Thursday, 11 January 2018

کیا علماء عصری تعلیم کے خلاف ہیں؟

میں پچھلے چار سال سے مدارس کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، وہاں کے لوگوں کے ساتھ روابط بڑھائے، ان سے بات کرنے کا موقع ملا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اس قدر فرق دیکھا۔ بچپن سے اب تک جن تعلیمی اداروں سے نکلا ہوں، وہاں اور دینی مدارس میں یہ فرق دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں ہمیشہ سُنتا آیا تھا کہ علماء دنیاوی تعلیم کے مخالف ہیں، ہمارا میڈیا بھی کچھ ایسی ہی باتیں یاد کروانے کی کوشش میں مگن رہتا تھا۔ ایک دن پلان کیا اور گھر کے پاس مسجد کے مولوی صاحب سے پوچھا تو ان کا جواب تھا ’’ہم تو دنیاوی تعلیم کے ہرگز مخالف نہیں‘‘۔ سوچا یہ نرم دل انسان ہے، کسی اور سے ملتا ہوں، سنا تھا بڑے مدارس کے علماء سخت مخالف ہیں، تو بس جامعہ اشرفیہ جا پہنچا، جواب ملا ’’ہم تو بس کو ایجوکیشن کے خلاف ہیں‘‘۔

سوچا لوگ جماعت اسلامی، جماعت الدعوہ اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کو شدت پسند کہتے ہیں لیکن وہاں سے بھی یہی جواب آیا کچھ اس تبدیلی کے ساتھ ’’بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ نیا علم ہونا ضروری ہے تاکہ باقی دنیا سے پیچھے نہ رہ جائیں‘‘۔

میں تمام مسالک کے علماء اور جماعتوں سے ایک جیسا جواب سن کر بھی مطمئن نہ تھا، اور مختلف علماء سے ملتا رہا اور ان کی رائے جانتا رہا۔ ایک دن ملتان میں ایک ٹریننگ سیشن سے باہر نکل کر ایک بینر پر نظر پڑی، ایک دوست سے اس متعلق پوچھا اور شام کو اس پروگرام میں جا پہنچا۔ سامنے ایک عالم دین بہت جذباتی بیان فرما رہے تھے، وہ مسلمانوں کے زوال اور پستی کے اسباب پر روشنی ڈال رہے تھے، وہاں ساری گفتگو اسلام اور پاکستان کی حفاظت کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کی طرف لوٹ آنے سے متعلق تھی اور کشمیر میں ہونے والا ظلم سُنایا جا رہا تھا۔ سوچا آج مجھے ٹھیک ٹارگٹ ملا ہے، ان سے دنیاوی تعلیم سے متعلق سوال کرتا ہوں، یہ خاصے شدت پسند معلوم ہوتے ہیں۔ بہ مشکل ان تک پیغام پہنچایا اور ان کا وقت لیا۔ ان کا نام مولانا طلحہ السیف تھا جو ایک کشمیری حریت پسند تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔ سوال وہی تھا لیکن جواب حیران کر دینے والا۔ فرمانے لگے:
’’اگر اسلامی نظامِ حکومت ہو تو حکومت پر فرض ہے کہ دنیا میں جو بھی نیا علم یا نیا سبجیکٹ آئے، اپنی عوام میں سے کچھ لوگوں کو خود اپنے فنڈ سے اس کی تعلیم دلوائے، لیکن چونکہ یہاں تو خود حکمران عوام کی کھال اُتار رہے ہیں تو ایسے میں عوام میں سے ایک گروہ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں آنے والا نیا علم ضرور حاصل کرے‘‘۔
میں نے حیران ہوتے ہوئے سوال کیا:
’’کیا آپ دنیاوی تعلیم کے مخالف نہیں؟‘‘
انہوں نے مُسکرا کر جواب دیا:
’’ہم اس نظامِ تعلیم کے مخالف ہیں جہاں لوگوں کی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں، وگرنہ جس طرح امت میں علماء کا ایک گروہ ہونا ضروری ہے، اسی طرح امت مسلمہ میں جدید علم کا حامل ایک گروہ بھی ضروری ہے جو دین کو سچا مانتے ہوئے اسلام کو اور اپنے وطن کو اپنے علم سے فائدہ پہنچائے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔