Sunday, 14 January 2018

لبرل میڈیا نے تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ نہیں دکھایا

لبرل میڈیا نے تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ نہیں دکھایا
یہ وہی میڈیا ہے جس نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جنازے کی خبر نہیں دی ،عاشق رسول شہید ممتاز قادری کا جنازہ پاکستان کی تاریخ میں قائد اعظم اور ضیاء الحق کے جنازوں سے بڑا جنازہ تھا مگر میڈیا کو یہ جنازہ نظر نہیں آیا کیونکہ یہ اصلاً لبرل ازم،سیکولرازم کا جنازہ تھا لہذا ___وہ کیسے جنازہ دکھاتے کہ پاکستان میں عشق رسول آج بھی زندہ ہے اور سیکولر اور لبرل ازم کی علمیت کو کوئی تسلیم نہیں کرتا ___ پاکستان کے سب مسلمان آزادی کے دشمن ہیں یعنی میڈیا ، لبرل ازم،سیکولر ازم کے دشمن ہیں محمد عربی کے غلام ہیں۔جاوید غامدی صاحب نے عاصمہ چوہدری کو مشال کے مسئلے پر انٹرویو دیتے ہوئے اسی دکھ ،غم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کے شاعر،ادیب،سیاستدان،حکمران سب توہین رسالت کرنے والے کو ہی مجرم سمجھتے ہیں اسکے قاتل کو نہیں ،شاتم کے قاتل کی عزت کرتے ہیں،جنازے میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں ۔
الحمدللہ یہ ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی تہذیب ہے ۔غامدی صاحب کو اس کا شدید صدمہ ہے کہ ان کے لبرل اسلام کے باوجود ابھی تک پاکستان لبرل نہیں ہوسکا۔
انسان صرف عقلی نہیں،طبعی،حسی،اخلاقی،روحانی،نفسیاتی،جذباتی وجود بھی ہے
شریعت ،انسان کے تمام خواص کا خیال رکھتی ہے
(۷)مشال پر تین ہزار طلباء نے ایک ساتھ حملہ کیا دنیا کی تمام یونیورسٹیوں کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یونیورسٹی میں طلباء کی اتنی بڑی تعداد صرف ایک ہی طالب علم کو قتل کرنے مارنے کے لیے اس طرح دوڑی ہو ___ مشال کی ایک تاریخ تھی تناظر تھا رویہ تھا سیکولر،لبرل یعنی مذہب دشمن عقیدہ تھا جو طلباء کو طویل عرصے سے مشتعل کررہا تھا ۱۳؍اپریل کو مشال کی گفتگو نے طلباء کے پیمانۂ صبر کو چھلکا کر رکھ دیا اونٹ کی کمر پر یہ آخری تنکا تھا جس کے بعد طلباء نے عشق رسالت کا اظہار کرتے ہوئے حساب کتاب برابر کردیا___مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا ژی ژیک کے فلسفے کے مطابق ہمیشہ دوسرے سوال کا جواب دیتا ہے۔ کیا مشال کو اس طرح قتل کرنا درست ہے؟ وہ کبھی پہلے سوال کو پیش نہیں کرتا نہ اس کا جواب مانگتا ہے کہ کیا مشال کا ایک مذہبی معاشرے میں تین سال تک آزادی اظہار کے فلسفے کے تحت اسلام کو اسلامی علمیت تاریخ شخصیات کو اور ذات رسالت مآب کو برا بھلا کہنا،گالیاں دینا ،مذاق اڑانا (استغفراللہ) درست تھا؟___رواداری مشال کو اختیار کرنا چاہیے تھی یا مسلما ن طلباء کی اکثریت کو؟___ ایک آدمی اپنی زبان بند کرلے یہ آسان ہے یا نہیں ___تین ہزار طلباء اپنے جذبات ، احساسات کو کیسے قابو میں رکھ سکتے ہیں؟___ میڈیا یہی بتارہا ہے کہ ایک شخص کو توہین کی بکواس کرنے کی، شر انگیزی پھیلانے کی،مشتعل کرنے کی آزادی ہے مگر___تین ہزار طلباء کو مشتعل ہونے کی ، مارنے کی، غصہ میں آنے کی آزادی نہیں ہے وہ اسے برداشت کریں ___ظاہر ہے ایک مذہبی معاشرے میں ایسا ممکن نہیں ہے انسان عقلی وجود نہیں ہے وہ ایک حسی، طبعی، جذباتی، روحانی رجود بھی ہے وہ صرف عقلیت پسند نہیں ہے اس کے نفیس احساسات اور جذبات بھی ہیں___ جدید قانون میں انسانی جذبات کا کوئی لحاظ نہیں کیوں کہ ماڈرن لاء، جدیدیت ، ماڈرن ازم کی تقلید میں انسان کو صرف عقلی وجود[Rational Being]تسلیم کرتا ہے۔
اسلامی شریعت میں فرد صرف عقلی نہیں حسی، طبعی، جذباتی، ا خلاقی ،روحانی، انسانی وجود ہے لہٰذا شریعت کے ا حکام فرد کے جذبات کا بھی پورا خیال رکھتے ہیں اسی لیے___ توہین رسالت کے مجرم کو کوئی شخص غصے میں قتل کردے تو شریعت ایسے عاشق رسول کے جذبات کی تعظیم تکریم کرتی ہے اس کی قدر کرتی ہے اور اسے غازی سمجھ کر اسے مقتول کے قصاص میں قتل نہیں کرتی___محبت رسول کے صدقے میں اسے معاف کردیتی ہے___ اتنا سا مسئلہ کسی لبرل سیکولر کی سمجھ میں نہیں آرہا___ بہت سے متجددین بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن جاوید غامدی جیسے متجدد نے بھی تسلیم کیا ہے کہ توہین رسالت پر لوگوں کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں لہٰذا اگر کوئی شخص توہین کا ارتکاب کرے تو اسے اس جرم میں انتہائی سزا کے طور پر قتل کیا جاسکتا ہے [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء ص ۲۸۲]
جب غامدی صاحب جیسے متجدد بھی انسانی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے توہین رسالت کے جرم کو محاربہ اور فساد فی الارض کے تحت لا رہے ہیں کیوں کہ امت کے لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرنا بھی فساد فی الارض ہی ہے___تو لبرل سیکولر عشق رسالت کے اس جذباتی مسئلے کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں؟
(۸)صوبہ پختونخواہ کے تمام علماء نے مشال کے حوالے سے جو تحقیقات کیں ان میں اسے عادی شاتم رسول بتایا گیا۔اس کے تمام ثبوت مہیا کئے گئے
(۹)مولانا گوہر رحمان کے بیٹے ڈاکٹرعطاء الرحمان نے ایک آزادانہ کمیشن بنا کر طلباء، اساتذہ، عملے، والدین سے انٹر ویو کیے جس سے ثابت ہوا کہ مشال کئی سال سے توہین رسالت کررہا تھا___
( ۰۱)والدین نے شہادت دی کہ وہ کئی مرتبہ یونیورسٹی انتظامیہ کو مطلع کرنے گئے مگر شنوائی نہیں ہوئی ۔
(۱۱)مشال کو گولی سے قتل کرنے والے طالب علم نے اعتراف جرم میں کہا کہ یہ کئی سال سے گستاخی کررہا تھا،میرا دوست تھا لیکن میں نے تعلقات منقطع کرلیے تھے اس دن موقع ملا تومیں نے اسے قتل کردیا اگر میرا باپ بھی رسول کی توہین کرتا تو میں اسے بھی قتل کردیتا مجھے قتل کرنے پر کوئی افسوس ،دکھ نہیں ہے۔
(۱۲)PTI کا طالب علم جو کو نسلر بھی جو ہجوم کے حملے کی قیادت کررہے تھے ان کی اور انکے حملے کے بعد ان کی جو تصویریں ،خبریں شائع ہوئی ہیں جس میں وہ خطاب کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشال توہین کا مجرم تھا اسے مارنے کے بعد وہ سب بہت مطمئین تھے ___یہ اطمینان عشق رسالت کا صلہ اور ثمر ہے___انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا کہ شرمندہ ہوں ___مشال کے مذہب دشمن ہونے کی خبر اس کے گاؤ ں و الو ں کو بھی تھی مسجد سے اعلان کیا گیا کہ اس کے جنازے میں کوئی شریک نہ ہو___ مسجد کے مولوی کو کیسے پتہ چل گیا؟___علاقے کے لوگ جنازے میں شریک نہیں ہوئے صرف سو لوگ جنازہ میں آئے نماز جناز ہ پڑھانے کے لیے کوئی مولوی نہیں ملا ایک ٹیکنیشن نے جنازہ پڑھایا(امت ؍جنگ؍ایکسپریں ٹریبون ، ۱۴؍اپریل ۲۰۱۷ء)
مشال کی اور اس کے باپ کی شاعری پڑھ لیں اس کے باپ کے اشعار میں بھی آزاد خیالی جھلکتی ہے مشال روس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آیا تھا روس میں اسکالر شپ نظریاتی لوگوں کو دیا جاتا ہے مذہبی آدمی کو اسکالر شپ نہیں ملتا۔
ٍ (۱۳)صوبہ خیبر پختونخواہ کے آئی جی نے ۱۸ اپریل کو سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں کو کہا مشال کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے ،یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈی ایس پی کو واقعے کا نہیں بتایا۔(جنگ کراچی ۱۹ اپریل۲۰۱۷)
آئی جی کا بیان بھی مشکوک ہے ۔ایک جانب وہ کہہ رہے ہیں کہ ڈی ایس پی کو انتظامیہ نے نہیں بتایا دوسری جانب ایکسپریس ٹریبیون کی خبر ہے کہ ڈی ایس پی اور پولیس کیمپس میں موجود تھی ،اسکی ویڈیو فلم بھی موجود ہے جس میں طلباء پولیس پر حملہ کر ہے ہیں۔
Video film also shows student attacking the policemen who tried to intervene (Express Tribune 15-4-2017)
۱۳ اپریل کوکیمپس میں پولیس کی موجودگی کا مطلب یہی ہے کہ مشال کے حوالے سے طلباء میں اشتعال موجود تھا۔مسئلہ صرف کرپشن نہیں تھا بلکہ توہین رسالت کا مسئلہ تھا اسی لئے تو پولیس کو انتظامیہ نے بلایا تھا ۔سوال یہ ہے کہ پولیس جب موجود تھی ،مشال کے کیمپس میں داخلے پر پابندی تھی تو پولیس نے مشال کو کیمپس میں کیسے داخل ہونے دیا۔اگر معاملہ صرف کرپشن کا ہوتا تو طلباء مشال پر اتنے غصہ کا اظہار نہ کرتے ،انکے غصے کی عکاسی ایکسپریس ٹریبیون نے کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کا تھا ورنہ طلباء اتنے مشتعل نہ ہوسکتے۔
The video of the gruesome violence shot by mobile phone cameras shows Mashal's disrobed body-covered inblood-being dragged, first in a hallway and then on a road of the campus. It also shows students attacking the policemen who tried to intervene.(Express Tribune 14-4-2017)
(۱۴) ۱۳ اپریل کو یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال کی معطلی کا حکم نامہ جاری کیا اور کیمپس میں اسکے داخلے پر پابندی عائد کی ،اسکی معطلی توہین رسالت کی شکایات پر ہوئی اگر یہ شکایات غلط تھیں تو معطلی کا حکم نامہ کیوں جاری ہوا۔اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جب اس نازک مسئلے کی تحقیقات ہو رہی تھیں تو اسے کیمپس میں کیوں آنے دیا گیا؟ انتظامیہ نے اس کو داخل ہونے کی اجازت کیوں دی؟توہین رسالت کا معاملہ ہو اور ایک شخص آزادانہ گھوم رہا ہو اور پابندی کا حکم عملاً معطل ہو تو یہ صورت حال طلباء کو مزید مشتعل کرنے کے لئے کافی تھی۔
(۱۵)ایکسپریس ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق مشال کے قتل کے بعد اگلے دن جمعہ کو یونیورسٹی کی ویب سائیٹ پر مشال کی معطلی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔اسکی کیا وجہ تھی؟
However, the AWKU administration on Friday took a bizarre step by posting a notification on its website rusticating the deceased student along with his two feiends and banning their entry into the campus for alleged blasphemy.
The university provost, Fayaz Ali Shah, however, told The Express Tribune that the students were rusticated to intiate an inquiry on some verbal complaints received by the university against the three "We dont's have any written or documented proof of their involvement in any blasphemous activities" Shan said. To a question regarding the use of a judgemental tone in the notificaion, he said; "It must be a clerical mistake and I will check it with the officials concerned."(Express Tribune 15-4-2017)
یونیورسٹی کا ریکارڈ بتا رہا ہے کہ مشال پر توہین رسالت کا الزام تھا ،اسکے اساتذہ نے ٹی وی پر انٹرویو میں بتایا کہ وہ بیباک تھا،بہت سی عجیب سی باتیں کرتا تھا ،اسکے ہاسٹل وارڈن نے بی بی سی کو انٹرویو دیا کہ وہ مذہب کے خلاف گفتگو کرتا تھا۔
سوال: یہ تمام دلائل درست ہیں بہت اچھے ہیں لیکن کسی کو قتل کرنے کے لئے ثبوت تو ضروری ہے ثبوت کے بغیر تو دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا؟
جواب: آپ کا استدلال درست نہیں ہے اور سوال بھی غلط ہے ۔جب قرآن ،سنت،اجماع سے ثابت ہے کہ فساد فی الارض ،محاربہ اور توہین رسالت کے مجرم کو اگر کوئی قتل کر دے تو وہ جائز عمل ہے تو ان نقلی دلائل کے بعد کسی عقلی ،منطقی دلیل کی ضرورت نہیں ۔جاوید غامدی صاحب نے مقامات میں توہین رسالت کو محاربہ،فساد فی الارض قرار دیا ہے اور اسکی سزا قتل تسلیم کی ہے (غامدی ،مقامات ۲۰۱۴ ص ۲۸۲)غامدی صاحب نے میزان میں لکھا ہے کہ محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرم کو فرد یا حکومت یا ریاست___قتل کر سکتی ہے (غامدی،میزا ن۲۰۱۵ ص ۶۰۸) جب غامدی صاحب جیسے متجدد نے فرد کو قتل کرنے کی اجازت دے دی تو آپ اس پر کیوں اعتراض کر رہے ہیں۔آپ منہج اہل سنت اور اجماع امت کو مانتے ہیں،غامدی صاحب تو اجماع کا انکار کرتے ہیں۔ اجماع کا انکار کرنے والا فرد کو قتل کی اجازت دے رہا ہے۔آپ اجماع کو مانتے ہیں اور اجماع سے ثابت اصول پر اتنے سوالات کر رہے ہیں۔
سوال: لیکن غامدی صاحب نے تو میزا ن میں واضح طورپر لکھا ہے کہ حدود و تعزیرات کا نفاذ صرف حکومت کر سکتی ہے۔اپنی تقریروں میں تو بار بار وہ کہتے ہیں کہ فرد کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے ،فرد کسی کو نہ سزا دے سکتا ہے نہ اس پر حد جاری سکتا ہے۔
جواب: لیکن میزان میں انہوں نے قرآن سے ثابت کیا ہے کہ حدود کا نفاذ فرد کر سکتا ہے ،حکومت نہ ہو تو ولی قاتل سے ،حکومت کے بغیر قصاص لے سکتا ہے۔اسلام نے حکومت کی عدم موجودگی میں انتقام لینے کی اجازت دی ہے ۔ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا [17:33] (غامدی میزان ۲۰۱۵ ص ۶۰۹)حکومت موجود ہو تب بھی غامدی صاحب فرد کو قتل اور محاربہ کے جرم میں قتل کی اجازت دیتے ہیں (غامدی میزان ۲۰۱۵ ص ۶۰۸)اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے تمام اصول ہی متناقض(Oxymoron)ہیں۔
اسلامی علمیت میں شہرت کی اصل اہمیت ہے
ثبوت اہم نہیں ،اصل چیز شہرت ہے
آپ کا سوال ثبوت سے متعلق تھا کہ ثبوت کے بغیر تو قتل نہیں کیا جا سکتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسئلہ صرف ثبوت سے حل نہیں ہوگا اسکے لئے عدالت بھی ضروری ہوگی کیونکہ ثبوت کی جانچ ،پڑتال اگر فریق خود ہی کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں____لہذا عدالت اگر ہوگی تو اس کے لئے ریاست بھی ضروری ہوگی___اور اگر ریاست موجود نہیں ہے تو عدالت بھی موجودنہیں ہے اور اگر عدالت موجود نہیں ہے تو ثبوت اگر موجود بھی ہیں تو اس ثبوت کی تصدیق ،تائید،توثیق کا کوئی آزادانہ ذریعہ یعنی عدالت تو موجود ہی نہیں ہے اسکے باوجود قرآن نے سورۃ بنی اسرائیل میں ____ثبوت کے بغیر،عدالت کے بغیر،ریاست کے بغیر،حکومت کے بغیر مقتول کے ولی کو قاتل سے قصاص لینے ،اسے قتل کرنے کا اختیار دیا ہے۔جب ایک عام انسان کی زندگی اتنی اہم ہے کہ اس کا انتقام ریاست،عدالت کے بغیر لیا جاسکتا ہے اور غامدی صاحب جیسے متجدد بھی اسکی اجازت دے رہا ہے تو رسول ﷺ کی توہین___اس ایک انسانی جان سے بھی زیادہ اہم تر ہے اسکا بدلہ لینے ____پر کیسے پابندی لگائی جا سکتی ہے اور اسکو ثبوت سے ،عدالت سے،ریاست سے کیسے مشروط کیا جا سکتا ہے۔عہد رسالت مآب ﷺ ،دور صحابہ میں عدالت بھی تھی،ریاست بھی تھی لیکن کبھی رسول اللہﷺ نے،خلفائے راشدین نے توہین رسالت کے الزام میں قتل کرنے والے کسی صحابی سے نہیں پوچھا کہ ثبوت کیا ہے___تم عدالت میں کیوں نہیں آئے___تم نے انارکی پھیلائی ہے۔سورۃ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے یہی تو فرمایا ہے کہ تم یہ خبر سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ الزام ،تہمت ہی غلط ہے ہم نے نیک گمان کیوں نہیں کیا ،کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے ۔اِِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْا بِالْاِِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ، لَوْلاآ اِِذْ سَمِعْتُمُوْھُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنفُسِہِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ہٰذَا اِِفْکٌ مُّبِیْنٌ [النور: ۱۱،۱۲]یہاں بھی حکم شہرت کی بنیاد پر دیا گیا ہے ۔یہ قرآن کی نص صریح ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ثبوت کے بغیر دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا نہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ استدلال بھی بالکل غلط ہے ،درست نہیں ۔اسکی مثال شادی بیاہ کا معاملہ ہے ،سات ہزار سال سے معلومہ تاریخ کے زمانے سے آج تک___اکیسویں صدی میں بھی شادی بیاہ کے تمام معاملات صرف اور صرف شہرت پر ہوتے ہیں۔جب ہم اپنی بیٹی کے لئے لڑکے کا رشتہ قبول کر لیتے ہیں تو کیا کبھی اس سے اس کی قوت رحولیت،مردانگی کا کوئی ثبوت طلب کرتے ہیں۔ثبوت دو کہ تم مرد ہو ،نامرد نہیں ہو اور یہ بھی ثبوت دو کہ تم بانجھ نہیں ہو،بچے پیدا کر سکتے ہو لہذا تم شادی سے پہلے اس کا ثبوت دو ۔کیا کوئی کنوارا مرد شادی سے پہلے ہمارے ان مطالبات کا ثبوت دے سکتا ہے؟کیا دنیا کی تاریخ میں آج تک شادی جیسے نازک معاملے میں ثبوت طلب کیا گیا؟ کیاثبوت کے انتظار میں نکاح ملتوی کر دیا جائے___رشتہ دیتے ہوئے صرف شہرت دیکھتے ہیں ،لڑکا دیکھنے میں مرد ہے ،خاندان میں لوگ بانجھ نہیں،اچھے لوگ ہیں___بس شہرت کی بنیاد پر رشتہ طے ہوتا ہے۔
جب کسی سے بیٹی لی جاتی ہے___تو لڑکی کی عصمت،آبرو،عفت،پاک دامنی___باکرہ ہونے کا ثبوت طلب کیا جاتا ہے؟ نہیں بس شہرت ہوتی ہے ۔کبھی اگر لڑکے والے تجربہ گاہ کی رپورٹ کا ثبوت مانگ لیں تو رشتہ ہی نہیں ہوگا___بس شہرت ،اعتبار،اعتماد___جب بیٹی اور بیٹے کے رشتے کے لئے شہرت ہی اصل الاصول ہے تو صرف توہین رسالت کے مسئلے میں ثبوت کا مطالبہ منطقی طور پر غلط ہے۔
سوال: لیکن ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ لڑکا نامرد ہے ،بانجھ ہے،لڑکی باکرہ نہیں نکلتی تو پھر طلاق ،خلع کے قوانین اسی لئے تو ہیں؟
جواب: جی ہاں آپ نے بالکل درست فرمایا لیکن اس امکان،خطرے،شبہ کی وجہ سے اربوں شادیاں ملتوی نہیں کی جا سکتیں۔شادیاں ہوتی ہیں کبھی کبھار نامرد لڑکا،نامراد لڑکی نکل آئی ہے تو طلاق ،خلع ہو جاتی ہے مگر یہ قبل تجربی نہیں بعد تجربی عمل ہے____یعنی پہلے شادی تو ہوگی اس کے بعد طلاق ،خلع ہوگا۔ثبوت کی بنیاد پر شادی ملتوی نہیں ہو سکتی اسی اصول کی بنیاد پر اگر شاتم کو کسی نے قتل کر دیا تو وہ قتل ٹھیک ہے اگر غلط کیا تو قاضی اس کا فیصلہ کر دے گا اور قصاص میں اسے قتل کر دیا جائے گا لیکن اس خطرے ،شبہے کی بنیاد پر اسلامی تاریخ نے شتم رسول کے مجرم کو قتل کرنے کی کامل ممانعت کبھی نہیں کی بالکل اسی طرح قرآن نے عصمت فروشی کا اڈہ چلانے والی عورتوں کے لئے ثبوت نہیں مانگا ،ان کی شہرت ہی انکا ثبوت ہے کہ صرف چار لوگ گواہی دے دیں تو انہیں سنگسارکیا جاسکتا ہے یہاں ثبوت نہیں شہرت اصل ہے ۔مشال واقعے میں تو تین ہزار طلباء شامل تھے اسکی شہرت کیا تھی کیا اب بھی شبہ ہے۔
شہرت کا معاملہ بہت اہم ہے پاکستان میں چار گورنر تھے چاروں سیکولر،لبرل تھے مگر ہر سیکولر ،لبرل مذہب دشمن کے طور پر مشہور نہیں تھا___شہرت صرف سلمان تاثیر کی تھی____کیونکہ دوسرے گورنر،مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہے تھے نہ وہ مذہب کے بارے میں بے باکانہ اظہار رائے کر رہے تھے۔یہ شرف صرف سلمان تاثیر کو حاصل تھا____وہ جیل میں جا کر توہین رسالت کی مجرمہ کو ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کر رہے تھے یہ رویہ درست نہیں تھا بحثیت گورنر ،سیکولر ڈھانچے میں وہ تمام ریاستی قوانین کو تسلیم کرنے کے پابند تھے ۔اسکا انہوں نے حلف اٹھایا تھا وہ سیکولر حلف کی بھی پاسداری نہیں کر رہے تھے ۔یہ بات نہایت خطرناک تھی وہ گورنر تھے وہ قومی اسمبلی کے رکن نہیں تھے۔رکن اسمبلی ،قانون کے بارے میں جو چاہے کہہ دے___کیونکہ بل ،صدر،گورنر کے دستخط کے بعد قانون،ایکٹ بنتا ہے لہذا گورنر کو کسی قانون پر اعتراض ہو تو وہ تحریری طور پر صدر،وزیراعظم،وزارت قانون کو خط لکھ کر اپنے مشورے،تجاویز،تحفظات پیش کر سکتا ہے لیکن گورنر ایک رکن اسمبلی کے طور پر کردار ادا کر رہے تھے ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر اس لئے درج نہیں ہو رہی تھی کہ وہ گورنر تھے ،اگر درج ہوتی تو اشتعال کم ہو جاتا____اصل مسئلہ شہرت کا تھا ،چار گورنروں میں سے صرف ایک گورنر کی شہرت مذہب کے حوالے سے بہت خراب تھی۔
سوال: سلمان تاثیر اور مشال ایک جیسے مقدمات ہیں ان دونوں میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں کیا مشال کا مسئلہ سلمان تاثیر سے زیادہ نازک نہیں ہے؟
جواب: سلمان تاثیر اور مشال کے قتل میں ایک بہت بنیادی فرق ہے جس سے پاکستانی معاشرے کی مذہب کا زبردست طریقے سے اندازہ ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ہماری معاشرت معاشرہ رواج سماج سب ابھی تک اپنی گہرائیوں تک مذہب کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے حضرت ممتاز قادریؓ شہید ایک مذہبی آدمی تھے وہ پانچوں وقت کے نمازی تھے ،وہ مولانا الیاس قادری کے مرید تھے،انہوں نے سلمان تاثیر کے خلاف مولانا حنیف قریشی کی تقریر سن کر اشتعال میں آکر سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا_____دوسرے معنوں میں سلمان تاثیر کے قتل کرنے والے شہید قادری صاحب کا ایک بھرپور مذہبی پس منظر تھا ____وہ عاشق رسول تھے،نعت رسول ﷺ سنتے تھے لیکن مردان میں مشال کو قتل کرنے والے طلباء کوئی گہرا مذہبی پس منظر نہیں رکھتے تھے وہ عام مسلمان تھے ۔آپ انہیں لبرل،سیکولر مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں مگر وہ عشق رسول کی مٹی سے خلق ہوئے تھے ان کا ایمان ہمارے ایمان سے بہتر تھا۔
(۱)۔ مشال کو مارنے والے طلباء میںPTIکے کونسلر اور عمران خان کی پارٹی کے کئی طلباء شامل تھے۔PTI ایک خالص لبرل سیکولر پارٹی ہے لیکن اس کے باوجود سیکولر طلباء میں بھی عشق رسالت ﷺ اس حد تک اثر کر چکا ہے
(۲)۔مشال کو مارنے والوں میں پی پی پی کے حامی طلباء بھی شامل تھے
(۳)۔مشال کو مارنے والوں میں اے این پی کے حامی طلباء بھی شامل تھے___مشال کے خلاف ویڈیو جاری ہونے کے بعد جو جلوس نکلے ان کی ویڈیو فلم میڈیا نے نہیں دکھائی۔
(۴)۔مشال کو مارنے والوں میں مذہبی جماعتوں،اسلامی تنظیموں،تحریکوں کے نمایاں لوگ نظر نہیں آتے لیکن تمام مذہبی جماعتوں ،تحریکوں کے کارکن بھی اس حملے میں شریک تھے ۔دوسرے معنوں میں مشال کا قتل سلمان تاثیر کے قتل سے زیادہ اہم ہے ۔اس قتل میں پاکستانی معاشرے کا ہر طبقہ،ہر گروہ،ہر حلقہ،ہر سیاسی جماعت،لبرل،سیکولر جماعتوں کے لوگ بھی پیش پیش تھے____اس طرح مشال کا قتل پاکستانی معاشرے کی اجتماعیت،وحدت کا اعلامیہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر،لبرل طلباء بھی اصلاً مسلمان ہیں ،عشق رسولﷺ میں گرفتار ہیں اور ذات رسالت مآب ﷺ کے خلاف کسی قسم کی توہین پرداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں____مشال کا قتل صرف حادثہ،سانحہ ___نہیں____توہین رسالت کے مسئلے پر پہلی عوامی بغاوت ہے ۔اس عوامی بغاوت نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یہ بغاوت اصلاً آزادی کے جدید مغربی عقیدے کے خلاف ہے۔کوئی پاکستانی مسلمان آزادی کے عقیدے کو تسلیم نہیں کر سکتا ،وہ آزادی اظہار رائے کے نام پر کسی کو توہین رسالت کی آزادی نہیں دے سکتا،وہ کسی توہین کے مجرم کو برداشت نہیں کر سکتا۔
سوال: یہ سب باتیں درست مگر ہمیں اس واقعے میں علماء کا، مذہبی جماعتوں کا بہت زیادہ موثر کردار نظر نہیں آتا۔اکثر خاموش ہیں جبکہ سلمان تاثیر کے قتل کے وقت تو علماء آگے آگے تھے اور سینکڑوں وکیل ممتاز قادری کی طرف سے مقدمے میں وکیل بننے کے لئے عدالت آگئے تھے؟
جواب: اس کی وجہ ویڈیو فلم ہے ،ویڈیو فلم کا اثر نہایت مہلک تھا اس نے علماء کو متوحش اور محتاط کر دیا ۔اسی لئے اسلام نے تصویر کو حرام قرار دیا ہے ،اس موضوع پر ہم تفصیل سے اپنے مضمون "مشال کا قتل ،ایک عالم دین سے مکالمہ "میں تصویر کی حرمت پر اسلام کا موقف تفصیل سے پیش کر دیا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔ویڈیو فلم کی وجہ سے علماء فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس موقع پر کیا موقف اختیار کیا جائے۔پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف تک خاموش تھے انہوں نے تین دن کے بعد اخباری بیان جاری کیا ۔ویڈیو کا یہ اثر ہوتا ہے۔مشال کے حق میں سب سے پہلا بیان صرف عمران خان کا تھا جو واحد پکے سیکولر ،لبرل سیاستدان ہیں ۔انکی پارٹی پی ٹی آئی پاکستان کی پہلی لبرل پارٹی ہے جو کھلم کھلا لبرل اقدارکو فروغ دے رہی ہے ۔عمران کے بیان کی وجہ سے ہی مجبوراً نواز شریف کو بیان دینا پڑا۔جب حکومت کوا تنا سوچنا پڑا تو علماء کا سوچنا،خاموش رہنا ظاہر ہے بہت غیر معمولی واقعہ نہیں۔ویڈیو فلم نے اس مسئلے کو بہت نازک بنا دیا تھا۔
ویڈیو فلم کا جو اثر سب پر ہوا وہ علماء پر بھی ہوا ____لیکن بہت سے علماء مشال کے واقعے پر عاشقان رسول کے ساتھ کھڑے ہیں یہ وہ علماء ہیں جو ٹی وی وغیرہ پر نہیں آتے
(۱)۔آپ لوگ سابق ایم این اے مولانا شجاع الملک کو کیسے بھول گئے ،جمیعت العلما ئے اسلام کے مولانا شجاع الملک نے مولانا فضل الرحمان سے اختلاف کرتے ہوئے مشال کے مسئلے میں بالکل واضح موقف اختیار کیا ۔واقعے کے دس دن بعد انہوں نے مردان میں "حب رسول ریلی "کا انعقاد کیا ۔اس میں زبردست تقریر کی ،مشال خان کی زندگی کے بارے میں بتایا کہ یہ شاتم رسول تھا اور واضح طور پر اعلان کیا کہ مردان یونیورسٹی کو اگر مشال خان کے نام سے معنون کیا گیا تو ہم مزاحمت کریں گے اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ مشال کو قتل کرنے والے عاشقان رسول کے نام سے اس یونیورسٹی کو منسوب کیا جائے____انہوں نے میڈیا سے مطالبہ کیا کہ مشال خان کو کوریج دینا بند کی جائے ،وہ شاتم رسول ہے اسے ہیرو کے طور پر پیش نہ کیا جائے۔ظاہر ہے اس جراء ت کا اظہار علماء کے حلقے سے ہی ہوا اور یہ قابل تحسین معاملہ ہے۔میڈیا نے اس ریلی،اس موقف کو پیش نہیں کیا کیونکہ یہ آزادی کے عقیدے کا مخالف بیان تھا اس لئے اس کا بائیکاٹ کیا گیا اسے کہتے ہیں آزادی سب کی آزادی۔یہ لبرل رویہ ہے جو مذہب دشمن ہے ۔احمد جاوید صاحب دیکھ لیں۔
(۲)۔پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما اکرام اللہ شاہد حب رسول ریلی میں سب سے آگے تھے ار عاشقان رسول کی رہائی کے نعرے لگا رہے تھے ان کو پیپلز پارٹی نے اظہار وجوہ کا خط جاری کیا اور ان کی سخت سرزنش کی ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پی پی پی جیسی سیکولر جماعت کے لوگ بھی توہین رسالت کے مسئلے پر کیسے جذبات رکھتے ہیں۔یہ بات تو سب کو یاد ہوگی کہ امریکہ میں توہین رسالت کے مجرم ایک پادری کو قتل کرنے کے لئے اے این پی کے غلام احمد بلور نے ایک کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔یہ پاکستانی معاشرے کی اسلامیت،مذہبیت اور عشق رسول ہے ۔حیرت ہے کہ ہماری مذہبی جماعتیں اتنے زبردست مذہبی معاشرے میں اسلام کو لوگوں کیFirst order desireبناکر ابھی تک انقلاب برپا کرنے میں ناکام رہیں۔
(۳)۔مولانا گوہر رحمان کے بیٹے ڈاکٹر عطا الرحمان صاحب نے علماء اور دیگر آزاد شہریوں کا کمیشن بنا کر اس واقعے کی تحقیقات کیں اور ثبوت و دلائل سے ثابت کیا کہ مشال مذہب دشمن اور عادی شاتم رسول تھا ان کی رپورٹ میڈیا نے نشر نہیں کی کیوں کہ میڈیا صرف آزادی کے عقیدے کا دفاع کرتا ہے۔وہ آزادی کے خلاف نقطہ نظر قبول نہیں کرتا تو میڈیا میں اور مولوی میں کیا فرق ہے۔میڈیا بھی تو پکا مولوی ہے جو اپنے عقیدے کے خلاف کسی الحق کو برداشت نہیں کرتا پھر گالی صرف مولوی کو کیوں دیتے ہیں ۔دنیا میں کوئی تہذیب الحق کے بغیر قائم ہی نہیں ہو سکتی اگر سب تصورات خیر صحیح ہیں جیسے کہ لبرل ازم کا دعویٰ ہے تو پھر مغربی ممالک میں عدالت کیسے قائم ہے۔خیر و شر کے تصور کے بغیر نظام عدالت نہیں چل سکتا۔لبرل ازم کا یہ دعویٰ ہی جھوٹا ہے کہ خیر اسکا مسئلہ نہیں فرد کا معاملہ ہے ۔پبلک آرڈر میں وہ صرف آزادی(Freedom) کو خیر مانتا ہے اسکے مقابلے میں ہر خیر کو کچل دیتا ہے ۔احمد جاوید صاحب اس مسئلے سے واقف ہی نہیں اور لبرل ازم کو غٰیر جانبدارDeontologicalثابت کر رہے ہیں۔یہ توRawlsکی دلیل تھی جو مغرب کے بہت سے فلسفی رد کر چکے ہیں وہ رالس کی دلیل اپنے نام سے پیش کر رہے ہیں یہ تو علمی رویہ نہیں۔
(۴)۔تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کے علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے اس واقعے کی جو تحقیقات کیں ان سے بھی یہی ثابت ہوا کہ مشال توہین رسالت کا مجرم تھا اور مردان یونیورسٹی کے طلباء طویل عرصے سے اس کی مذہب دشمن سرگرمیوں سے واقف تھے اور اسکے رویے کے شاکی تھے۔انہیں موقع ملا تو اسکا کام تمام کر دیا گیا۔تحریک معصوم گرفتار طلباء سے رابطے میں ہے اور ان کے اعزا و اقارب کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کر رہی ہے۔مختلف علماء اس مسئلے کی تحقیق کرنے کے لئے مردان پہنچے،میڈیا نے ان کا ذکر نہیں کیا ۔اس واقعے پر خادم حسین رضوی صاحب کے بیانات بھی نشر نہیں کئے گئے۔فضل چشتی صاحب نے پریس کانفرنس کی اس کا میڈیا نے ذکر تک نہیں کیا کیونکہ لبرل عقیدے کے خلاف تھی۔
(۵)۔صوبہ پختون خواہ کی تمام مذہبی جماعتوں کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ مشال خان شاتم رسول تھا ،اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے اور عاشقان رسول کی حمایت کا اعلان بھی کیا گیا ہے
(۶)۔صدر العلماء جناب حضرت مفتی منیب الرحمان نے مشال کے واقعے کے ۲۵ دن بعد روزنامہ دنیا میں اپنے کالم میں نہایت جرات مندی کے ساتھ اپنی تمام تحقیقات کے بعد ثابت کرتے ہوئے لکھا کہ مشال نے توہین رسالت کی اور آج تک حکومت نے توہین رسالت کے کسی معاملے میں اس وقت تک ایف آئی آر نہیں کاٹی جب تک عوام نے تھانے پر چڑھائی نہیں کی لہذا اس لاقانونیت کی صورت حال میں اس طرح کے واقعات کا ہونا ناممکن نہیں ___مفتی منیب الرحمان صاحب تمام دینی مکاتب فکر کی مشترکہ،متفقہ نمائندگی کرتے ہیں ،وہ تمام دینی مکاتب فکر کے وفاق کے اتحاد کے صدر ہیں ان کو تمام مکاتب فکر کا اعتماد حاصل ہے ۔مفتی صاحب ۲۵ دن تک خاموش رہے یہ ان کے احساس ذمہ داری کا نتیجہ تھا ۔انہوں نے ۲۵ دن تک کھوجنے ،کریدنے،تحقیق،تجسس کرنے کے بعد نہایت نپے تلے انداز میں مشال کو شاتم قرار دیا ۔JIT نے پاکستان کے تمام علماء ،تمام مکاتب فکر کی متفقہ رائے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اسکا مطلب یہ ہے کہJIT یک طرفہ رپورٹ ہے یہ لبرل ایجنڈہ ہے ،لبرل میڈیا کی خواہشات کے مطابق لکھی گئی ہے۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ علماء نے عموماً اس انتہائی حساس ،نازک معاملے پر اس جرائت ،قوت،بے باکی،شرح صدر کے ساتھ___اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا جس طرح شہید ممتاز قادری کے مسئلے پر ان کا موقف تھا___علماء،صوفیاء ویڈیو فلم کے اثرات سے سات گروہوں میں تقسیم ہو گئے:
(۱)۔پہلا مختصر گروہ ان کا جنہوں نے اس مسئلے میں پہلے ہی دن گرفتار طلباء کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا اور شاتم رسول کی کھلی مذمت کی۔
(۲)۔دوسرا گروہ یہ کہتا رہا کہ عاشقان رسول کا جذبہ عشق تو قابل تحسین ،تکریم،تعظیم ہے، ان کا عمل بھی صحیح ہے مگر ان کا طریقہ کار غلط ہے ،ان کو قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا ،وہ مجرم کو عدالت کے سپرد کر دیتے۔
(۳)۔تیسرے وہ جو خاموش،مبہوت،مہر بہ لب،حیرت زدہ ہیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کہیں___ان کا موقف یہ ہے کہ تمام باتیں درست مگر ویڈیو کا جواب کیسے دیں؟الحمد اللہ انکا ایمان سلامت ہے مگر ویڈیو نے ان پر منفی اثرات ڈالے____اب وہ اس اثر سے باہر نکل آئے ہیں۔
(۴)۔علما میں پہلی مرتبہ ایک چوتھا گروہ پیدا ہوا جس نے مشال کو شہید قرار دیا اور عاشقان رسول کی مذمت کی۔ایسا گروہ پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا۔یہ بہت افسوسناک اور شرمناک تبدیلی ہے
(۵)۔ایک گروہ ان علماء کا تھا جو مشال کے قتل کو درست سمجھ رہے تھے مگر چپ تھے،وہ اسکی عقلی،منطقی دلیل تلاش کر نے سے قاصر تھے اور مشال کے حق میں کوئی بیان نہیں دینا چاہتے تھے ،وہ کسی دلیل کی جستجو میں تھے ۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو غامدی صاحب کے مرید سلیم صافی نے فون کرکے مشال واقعے پر انکی رائے معلوم کرنا چاہی تو سراج الحق صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا یہ ایمانی رویہ تھا جس سوال کا جواب معلوم نہیں اس کے بارے میں خاموش رہنا یا لاادری کہہ دینا ___یہی صحیح طریقہ کار ہے۔سلیم صافی نے ان کی خاموشی پر جل کر ____ان کو مشتعل کرنے کے لئے لبرل ایجنڈے کے تحت طے شدہ سوال پوچھا کہ چلئے سراج الحق صاحب اگر آپ مشال کے قتل کی مخالفت نہیں کر سکتے تو کم ازکم اس قتل کی اور قاتلوں کی حمایت ہی کر دیں___سراج الحق صاحب نے اس پر بھی خاموشی اختیار کی___لیکن ہر صاحب ایمان سمجھتا ہے کہ اگر کوئی شاتم رسول، غیر ت مند مسلمانوں کے ہجوم کے سامنے توہین کرے گا تو کوئی غیرت مند مسلمان شاتم کو زندہ نہیں چھوڑے گا مگر اس شعور پر ایمان رکھنے کے باوجود اس شعور کو زبان دینا،اس کا بیباکانہ اظہار کرنا____ویڈیو فلم نے محال بنا دیا تھا____لبرل ،سیکولر ،اسلامی جماعتوں کی خامشی پر بھی خوفزہ تھے ۔ان کی خواہش تھی کہ سب مذہبی جماعتیں قتل کی مذمت کردیں لیکن علماء کی اکثریت نے اس معاملے میں خامشی اختیار کی یہ بھی بہت بڑا خیر ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔