاؤنٹ بنام "طیب سلیم "۔ کا لنک یہ ہے: https://www.facebook.com/profile.php?id=100008260681059
غلام رسول والا اکاونٹ اس نے اپنے کسی دوست کے پاسپورٹ سے فیس بک پر رجسٹرڈ کروایا ہوا ہے ۔۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ لوگ ثقافت کا دوسرا مطلب صرف تفریح اور کنجر پن ہی سمجھتے ہیں لہٰذا خالد نے بھی کینیڈا میں مشرقی کلاسیکل میوزک وغیرہ کو پروموٹ کرنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی ایسی دیگر قسم کی سرگرمیاں نبھائیں ۔۔ آہستہ آہستہ یہ وہاں مشہور ہوا پھر اس نے اپنے بچوں کو بھی "آرٹ"کے نام پر کنجر پن کی ہی تعلیم و تربیت دی اور انہیں مکمل طور پر اپنے رنگ میں رنگنا شروع کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ آباؤ اجداد کے ہندو ہونے اور اپنی رگوں میں ہندو راجاؤں کا خون دوڑنے کی وجہ سے خالد کو ہمیشہ سے ہی 'ہندو مت 'سے انسیت رہی اور یہ اپنے دل سے ہندوستا ن و ہندومت کی محبت نہ نکال سکا ۔
اس کا تعلق راجپوتوں کی ایک ذیلی شاخ "تھتھال "سے ہے جو کہ ایک ہندو راجہ "کرن سنگھ "کی اولاد ہے ۔ کرن سنگھ ایک 'سوریا ونشی 'راجپوت تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ غلام رسول والی آئی ڈی کے لنک میں اس کا نام "مہا رشی 4"ہندوؤں سے محبت کے اظہار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یقیناً آپ کو اب خالد تھتھال کا آبائی گاؤں کھاریاں میں ہونے کی وجہ بھی سمجھ آ گئی ہوگی کیونکہ تھتھال قوم پنجاب کے مختلف علاقوں جیسا کہ گجرات ، سیالکوٹ ، راولپنڈی اور کشمیر کے ساتھ ساتھ کھاریاں میں بھی آباد ہے۔ البتہ تحصیل کھاریاں کی سرکاری دستاویزات میں اس قوم کا نام "تھو تھال "درج ہے جو کہ "تھو تھو"سے نکلا ہے(واقعی خالد، تھوتھو کے ہی قابل ہے:D )
بچے:
ایک بیٹا ہے عادل تھتھال ( موجودہ عادل خان ) جبکہ ایک بیٹی ہے "دیپیکا تھتھال " (موجودہ دیا خان ) ۔ عادل ،ناروے کا ڈانس مقابلہ جیت کر مشہور ہوا اور سیلیبرٹی بن گیا چنانچہ اب ڈانس شوز میں بطور جج فرائض سرانجام دیتا ہے ۔ بیٹے کا کریئر کافی محدود ہے یعنی ایک ہی فیلڈ میں اور وہ بھی مخصوص حد تک ۔۔ البتہ بیٹی نے آغاز گانے سے کیا تھا لیکن پھر گانے کے بعد ماڈلنگ پھر بطور پروڈیوسر مختلف فلمز اور ڈاکومنٹریز وغیرہ بنانے لگی ۔ جبکہ اب اسے اسلام مخالف کام کی وجہ سے اقوام متحدہ وغیرہ کے سیمینارز میں بطور سپوکس پرسن بھی بلایا جانے لگا ہے ۔
دیپیکا کو بچپن سے ہی اعلٰی کلاسیکل موسیقی کی تعلیم دلوائی گئی ہے چنانچہ اس نے استاد فتح علی خان ( پٹیالہ گھرانہ) کے علاوہ میاں شوکت حسین نیز اور بھی بڑے بڑے میراثی استادوں سے تعلیم حاصل کی ہے ۔ (خالد خود بھی اعلیٰ درجے کا میراثی ہے)۔
دیپیکا کو اپنا نام تبدیل کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج سے تقریباً 12سال پہلے جب اس نے بطور سنگر اپنے کریئر کا آغاز کیا تو اس کی خواہش میڈونا کی طرح مشہور ہونے کی تھی ۔۔چنانچہ اس نے انگریزو ں میں خود کو بطور" Muslim Madonna "تسلیم کروانے کے لیے گانے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کی نمائش بھی کرنا شروع کی ۔۔ ایک مسلم لڑکی کو انتہائی فحش لباس میں دیکھ کر ناروے کی مسلم عوام بھڑک گئی اور انہوں نے اس کو سخت نتائج کی دھمکی دی ۔ چنانچہ اس وقت کےThe Sunday Times میںNews Review کے تحت دیپیکا کی تصویر کے ساتھ خبر بھی لگی تھی کہPop star in the hate zone۔
لہٰذا لوگوں کے احتجاج سے خوف زدہ ہو کر اول تو دونوں بہن بھائیوں نے اپنا نام بدلا چنانچہ دیپیکا تھتھال سے دیا خان اور عادل تھتھال سے عادل خان بن گئے پھر اس کے بعد انہوں نے انگلینڈ ہجرت کرلی البتہ گامے میراثی نے بچوں پر مشکل وقت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی داشتہ (گرل فرینڈ )کی آغوش کو زیادہ اہمیت دی اور یوں وہ ناروے میں ہی رہ گیا ۔
٭ سرگرمیاں:
اگر اس خاندان پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ اسی قسم کے پاکستانیوں میں سے ہیں جن کے بارے ایک امریکی وزیر نے کہا تھا کہ"پاکستانی تو پیسے کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ دیں "۔ اس خاندان کی ہسٹری بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے پیسہ کمانے کے لیے خود کو مکمل طور پر انگریزوں کی گود میں ڈال دیا اور انہیں ہر ممکن خوش کرنے کی کوشش کی ۔۔
چنانچہ دیپیکا تھتھال نے صرف جسم کی نمائش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انگریزوں کو مزید خوش کرنے کے لیے اسلام و پاکستان مخالف ڈاکومنٹریز بنانا شروع کردیں ( بالکل شرمین عبید چنائے کی طرح ) نیز اسی طرح مزید ایسی خدمات سرانجام دی گئیں جن سے انگریز خوش ہوں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج وہ دیپیکا کو بطور "روشن خیال مسلم لڑکی "پروموٹ کرنا شروع ہوگئے ہیں حتٰی کہ اقوام متحدہ کے فورمز تک میں اس کی رسائی ہوگئی ہے۔
دیپیکا نے2007میں ایک ڈاکومنٹری ٹائپ فلم بنامBanaz a Love Story
یعنی "محبت کی شادی اور غیرت کی بنیاد پر اس کی مخالفت کرنے اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بنائی جسے 2013میں ایمی اوارڈ کے علاوہ 4مزید اوارڈز دیے گئے ۔ یونہی 2015میں جہاد کے خلاف ڈاکومنٹری بنامJihad: A Story of the Others
بنائی جسے ناروے کی وزارت فنون لطیفہ و ثقافت نے اوارڈ دیا اور اسی طرح برٹش اکیڈمی نے بھی اوارڈ سے نوازا۔
دیپیکا نے 2007سے ایک مہم بھی شروع کی ہوئی ہے جس کے مطابق مسلم خواتین کو انکی قوت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ان میں فنون لطیفہ کے نام پر فحاشی کو فروغ دینے کی ذہن سازی بھی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب خالد تھتھال کا کام بس یہ ہے کہ وہ ہر وقت اسلام کے خلاف مواد تیار کرتا رہے اور ایسی باتوں پر نظر رکھے جو کہ اسلام و مسلمانوں کے حق میں جاتی ہوں ۔ چنانچہ یہ شخص اسلام کے بغض میں اس حد تک اندھا ہے کہ یہ وکی پیڈیا کی مینجمنٹ سے اس بات پر لڑ پڑا تھا کہ انہوں نے ناروے کی تاریخ میں اسلام پسندوں کو زیادہ کیوں ظاہر کیا ہے ۔اس کے نزدیک پاکستانی دنیا کی ذلیل ترین قوم ہیں جن سے خود کو منسوب کرنا اسے قطعاً گوارا نہیں ۔ اس کے علاوہ اس شخص کے پاکستان میں سیکولرازم کو پھیلانے والی سرکردہ شخصیات سے بھی گہرے مراسم ہیں۔
یہ کافی حیرت انگیز بلکہ مضحکہ خیز بات ہے کہ جو شخص کروڑوں لوگوں کو مذہب بیزار بنانے اور عقیدے کی بندشوں سے آزاد ہونے کی کیمپئن چلا رہا ہو، وہ مردود خود دنیا کے لغو اور بیہودہ ترین توہمات کے مجموعے یعنی ہندومت کی خدمت میں سرگرداں ہو اور ہندومت کے لیے علمی حوالے سے وہ قرض چکائے جن کا خیال کبھی خود ہندوؤں کو بھی نہیں آیا چنانچہ موصوف ہندو مذہبی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کرتے بھی پائے گئے ہیں ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اس سب منظرنامے سے فیس بکی ملحدین کو اپنے گال پر ایک اخلاقی طمانچہ ضرور محسوس کرنا چاہیے جو کہ یقیناً وہ کبھی نہیں کریں گے ۔۔
بہرحال بقول خالد تھتھال وہ ایک گوشہ نشین شخص ہے جو بس اپنے کام میں ہی جتا رہتا ہے ۔
چنانچہ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قدر واضح ثبوتوں کے بعد وہ عالمی قوانین کے تحت ایسے ننگ ملک و ملت غداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کر کے انہیں گرفتار کرے نیز اگر پاکستان آرمی واقعی پاکستان سے مذہبی شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو وہ پہلی فرصت میں ایسے اخبث الناس مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے وگرنہ ممتاز قادری پیدا ہوتے رہیں گے اور پاکستان تشدد کی آگ میں جھلستا رہے گا ۔
اس کے ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دوں گا کہ ان لوگوں کے خلاف ممبران خود بھی سائبر کرائم اور ایف آئی اے کے محکموں کو درخواست دیں ۔۔
از: #zohaib_zaibi

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔